Chitral Times

ووٹ کو عزت دو…………محمد شریف شکیب

Posted on

ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا کہنا ہے کہ وہ میاں نوا ز شریف کے ساتھ جنت میں بھی نہیں جائیں گے۔ دنیا میں ان کے ساتھ شراکت اقتدار یا مفاہمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ زرداری کو جنت میں جانے کا یقین ہے مگر وہ میاں صاحب کو اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتے یا پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں جی نے جنت جانے کا اپنا راستہ صاف کردیا ہے۔ لیکن وہ لاکھ اصرار بھی کریں تو وہ اس کے ہمراہ جنت جانا پسند نہیں کریں گے۔سیاست بھی بہت عجیب چیز ہے۔ کل تک وہ بڑا بھائی اور یہ اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ ان میں بڑا کون اور چھوٹا کون ہے یہ ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ زرداری کو شکایت تھی کہ میاں برادران کو ہمیشہ مشکل وقت میں مفاہمت کا خیال آتا ہے جب مشکل وقت گذر جائے تو وہ شہنشاہ بن جاتے ہیں۔حالانکہ یہ انسان کی جبلت ہے کہ جب برا وقت آتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے اور مدد کا طلب گار ہوتا ہے ۔برا وقت ٹل جائے تو پھر اپنی اصلیت دکھانے لگتا ہے۔ آج کل میاں برادران واقعی مشکل میں ہیں۔ بڑے میاں صاحب کا تازہ بیان آیا ہے کہ نجانے دس بیس دنوں کے اندر ان کا کیا بنے گا؟ وہ کہاں ہوں گے۔ لیکن جہاں بھی ہوں گے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے۔ ( اس پر بے ساختہ گانے کے وہ بول یاد آنے لگے کہ ’’جب ہم جواں ہوں گے جانے کہاں ہوں گے‘‘انہوں نے اپنے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چھوٹے میاں اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز سے سوال کیا۔ کہ کیا وہ آزادانہ طور پر کام کرسکتے ہیں۔انہوں نے شکوہ کیا کہ جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے تو حکومت کے خلاف سازشیں شروع ہوتی ہیں اور ملک ترقی معکوس کی طرف چلا جاتا ہے۔ اب تک اس ملک میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے جبکہ پڑوسی ملک میں کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا نہیں ہوا۔انہوں نے سیاست دانوں کو مشورہ دیا کہ سب کو مل کر ملک کو جمہوریت کے راستے سے ہٹانے والوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔تحریک انصاف نے بڑے میاں کے موقف کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اقتدار کی کرسی جب بھی ہلنے لگتی ہے تو انہیں ملک اور جمہوریت خطرے میں نظر آتی ہے۔ جب اقتدار کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں تو ہواوں میں آڑنے لگ جاتے ہیں۔ہوش ٹھکانے آنے پر انہیں ملک اور قوم کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ مرکز میں برسراقتدار جماعت کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔انہوں نے بیک وقت دو نئے محاذ کھول رکھے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ کیونکہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے کسی کو بھی گھاس نہیں ڈالی۔ جب اولے پڑنے لگے تو سیاسی حلقوں سے گلے شکوے کرنے لگے۔ کہ ووٹ کو عزت دلانے کے لئے وہ ساتھ نہیں دے رہے۔ جو غیر جمہوری عمل ہے۔ ووٹ کو عزت دینے والی بات پر ایک دو نہیں۔ سینکڑوں سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن اس سے انکار نہیں کہ جب تک سیاسی جماعتیں اور ملک کی مقتدر قوتیں ووٹ کو عزت نہیں دیں گی۔ ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہوسکتیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ساری جماعتیں جمہوریت کو مستحکم ، قومی معیشت کو مضبوط، دفاع کو ناقابل تسخیراور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کو اپنے منشور کی ترجیحات قرار دیتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے مینار پاکستان میں اپنی جماعت کے گیارہ نکاتی منشور کا اعلان کیا ہے۔ کم و بیش یہی نعرہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا بھی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب منشور کے بیشتر نکات ایک جیسے ہیں تو سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملک کو ترقی دینے ، عوام کو خوشحال بنانے اور ووٹ کی عزت بحال کرنے کی منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتیں۔عوام اپنے لیڈروں کے اعلانات، بیانات، وعدوں اور دعووں سے اکتا چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ صرف تیس سے پنتیس فیصد لوگ ہی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے باہر نکلتے یا نکالے جاتے ہیں۔ ستر فیصد عوام ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن جاتے ہی نہیں۔ اگر سیاسی اور جمہوری نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنے میں سیاسی قوتیں مخلص ہیں توپچاس فیصد رائے دہندگان کو ہی پولنگ اسٹیشن لے آئیں۔ تو ہم بھی مانیں گے کہ ہمارے لیڈر ووٹ کا احترام کرتے ہیں اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔آپ نے اب تک عوام کو ووٹ کی اہمیت کا احساس ہی نہیں دلایا۔ووٹ ڈلوائیں اس کی عزت خود بخود بنے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , ,
9398