26 ویں آئینی ترمیم اور جمہور – ڈاکٹر زین اللہ خٹک
26 ویں آئینی ترمیم اور جمہور – ڈاکٹر زین اللہ خٹک
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم پر بحث ہو رہی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے حق اور مخالفت میں لفظی گولہ باری جاری ہے لیکن عوام کو نہ اس مسودے کا پتہ ہے اور نہ عوام کو اعتماد میں لیا گیا ہے ۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں حکومتیں مجوزہ ترامیم کو انٹرنیٹ کے ذریعے جمہور کے ساتھ شئیر کرتی ہیں ۔ تاکہ عوام اپنی آراء دے ۔ کیونکہ جمہوریت میں پارلیمنٹ کا کام عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کرنا ہے ۔لیکن پاکستانی جمہور کو کجا ،خود ممبران پارلیمنٹ کو بھی پتہ نہیں کہ کیا ترامیم ہونے جارہی ہے ۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اے کے مطابق جمہور کا حق ہے کہ وہ باخبر ہو آئینی ترمیم کے مسودے کو جمہور کے ساتھ شئیر کیجئے جس طرح اٹھارویں ترمیم کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ایک مہینے کا وقت دیا تھا کہ وہ اپنے تجاویز بیجھے۔
اسی طرح 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کو بھی عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ جمہور بھی اپنی آراء شامل کریں۔ایم این ایز کا چاہے جس پارٹی سے بھی تعلق ہو حکومت یا اپوزیشن سے کیا وہ پڑھے سمجھے بغیر اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے ؟ کیا وہ اس آئینی ترمیم کے مسودے پر بحث نہیں کریں گے ؟ کیا وہ ان ترامیم میں مزید گنجائش پر بات نہیں کریں گے ؟ کیا وہ عوام کے بہتر مفاد میں آئین میں تبدیلی/ ترمیم کا حق نہیں رکھتے ؟ آنکھیں بند کرکے آئین میں ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ جمہوری ملک ہے ۔ پارلیمنٹ کا کام عوام کے بہتر مفاد میں آئین سازی کرنا ہے ۔ لیکن کسی طاقت کے اشارے پر آنکھیں بند کرکے ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ نہ پاکستان اور نہ ہی جمہوریت کے لئے نیک شگون ہوگا ۔ اس مجوزہ ترامیم میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرکے فیڈرل کورٹ قائم کرنے کی تجویز زیر غور ہے ۔ شائد آپ کو یاد ہوگا جب پرویز مشرف جیسے طاقتور حکمران نے ایمرجنسی کے دوران چیف جسٹس ڈوگر کے ساتھ ملکر سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی تو ساری سیاسی جماعتوں، وکلاء اور جمہوریت پسند عوام نے ان کی کوششوں کو ناکام بنادیا تھا ۔
ایک دفعہ پھر طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ وہ عدلیہ کو مکمل کنٹرول کریں کیونکہ باقی ادارے تو کنٹرول میں ہے اس فسطائیت کے دور میں عدلیہ کا کردار آزادانہ رہا ۔ اس لیے 26 ویں آئینی ترمیم میں آزاد عدلیہ کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔ آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سے مقدمات کی منتقلی سے صوبائی ہائی کورٹس کی آزادی مجروح ہوگی ۔یہ آزاد عدلیہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہوگی ۔ جو یقیناً جمہور کو پسند نہیں ۔ ان مجوزہ ترامیم سے آئین پاکستان کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے کئی موقعوں پر اکثریتی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے ۔کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کی آزادی ہے لیکن آئین کے بنیادی خدوخال کی خلاف ورزی میں کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی ۔ آئین پاکستان کے بنیادی خدوخال سے متصادم کوئی ترمیم نہیں لائی جاسکتی ہے ۔ جس سے آئین پاکستان کی شکل بدل جائے ۔ یہ سوال بار بار جمہور کی طرف سے اٹھایا جاچکا ہے ۔ لیکن طاقتور اسٹیبلشمنٹ آئینی ترمیم پر بضد ہے ۔ کیا 26 ویں آئینی ترمیم سے عوام کے مسائل حل ہوں گے ؟ کیا ان مجوزہ ترامیم میں عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی ترمیم شامل ہیں ؟ کیا آئینی ترمیم سے عوام کو انصاف کی فراہمی میں مدد مل جائے گی ؟ کیا آئینی ترمیم سے نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا ؟ کیا مجوزہ ترامیم سے عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف ملے گا ؟ کیا مجوزہ ترامیم سے لاکھوں بچوں کو تعلیم کی سہولت مل جائے گی ؟
اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یہ ترامیم ذاتی مفادات کے حصول اور اقتدار پر قبضہ کی کوشیش ہے ۔یہ صرف سیاسی مقاصد کے لیے آئین میں تبدیلی کا پروگرام ہے ۔ اگر یہ مقصد نہیں تو پھر کیوں پارلیمنٹ میں آج تک 26 ویں آئینی ترمیم پیش نہ کرسکے ۔ جہاں اس پر کم از کم دو ماہ تک بحث ومباحثہ ہو جائے تو سارے عوامل کھل کر سامنے آجائیں گے ۔ پھر چور دروازے سے ترمیم کرنے کا تاثر بھی ختم ہو جائے گا ۔