Chitral Times

ویران بستی ۔ تحریر۔عبدالباقی

ویران بستی ۔ تحریر۔عبدالباقی

کسی جنگل میں کبوتر اور کبوتری کی ایک جوڑی رہتی تھی۔ایک روزانہوں دسرے جنگل میں رشتہ داروں کے پاس جانے کا ارادہ کیا۔اگلے روز وہ صبح سویرے سفر کا اغاز کیا کئی گھنٹوں کے مسلسل سفر کے بعد جنگل میں ان کو ایک سر سبزو شاداب درخت دیکھائی دیا۔تو انہوں نے کچھ دیر درخت کے شاخ پر ارام کرنے کا فیصلہ کیا اور دونوں نے درخت کے شاخ پر بیٹھ گیا۔اور ادھر اودھر نظر دوڑائی تو کبوتر کو قریب ہی ایک خوبصورت بستی پر نظر پڑی بستی میں ہر قسم کی سہولتیں پختہ سڑکیں بلندو بالا عمارتیں بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبے دیکھائی دے رہے تھے۔کافی دیر بستی کا جائزہ لین کےبعد کبوتر کو کہیں بھی انسانی سرگرمیاں نظر نہیں ائی۔تووہ حیراں ہوکر کبوتری سے اس کا اظہار کیا تو کبوتری نے کہا کہ پرانے زمانے کے لوگ کہا کرتے تھے کہ جہاں الو زیادہ ہوتے ہیں وہ بستیاں ویراں ہوجاتی ہیں۔

 

 

یہ باتیں ہو رہی تھی کہ اچانک ایک الو اکر ان کے پاس بیٹھ گیا کبوتری شرمندہ ہوکر سوچنے لگی کہ شاید الو نے ہماری بات چیت سن لی ہو الو نے ان کے حال احوال دریافت کیے اور جنگل کی خوبیوں اور خامیوں سے انہیں اگاہ کیا۔کچھ ہی دیر ارام کے بعد کبوتر نے الو سے کہا کہ ہم دوبارہ سفر پر روانہ ہورہے ہیں زندگی رہی تو ایندہ دوبارہ ملاقات ہوگی تو الو نے کہا ٹھیک ہے تم جاسکتے ہوں لیکن میں کبوتری کو تمہارے ساتھ نہیں جانے دونگا کیونکہ کبوتری میری بیوی ہے توکبوتر حیران ہوکر کہا کہ کبوتری تیری بیوی کیسی ہو سکتی ہے یہ تمہارے نسل سے تعلق نہیں رکھتے ہیں تم میری بچوں کی ماں کو مجھ سے چھینا چاہتی ہو کبوتر اور الو کے درمیاں جھگڑا شروغ ہوا تو الو نے غصے میں اکر کبوتر سے کہا جنگل کے اس حصے میں میری پوری برادری رہتی ہے اگر میں ان ایک اواز دونگا تو وہ ساری یہاں اکر تمہارے بال نوچکر تمہیں کھا جائیں گے لیکن تم مسافر ہو مجھے تم پر رحم اتا ہے

 

اس لیے میں برادری کو بولانے کی بجائے تم کو قریبی بستی میں ایک قاضی رہتا ہے ان کے پاس جانےک مشوارہ دے رہاہو تاکہ ہمارے اپس کے تعلوقات خوشگوار رہیں قاضی تنازعات کا فوری اور منصفانہ فیصلہ کرتا ہے لہزا قاضی جو بھی فیصلہ کرے گا وہ ہم دونوں کے لیے قابل قبول ہوگا ۔کبوتر کچھ دیر سوچنے کے بعد الو کے مشوارے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کبوتر کو یقین تھا کہ فیصلہ میرے حق میں ائے گا مسافر ہونے کی وجہ سے الو میرے ساتھ زیادتی کررہا ہے چنانچہ دونوں قاضی کے دربار میں حاضر ہوے الو نے سارے حالات وواقعات قاضی کے سامنے بیاں کر دیا تو قاضی نے کبوتر سے پوچھا کہ تم کہاں رہتے ہو اور کہاں جارہے ہو تو کبوتر نے کہا کہ میں دوردراز جنگل میں رہتا ہوں اج اینی بیوی کے ہمراہ دوسرے جنگل میں رشتہ داروں سے ملنے جاریے تھے ۔

 

ہم مسلسل سفر کرکے تھک گئے تھے تو کچھ دیر کے لیے درخت کے شاخ پر ارام کررہے تھے تو الو یہاں اکر میری بیوی پر دعوی کرنے لگا ہے ان کو میرے ساتھ جانے نہیں دے رہی ہے میں مسافر ہو اس لیے لڑائی جھگڑے سے بچنے کے لیے اپ کے دربار عالیہ میں حاضر ہوا ہوں مجھے امید ہے کہ اپ انصاف پر مبنی فیصلہ فرمائیں گے۔قاضی نے دونوں طرف فریقین کے دلائیل سنے کے بعد اپنے دل میں سوچا کہ کبوتر کے باتیں تو درست ہیں فیصلہ اس کے حق میں ہونا چائیے مگر وہ مسافر ہے جند منٹوں میں یہاں سے چلاجائیےگا جب کہ الو اس بستی کے اس پاس رہتے ہیں اس لہاظ سے وہ ہمارا پڑوسی بنتے ہیں ۔یہ سوچکر قاضی کچھ ہی دیر بعد الو کے حق میں اپنا فیصلہ سنادیا اور فیصلہ پر عمل درامد نہ ہونے کی صورت میں سخت ترین سزا دینے کا حکم دیا قاضی کا فیصلہ سن کر کبوتر پریشان ہوکر کبوتری کے پاس ایا اور قاضی کے فیصلہ سے انہیں اگاہ کیا دونوں جدائی کے غم میں خوب روئے اخر کار کبوتر نے کبوتری کو الوداع کہ کر اڑنے کا ارادہ کیا تو الو نے کبوتر سے کہا کہ اپ اپنے بیوی کو بھی ساتھ لے جاو تو کبوتر حیران ہوکر الو سے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ قاضی نے تمہارے حق میں فیصلہ دیا ہے تو الو نے کبوتر سے کہا میرا یہاں انے سے چند لمحے قبل اپ اپس میں جو باتیں کررہے تھے وہ میں نے سن لیا تھا کہ تمہاری بیوی کہ رہی تھی کہ جہاں الو زیادہ ہوتے ہیں تو وہ بستیاں ویران ہوجاتے ہیں۔

 

میں یہ بات اپ کو سمجھانے کے لیے قاضی صاحب کے پاس لے گئے تھے کہ بستیاں الوں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتی بلکہ نظام انصاف کی ایسے فیصلوں کی وجہ سے بستیاں ویران ہوتی ہیں اور ملک اور قومیں تباہی و بربادی سے دوچار ہوتی ہیں۔ہمارے ملک بھی نظام انصاف کے ایسے فیصلوں سے بھرے پڑے ہیں اس ملک میں نظام انصاف کا دہرا معیار ہے معاشرے کے طاقتوار افراد کے لیے قانون الگ ہے اور کمزوروں کے لیے قانون الگ ہے معاشرے کے کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص عدالت کے کسی فیصلے پر تنقید کرے تو اسے فوری طور پر توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عدالت میں پیش ہوکر معافی مانگنے پر بھی معافی نہیں ملتی ہے فوری طور پر سزا دے کر جھیل بھجدیا جاتا ہے جب کہ طاقتوار طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بر سر عام توہین عدالت کرے تو اسے نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کی جاتی ہے نظام انصاف کی ایسے فیصلوں کی وجہ سے اس وقت ملک سیاسی معاشی اور ائینی بحراں کی لپیٹ میں اگیا ہے اور اس کی سزا پچیس کروڑ عوام کو بگھتنا پڑ رہا ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92430