Chitral Times

جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کو کیسے فروغ دیں ؟ – پروفیسرعبدالشکورشاہ

جنوبی ایشیاء معاشی لحاظ سے دنیا کا سب سے کم موبوطہ خطہ ہے جس کی علاقائی تجارت عالمی تجارت کا محض5%ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دائمی عدم اعتماد کی فضاء تصور کی جاتی ہے۔یورپ کی طرح  جنوبی ایشیاء کے ممالک بھی مشترکہ تہذیب و تمدن، رہن سہن، بود وباش،تاریخ اور زبان و ثقافت کے باوجود تقریبا یکساں مسائل اور خطرات کا شکار ہیں۔ مگر اس سب یکسانیت کے باوجود جنو بی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی روایت اور تاریخ یورپی ممالک سے یکسر مختلف ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا بھر کے ممالک پرگہرے اثرات مرتب کیے جس کے نتیجے میں تمام ممالک کسی ایسے حل کے بارے غور کرنے لگے جس سے تجارت کے ساتھ دنیا میں امن کو فروغ ملے۔ 1980کی دہائی کے بعد دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی سوچ زیادہ تقویت اور مقبولیت اختیار کرنے لگی۔

نتیجتا یہ نظریہ بیشتر دیگر فکریات کی طرح جنوبی ایشیاء تک پہنچا اور 1985میں سارک کی بنیاد رکھی گئی۔ ساپٹا معاہدے پر1993میں دستخط کیے گئے اور سافٹا(آزاد تجارت کا معائدے) پر2006میں عمل درآمد کا آغاز ہوا۔ علاقائی تعاون کے لیے ان تمام اقدامات کے باوجود جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کی فضاء حوصلہ افزاء نہیں رہی۔ سارک تنظیم ایک تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ غیر فعال ہے اور جنوبی ایشیاء کے مسائل کو حل کرنے کی سکت، ارادہ اور وسائل سے محروم ہے۔ سارک تنظیم جنوبی ایشیاء کے لیے سافٹا(آزاد تجارت کا معائدہ) پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہو چکی ہے۔

خطے میں علاقائی تعاون کی کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں معاشی،غیر معاشی اور غیر علاقائی عناصر کی مداخلت قابل ذکر ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے دیگر ان گنت مسائل کی طرح ایک بڑا مسلہ معاملات میں لچک دکھانے کاشدید فقدان ہے جس پر خطے کی معاشی ترقی کا انحصار ہے۔ غیر علاقائی عناصر جنوبی ایشیاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ وقت کی نزاکت اور ایشیاء میں امن اور تعاون کی ابتر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی ایشیاء میں ایک متحدہ بلاک بنانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سال2003-8جنوبی ایشیاء میں معاشی ترقی کے عروج کا عرصہ تصور کیا جاتا ہے جب اوسطا سالانہ ترقی کا تناسب7.8%رہا۔ اس عرصے کے دوران مشرق وسطی کے بعد جنوبی ایشیاء کی ترقی دوسری نمبر پر تھی۔ یہ خطہ ہنگامی توجہ اور تعاون کا منتظر ہے کیونکہ جنوبی ایشیاء میں دنیا کے 40%سے زیادہ غریب آباد ہیں،

دنیا کی تقریبا چوتھائی آبادی جنوبی ایشیاء میں بستی ہے اوریہ خطہ عالمی جی ڈی پی میں 3.3%مقامی خام مال کی پیداوار کی شراکت سے موجود ہے۔ جنوبی ایشیاء میں باہمی تعاون کے تحت مربوط تجارت میں 2008میں 4.5%سے بڑھ کر2015میں 7.6%تک پہنچ گئی جو 2018میں متوازن نوعیت اختیار کرتے ہوئے6.9%تک رہی۔ اگر یورپ اور ایشیاء پیسیفک کی مربوط علاقائی تجارت کا موازنہ جنوبی ایشیاء کی تجارت سے کیا جائے تو یہ شر ح ناکافی ہے۔ جنوبی ایشیائی ریاستیں غیر لچک دار تجارتی پالیسی پرکاربند رہتے ہوئے تمام تر کوششوں کے باوجود روائیتی اختلافات کی وجہ سے تجارت کو محدود کر دیتے ہیں۔ سال 2016میں جنوبی ایشیاء کااوسطا ٹیرف 13.6%تھاجو عالمی پیمانے پر اوسطا6.3%سے زیادہ ہے۔ جہاں تک حساس نوعیت کی تجارت کا تعلق ہے، جنوبی ایشیاء میں سارک ممالک کی برآمدات میں سے  44%سے 45%تجارتی ایشیاء حساس فہرست میں شامل ہیں۔

مثلا انڈیا کی 39%سے زیادہ برآمدات جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی حساس فہرست میں شامل ہیں۔ علاقائی تعاون کی قلت کے مسئلہ سے نپٹنا بلاشبہ نہ صرف بہت زیادہ وقت کا طلبگار ہے بلکہ یہ سفر کافی کھٹن، سست اور تھکا دینے والا ہونے کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی نظر ہو جاتاہے۔ جنوبی ایشیا ء میں دیر پا علاقائی تعاون اور باہمی مربوط تجارت کے لیے تمام ریاستوں کا غیر روائیتی تعاون کی طرف ٹھوس اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں دنیا میں موجود دیگر جدید تجارتی اور شراکت داری کے نظریات پر غور کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیاء بھی پرامن بننے کے علاوہ معاشی اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی کرے۔ غیر علاقائی عناصر کی مداخلت روکنے او رخطے کے معاملات کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف ایک متحدہ اور مضبوط محاذ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

جنوبی ایشیاء دنیا کے دیگر ممالک کی طرز پر چلتے ہوئے مرکزی اختیارات کی صوبوں کو تقسیم کے فارمولے پر بھی عمل درآمد کر سکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں تمام تر مسائل کی جڑ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرنہ مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کیے بغیر جنوبی ایشیاء میں کسی صورت بھی امن اور خوشحالی ممکن نہیں۔دونوں ممالک کشمیر پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اب دونوں ممالک کو اس رسہ کشی سے نکل کر کشمیر کو آزاد ریاست کے طور پر آزاد چھوڑدیں۔ غیر علاقائی عناصر جنوبی ایشیاء میں مداخلت کے عادی ہو چکے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ خطے میں کسی مضبوط علاقائی تعاون کی تنظیم کی عدم موجودگی ہے۔ خطے کے تمام ممالک کو اپنی پالیسیوں میں بدلاو اور لچک کے علاوہ باہمی تعاون کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا بھی اشد ضروری ہے۔جنوبی ایشیا ء کے مسائل کو حل کرنے کی ماضی کی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طریقہ کار کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔

علاقائی ریاستوں کے زیادہ ترمسائل جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کے ہیں اس لیے علاقائی تعاون اور باہمی مربوط اور پائیدار تعلقات کی بحالی اور بقاء کے لیے آسان سے مشکل کی طرف جانے کی ابتداء کی جائے۔ ایک اور بڑی وجہ جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین رابطہ سڑکوں اور زرائع کی قلت بھی ہے جس کی وجہ سے باہمی تجارت اور دیگر معاملات احسن طریقے سے سرانجام نہیں ہوپاتے۔ جنوبی ایشیاء میں طاقت کا عدم توازن، رابطوں کی کمی اور تحفظ سے متعلق خدشات کی وجہ سے علاقائی تعاون کی طرف ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ خطے کے بیشتر ممالک معاشی، دفاعی اور ڈپلومیٹک لحاظ سے مغربی ممالک پر انحصار کرتے ہیں اور خطے میں موجود متنوع تناو میں علاقائی تعاون کے بجائے غیر علاقائی عناصر کا سہارا لیتے ہیں جس نے جنوبی ایشیا ء کے مسائل کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

عدم اعتماد کی اس فضاء کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ تمام ممالک کو مسائل کی نوعیت او ر نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے ان میں مطلوبہ تبدیلیوں اور باہمی تعاون کے لیے لچک اور اعتماد کی بحالی کی فضاء کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ خطے میں باہمی رابطہ کے لیے انفراسٹرکچر کی کمی ایک بہت بڑی رکاٹ ہے۔ زرائع نقل و حمل اور زرائع رسل و رسائل کی قلت علاقائی تعاون اور باہمی مربوط تجارت کے گراف کو بہت نیچے لے جاتی ہے۔ مثلا بھارت اور نیپال میں کل 22سے زیادہ تجارتی پورٹس ہیں اور 15پورٹ محض ٹرانزٹ ٹریفک کے لیے ہیں۔ اس کے باوجود ان میں سے صرف 6زیر استعما ل ہیں۔ ایک اور وجہ بھارت کی اجارہ دارانہ اور سامراجی رویہ ہے جس کی وجہ سے خطہ معاشی، سیاسی، دفاعی اور سماجی میدانوں میں ترقی سے محروم ہے۔ سارک ممالک کی کل آبادی میں سے 75%آبادی بھارت کی ہے جو تقریباجی ڈی پی کا 80%بنتی ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے دونوں ممالک کی کل آبادی 10%اور جی ڈی پی میں شرح 7%بنتی ہے۔ خطے میں بھارتی دھمکیوں اور سامراجی نظریات کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی دیگر ریاستوں میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

ایک اور وجہ مختلف ممالک کی سرحدوں کا بھارت کے ساتھ ہونا بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے سرحدوں پر کشیدگی اور جنوبی ایشیاء کی چھوٹی ریاستوں کے اندرونی معاملا ت میں بے جا مداخلت ہے۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی ایشیائی ممالک اپنی پالیسیاں علاقائی تعاون کے بجائے اپنی سلامتی اور دفاعی نقطہ نظرسے ترتیب دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء سے نوآبادیات کے جغرافیائی خاتمے کے بعد اس خطے میں مغربی سامراجیت نے اپنے پنچے گاڑھ رکھے ہیں۔ جنوبی ایشیاء مغربی ممالک کے اسلحہ کی فروخت کی بہت بڑی منڈی ہے اور خطے میں امن اور باہمی مربوط تعاون و تجارت ان کے لیے تجارتی نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔ اس لیے مغربی ممالک جنوبی ایشیاء اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود دیرینہ مسلہ کشمیر حل کرنے سے گریزاں ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
52856

خاندان اور ہمارے ایوان22 – پروفیسرعبدالشکورشاہ

خاندان اور ہمارے ایوان22 – پروفیسرعبدالشکورشاہ

ہم ریاست کے نام پر سیاست کے نعرے لگاتے لگاتے ریاست کو سیاست کی نظر کر دیتے ہیں۔ طبعی کرونا کی طرح ہمارا وطن عزیز بے شمار غیر طبعی کرونوں کی لپیٹ میں ہے مگر ان کے خلاف نہ ہم لاک ڈاون کرتے، نہ ویکسین بناتے، نہ زبردستی لگواتے بلکہ ان کو سمارٹ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کرونا سے بچاو کی طرح بے شمار جرائم سے بچنے کے ماسک بھی موجود ہیں جنہیں پہن کر آپ بلکل محفوظ رہ سکتے ہیں۔جب پرائیویٹ سکولز، کالجزاور یونیورسٹیز چلانے والے ایم این اے اور ایم پی اے بن جائیں تو تعلیمی بہتری ممکن نہیں ہے۔ جب سرکاری سکولوں میں بھاری تنخواہیں لینے والے اپنے بچوں کوپرائیویٹ سکولز میں پڑھائیں تو انقلاب نہیں آنا۔ جب شوگر مل مالکان وزیر بن جائیں تو چینی نہیں ملے گی، جب آٹا مل مالکان اسمبلیوں اور سینیٹ میں پہنچ جائیں تو آٹا نہیں ملے گا، جب گھی مل مالکان وزیر بنیں گے تو گھی مہنگا ہو گا۔

جب ٹمبر مافیا وزیر جنگلات بنے گا تو جنگلات نہیں بچیں گے، جب غریب کے نعرے لگانے والے امیر بن جائیں تو غریب نہیں ملے گا۔ جب مزدور کے نعرے لگانے والے افسر بن جائیں تو مزدور رلتا رہے گا۔ جب نیا پاکستان بنانا بھول جائیں گے تو پرانے کا یہی حال ہو گا۔ جب رشوت اور سفارش سے بھرتی ہونے والے محکمہ کے سربراہ بن جائیں تو میرٹ نہیں ملے گا، جب سول محکموں پر ریٹائرڈ جنرل تعینات کیے جائیں گے پڑھے لکھے سول لوگ ملک میں نہیں رہیں گے۔ جب قانون شکن عدلیہ میں شامل ہو ں گے تو انصاف نہیں ملے گا، جب سائنس سے نابلد وزیر سائنس بنیں گے تو سائنس نہیں ملے گی، جب غیر متعلقہ اور غیر پیشہ ورانہ افراد وزیر ریلوے بنیں گے تو حادثات ہوں گے۔ جب علماء ممبر و محراب چھوڑ کر سیاست کریں گے تو مساجد کو تالے لگیں گے اور مندر بنیں گے۔ جب ڈاکٹر علاج کے بجائے ہڑتالیں کریں گے تو انسان نہیں رہے گا، جب صحافی قلم فروش بنے گا تو مظلوم نہیں ملے گا۔

جب پولیس ڈاکے ڈالے گی تو ہر گلی میں ڈاکو ملے گا، جب افسر دیر سے آئے گا تو دفتر خالی ملے گا، جب سیاست زدہ لوگ بھرتی کیے جائیں گے توریکارڈ جلے گا فائیلیں نہیں ملیں گی۔ جب مہنگائی کے خلاف بولنے والا مہنگائی کرے گا تو عوام چپ نہیں رہے گی۔ جب 22خاندان پاکستان کو چلائیں گے تو 22کروڑ عوام کی چیخیں سنائی دیں گے۔ جب وزیر تعلیم، سیکرٹری تعلیم اور دیگر اعلی افسران کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گے تو سرکاری سکول کبھی ٹھیک نہیں ہو ں گے۔جب تک محکمہ صحت کا وزیر اور اس کے اعلی افسران اپنے علاج سرکاری ہسپتال سے نہیں کروائیں گے تب تک سرکاری ہسپتال ٹھیک نہیں ہوں گے۔ جب تک واپڈا والے مفت یونٹ استعمال کریں گے بجلی کے بل کم نہیں آئیں گے۔

جب تک وزراء کی کالونیوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی تب تک لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی۔ جب تک وزراء، سیکرٹریز، مشیران وغیرہ کے گھر کے باہر پانی جمع نہیں ہو گا تب تک نکاسی کا نظام ٹھیک نہیں ہو گا۔ جب تک ایم این ایز اور ایم پی ایز کے گھروں کے سامنے کچرے کے ڈھیر نہیں لگیں گے تب تک کوڑا صاف نہیں ہوگا۔ جب رئیل اسٹیٹ کے مالکان وزراء بن جائیں تو قبضہ مافیا ختم نہیں ہو گا۔ جب سیاست دان جرنیلوں سے رشتہ داریاں بنائیں گے تو مارشل لاء لگیں گے، جب تک عوام نہیں بولے گی پستی رہے گی۔ جب پی آئی اے میں جعلی بھرتیاں ہوں گی تو یہ بہتری کے بجائے ڈوبے گی،

جب کارکردگی کے بجائے سفارش پہ کھلاڑی ٹیم میں شامل ہو ں گے تو ٹیم ہارے گی۔ جب پولیس ریاست کے بجائے افراد کے ماتحت ہو گی تو وہ مظلوموں اوربے گناہوں کو گولیاں مارے گی۔جب امپورٹ ایکسپورٹ کے مالکان وزراء کے رشتہ دار بنیں گے تو گاڑیاں مہنگی ہوں گی۔ جب وزیر اعلی کا بیٹا چکن انڈسٹری کا مالک بنے گا تو غریب عید پہ ہی گوشت کھائے گا۔ جب ادوایات مہنگی ہوں گی تو عوام مرے گی،پہلی عوام مرے گی تو نیا پاکستان بنے گا۔ جب کسان کو معاوضہ نہیں ملے گا تو فصل نہیں اگے گی، جب مزدور کی دیہاڑی نہیں لگے گی تو وہ مانگے گا، جب تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار رہیں گے تو جرائم بڑھیں گے۔ جب جہیز کی نمائش ہوگی توبیٹیاں گھر بیٹھے بوڑھی ہوں گی، جب میرا جسم میری مرضی پروان چڑھے گی تو طلاقیں ہوں گی۔

جب عاشق رسول کو جیل اور ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو پروموٹ کریں گے تو یادگار جیسے واقعات ہو ں گے۔ حیرت اس بات پہ ہے ہم اپنی حفاظت کے لیے گلی میں سیکورٹی گارڈ اپنے پیسوں سے رکھیں، اپنی گلی سے پانی اپنے پیسوں سے مزدور لگوا کر نکلوائیں، اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولز میں جیب سے پیسے دے کر پڑھائیں، علاج پرائیویٹ ہسپتال سے کروائیں، سفر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں کریں، گلی محلے کا کچرا بھی پیسے دے کر اٹھوائیں، گٹر بھی پیسے دیکر کھلوائیں، بجلی کی جگہ جنریٹر اپنے پیسوں سے لگوائیں، سولر بلب اپنے خرچے پر لگوائیں، گلی محلے کا ٹرانسفارمر بھی پیسے دیکر ٹھیک کروائیں تو بھلا حکومت کس بات کے ٹیکس پہ ٹیکس لیے جارہی ہے کیا یہ سب نیا پاکستان بنانے کے لیے پیسے اکھٹے کیے جارہیے ہیں۔

بجلی کے بل غلط آنے پر اپنی جیب سے پیسے لگا کر درست کروائیں، سرکاری اور دفتری غلطی کی تصحیح بھی جیب سے فیس بھر کر کروائیں، قانونی مدد کے لیے پولیس کو رشوت دیں تو ہم پھر ٹیکس کس بات کا دیں؟ جب جہیز پر سخت ریمارکس دینے والا اپنی بیٹی کی شادی پر کروڑوں لگائے گا تو شرمندگی ہوگی۔ جب حب الوطنی کے دعوے کر کے غیر ملکی نیشنیلٹی لے کر بیرون ملک رہیں گے تو حب الوطنی پیدا نہیں ہو گی۔ جب دہائیوں تک ملک میں حکمرانی کرنے کے باوجود اپنے علاج کے لیے کوئی ہسپتال نہیں بنائیں گے تو شرمندگی ہو گی۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر بیرون ملک رہیں گے توپاکستان ترقی کیسے کرے گا۔

جب وزیر خوارک گندم سمگل کروائے گا تو گندم کی کمی ہوگی، جب حکومتی افسران ٹینکر مافیا چلائیں گے پانی نہیں ملے گا، جب ایل ڈی اے رشوت لے کر این او سی دے گی تو پوش ایریاز میں بربادی ہو گی۔ جب کشمیر کے وکیل کا کھوکھلا نعرہ لگائیں گے تو مودی کشمیر کو جیل بنائے گا۔ جب ماڈل ٹاون قتل عام پر تقریریں کرنے والے حکومت بنا کر بھی انصاف نہ دیں تو ساہئیوال جیسے واقعات ہو ں گے۔ جب کرپٹ لوگوں کو وزارتیں دیں گے تو تبدیلی نہیں آئے گی۔

جب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ایک خاندان کے درپے رہیں گے تو مہنگائی بڑھے گی، جب آزادکشمیر کا وزیر اعظم انٹرویو لے کر لگائیں گے تو کشمیر آزاد کیسے کروائیں گے۔ آپ نے کہا تھا میں ان کا رلاوں گا بھولی عوام سمجھی وزیروں مشیروں کی بات کر رہے مگر ان سے مراد عوام تھی جو رو رہی ہے اور آپ مسلسل رلا رہیں ہیں۔ وزیر مشیر تو سب آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہیں۔ مہنگی گاڑی میں بیٹھ کر غریبوں کی بستی کا چکر لگانے سے غریب امیر نہیں ہو جاتے بلکہ اس سے خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے۔ جب معیشت کو چند ماہ میں مضبوط کرنے والے خود چند ماہ تک وزیر خزانہ نہ رہ سکیں تو معیشت نہیں سنبھلے گی۔ جب ہر موقعہ پر فوج بلائیں گے تو سول ادارے مضبوط نہیں ہوں گے۔ جب تک اصلاحات نہیں لائیں گے کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔

جب مہینے میں چار بار پیڑول مہنگا کریں گے تو مہنگائی کیسے کم ہو گی۔ اگر ایک روپیہ پیڑول مہنگا ہو تا ہے تو ہر چیز پانچھ روپے مہنگی ہو جاتی ہے۔ جب وزراء عوام کے ٹیکسوں سے مفت میں کھائیں پئیں گے تو انہیں مہنگائی کہاں نظر آئے گی۔عوام یہ سمجھتی ہے ملک کی بھاگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے جبکہ ایسا قطعا نہیں ہے۔ ہر حکومت کو سرمایہ دار، بیوروکریٹس، مافیا، مل مالکان، لینڈ لارڈزاوربااثر طبقات چلاتے ہیں۔ حکومتی پالیسی سازایسی پالیسیاں بناتے ہیں اور بجٹ کو اس انداز میں تیار کر تے ہیں جس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے جبکہ عام آدمی ٹیکسوں کی چکی میں پستہ چلا جاتا ہے۔

ہمیں اپنی ترجیحات کو بدلنا ہو گا اور ایسے افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے سے توبہ کرنی ہو گی جن کو ہم اپنے ووٹوں سے اسمبلیوں تک پہنچانے کے بعد ان سے اپنے جائز کام کا کہتے ہوئے بھی نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ ملاقات کا موقعہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ سب مسائل کا حل یہ ہے کہ عام آدمی ان سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ٹھیکداروں، امراء اورموروثی سیاست دانوں کے بجائے عام آدمی کو ووٹ دے کر اسمبلیوں تک نہیں پہنچائے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52335

یوم دفاع پر ملک کو درپیش مسائل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

یوم دفاع دراصل یوم ایفاء عہد ہے۔یوم دفاع اس بات کا تقاضہ کر تا ہے کہ ہم مملکت خداداد پاکستان کے تحفظ اور سالمیت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم ہر سال اس دن اس عہد کو دہراتے ہیں کہ جب بھی قوم پہ مشکل گھڑی آئے گی1965کی جنگ کی طرح ساری قوم متحد ہو جائے گی۔یوم دفاع ہم سے اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ ہم پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی تمام مشکلات اور مسائل کے حل کے لیے متحد ہو کر کوشش کریں۔ہمیں قائداعظم کے اس فرمان پر پختہ یقین ہونا چاہیے، کام کی شدت سے مت گھبراؤ، پاکستان رہنے کے لیے بنا ہے۔ یوم دفاع1965کے شہدا اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جا تا ہے۔6ستمبر 1965 وہ تاریخی دن، جب ہم نے اپنے ازلی دشمن ہندوستان کو نہ صرف ہر محاذ پر پسپا کیا بلکہ پوری دنیا میں ثابت کیا کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور اس مٹی کا بچہ بچہ اس پر جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

موجودہ تمام مشکلات اور مصائب کے باوجود، بطور قوم جب بھی ہمیں آزمائش میں ڈالا گیا ہم سرخرو ہو ئے۔ ہماری ہمت، بہادری اور جرات کا امتحان کئی بار لیا جا چکا ہے۔ہم قائد اعظم کے، ایمان، اتحاد اور تنظیم کے سنہری اصول پر عمل پیرا ہو کر ہر مرتبہ جارہیت، ظلم، ناانصافی،فرقہ واریت، دہشت گردی، معاشی بدحالی اوردیگر بے شمار مشکلات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ہم تو یو م دفاع پر اپنے بنیادی حقوق کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے فوج کو دفاع سے ہٹا کر مردم شماری، مساجد کی سیکورٹی، مظاہروں کو روکنے، احتجاجیوں سے مذاکرات کروانے،سیاسی محاذ آرائی کو روکنے،تعمیراتی منصوبوں اور ویلفیر کے کاموں میں لگا دیا ہے تو پولیس اور دیگرسول اداروں کو سرحدوں پر بھیج دینا چاہیے۔

زلزلہ آئے تو فوج،طوفان آئے تو فوج، آندھی آئے تو فوج، سیلاب آئے تو فوج،دھرنا ہو تو فوج،ادارے تباہ ہونے لگیں تو فوج باقی سول محکموں کی موج۔ہم عجیب نفسیات کے مالک ہیں،بجائے ادارے مضبوط کرنے اور انہیں تربیت فراہم کرنے کے ہر موقعہ پر فوج طلب کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے نظام کے کینسر کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑاآپریشن کرنا پڑے گا پھر جا کر کچھ بدلنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اندورنی مسائل میں معاشی تنزلی، معاشرتی اور اندرونی تحفظ کے مسائل سر فہرست ہیں۔عام آدمی کی خواہش ہے کہ وہ محفوظ زندگی گزارے، اسے جان،مال اور عزت کا تحفظ حاصل ہو۔پڑھے لکھے نوجوان نوکریوں اور ملازم نوکریوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔جب تک عوام تحفظ کی فضاء میں سانس نہیں لیتی، اس کو معاشی تحفظ حاصل نہیں ہوتا وہ یوم دفاع کو سمجھنے کے بجائے غیرملکی عناصر کے چنگل میں پھنس کر دفاع کو کمزور کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتے ہیں۔

بدقستمی سے بااثربدعنوان حکمران، بیوروکریٹس، افسران اور مافیا نے اس ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ قوم بھی گونگی، بہری اور اندھی ہو کر اس ساری لوٹ کھسوٹ کاتماشہ دیکھ رہی ہے جس نے ملک کو دہایوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ حکومت ٹیکسوں کے نظا م کو شفاف بنانے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں ناکام ہو چکی ہے جو مستقبل میں مزید کرپشن اور لاقانونیت کو جنم دے گا۔ معاشی استحکام اور ملکی تحفظ لاز و ملزوم ہیں۔ معاشی طور پر کمزور اور قرضوں پر انحصار کرنے والی اقوام زیادہ عرصہ جنگ کے میدان میں سامنا نہیں کر پاتی۔ ملک کے مضبوط تحفظ کے لیے مضبوط معیشت اور اداروں کی مضبوطی انتہائی ضروری ہے۔ کامیابی کے راستے کھٹن ضروری ہو تے ہیں مگر ناپید بالکل نہیں ہو تے۔ حکومت نیک نیتی، حب الوطنی اور خلوص کے ساتھ معیشت کو بہتر ی کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کرے اور ان مسائل سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے ورنہ ہر حکومت روتے پیٹتے پانچھ سال پورے کر کے چلی جائے گی اس ملک کا کون سوچے گا۔

معیشت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں اپنے اضافی اخراجات کو کم اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ہمارے پاس دنیا کا سب سے ناقص نظام ہے، ریلوے کی بدحالی، پی آئی اے کے خسارے، واپڈا کی لوڈشیڈنگ، واسا کی بری کارکردگی،پولیس کے مظالم، عدالتوں کی ناانصافیاں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت، میرٹ کی پامالی، رشوت ستانی، اقربہ پروری، سفارشی کلچر اور اخلاقی بے راہ روی نے نہ صرف جینا حرام کر دیا ہے بلکہ عوام کا اداروں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ہم اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہیں تو ہم یوم دفاع کس بات کا مناتے ہیں۔جرائم میں ہوش ربا اضافہ، چور ی اور ڈکیتیوں کی بڑھتی وارداتیں،موبائل اور گاڑیاں چھیننے کے ان گنت واقعات، قتل و غارت، بم دھماکے، مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل انتظامیہ کی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ حکومت کی تسلیوں پر عوام اب کان نہیں دھرنے والی، اگر واقعی حکومت نے کچھ کیا ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچنا چاہیے۔ عام آدمی تو روٹی اور چینی کو ترس گیا ہے۔

ہم کرکٹ کے بجائے آٹے اور چینی میں سنچریاں بنا رہے ہیں۔حکومت اختیارات کو چند خاندانوں کے محلات سے باہر نکال کر عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے اور بلدیاتی الیکشن کو لٹکانے کے بجائے ان کے انعقاد پر توجہ دے۔ جس ملک میں لوگ عدالت سے انصاف کے بجائے روز قیامت کو انصاف لینے کی بات کریں وہاں جینا کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔ غیر ملکی عناصر مایوس، بدحال، نادار اور ظلم سے ستائے افراد کی تلاش میں سرگرداں  رہتے ہیں اور وہ انہیں ملکی دفاع کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ایسے افراد ان کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یوم دفاع کے موقعہ پر ہمیں دشمن کی چالوں کے مطابق اپنا منصوبہ بنانا ہے۔ آزاد ی ہندوستان کے بعد دونوں ممالک مختصرالمیعاد جنگ کی منصوبہ بندیاں کر تے آئے ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں کوئی جنگ زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہی۔ چھوٹی لڑائیاں ہم کنڑول لائن کے ساتھ لڑسکتے ہیں مگر یوم دفاع کے موقعہ پر ہمیں یہ تہیہ کرنا ہے کہ ہم نے ریگولر آرمی کے ساتھ معاون رضاکار فوج اور مقامی نوجوانوں کو تربیت دینی ہے تا کہ اس ملک کا دفاع درست معانی میں مضبوط ہو سکے۔پاکستانی قوم کو محب وطن، مخلص اورایماندار قیادت کی ضرورت ہے، جس دن اسے ایسی قیادت مل گئی یہ قوم ترقی کے عروج پر پہنچ جائے گی۔

یوم دفاع پر ہم نے اپنے ازلی دشمن بھارت کے عزائم پر نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ ان کو خاک میں ملانے کا عزم اور منصوبہ بندی بھی کرنی ہے۔ بھارت،امریکہ اور اسرائیل کے گھٹ جوڑ کا ایک مقصدپاکستان اور چین کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ بھارت نواز مغربی طاقتیں ایشیاء کے امن کو تباہ کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ بھارت خطے میں اجارہ داری قائم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے جو شرمندہ تعبیر نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر کے بھارت کو عالمی طاقتوں کی چھتری سے نکالناہے۔واشنگٹن اور اسلام آباد کے عرصہ دراز سے استوار تعلقات سے ملک کو فائدے کے بجائے جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ہمیں عالمی سطح پر امریکہ کے علاوہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماسکو اور بیجینگ اس ضمن میں اہم آپشنز ہیں۔ہم نے جذبات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات اٹھانے ہیں تا کہ ہم داخلی اور خارجی مسائل پر قابوپانے میں کامیاب ہو سکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
52104

آزادکشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت سازی اور مستقبل – پروفیسرعبدالشکورشاہ

سیاسی جوڑ توڑ اور اتحادپارٹی سیاست کا حصہ ہے۔ پاکستان، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اتحادکا عروج و زوال سیاسی مقاصد کے حصول تک محدود ہے۔ متحدہ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی (1964ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی 1968، پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)1977، تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)1983،اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی)2002 اور موجودہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) پاکستان میں اقتدار کے لیے سیاسی اتحاد کے عروج و زوال کی زندہ مثالیں ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں اقتدارکے حصول کے لیے روائیتی اقتدار کی سیاست کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔اگرچہ پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتیں اقتدار کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ اتحاد کچھ مختلف ضرور تھا مگر اقتدار میں شامل پارٹیاں استعفی دے کر خالص اپوزیشن کرنے کے لیے تیار نہ تھی اور نہ ہیں۔دراصل یہ اتحاد اقتدار میں اپنے حصے کی وسعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے جو ماضی کی طرح مفادات کی نظر ہوتا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے تحت مخلوط طرز کی پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے اور دیگر پارٹیوں کا جوش و خروش بھی ماند پڑھ چکا ہے۔پاکستان میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں جہاں احتجاج اور مظاہروں کے زریعے حکومت کو رخصت کیا گیا ہو۔اگرچہ پی ڈی ایم نے دو روائیتی حریفوں ن لیگ اور پی پی کو مختصر عرصے کے لیے اکھٹا کر لیا مگر یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ پی ڈی ایم نے اپنی بقاء کے علاوہ کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔ پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ مہنگائی کے طوفان سے ہے جو آئے روز شدت اختیار کر تا جا رہا ہے۔پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بعدآزادکشمیرانتخابات میں پی ڈی ایم طرز کی کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ(کے ڈی ایم) بنانے میں ناکام رہی۔اگر پی ڈی ایم متحد رہتی تو کشمیر میں ن لیگ، پی پی اور ایم سی مل کر پی ٹی آئی کا پتہ صاف کر سکتی تھی مگر ایسا ہوا نہیں۔

ن لیگ گلگت بلتستان کی طرح کشمیر میں بھی برسراقتدار تھی مگر پی ٹی آئی نے اس کا صفایا کر تے ہوئے محض چار سیٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ن لیگ کی طرف سے حکومت مخالف تحریک چلانا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔پیپلز پارٹی پاکستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ اتحاد کی بدولت گیارہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔یہ آزادکشمیر الیکشن سے پہلے ہی عیاں تھا کیونکہ پی ٹی آئی کی ساری بیٹنگ ن لیگ کے خلاف تھی۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ڈیل کے بدلے ڈھیل ملی ہواور دوسال بعد اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کر آزادکشمیر کی حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کر دی جائے۔ ایم سی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے پانچھ سال ایک سیٹ پر ہی گزارہ کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی لوقت کسی بڑے خطرے کا سامنا تو نہیں ہے تاہم محبت، جنگ اور سیاست میں کب کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے کشمیر ایشوپر الیکشن لڑنا تو درکنار کشمیر کو بطور سیاسی نعرے کے بھی استعمال نہیں کیا۔

اگر پی ٹی آئی کشمیر ایشو سے متعلق کوئی غلطی نہیں کرتی تو کم از کم مرکز میں اقتدار کی تبدیلی تک پی ٹی آئی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ن لیگ اور پی پی نے کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے پروپگنڈے پر جو سیاست کی ہے اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسی غلطی کرے تاکہ انہیں کشمیر کی سالمیت اور شناخت کی ڈھال مل جائے۔ آزادکشمیر الیکشن نے انتخابات کے ناقص نظام کی بھی کلی کھول دی ہے۔ ابھی تک ہم کوئی ایسا انتخابی نظام لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے نتائج سب پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ ہارنے والی پارٹی ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے الزامات کا سہار ا لیتی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی خوش ہے16سیٹوں کے وعدے پر11ملی۔الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق کو لاگو کروانے میں پوری طرح ناکام رہا۔ بعض حلقوں میں پارٹیوں نے اپنے عہدیداروں کے بیٹوں کو ضلعی الیکشن آفیسر تعینات کر وا رکھا تھا۔ رشوت، تشدد، بلیک میلنگ، سیاسی پیش کش، دھکمیاں، برادری ازم، نسل پرستی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔

بلاول بھٹو اورمریم نواز کی محنت گلگت بلتستان کی طرح رائیگاں گئی۔اب پی ٹی آئی کا مستقبل مرکز میں حکومت کی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں سیاسی تبدیلی آجانی ہے۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی الوقت ایک بڑا چیلنج وزارتوں کے دانشمندانہ تقسیم کا ہے تاکہ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ پی ٹی آئی کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ہو گی کہ برادری کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹ ان کے لیے مشکل کھڑی کر سکتے ہیں۔برادری اور سفارش کی بنیاد پر دیئے گئے ٹکٹس ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک کی داغ بیل ڈالیں گے۔پی ٹی آئی آزادکشمیر قیادت کو مسٹر خان کی طرف سے ملنے والی تھپکی آزادکشمیر میں حکومت کے تسلسل کے لیے ناکافی ہے۔

آزادکشمیر الیکشن مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک بڑا زریعے بن سکتا تھا مگر تما م پارٹیوں نے کشمیر ایشو کوسیاست کا محور و مرکز بنانے کے بجائے برانڈیڈ سیاست کا سہارا لیتے ہوئے مسلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔تما م سیاسی پارٹیوں کو الیکشن اصلاحات کی طرف توجہ دیتے ہوئے الزام در الزام کی سیاست کو دفن کرنا چاہیے۔مگر نظام اور اصلاحات کی طرف یہ کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے کیونکہ انہیں یقین ہے جلد یا بدیر یہ بوسیدہ نظام ہی ان کے لیے کوئی راہ نکال لے گا۔ روائیتی حریف پی پی اور ن لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اپنے خلاف کسی متحدہ اپوزیشن کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔پی پی پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی ن لیگ کو اپوزیشن کے اہم عہدوں سے نکال باہر کر نے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یوں لگتا ہے پی ٹی آئی، پی پی اور اسٹیبلشمنٹ تینوں نے مل کر ن لیگ کی بیساکھیاں توڑنے کاتہیہ کر رکھا ہے۔ماضی میں بھی آزادکشمیر میں مفادات کی سیاست کی گئی ہے کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے حقیقی معانی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے خلاف ن لیگ اور پی پی کے لیے مرکز میں تبدیلی سے پہلے صرف ایک موقعہ ہے کہ یہ وزات عظمی کے عہدے کی تفویض پر پی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کرحکومت سازی کی کوشش کریں۔ مگر یہ دونوں کے لیے فائدے مند نہیں رہے گا کیونکہ تمام اہم وزارتیں اور عہدے تو فاروڈ بلاک اور دو سیٹوں والے اتحادی لے اڑیں گے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اگر ن لیگ اور پی پی پی ڈی ایم میں ایک ساتھ ہوتی تو اس وقت آزادکشمیر میں صورتحال بلکل مختلف ہوتی۔حکومت سازی کے مکمل ہونے تک کا عرصہ پی ٹی آئی کے لیے کافی آزمائش طلب ہے خاص کر ان حلقوں میں صوابعدیدی عہدوں کے زریعے وزارتیں دینی اشدضروری ہیں جہاں سے ن لیگ اور پی پی نے میدان مار ا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی نہ صرف گرفت مضبوط ہو گی بلکہ اپوزیشن کے لیے حکومت مخالف عوامی مہم چلانے میں معاون ثابت ہو گی۔ پی ٹی آئی کے آزادکشمیر میں مستقبل کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ دو سال کے قلیل عرصے میں مرکز سے کتنے زیادہ فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے دوسال کے اندر مرکز سے خاطر خواہ فنڈز حاصل کرنے کے ساان کے شفاف استعمال کو یقینی بنایا تو شائد مرکز میں حکومت کی تبدیلی آزادکشمیر میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث نہ بن سکے۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
51051

جدید تعلیم اورمستقبل میں پیشے کا انتخاب- پروفیسرعبدالشکورشاہ

جدید تعلیم اورمستقبل میں پیشے کا انتخاب

 پڑھ لکھ کر،بڑے ہوکر کیا بنوگے؟ یہ سوال ہم میں سے اکثر سے پوچھا جا چکا ہے۔ مگر ہم میں سے زیادہ تر اس کے جواب میں کوئی تسلی بخش دلیل یا وجہ پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔جیسے جیسے ہم اپنی عملی زندگی کی طرف قدم برھاتے جاتے، ہم اپنے مستقبل کے منصوبوں اور پیشوں کے بارے میں غور و فکرکرنا شروع کر دیتے۔ ڈاکٹر، انجینئر، پائلیٹ یا سرکاری آفیسر کے شعبے بلاشبہ بہت اچھے ہیں مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کوئی بہتر آپشن موجود نہیں۔زیادہ تر طلبہ انہی شعبوں کی طرف جانے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اگر کچھ مختلف،الگ،جدیداور بہتر آپشن موجود ہے تو پھر ان روائیتی شعبوں سے چپکے رہنا بھیڑ چال کے سوا کچھ نہیں۔ آج کل طلبہ کے پاس جدید شعبوں کی ایک نئی دنیا موجو د ہے جو روائیتی شعبوں سے زیادہ پیسہ، عزت اور مانگ رکھتے ہیں۔موجودہ دور میں ہر چیز ٹیکنالوجی پر منتقل ہو چکی ہے۔

اب انسانوں کی جگہ روبوٹس اور سادہ مشین استعمال کی جارہی ہیں۔یہ روبوٹس اور مشینیں پروگرامنگ کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ اس لیے مستقبل میں پروگرامر کے شعبے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔اسی طرح شعبہ غذائیت کی موجودہ دور اور مستقبل میں بہت اہمیت ہے۔ یہ شعبہ ایک مکمل سائنس ہے جس کے زریعے ماہر ین غذاء علاج معالجہ بھی کر تے ہیں۔ فوڈ سائنس کا شعبہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شعبہ خوراک کی نیچر اور عوامی استعمال کے مطالعہ سے متعلق ہے۔نت نئی خوراک کی پیداوار، اسے محفوظ کرنا،اس کے ذائقوں میں تنوع لانا اور خریدار کے لیے اسے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق رکھنا شامل ہے۔ فاسٹ فوڈ کی آمد کی وجہ سے فوڈ سیفٹی بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ ڈیٹا سائنسدان اعداد و شمار کے جائزے اور تجزیے کی ایک نئی شاخ ہے جس کے زریعے تکنیکی مہارتوں سے پیچیدہ تکنیکی مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔

یہ افراد ماہر ریاضی، کمپیوٹر اور ٹرینڈ سپورٹر ہوتے ہیں۔یہ ٹیکنالوجی کے ساتھ سوشل سائنس میں بھی اپنی مہارتوں کا استعمال کر تے ہیں۔سائبر سیکورٹی سپیشلسٹ۔اس شعبے کے ماہرین معلومات کو محفوظ بناتے ہیں۔موجودہ دور میں سائبر کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اب دنیامیں سائبر جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ اس شعبے کے ماہرین سسٹم کو سائبر حملوں سے محفوظ بناتے ہیں۔ یہ ماہرین ہارڈ اور سوفٹ وئیر دونوں میں کام کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں سائبر سیکورٹی سپیشلسٹ کی بہت مانگ ہے۔ کاسٹ مینیجر کی بھی بہت مانگ ہے۔ یہ افراد کسی بھی منصوبے، کاروبار یا پروگرام میں لگنے والی رقم کا تخمینہ لگاتے ہوئے سرمائے کے ضیاع کو روکتے ہیں۔ ویڈیو ایڈیٹر کا شعبہ تو بہت ہی شاندار ہے۔موجودہ دور کے ساتھ مستقبل میں اس کی بہت مانگ ہے۔ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے سوشل میڈیا کی فیلڈ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ٹک ٹاک کا شعبہ ویڈیو ایڈیٹر کی بنیاد پر چلتا ہے۔ اب روائیتی تشہیر کی جگہ سوشل میڈیا اور ویڈیوز نے لے لی ہے۔

جتنی شاندار ویڈیو ایڈیٹنگ ہو گی ااس کی اہمیت اتنی ہی بڑھ جائے گی۔ ماہرین زبان یعنی لینگوئیسٹکس کا شعبہ بھی بہت اہم ہے۔ جدید دور میں ملازمت اور کاروبار کا روائیتی تصورٹیکنالوجی نے یکسر بدل کر دکھ دیا ہے۔ زبان بھی ایک سائنس ہے۔ انگریزی زبان کی مہارتوں کی  ہر شعبے میں مانگ اور اہمیت ہے۔آن لائن مارکیٹنگ، آن لائن کاروبار، کنٹینٹ رائیٹنگ، کنٹینٹ کے جائزہ لینے والے، سوشل میڈیا کے ماہرین وغیرہ کی بہت مانگ ہے۔بائیو ٹیکنالوجی کاشعبہ بھی جدید اور بہت افادیت کا حامل ہے۔ اس شعبے میں تحقیق، ترقی، کوالٹی کنٹرول، پیداوار وغیرہ کے شعبے شامل ہیں۔ اس شعبے کو زراعت کے لیے بھی استعمال کیاجا رہا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی جدید اور اہم شعبہ ہے۔ یہ کسی مادے کے اجزاء یازرات پر تحققق کے بعد ان کو عملی تجارت کے لیے قابل استعمال بنانے سے متعلق ہے۔ جیوسپیٹیل ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی جدید اور اہم ہے۔ یہ شعبہ فوٹو گرامیٹری، ریموٹ سینسنگ اور جیوگرافک انفارمیشن سسٹم سے متعلق ہے۔اس شعبے کی ایک عام استعمال اپلیکیشن (گلوبل پوزیشنیگ سسٹم(جی پی ایس) ہے۔ جینیٹک کونسلنگ کا شعبہ بھی جدید ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔

 یہ شعبہ سائنس سے محبت اور انسانوں کو باشعور بنانے کے لیے زیادہ کارآمد ہے۔ جینیٹک ماہرین وراثتی اور موروثی بیماریوں کے بارے عوام میں آگاہی پیدا کر تے ہوئے انہیں جذباتی تعاون فراہم کر تے ہیں۔کمپیوٹرفرانزیکس بہت اہم اور جدید شعبہ ہے۔فرانزک ماہرین قانونی اور انتظامی معاملات کے لیے برقی ثبوت اکھٹے کرتے ہیں۔ اس شعبے میں بہت سارے ذیلی شعبے بھی موجود ہیں جیسا کہ فائر وال فرانزک،ڈیٹا بیس فرانزک اور موبائل ڈیوائس فرانزک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لائف کیئر کا شعبہ بھی موجودہ مصروف دور میں بہت اہم ہے۔ لوگوں کے پاس مصروفیت کے باعث وقت کی شدید قلت ہے۔ بڑی عمر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور دیگر اہم لوازمات لائف کیئر کے شعبے سے متعلق ہیں۔ اسی طرح ڈے کیئرکا شعبہ بھی بہت اہمیت اختیار کر رہا ہے جس میں ملازمت پیشہ اور مصروف لوگوں کے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ نرسنگ انفارمیٹیک کا شعبہ نرسنگ، کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن تینوں کا امتزاج ہے۔ یہ پریکٹس کے ساتھ مریض کی دیکھ بھال اور اس سے متعلق معلومات کے تبادلے میں مدد دیتا ہے۔نرسنگ انفارمیٹیک کے مزید بہت سے ذیل شعبے بھی ہیں۔یو ایکس ڈیزائنر کا شعبہ بھی جدید اور بہت اہم ہے۔

یہ شعبہ برانڈنگ، ڈیزائن، فنکشن، ویب سائیٹ استعمال،، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور مختلف اپیس سے متعلقہ ہے۔ یہ شعبہ آن لائن ری ٹیل، تعلیم، بینکینگ اینڈ فنانس اور دیگر ڈیجیٹل سروسسز فراہم کر تا ہے۔ ایکسپورٹ کوچ کا شعبہ بھی بہت اہم ہے۔آن لائن گیمینگ بہت مقبولیت اخیتار کررہی ہے۔ اس شعبے میں رہنمائی اور تعاون کے لیے یہ شعبہ بہت اہم ہے۔ کویڈ 19نے وائرس پر تحقیق ک اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ مستقبل میں وائرس پر مزید تحقیق کے مواقع اور مانگ بڑھ جائے گی۔ اس لیے ایپی ڈیمولوجسٹ کا شعبہ بھی روشن مستقبل کا حامل ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔

زراعت کی بہتری، پیداوار کو بڑھانے، فصلوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے اور خواراک کی قلت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ غذائیت کی قلت کو بھی پورا کرنے کے لیے ایگرونومسٹ کاشعبہ بھی بہت اہم ہے۔ میرین ٹیکنیشن اور ہائی ٹیک مشنری کے ماہرین کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ شعبہ بھی طلبہ کے لیے نیا اور جدید ہے۔ وائی ایف ایکس یا سی جی آئی کا شعبہ خاص اثرات ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہو تا ہے۔ بجلی کے بجائے اب شمسی توانائی پر توجہ دی جارہی ہے۔ شمسی توانائی کے شعبے کے ماہرین کی شدید ضروت ہے۔ ونڈ انرجی کا شعبہ بھی اپنی وسعت کے اعتبار سے بے شمار مواقع رکھتاہے۔ موجودہ دور کے طلبہ کو چاہیے وہ روائیتی شعبوں کے بجائے جدید شعبوں کا انتخاب کریں جو انہیں روائیتی شعبوں کی نسب کہیں زیادہ عزت، شہرت، پیسہ اور ملازمت کا تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کے مواقع بھی مہیا کر تے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50157

ہماری قومی بھیڑ چال -پروفیسرعبدالشکورشاہ

ہماری قومی بھیڑ چال -پروفیسرعبدالشکورشاہ

2005میں ترکی کے مشرقی صوبہ ”وان“ کے پہاڑی علاقے ”گیواز“ میں گلہ بان اپنی بھیڑوں کے گلے کو آزاد چھوڑ کر ناشتہ کررہے تھے کہ انہیں اچانک بھیڑوں کے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔چرواہے جیسے ہی آواز کی سمت گئے تو انہوں نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بھیڑیں ایک ایک کرکے اونچی پہاڑی کے کونے سے نیچے کود رہی ہیں اور یہ کام بغیر کسی دھکم پیل کے ہورہا تھا۔ لگ بھگ 1500 بھیڑوں نے آنا ًفاناً یہ کام سرانجام دیا، جن میں سے سب سے پہلے کودنے والی تقریباً 450بھیڑیں مرگئیں، جبکہ باقی بھیڑیں مرنے والی بھیڑوں پر کودنے کے باعث صرف زخمی ہوئیں۔ماہرین ابھی تک بھیڑوں کی اس اجتماعی خودکشی کی گتھی سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔بحثیت قوم ہم بھی اکثر معاملات میں ایسی ہی بھیڑ چال چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

ہمارے تعلیمی فیصلے بھی بھیڑ چال کی طرح ہوتے۔ جس شعبے کی تعلیم خاندان کے زیادہ تر افراد نے حاصل کی ہوتی عمومی طور پر وہ اپنے بچوں کو بھی اسی شعبے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے گھرانوں والے محلے یا علاقے میں موجود بھیڑ چال کی پیروی کرتے اور بعد میں پتہ چلتا جو تعلیم انہوں نے حاصل کی وہ ان کا معاشی بوجھ برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ پاکستانی طلبہ پر کی جانی والی تحقیق کے مطابق زیادہ تر طلبہ بھیڑ چال کی بنیاد پر کسی پروگرام میں داخلہ لے لیتے۔طلبہ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے منتخب کردہ پروگرمات میں ہی داخلہ لیتے۔بھیڑ چال کی وجہ سے چند پروگرامات میں داخلوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اور یوں لگتا ہے اس پروگرام کے علاوہ باقی تمام پروگرامات بے کار ہیں۔

اگر ماضی قریب کی مثال لیں میڈیکل، انجیئرنگ، کمپیوٹر اور کامرس کے پروگرامات میں طلبہ سیلاب کے ریلے کی طرح آئے اور اب بے روزگار پھر رہے۔ ہم ملازمت کے معاملے میں بھی یہی بھیڑ چال چلتے۔ سرکاری نوکری کے خمار نے ہمیں مدہوش کر دیا ہے۔ ہماری پہلی کوشش ہوتی کہ سفارش یا رشوت سے سرکاری نوکری مل جائے۔ سرکاری نوکری کی بھیڑ چال نے ہمیں فنی تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم تعلیم سے مراد ہنر کے بجائے یونیورسٹیوں سے ملنے والی ڈگریاں لیتے۔بھیڑ چال کو دیکھتے ہوئے جتنے طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لیتے اگر یہ فنی تعلیم یا ہنر سیکھ لیں تو بے روزگاری ا نتہائی کم ہو جائیں۔ ترقی یافتہ ممالک مثلا امریکہ، چین، جاباپان وغیرہ میں سرکاری ملازمت سے کہیں زیادہ شرح ہنر مند اور کاروباری افراد کی ہے۔ اعلی تعلیم میں بھی ہماری یونیورسٹیاں بھیڑ چال پر کاربند ہیں۔ کسی ایک پروگرام کا پاکستان کی سبھی یونیورسٹیوں کا نصاب اٹھا کر موازنہ کر لیں تو سوائے دو تین مضامین کے سارا نصاب ایک جیسا ہے۔یہی حال ہمارے امتحانی نظام کا بھی ہے۔

سارے بورڈ ز کا پیپر پیڑن دیکھ لیں معمولی فرق کے علاوہ سب بھیڑ چال ہے۔ ہمارا تدریسی نظام بھی بھیڑ چال کی طرح چلتا۔ جس نے جیسے پڑھا ہوا ویسے ہی پڑھائے گا تا کہ بھیڑ چال کی عادت ختم نہ ہو جائے۔ سیاست میں بھی ہم بھیڑ چال کے قائل ہیں۔ جس پارٹی کی ہوا چلی سب اپنے ووٹوں کی پتنگیں بنا کر اس سمت دوڑ پڑتے اور کچھ عرصے بعد رونا رونا شروع کر دیتے۔ سیاسی بھیڑ چال کی سب سے بڑی مثال گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے الیکشن میں ملتی۔ وفاق میں جس کی حکومت ہوتی جی بی اور آزاد کشمیر کی عوام دہائیوں سے بھیڑ چال کی طرح اسی پارٹی کو ووٹ دیتی آئی ہے۔ہم اتنا بھی نہیں سوچتے کے آزادکشمیر الیکشن کے کتنے عرصے بعد پاکستان کے الیکشن ہونے اور اگر وفاق میں موجود پارٹی دوبارہ حکومت نہ بنا پائی تو ہمارا کیا بنے گا کالیا؟مذہبی معاملات میں بھی ہم بھیڑ چال چلتے اور جنونیت اور اندھی تقلید میں ملک قوم کاناقابل تلافی  نقصان کر دیتے۔

بھیڑ چال چلنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے امریکہ، برطانیہ، انڈیا، فرانس اور اسرائیل کاغصہ آپ سرکاری و عوامی املاک پر نہ نکالیں۔ مگرہم اندھی تقلید اور جنونیت میں سب کچھ بھول جاتے۔ ہم نئے شعبوں کی طرف جانے کے لیے نہ تو تیار ہوتے ہیں او ر نہ ہی کسی کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک عظیم میں ویسے بھی تجزیہ کار،تبصرہ نگار، مشیر اور طبیب تھوک کے حساب سے موجود ہیں۔ دینی واعظوں میں بھیڑ چال کے نتیجے میں لوگ جمعہ کے خطبے سے چند منٹ پہلے مسجد جاتے اورسلام پھیرنے کے بعد ایسے بھاگتے جیسے قید سے آزاد ہوئے ہوں۔ سالہا سال سے وہی پرانی تقریریں، وہی باتیں نہ تحقیق نہ جدید اسلوب، نہ سائنسی بنیادوں پر تشریح، نہ جدید تقاضے کے مطابق امثال۔ ہم کپڑوں کی خریداری میں بھی بھیڑ چال چلتے جسے ہم فیشن کا نام دے دیتے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہم بھیڑ چال چلتے اور اسے ہم ٹرینڈ کا نام دے دیتے۔

ہم نے کبھی نہیں سوچا ہم جس بھیڑ چال میں شامل ہو رہے ہیں یا ہمیں شامل کیا جا رہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اس کی تحقیق اور ثبوت کے بنا ء ہی جدھر گئی ایک بھیڑ سب بھیڑیں اس کے پیچھے۔ ہم کھانے پینے، پیری مریدی اور طبعی علاج معالجے میں بھی بھیڑ چال کے قائل ہیں۔ہم ڈراموں، فلموں اور ٹی وی پروگرامات کے انتخاب میں بھی بھیڑ چال پر کاربند رہتے۔ ارتغرل کی تازہ ترین مثال آپ کے سامنے ہے تقریبا ساری قوم ہی ارتغرل دیکھنے لگ گئی۔حتی کے دور دراز دیہاتوں میں جہاں پورے گاوں میں ایک ڈش ٹی وی ہے وہاں پورا گاوں جمع ہو کر ارتغرل دیکھتے۔ ہم نے یہ نہیں سوچا ساری قوم ارتغرل کے پیچھے کیوں پڑی ہوئی؟ جی ہاں اس کا جواب بھی بھیڑ چال ہے۔ ہمارے سارے ڈرامے بھیڑ چال دیکھ کر بنائے جاتے ان میں کوئی نئی جہت متعارف نہیں کروائی جاتی۔ یہی حال ہمارے ٹی پروگرامات اور شوز کا ہے جو پروگرام یا شو کسی ایک چینل پر کامیاب ہو جاتا سبھی اس کی نقل بنانا شروع کر دیتے۔

ہم اپنے روز مرہ معاملات میں بھی بھیڑ چال پر کاربند ہیں۔ اگر کسی کوئی بڑا عہدہ مل جائے تو وہ بھیڑ چال کی وجہ سے اپنے سے نیچے شخص کو اپنا غلام سمجھنے لگ جاتا۔ یہ بھیڑ چال اب ہمارے گلے کی زنجیر بن چکی ہے اور ہم اس کے بغیر رہ نہیں پاتے۔ بھیڑ چال کو ہم صرف اپنے آپ تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اگلی نسل تک منتقل کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اس بھیڑ چال کی وجہ سے آدھی نسل ٹک ٹاک پر مصروف ہے، باقی انسٹا گرام، واٹسپ، یوٹیوب، فیسبک وغیرہ سے چپکی ہوی ہے۔ بھیڑ چال کی وجہ سے ہم پر سرمایہ دار، جاگیر دار اورموروثی سیاستدان مسلط ہیں کیونکہ ہم سیاست پر ان وڈیروں، لٹیروں اور بدعنوانوں کی جگہ پڑھے لکھے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ساری قوم بھیڑ چال کی وجہ سے آج تک تین یا چار سیاسی جماعتوں کے گرد چکر لگا لگا کر چکرا گئی ہے مگر قوم آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں آج سے دہائیاں پہلے کھڑی تھی۔ بھیڑ چال سے الگ ہونے والے کو ہم بیوقوف اور پاگل قرار دیتے ہیں۔ بھیڑ چال سے کوئی نئی جہت لانا ممکن نہیں ہے۔ لہروں کے ساتھ زندہ لاشیں بہتی ہیں، کچھ کر دکھانے والے لہروں کی مخالف سمت تیرنے کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔جب تک ہم بھیڑ چال کو ترک کرتے ہوئے نئی جہتوں کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے تب تک ہم مصائب کے اس بھنور سے نہیں نکل سکتے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
50088

آزادکشمیر الیکشن اور ممکنہ حکومت سازی۔۔۔۔پروفیسرعبدالشکورشاہ

آزادکشمیر الیکشن اور ممکنہ حکومت سازی۔۔۔۔پروفیسرعبدالشکورشاہ

آزادکشمیر میں الیکشن کی گہما گہمی عروج پر ہے۔ عجب جمہوریت کی غضب کہانی کچھ یوں ہے،ہم ملک میں الگ الگ الیکشن کروا کر پہلے ہی رائے عامہ ہموار کر لیتے ہیں۔پاکستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بیک وقت الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے وفاق میں برسراقتدار پارٹی ہی گلگ بلتستان اور آزادکشمیر میں حکومت بناتی رہی ہے۔آزادکشمیر کی سیاست زیادہ تر وفاق اور برادری ازم کے گرد گھومتی ہے۔اسی لیے پی ٹی آئی آزادکشمیر کوجماعت مضبوط کرنے کے لیے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی ضرورت پیش آئی۔پی ٹی آئی کی طرح دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی برادری ازم اور موروثیت کی ان مٹ چھاپ موجود ہے۔ آزاد کشمیراسمبلی کی کل 45سیٹوں میں سے 33آزادکشمیر میں ہیں اوررجسٹرڈ ووٹر ز کی تعداد2.28ملین ہے جس میں 1.29ملین خواتین ووٹر شامل ہیں۔ باقی ماندہ 12سیٹیں پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی ہیں اوررجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد430,456ہے جس میں 170,931خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ پاکستان میں مقیم کشمیری سیٹیں حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر تی ہیں۔

آزادکشمیر میں پرانے چہرے ہی پارٹیاں بدل کرآتے رہتے ہیں۔ان میں سے اکثر چہرے ہر حکومت میں نظر آتے ہیں۔راتوں رات وفاداریاں بدلنے والے ارکان بھی ممکنہ حکومت کا سگنل سمجھے جاتے ہیں۔آزادکشمیر کے سیاستدان اور عوام دونوں حد درجہ نظریاتی ہیں۔یہ نظریہ ضرورت کا بھر پور استعمال کر تے ہوئے ممکنہ حکومت بنانے والی پارٹی کو بھانپ لیتے اور پارٹیاں، وفاداریاں اور وابستگیاں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔آزادکشمیر الیکشن میں بنیادی طور پر مقابلہ تین بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں ہے۔ کشمیر کا الیکشن بھی گلگت بلتستان سے مختلف قطعا نہیں ہو گا کیونکہ یہاں بھی وفاق وہی حربے استعمال کر رہا ہے جو جی بی کے الیکشن میں استعمال کیے گئے۔ حکومتی وزراء نہ صرف انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ سیاسی نورا کشتی بھی اپنے عروج پر ہے۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی انتخابی مہم پی ٹی آئی پاکستان کی ناکامی اور آزادکشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے جنتر منتر کے گرد گھومتی ہے۔ واحد بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس ریاست تو درکنار سیاست بچانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردارعتیق اپنی سیٹ بچانے کے لیے عمران خان صاحب سے اتحاد کرنے دوڑ پڑے مگراتحاد کو الیکشن کے بعد کی پوزیشن سے مشروط کر دیاگیا۔ مسلم کانفرنس پی ٹی آئی سے یکطرفہ اور زبردستی اتحاد کے نعرے سے شائد ایک دو سیٹیں بچا پائے اس سے زیادہ تو کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ ریاستی پارٹی کے انتخابی نشان گھوڑے کو پی ٹی آئی کے بلے کی ٹانگیں لگا کر چلانے کی بے سود کوشش کی جارہی ہے۔ برسراقتدار مسلم لیگ ن نے بھی وفاق کی وجہ سے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اب راجہ فاروق حیدر صاحب کے وفاق سے شکوے غیر منطقی ہیں۔

مسلم لیگ ن پی ٹی آئی پر لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈینگ کے الزامات لگاتی ہے جبکہ ن لیگ کو بھی ایم سی اور پیپلز پارٹی توڑ کر بنایا گیا تھا۔ ن لیگ وفاق میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ممکنہ حکومت کے اردگرد بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ دوسری وجہ راجہ فاروق حیدر صاحب کی وفاق پر مسلسل سیاسی گولہ باری اور کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی باتیں ہیں۔ تیسری وجہ ن لیگ پاکستان کی طرح آزادکشمیر میں پی ڈی ایم طرز کا کے ڈی ایم(کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ) بنانے میں بھی کامیاب نہیں ہو ئی۔ اگر ن لیگ کے ڈی ایم بنانے اور چلانے میں کامیاب ہو جاتی تو پی ٹی آئی کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔چوتھی وجہ پاکستان میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی اندرونی طور پر ملی ہوئی ہیں جبکہ آزادکشمیر میں صورتحال اس کے بلکل برعکس ہے۔2016کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے ن لیگ سے اتحاد کر کے دو مخصوص نشستیں حاصل کیں۔ یہ جماعت اسلامی کی سیاسی کامیابی اور نظریاتی ناکامی تھی۔

اس بار جماعت اسلامی بھی اپنے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو آج تک نہ تو پاکستانی سیاست کی سمجھ آئی ہے اور نہ ہی آزادکشمیر کی۔اگرچہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں اتحاد کی چے مہ گوئیاں بھی کی جارہی ہیں مگر اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ حکومت بنانے کے لیے شائد پی ٹی آئی کو کسی اتحاد کی ضرورت پیش نہ آئے۔ فرض کر یں اگر ایسا ہوبھی جاتا ہے تو یہ ضرورت آزاد امیدوار اور نام نہاد ریاستی جماعت مسلم کانفرنس پوری کر دیں گے۔ مسلم کانفرنس تو اقتدار کے لیے عمران خان کی ملنگنی بنی پھرتی ہے۔ ن لیگ کے لیے حکومت میں آنے کا امکان اسی صورت بن سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی طرز پر پیپلز پارٹی سے یا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کو رام کرلے اور دونوں اندرونی طور پر ملکر حکومت بناتے ہوئے پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر کر دیں۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں پارٹیا ں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ سیٹیں حاصل کر پائیں۔ البتہ مسلم کانفرنس تو برسراقتدار پارٹی کے ساتھ ہی ملے گی وہ چاہیے کوئی بھی ہو۔ پاکستان میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی اندرونی ملی بھگت سے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ دونوں پارٹیاں ملکر حکومت بنا لیں۔اس کی ایک ٹھوس وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کے امیدواران کو توڑنے کے بجائے ہاتھ دھو کر ن لیگ کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔

زیادہ تر لیگی تبدیلی کو پیارے ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید قربانیاں بھی متوقع ہیں۔ ن لیگ نے بعض حلقوں میں انتہائی غیر معروف اور کمزور امیدوران کو ٹکٹ دیے ہیں جس سے امکان ہے پس پردہ کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ طے ہو چکی ہے۔ مثلا وادی نیلم لوئر حلقے سے سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر سے ٹکٹ واپس لے کر ایک غیر معروف امیدوار کو جاری کیا گیا۔ ا پی ڈی ایم کی مفاد پرستیوں نے گلگت بلتستان کا الیکشن معمولی مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیا۔ حکومت تو جی بی میں بھی ن لیگ کی تھی مگر اس کے باوجود الیکشن نہ جیت سکی۔اگرچہ پی ٹی آئی نے جی بی کی طرح آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کا نعرہ تو نہیں لگایا مگر وفاق کی جانب سے فنڈز کی فراہمی اور تعطلی کی بنیاد پر مہم چلائی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان بھی آزادکشمیر کا حصہ ہے اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی مقاصد کے لیے آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی مخالفت کر رہے ہیں تو پھر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اپنے اعلانات کیا منافقانہ نہیں ہیں۔

عوامی سطح پر اس بات کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے اگر کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دے کر جتوایا گیااوراس کی پارٹی حکومت نہ بنا سکی تو وی جیتنے کے باوجود بھی ہار جائے گا اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے گا۔پی ٹی آئی میں بھی پاکستان طرز کی گروپ بندی موجود ہے۔ بیرسٹر اور سردار گروپس میں سیاسی رسہ کشی جاری ہے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے بعض حلقوں میں ٹکٹ تبدیل کیے ہیں جس کا فائدہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اٹھا سکتی ہیں۔بعض حلقوں میں ناراض ارکان نے کاغذات نامزدگی واپس نہیں لیے اگر وہ پارٹی سے بغاوت کر کے آزاد لڑتے ہیں جس کا امکان بہت کم ہے تو اس کا فائدہ یقینا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ہوگا۔سیاست،کھیل اور جنگ کے بارے جیت یا ہار سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہوتا ہے تاہم مقامی سیاسی لحاظ سے پی ٹی آئی حکومت بناتی نظر آرہی ہے۔ دوسر ا امکان پیپلز پارٹی کا ہے جبکہ ن لیگ تیسرنمبر پر ہے جو شائد چند سیٹیں تو لینے میں کامیاب ہو جائے مگر حکومت بناتی دکھائی نہیں دیتی۔ عوامی سطح پر وفاق میں برسراقتدار پارٹی کو فوقیت دی جاتی ہے تاکہ فنڈز جاری ہونے میں دقت پیش نہ آئے۔ اگر وفاق میں حکومت نہ ہوتی تو ستر سالہ میڑک پاس سیاستدانوں کے سامنے اعلی تعلیم یافتہ نوجون ہاتھ باندھے کھڑے نہ ہوتے۔ اگرچہ آزادکشمیر میں آزاد الیکشن لڑنا فیشن سمجھا جاتا ہے تاہم آزاد یا چھوٹی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ سے جیتنے والا امیدوار بھی اپوزیشن کے بجائے حکومتی پارٹی کے ساتھ شامل ہونے کو ترجیح دے گا۔   

flag kashmir Pakistan

آزادکشمیر الیکشن

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
49949

عوام،سیاست اور سیاسی لسانیات….پروفیسرعبدالشکورشاہ

     

زبان کے بغیر کسی سیاسی سرگرمی کا تصور بھی ممکن نہیں۔زبان اور سیاست کا باہمی تعلق سیاسی لسانیات کہلاتاہے۔سیاستدان عوام کے سامنے اپنا منشوراپنی ساکھ بچانے اور انہیں قائل کرنے کے لیے بڑی مہارت سے پیش کر تے ہیں۔ سیاسی لسانیات سیاست میں ترغیب دینے اور حکمرانی کرنے کا ایک ہتھیار ہے۔ سماجی راست گوئی کے لیے زبان صاف شفاف اور غیر جانبدار نہیں ہے۔ ہم عام طور پر پوشیدہ معانی کے بجائے سطحی معانی تک محدودرہتے ہیں۔ سیاسی لسانیات عام طور پرمخفی مقاصدکے عیاں ہونے تک پر کشش مگر نقصان دہ ہوتی ہے۔ یہ عوامی فہم و فراست پر اثر انداز ہوتی ہے۔

عوامی جذبات کی ترجمانی اوراظہارکے لیے اہم سرکاری اور نجی تقریبات کی تقاریر بڑی مہارت سے تیار کی جاتی ہیں۔سیاسی لسانیات عوامی حمایت اور ناپسندیدگی دونوں کا سبب بنتی ہے۔ سیاستدان چاہیے عوامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر تقریر کریں، وہ اقتدار کا حصہ ہوں یا اپوزیشن میں، ہر صورت زبان کو گھما پھیرا کر استعمال کر تے ہیں۔ سیاستدان سیاسی لسانیات کو اپنی سیاست چمکانے، اقتدار کو طوالت دینے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر تے ہیں۔گھریلو معاملات سے لیکر عالمی مسائل تک ہر جگہ سیاسی لسانیت کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم سیاست میں یہ بہت مقبول ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ سیاستدان عوام کواس کے زریعے سدھاتے ہیں۔ عوام کو بندر اور بکری والا تماشہ دکھاتے،

نوٹ کی جگہ ووٹ بٹورتے اور رفو چکر ہو جاتے۔پانچھ سال کے لیے ووٹ ہضم کھیل ختم۔دہائیوں سے ہم دھوکہ کھانے کے بعد بھی پانچھ سال بعد پھر سے تماش بینی کا شوق پورا کرنے حاضر ہو جاتے۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار بوب ڈول نے ’میں‘،’آپ‘ اور’وہ‘ کے ضمائر کثرت سے استعمال کیے جبکہ کلنٹن نے ان کے بجائے اسم ضمیر ’ہم‘ کابھر پور استعمال کیا اورلیکشن جیت گیا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ اپنی تقاریر میں ’میرے خیال میں‘،’میں نہیں کرسکتا‘، جیسے الفاظ کا استعمال19%جبکہ رومنے نے یہی استعمال 38%کیا۔صدر باراک اوبامہ اپنی اکثر تقاریر میں ’یقین کے ساتھ‘ ’نہیں کریں گے‘ اور ’نہیں ہو گا‘ جیسے جملوں کااستعمال15%جبکہ رومنے یہی استعمال31%کرتے تھے۔

اوبامہ نے معاون افعال کا استعمال36%جبکہ رومنے نے ان کااستعمال 56%کیا۔ ان معاون افعال میں سے دونوں امیدواران نے معاون فعل cannot کا ریکارڈاستعمال کیا۔ اسم ضمیر ’میں‘اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی مقرر انفرادی حیثیت میں بات کر تا ہے جبکہ نمائندگی ظاہر کرنے کے لیے ’ہم‘ اسم ضمیر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسم ضمیر ’ہم‘ سے مشترکہ ذمہ داری کا سہارا لیتے ہوئے سیاستدان اپنے کندھوں سے بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسم ضمیر ’میں‘ کا استعمال دیگر مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا ہے مثلا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے،اپنا مثبت کردار اور رویہ ظاہر کرنے، سامعین کے ساتھ تعلق کوتقویت دینے، ذاتی کاوش اور وفائے عہد کے اظہار اور اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

فاعلی اور مفعولی اسم ضمائر کے استعمال میں بہت فرق ہے اور یہ بعض اوقات مختلف نظریات کی ترجمانی کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔عموما ’ہم‘ مقرر اور سامعین کے درمیان اچھے تعلقات کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ’جمع وہ‘ اپنی ذات اور دوسروں کو الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔’2016کے امریکی انتخابات میں ’میں اور ہم‘ ضمائر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے زیادہ استعمال کیے۔ان ضمائر کا بہت زیادہ استعمال ہمیں بعد میں ٹرمپ کی پالیسیوں میں پوری طرح نظر آیا جن کے زریعے انہوں نے سفید فارم کو باقی طبقات کے سامنے لا کھڑا کیا۔ سیاستدانوں سے عوامی شکوے دراصل سیاسی لسانیات کی کم فہمی کی وجہ سے ہیں۔ مقامی، قومی اور عالمی زبان میں سیاسی تقریر کے الگ الگ معانی اور مقاصد ہوتے۔ اول الذکرعوام اور سیاستدان میں فاصلہ کم کر تی ہے جبکہ ثانی الذکر فاصلے کو بڑھاتی ہے۔شروع کے روائیتی جملے عوامی جذبات اور موقعہ کی مناسبت سے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سیاسی پس منظر میں خاموشی بہت اہم محرک ہے۔ سیاسی تقریر کے دوران خاموشی سامعین کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاسی تقرریں پارٹی ایجنڈے کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اسم ضمیر ’ہم‘ کے زریعے مقرر اپنے آپ کو عوام ہی میں سے ظاہر کرنے کی کوشش کر تا ہے مگر سامعین کے لیے اکثر یہ ضمائر مبہم بن کر رہ جاتے ہیں۔وہ فرق نہیں کر سکتے ’ہم ’سے مراد پارٹی، عوام، اپوزیشن یا حکومت میں سے کون ہے۔ سامعین عام طور پر ’ہم‘ کومقرر کی ذات تصور کر تے ہیں۔عام آدمی کو پتہ بھی نہیں چلتا سیاستدان کیسے اسم ضمائر کا سہارا لیتے ہوئے اپنے کندھوں سے ذمہ داری اتار دیتے ہیں اور عوام ان کی اس چال کا باآسانی شکار ہو جاتی ہے۔ ’اسم ضمائر ہمارا، ہمارے، کا استعمال ’ہم‘ سے قدرے مختلف ہے۔ یہ ’ہم‘ کے برعکس ملکیت یا صلاحیت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسم ضمیر ’میں‘ کا استعمال شخصی یا انفرادی طاقت، مرتبے یا نمائندگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اسم ضمیر ’آپ، تم‘عام عوام کو مخاطب کر نے کے لیے استعما ل کیا جاتا ہے بعض اوقات یہ عزت و تکریم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ضمائر کے زریعے سیاستدان عوام میں ایک طرف یک جہتی پیدا کرنے کی کوشش کر تے ہیں جبکہ دوسرے جانب انہیں سیاسی چال کے زریعے رام کر لیتے ہیں۔لفظی معانی کے اعتبار سے مقرر اور اس کے مقاصد کو اس کی آواز کے اتار چڑھاو، الفاظ کے بار بار دہرانے، اور الفاظ کے انتخاب سے باآسانی پہچانا جاسکتا ہے۔ سیاستدان سامعین کی توجہ معاملے کی نزاکت سے ہٹانے کیلیے مختلف الفاظ کا استعمال کر تے ہیں۔ الفاظ کے اس جال کے زریعے وہ عوامی جذبات کو قابو کر کے ان کے احساسات کا استعمال کرتے ہیں۔ لفظی استعمال کی مہارت کے زریعے وہ عوام کو سطحی معانی تک محدود رکھ کر موضوع کو سمیٹ لیتے ہیں یا اپنے مقصد کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سیاستدان موضوع بدلنے میں بھی ماہر ہوتے وہ فورا ایک موضوع کو دوسرے سے ملا کر موضوع تبدیل کر لیتے۔ جملوں میں بلواسطہ اور بلاواسطہ کے ساتھ فعال اور غیر فعال جملوں کے زریعے عوام کو الفاظ تک محدودرکھ کر اپنے مقاصد کو پوشید ہ رکھتے ہوئے بنیادی نقطہ سے دو لے جاتے ہیں۔

سیاسی لوگ درجہ بندی کا حربہ استعمال کرتے ہوئے مختلف طبقات میں فاصلے بڑھا دیتے ہیں۔ وضعیت، امدادی افعال، اسم صفت او ر معاون افعال کے زریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے میں کامیاب ہوجاتے۔ مقرر کی اشاراتی زبان، چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات، تقریر میں تسلسل یا رکاوٹ سے بھی اس کی امیدوں اور توقعات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔دوران گفتگو یا تقریر الفاظ کے تسلسل کا ٹوٹنا، غیر ضروری وقفوں کا استعمال، الفاظ، حرکات اور تاثرات میں عدم مماثلت عوامی اور ذاتی ترجیحات کو واضع کر دیتے ہیں۔ بدقستمی سے عام آدمی سیاسی لسانیات کی ان بھول بھلیوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے اندر ہی گھومتا رہتا ہے۔

سیاسی لسانیات لوگوں کے رویوں، سوچنے کے انداز اور فکر و نظر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ غریبوں کو سیاسی لسانیات کے ٹوکے سے سیاست کی قربان گاہ پر قربان کر دیا جا تا ہے۔جب سیاسی لسانیات کو عوامی پس منظر میں ڈھالا جاتا ہے تو یہ سیاستدانوں اور عوام دونوں پر گہر اثرات مرتب کرتی ہے۔روائیتی سیاسی لسانیات سننے اور بولنے میں سہانی ہے مگر یہ اپنی اصل صورت میں بہت مہلک اور نقصان دہ ہے۔یہ ایک سراب کی طرح ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہے جس کے زریعے سیاستدان جھوٹے وعدوں کو سچا ثابت کرواتے اور ایک بار پھر جھوٹے وعدے کر کے ووٹ لے جاتے اور ہم بس منہ دیکھتے رہ جاتے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
49647