Chitral Times

پسند کی شادی ۔ تحریر عبد الباقی چترالی

Posted on

ہندوکش کے دامن سے چرواہے کی صدا ۔ پسند کی شادی ۔ تحریر عبد الباقی چترالی

زندگی میں ہر کسی کو کبھی نہ کبھی ایسے صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کچھ عرصے کے لیے اپنے گھر والوں اور پیاروں سے عارضی طور پر جدائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔کبھی یہ جدائی محنت مزدوری اور ملازمت کی خاطر ہوتا ہے۔اور کبھی تعلیم کی خاطر۔یہ عارضی جدائی ہمارے لئے کتنے تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے۔گھر سے رخصت ہوتے وقت ایک ایک قدم بھاری محسوس ہوتے ہیں۔دل پر پتھر رکھ کر منزل کی طرف روانہ ہونا پڑتا ہے۔اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ذرا ان لڑکیوں کے بارے میں سوچئے،جو ایک اجنبی لڑکے کے وعدوں اور دعووں پر اعتماد اور اعتبار کر کے گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کر کے ہمیشہ کے لئے اپنی گھر والوں اور پیاروں سے جدائی اختیار کر رہی ہے۔اپنے والدین اور خاندان والوں کے لئے رسوائی اور شرمندگی کی باعث بن رہی ہے۔معاشرے میں ایسے لڑکیوں پر کون بھروسہ کر سکتا ہے۔جو ایک اجنبی لڑکے کی خاطر والدین اور خاندان والوں کی عزت و آبرو خاک میں ملا رہی ہو۔

گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیاں نہ صرف اپنی خاندان والوں کی نظروں میں گر جاتی ہے بلکہ سسرالیوں میں بھی ان کی کوئی قدر وقیمت اور عزت و اخترام نہیں ہوتے ہیں۔

گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیاں چاہئے کتنے ہی نیک سیرت صاحب کردار کیوں نہ ہو معاشرے میں ان کی کردار کو مشکوک نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیوں کو مستقبل میں مشکلات سے دوچار ہونا پڑتی ہے۔اور زندگیاں ان کے لئے وبال بن جاتی ہیں۔گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیاں معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتی ہیں۔معاشرے میں گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو سخت نا پسند نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں سے بھاگ کر شادی کرنے کی رجحان میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔یہ فتنہ کسی ایک علاقے،قبیلے اور خاندانوں کا نہیں بلکہ یہ فتنہ پورے چترالی معاشرے میں جنگل میں لگی آگ کی طرح تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔کنواری لڑکیوں کی علاؤہ شادی شدہ خواتین بھی شوہر اور بچوں کو روتے پھٹتے چھوڑ کر آشنا کے ساتھ فرار ہو رہی ہیں۔چترال کی مختلف علاقوں میں یہ افسوس ناک شرمناک واقعات کئی بار رونما ہو چکے ہیں۔

اگر اس فتنے کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی،تو چترال کا پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔مستقبل میں کوئی خاندان،قبیلہ اور علاقہ اس فتنے سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔پورے معاشرے کو اس کا سنگین نتائج بھگتنا پڑے گا۔ہمارے معاشرے میں والدیں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،لیکن بچوں کی اخلاقی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں بچے اور بچیاں اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بے راہروی کا شکار ہو کر خود بھی مشکلات سے دوچار ہو رہی ہیں،اور والدین کے لئے بھی پریشانی اور بد نامی کے باعث بن رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے مہنگے فرسودہ رسم و رواج اور ذات پات کا نظام اس فتنے میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس فرسودہ رسم و رواج کی وجہ سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔سوشل میڈیا اور موبائل فون کا بے جا اور غلط استعمال اس فتنے میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔اس فتنے کو روکنے کے لئے والدین،مذہبی راہنما،استاتذہ کرام، معززین علاوہ،سماجی کارکنان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس فتنے کی روک تھام کے لئے مناسب اقدام اٹھانا چاہیے۔و رنہ چترال کا پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے،کوئی خاندان،قبیلہ اور علاقہ اس فتنے سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
76667

ہر خودکشی کرنیوالے کا ایک قاتل ہوتا ہے! – گل عدن

ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی قاتل بھی ہوتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے اور میں نے اپنی محدود سمجھ کے مطابق اس قتل کے ذمہ داروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے ایک فرد واحد کی حثیت سے۔قارئین کا مجھ سے اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ۔


اب ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں ۔اس جرم کے حصہ داروں میں پہلا نام والدین کا آتا ہے ۔میں والدین کو قاتل تو نہیں کہتی مگر جو والدین اپنی اولاد میں تفرقہ کرکے انہیں ذہنی امراض میں دھکیل دیتے ہیں’جو اپنی اولاد کو حلال اور حرام میں ‘سہی اور غلط میں تمیز نہیں سکھا پاتے’ جو اولاد کے معصوم ذہنوں میں رشتے داروں کے خلاف زہر بھرتے ہیں ‘جو اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں’جو اپنے بچوں کی صحبت پر نظر نہیں رکتھے اور اونچ نیچ ہونے کی صورت میں اپنی اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرا کر اپنی اولاد کو ہمیشہ ہر جرم سے بری الزمہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ایسے والدین کو میں خودکشیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یاد رہے اولاد کی حق میں والدین کا بہترین عطیہ انکی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

یہاں آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خودکشی کرنے والے کہ ذہن میں بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد کسی مخصوص فرد یا کچھ مخصوص رشتوں کو دنیا کے سامنے اپنی موت کا ذمہ دار دکھانا ہوتا ہے یا کسی کو اسکے برے سلوک کا احساس دلانا یا اپنی ہر بایعنی ضد کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔اب آپ مجھے بتایئں کیا ایسی سوچ ایکدم سے دماغ میں آتی ہے ؟؟نہیں !!یہ سوچ ہمارے اندر بچپن سے پروان چرھتی آرہی ہے ۔جب گھر میں بیٹے کی سگریٹ پینے کی شکایت موصول ہوتی ہے یا سکول سے بچوں کی نالائقی کی شکایت آتی ہے تو کیسے ہماری مائیں ہر چیز کا ذمہ ہمارے دوستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ہمارے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہم جب جب کچھ غلط کریں گے تو اسکا قصوروار ہم سے زیادہ ہمارے دوست ہونگے۔ ۔

بس ایسا دیکھتے دیکتھے ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کے جاتے جاتے اپنی موت کی ذمہ داری بھی کسی کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اپنا کیا دھرا دوسروں کے سر پر ڈالنے کی ہماری گندی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ 2:خودکشی کرنے والے کا دوسرا قاتل “گھر کا ماحول ” ہے ۔ایک کہاوت ہے کہ ایک گندی مچلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔گھر میں اگر ایک شخص بخیل ہے تو علاقے میں کنجوس گھرانہ آپکا تعارف بن جاتا ہے ۔ گھر میں ایک فرد اگر پیشانی پر بل ڈال کر مہمانوں سے ملتا ہے تو باقی تمام اہل خانہ کی مہمان نوازی خاک میں مل جاتی ہے ۔

گھر کا ماحول بنانے میں تو سبھی گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر بنے بنائے ماحول کو بگاڑنے کے لئے ایک فرد کافی ہوتا ہے ۔اس اک فرد کو جسے آپ کسی بھی طرح خوش یا مطمئن نہیں کر پارہے ہیں ۔ جو آپکی نہ خوشی دیکھتا ہے نا غم۔جو چاہتا ہے کہ پورا گھر بس اسکے مسائل میں الجھا رہے ۔اور جسکی پریشانیاں مسائل بیماریاں کسی صورت ختم نہیں ہورہیں اس شخص کو ذہنی امراض کے ماہرین سے ملوانے کی ضروت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ذہنی مریض کھبی تسلیم نہیں کرتے۔اور کسی صورت اپنی علاج پر راضی نہیں ہوتے۔لیکن ایک ذہنی مریض کو جانتے بوجھتے اسکے حال پر چھوڑ دینا اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔بلکہ ایک فرد کا دماغی علاج نہ کرنا پورے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پاگل خانہ بنا دینے کے مترادف ہے ۔

یاد رہے ذہنی اذیت جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور قابل رحم ہوتے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کے ہر کوئی ماہر نفسیات تک رسائی نہیں رکھتا ہے لیکن اگر آپکے گھر کا کوئی فرد ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھیں۔اپنے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ثبوت دیں اور اسے ” پاگل” کے خطاب سے نہ نوازیں۔ 3خودکشی کرنے والے کا تیسرا اور سب سے بنیادی ذمہ دار (قاتل ) خودکشی کرنے والا خود ہوتا ہے۔ ۔باوجود اسکے کہ ہمیں اچھے والدین نہیں ملے۔ ۔باوجود اسکے کے ہمیں بدترین خاندان ملا ۔بہت برے رشتہ دار ملے۔باوجوداسکے کے کسی کو ہم سے ہمدردی نہیں ‘محبت نہیں ۔ ہمیں کچھ بھی حسب منشا نہیں ملا ۔ ۔

باوجود اسکے کے ہمیں ہر قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔باوجود اسکے کے کہ ہم بہت بدصورت ہیں ۔غریب ہیں ۔مصائب کا سامنا ہے ۔ہار گئے ہیں ۔ازیت میں ہیں ۔کوئی چھوڑ کر جا چکا ہے کسی کو چھوڑنا پڑ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود کوئی وجہ اس قابل نہیں ہے جو “خودکشی” کے لئے “کافی”ہو جائے۔ بڑی سے بڑی وجہ اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی “زندگی “جیسے قیمتی تحفے کو جو اللہ رب العزت کی ذات نے ہمیں عطاء کی ہے’ کو ٹھکرانے کے آگے چھوٹی پر جاتی ہے ۔ جب خالق کی ذات اتنی مہربان ہوسکتی ہے کہ ہماری گناہوں سے تر زندگی کو ایک اشک ندامت پر معاف فرمادے تو ہم کون ہوتے ہیں خود کو یا دوسروں کو سزا دینے والے۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہر میدان میں کامیاب ہونا شرط ہے ؟

کس نے کہا کے دنیا صرف خوبصورت لوگوں کے لئے ہے ؟یا اہم ہونا زندگی کی شرط ہے ؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ اچھی زندگی کہ لئے خاص ہونا’امیر ہونا’پسند کی زندگی گزارنا شرط ہے ؟ یہاں تو پھول بھی کانٹوں کے بغیر نہیں اگتے پھر آپکو کیوں نہیں دکھتا کہ ہر شخص باوجود خوبصورت ہونے کے’ کامیاب ہونے کے ‘ بے تحاشہ دولت مند ہونے کے پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے ۔آپکو محبوب نہ ملنے کا غم ہے اور کچھ لوگ محبوب کو پاکر غمگین ہیں ۔کوئی ہار کر غمزدہ ہے کسی کو جیت مزہ نہیں دے رہی ہے۔امیر غریب پہ رشک کھا رہا ہے ۔غریب امیر کو دیکھ کے آہیں بھرتا ہے۔ آپ کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فیصد خوش یا مطمئن ہے زرا سوچیں آپکی آنکھوں پ بندھی پٹی محبت کی ہے یا کم عقلی کی۔خودترسی سے جتنی جلدی ہوسکے باہر آجائیں۔ضرورت یہ جاننے کی ہے کہ اگر دنیا کے سارے لوگ مصائب کا تو شکار ہیں مگر سارے لوگ تو خودکشی نہیں کر رہے ہیں ۔

کیوں؟ کیونکہ سارے لوگ بزدل اور بے وقوف نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی نہ ہونا’افسر نہ بننا ہر دلعزیز نہ ہونا اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ آپ اپنی موت کو ہی گلے لگالیں۔مجھے ان لوگوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وقت انہیں کچھ سال پیچھے لے جائے تاکے ان سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ان سے بچ نکلیں۔آپ دس سال پیچھے جا کر غلطی سدھار آئیں لیکن اس بات کی کیا گاڑنٹی ہے آپ دس سال بعد یا موجودہ وقت میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں ؟؟ جبکہ انسان تو خطاء کا پتلا ہے ۔غلطیوں کو سدھارنا یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرلیں۔اس سے سبق حاصل کریں۔اور انہیں بار بار دہرا کر اپنی عادت نہ بنائیں۔


اور پسند کی شادی نہ ہونا محبوب کا آپکو چھوڑ دینا یا اپنی والدین کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی سے دستبردار ہونا کوئی اتنی بڑی قیامت نہیں ہے کہ جسکے بعد آپکی زندہ رہنے کی وجہ ختم ہوجائے۔مثال کے طور پر جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے اپنے کس دل سے اسے منوں مٹی تلے دفنا کر اپنے گھر اور دنیا کیطرف لوٹ آتے ہیں۔اس میں یہی ایک سبق ہے ہماری زندگی کی تمام معاملات کو لیکر ۔جسطرح مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔اگر آپ اپنے ہی جان چھرکنے والے ماں باپ کو بہن بیٹی بھائی یا کسی بھی عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے واپس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں کھا پی سکتے ہیں ہنس بول سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسے ہی آپ کسی بھی خواہش خوشی اور فرد کے بغیر زندہ اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔

دنیا کی کوئی بھی چیز رشتے اور تعلق آپکی زندگی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ صرف آپکی آزمائش ہیں۔اور ہاں ایک بات اور آپکو کیوں لگتا ہے کہ خوش رہنا ہی زندگی ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنے غموں محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نام ہی زندگی ہے اور یہ سب ایسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کہ ہر معاملے کو رب کی رضا جان کر اس میں راضی رہ کرصرف صبر اورشکر سے ہماری زندگیاں آسان ہوسکتی ہیں ۔ اللہ ہمارا مدد گار ہو۔آمین
پرھنے اور سمجھنے والوں کا بے حد شکریہ

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , , , ,
50204