Chitral Times

نامردوں کا معاشرہ – میری بات: روہیل اکبر

Posted on

نامردوں کا معاشرہ – میری بات: روہیل اکبر

جب سے گلگت بلتستان سے آیا ہوں تب سے وہاں کے حالات کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہاہوں خاص کر قراقرم بارڈر سیکورٹی فورس کے بارے میں جو سخت سردی میں معمولی لباس پہنے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں جبکہ انکے مقابلہ میں چین کی سیکیورٹی فورس کے پاس ہیٹر والے کپڑوں سمیت دنیا بھر کی نعمتیں موجود ہیں خنجراب پاس پر بارڈر کی لکیر پار کرتے ہی ایک الگ دنیا محسوس ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں اس پر تفصیل پھر لکھوں گا پہلے ایک ایسی خوبصورت تحریرجس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا آپکی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے اور گھر گھر کی کہانی محسوس ہوتی ہے ایک وکیل دوست کا قصہ ہے آپ بھی پڑھیں اور پھر اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا ہم واقعی نامرد ہیں۔

 

میرا شوہر نامرد ہے اور مجھے خلع چاہیے وہ نکاح ختم کروانے کا عام سا کیس تھا اچھی پڑھی لکھی فیملی تھی دو پیارے سے بچے تھے کیوٹ اور معصوم سے لیکن خاتون بضد تھی کہ اسکو ہر حال میں خلع چاہیے جبکہ میرا موکل یعنی کہ (شوہر) شدید صدمے کی کیفیت میں تھا جج صاحب بھی پورا کیس سنتے وقت کبھی حیرانی سے شوہر کو دیکھتے اور کبھی اس کی بیوی کو تو کبھی ان کے ساتھ کھڑے دو بچوں کو جج صاحب اچھے آدمی تھے انہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لے جا کر صلح کی کوشش کرلیں شاید بات بن جائے (شوہر) کا وکیل ہونے کے ناطے مجھے تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں بحثیت وکیل یہ کیس ہار رہا تھا میں نے فوری حامی بھر لی جبکہ مدعیہ (بیوی) کے وکیل نے اس پر اچھا خاصہ ہنگامہ بھی کیا لیکن خاتون بات چیت کے لئیے راضی ہوگئی چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے ہاں خاتون! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے؟ وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہیں اور نامرد ہیں میں اسکی بے باکی پر حیران رہ گیا میرے منہ سے ایک موٹی سی گندی سی گالی نکلتے نکلتے رہ گئی البتہ منہ میں تو دے ہی ڈالی ویسے تو کچہری میں زیادہ تر بے باک خواتین سے ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن اس خاتون کی کچھ بات ہی الگ تھی

 

اسکے شوہر نے ایک نظر اس پر ڈالی اور میری طرف امداد طلب نظروں سے گھورنے لگا میں تھوڑا سا جھلا گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے دو بچوں کی ماں ہو کر بھی اپنے شوہر کو نامرد کہہ رہی ہے بہرحال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شروع کر دیے کیا تمہارا اپنے شوہر سے گزارہ نہیں ہوتا؟تو وہ بیوی کہنے لگی ماشاء اللہ دو بچے ہیں ہمارے یہ جسمانی طور پہ تو بالکل ٹھیک ہیں مگر پھر بھی نامرد ہیں مجھے اس کی بات سے حیرت کا جھٹکا لگا کہ بچے بھی ہیں اور نامرد بھی یہ کیسے ہو سکتا ہے عجیب عورت ہے تو بی بی پھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہوئے؟وکیل صاحب! صرف ازدواجی زندگی سے اولاد ہو جائے یہ ہی مردانگی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی ایسی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں میاں بیوی کے درمیان جس پر بیوی مرد سے مطمئن نہیں ہو پاتی اور مرد نا مرد ہی رہتا ہے مجھے اس عورت کی منطق کسی بھی طرح سمجھ نہیں آئی تھی حیرت تھی کہ وہ فقط مطمئن نہ ہونے پر کس طرح سے اپنے مرد کی عزت یوں کورٹ کچہری میں اچھال رہی ہے یہ معاملہ تو ان دونوں کے مابین بھی حل ہو سکتا تھامیں نے اک نظر اٹھا کر اس کے شوہر کو دیکھاجس کے چہرے پر اپنا سچ کھل جانے کا خوف لاحق تھا

 

آپ کو اگر خدا نے اولاد سے نواز رکھا ہے بی بی اور اگر یہ جسمانی طور پر بھی ٹھیک ہیں تو اگر آپ کو ان سب کے باوجود کسی دشواری کا سامنا ہے تو آپ ڈاکٹر سے رابطہ کر سکتی تھی یوں کورٹ کچہری آنا اس معاملے کا حل نہ تھا میں نے غصے پر قابو کرتے جواب دیا۔ان کی کمزوری کسی بھی ڈاکٹر سے دور نہ ہو سکتی تھی وکیل صاحب تبھی مجھے یہ راہ چننی پڑی عجب عورت تھی اک تو انتہا کی بے باکی اوپر سے کمال کا اعتماد اور وجہ ایسی کہ کوئی اور ہوتا تو شرم سے ڈوب مرتا جانے یہ کیسی عورت تھی اس کا حلیہ اس کی باتوں سے زرا نہ ملتا تھا مگر ہر کسی کے ماتھے پر تھوڑا ہی لکھا ہوتا ہے کہ باطن بھی ظاہر جیسا ہے بی بی ہر مسلے کا حل ہوتا ہے مجھے اب اس عورت پر غصہ آنے لگا تھا اور اس کے شوہر پر ترس میں آپ کو ایک اچھے ڈاکٹر کا پتہ دیتا ہوں آپ وہاں جائیں سب بہتر ہو گا جہالت کی ضد میں آ کر گھر نہ توڑیں میں نے اپنے غصے کو پس پشت ڈالتے اپنے فیملی ڈاکٹر کا ایڈریس دینے کا کہا جو کہ مردانہ کمزوری کا ماہر مانا جاتا تھا اور اپنی طرف سے ہر حد کوشش کر کے اس جاہل عورت کو اس اقدام سے روکنا چاہا۔نہیں وکیل صاحب کبھی نہیں میں ان کا علاج کراناتو دور ایسے مرد کے ساتھ اک منٹ نہیں رہوں گی جانے وہ عورت کیوں اتنی ضد کر رہی تھی جب آپ کی اولاد ہے تو پھر یہ بیماری اتنی بھی بڑی بیماری نہیں جانے آپ نے اس بیماری کو کیوں وجہ بنا رکھا ہے

 

اب کی بار میرا ضبط جواب دینے لگا تھا بیماری ہے وکیل صاحب بیماری ہے اب کی بار وہ بھی دبا دبا چلائی تھی اگر ہے تو وضاحت کر دیں پھر اگر وہ بے باک تھی اتنی تو اصل مدعے تک پہنچنے میں پھر میں نے بھی اپنی شرم اک طرف رکھی دی مگر جب وہ بولی تو مجھے حیرت اور شرمندگی کے غوطے آنا شروع ہوگئے صرف بچے پیدا کرنا ہی مردانگی نہیں ہوتی وکیل صاحب میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں پورا گاؤں کہتا ہے کہ ان جیسا مرد کبھی نہیں دیکھا ماشاء اللہ گبھرو، بااخلاق اور انتہائی مدد کرنے والے انسان ہیں ہمیشہ دوسروں کی بہو بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھا ہم دو بہنیں ہیں اور میرے والد نے ہمیں کبھی” دھی رانی” سے کم بلایا ہی نہیں جبکہ میرے شوہر مجھے” کتی ” کہہ کے بلاتے ہیں یہ کونسی مردانہ صفت ہے وکیل صاحب؟ اب بتائیں مرد میرے باپ جیسا شخص ہوا یا یہ کتی کہنے والا؟مجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہوجائے تو یہ میرے پورے میکے کو ننگی ننگی گالیاں دیتے ہیں؟ آپ ہی بتائیں کہ اس میں میرے مائیکے کا کیا قصور ہے یہ مردانہ صفت تو نہیں نا کہ دوسروں کے گھر والوں کو گالی دی جائے وکیل صاحب! میرے بابا مجھے شہزادی کہتے ہیں اور یہ غصے میں مجھے ” کنجری” کہتے ہیں

 

وکیل صاحب! مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پکارتے ہیں یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نہ؟وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں؟میرا تو سر شرم سے جھک گیا تھا اس کا شوہر بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسکی طرف دیکھ رہا تھامیری اس سوچ کو وہ عورت واقع ہی سچ ثابت کر گئی تھی کہ ضروری نہیں جیسا باطن ہو ویسا ہی ظاہر بھی ہو اگر یہی مسئلہ تھا تو تم مجھے بتا سکتی تھیں نا مجھ پر اس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟شوہر منمنایا آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کو گالیاں اور بازاری عرتوں کے ساتھ ناجائز رشتے جوڑتے ہیں تو میں خوش ہوتی ہوں؟ اتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدد برداشت کر رہی ہوں اس کا کون حساب دے گا؟جب آپ میری بہن اور ماں کو اتنی گندی گندی گالیاں اور باتیں کرتے ہیں آپ کیا جانیں میرے دل پر کیا گزرتی ہے لیکن ہر چیز کی حد ہوتی اب مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوتابیوی کا پارہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھاخیر جیسے تیسے منت سماجت کر کے سمجھا بجھا کے انکی صلح کروائی میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے اب ان کے گھر میں سکون ہے چھوٹے موٹے مسائل تو گھروں میں آتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے گھر پہلے والے حالات نہیں ہیں جب یہ واقعہ ہوا تو میں کافی دیر تک وہیں چیمبر میں سوچ بچار کرتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اس خاتون کو اس کے پہلے جواب پر دل ہی دل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہوں اور ہمارا معاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
92679