پرنس کریم آغاخان کا چھیاسٹھ سالہ دورِ امامت کے ثمرات – تحریر: سردار علی سردارؔ
پرنس کریم آغاخان کا چھیاسٹھ سالہ دورِ امامت کے ثمرات – تحریر: سردار علی سردارؔ
سر سلطان محمد شاہ آغاخان سوئم کی خواہش تھی کہ اُن کا پوتا شہزادہ کریم جو دورِ جدید میں پلا بڑھاہے اُن کاجانشین ہو۔ اس لئے انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ “ہمارا یقین ہے کہ یہ شیعہ مسلم اسماعیلی جماعت کے بہترین مفاد میں ہوگاکہ ہمارا جانشین ایک نوجوان آدمی ہوجس نے حالیہ سالوں کے دوران اور جدید دور میں پرورش پائی ہواور ہوش سنبھالا ہواور جو اپنے منصب میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدید نقطہء نظر لائے”۔ ( تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ ص 166 )
پرنس کریم آغاخان جب سے مسندِ امامت پر متمکن ہوئے ہیں اُسی وقت سے وہ ایک فکری سوچ اور ایک مضبوط وژن کے ساتھ سرگرمِ عمل رہے اور وہ اپنے دادا جان کی وصیت کو پوراکرکے دکھایا ہے۔ آپ کے دور میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں جو سائنسی اور ٹیکنالوجی کی انقلاب کی صورت میں دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکی ہیں اور جس کے نتیجے میں جدید اور روایتی طرز زندگی میں ایک تصادم پیدا ہوگیا ہےمگر آپ نے اس تصادم کا حل سائنسی ترقی سے بھر پور استفادہ بتایا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ جدید علوم سے فیض یاب ہوں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
پرنس کریم آغاخان کی انسانیت کی خدمت کا جزبہ اُن کے تقاریروں، خطبوں اور ارشادات سے واضح ہے۔ آپ جس ملک میں بھی تشریف لے گئےاور جن جن لوگوں سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں ہیں مسلمانوں کی اجتماعی فلاح و بہبود اور انسانیت کی خدمت کو اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے اور اسے اپنا فرض سمجھا ہے۔ ڈاکٹر فرہاد دفتری اپنی کتاب ” اسماعیلی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ ” میں رقمطراز ہیں ” آغاخان چہارم نے افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں اپنے مریدوں کے علاوہ غیر اسماعیلی آبادیوں کے لئے بھی سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی فوائد کی بہت سی نئی پالیسیوں ، پروگراموں اور منصوبوں کا آغاذ کیا ہے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنے جدِ امجد کی رکھی ہوئی بنیاد کو آگے بڑھایا ہےاور اداروں کا ایک پیچیدہ جال معرضِ وجود میں لائے ہیں جسے عام طور پر دی آغاخان ڈیویلپمنت نیت ورک (AKDN)کہا جاتا ہے ۔اے ۔کے ۔ڈی ۔این ۔ سماجی ، اقتصادی اور ثقافتیترقی سے تعلق رکھنے والے منصوبوں پر عملدرآمد کرتا ہے اور اپنی غیر منافع بخش سرگرمیوں پر سالانہ اوسطاَ ایک سو ملین امریکی ڈالر صرف کرتا ہے”۔
آپ نے تحتِ امامت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد کئی ملکوں کے سربراہوں سے ملے اور اُن کو اپنے وژن سے آگاہ کیا۔آپ نے امریکہ کے صدر جان کنیڈی سے ملے تھے ، فرانس کے صدر ڈیگال اور دوسرے سربراہوں سے بھی ملے تھے ۔ ہندوستان کے جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان اور افریقہ کے صدر جوموکنیاٹا وغیرہ سے ملے۔ وہ جس سے بھی ملے ترقی پزیر ملکوں کے اندر غربت، افلاس اور بیماری کے خلاف جہاد کرنے کی منصوبہ بندی کی اور اسلامی ملکوں کی اقتصادی ، معاشرتی اور سماجی صورتِ حال سے خبردار کراتے رہے۔ آپ نے اچھی طرح محسوس کرلیا تھا کہ مسلمانوں کی بدحالی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ جدید تعلیم سے بے خبر ہیں ۔ چنانچہ آپ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اپنی کوششیں شروع کردیں اور اس کام کے لئے اپنی زندگی وقف کی۔ دنیا میں جہاں کہیں سے بھی تعلیم کے کسی شعبے میں کوئی بھی ادارہ دعوت دیتا خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی اس کی مدد کرنے کے لئے اپنے طیارے میں سفر کرکے پہنچ جاتے۔
آپ نے اپنے دورِ امامت میں بہت سے نمایاں کام انجام دیئے جن میں آغاخان یونیورسٹی اور ہسپتال ہے جس کے وجود میں آنے سے پاکستان کا وقار عالمی طور پر بلند ہوا ۔ اس یونیورسٹی کی سنگِ بنیاد 4 فروری 1971 ء کو صدر پاکستان جنرل یحیٰ خان نے رکھا تھا ۔1985 ء کو جب آغاخان یونیورسٹی بن گئی تو پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاالحق نے پرنس کریم کی معیت میں اس یونیورسٹی کا باقائدہ افتتاح فرمایا اور اس اہم موقعے پر صدر پاکستان نےپرنس کریم آغاخان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایک خوبصورت جملہ کہا جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہوچکا ہے۔” کہ ہز ہائی نس پرنس کریم آغاخان ایک بہت ہی پرکشش پھول کی مانند ہیں جس میں بہت زیادہ خوشبو ہے اور اس خوشبو کو حاصل کرنے کے لئے کئی شہد کی مکھیاں اُن کے گرد منڈلارہی ہیں”۔
(دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ ، سید آصف جاہ جعفری ص 149 )
اس یونیورسٹی کا بنیادی مقصد صحت سے متعلق پیشہ وروں کی تعلیم میں قیادت فراہم کرنا اور پرائمری ہیلتھ کئیر سینٹرز کے ذریعے ضرورت مند لوگوں کی صحتی خدمات مہیا کرنا ہے۔ اور اس کے علاوہ یہ یونیورسٹی جدید دور میں ایمان کی قوت اور اسلامی روایات سے لیس ہوکر مستقبل کے چیلنیز کا مقابلہ کرےگی ۔آج کل اس ہسپتال میں کئی ماہرین بیماروں کی صحت یابی کے لئے شب وروز کام کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ آغاخان ہیلتھ سروس پاکستان شروع سے ہی پاکستان کے اندر شہری اور دہی علاقوں میں ماں اور بچے کی صحت پر بنیادی توجہ برقرار رکھنے کے لئے سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد ماں اور بچے کی صحت اور ابتدائی صحتِ عامہ کے میدان میں اپنی بہترین خدمات پیش کرنا ہے جو حکومت پاکستان کے ساتھ ایک قسم کی مدد اور تعاون بھی ہے۔صحت کی نگہداشت کے حوالے سے توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسی سہولیات مہیا کی جائیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں عدم تحفظ کے شکار طبقے تک رسائی حاصل ہو خاص طور پر حاملہ اور چھوٹے بچّے جنہیں کم قیمت پر طبی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔آج کل شمالی علاقہ جات اور چترال میں مرکزی اور دہی علاقوں میں زچہ و بچہ کی بہتر نگہداشت کے لئے آغاخان میڈیکل سنٹرز اپنی خدمات انجام دیتے ہیں جہاں انسانیت کی بہتر خدمت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ہیلتھ ایجوکیشن بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ خود صفائی کا خیال رکھتے ہوئے اپنی صحت کی خود حفاظت کریں۔
پرنس کریم آغاخان کی انسانیت کی خدمت کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ آپ نے معاشرے سے غربت کو دور کرنے اور معاشی استحکام کے لئے 1967 ء میں آغاخان فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ۔ یہ ادارہ غیر جماعتی بنیادوں پر کام کررہا ہے جس کا مقصد معاشی، صحتی اور اقتصادی منصوبوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا ہے ۔ اسی ادارے نے ذات پات، رنگ ، نسل سے بلاتر ہوکر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے پاکستان کے دہی علاقوں خصوصاَ شمالی علاقہ جات اور چترال میں نمایان کام انجام دیا ہے جس میں بنجر زمینوں کی آباد کاری، ہائیڈل پاور پروجیکٹ، سیفن ایریگشن ، سڑکیں، پل اور دیگر ترقیاتی کام شامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے عظیم لوگ آپ کی انہیں خدمات کا ہرجگہ تہہ دل سے معترف ہیں ۔ جیسا کہ شندور فیسٹول 2023 ء کے مہمانِ خصوصی کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے اپنے خطاب میں پرنس کریم آغاخان کی خدمات کا خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے یوں فرمایا ” میں یہاں پر ہز ہائنس پرنس کریم آغاخان اور اے کے ار ایس پی کو بھی داد دینا چاہتا ہوں جنہوں نے اس علاقے میں کام کیا ہے” ۔
آج پرنس کریم آغاخان کا یومِ امامت ہے جس میں آپ نے اپنے چھیاسٹھ سالہ دورِ امامت میں اپنا زیادہ تر وقت علم کے فروع میں صرف کیا ہے اور آپ نے اپنے دادا جان کی وصیت کے مطابق جیسا کہ آپ نے فرمایاتھا ” کہ ہمارے دادا جان نے اپنی زندگی امامت اور اسلام کے لئے وقف کردی تھی ۔ یہ دونوں اُن کے لئے اولین اور سب سے بلاتر تھے ۔ اُن کے آخری مہینے میں جو ہم نے اُن کے ساتھ گزارا اور دوسرے کئی اوقات میں ہمیں اُن کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ اُن کی رہنمائی اور حکمت ہمارے لئے کافی مددگار ثابت ہوگی”۔ عالمِ انسانیت اور خصوصاَ عالمِ اسلام کے بہتر مفاد کے لئے اپنی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ذاتی تکلیف اٹھا کر انسانیت کی خدمت کی اور کبھی کسی ایک فرقے کو ترجیح نہیں دی بلکہ سب کو یکسان سمجھا اور ہرفرقے کا احترام کیا کیونکہ آپ کے مزاج میں ہمدردانہ اور فیاضانہ جزبہ ہمیشہ کارفرما رہا ہے ۔ہز ہائی نس پرنس کریم آغاخان کئی دہائیوں سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تعلیم ، صحت اور دیگر کئی شعبوں میں انسانیت کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔
آپ اپنے دورِ امامت کے چھ عشروں میں پاکستان کے علاوہ دوسرے کئی ممالک میں بھی تکلیف آنے کی صورت میں جیسے سیلاب، زلزلہ اور کورونا وائرس کے مشکل اوقات میں کئی جانیں بچائیں اور لوگوں کی اپنے اداروں کے ذریعے مدد کی۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق آغاخان چہارم کی جانب سے دو سو پچاس ملین یورو جو پاکستان کرنسی ریٹ کے مطابق بیالیس ارب اکیانوے کروڑ بہاسٹھ لاکھ تریانوے ہزار پانج سو روپے بنتے ہیں پرتگال ہیڈکوارٹرز میں یہ رقم کورونا وائرس کی ادویات اور روک تھام کے لئے بطورِ عطیہ دیا گیا ۔گویا آپ اپنی زندگی میں اسماعیلی جماعت کے بحیثیت امام اور پوری انسانیت کے لئے تین اہم ذمہ داریاں کما حقہ نبھاتے آرہے ہیں جیسا کہ0 201ء میںایک انگریز صحافی Richard Engel نے جب امام سے انٹرویو لیااور پوچھاWhat’s the role of Aga Khan today?
تو آپؑ نے فرمایا بحیثیت امام میرے پاس تین ذمہ داریاں ہیں ۔
Security of people, Interpretation of Faith and Quality of life.
یعنی میرا کام لوگوں کی زندگی کی حفاظت کرنا ، دین کی تشریح کرنا اور لوگوں کو بہتر زندگی کی سہولیات مہیا کرنا۔
یہ حقیقت ہے کہ پرنس کریم آغآخان اپنے اس وعدے کے مطابق عالمِ انسانیت کی خوشحالی اور فلاح وبہبود کے لئے پاکستان کے دہی علاقوں میں لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔جیسا کہ ماضی میں وسائل کی کمی کی وجہ سے شمالی علاقہ جات اور چترال جیسے دور افتادہ علاقوں کی جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی تھی ۔ اس وجہ سے یہ علاقے پاسماندگی کا شکار ہوئے تھے۔ آپ نے شمالی علاقہ جات اور چترال میں آغاخان ایجوکیشن سروسز کے ذریعے تعلیم کا جال بچھا یا ۔ ان علاقوں میں تعلیمی منصوبے نسل و مذہب کے امتیاز و تفریق کے بغیر ہر فرد کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات زیورِ تعلیم سے مستفیض ہورہے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ اکسوین صدی کے اس برق رفتار دنیا میں آغاخان ہائر سکنڈری اسکولز صلاحیت اور قابیلیت کی بنیاد پر اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں جہاں سے فارع التحصیل طلبہ و طالبات دنیا کے عظیم یونیورسٹیوں میں سکالرشیپ کی بنیاد پر داخلہ لیکر تعلیم کے فروع میں اعلیٰ کارکردگی دیکھا رہے ہیں اور یہ سب کچھ شہزادہ کریم کی اپنے اباواجداد کی طرح علم سے دوستی ، محبت اور انسانیت کی بہترین خدمت کے لئے اُن کا با مقصد وژن ہے۔ کیا خوب فرمایا حکیم ناصر خسرو نے :
معزول شر دو چیزِ جہاں از دو چیزِ تو
از علم و جہالت و از جودِ تو مطال۔
ترجمہ: آپ کی دو چیزوں کے طفیل دنیا کی دو چیزیں معزول ہوچکی ہیں یعنی آپ کے علم سے دنیا سے جہالت چلی گئی ہے اور آپ کی سخاوت سے غربت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
مختصر یہ کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آپ نے انسانیت کی خدمت کے لئے اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔آپ نے سب کو لیکر آگے بڑھنے کا فلسفہ دیا ہے اور آپ نے دین و دنیا دونوں میں کامیابی کے لئے کوشش کی ہے یہی اُن کی زندگی کا فلسفہ ہے اور امامت کا وژن ہے۔