موسم بہار یا موسم آزمائش ۔ میر سیما آ مان
موسم بہار یا موسم آزمائش ۔ میر سیما آ مان
مارچ اپریل کا مہینہ پورے ملک سمیت چترال میں بھی بہار کا موسم تصور کیا جاتا ہے ۔چار ماہ کی اعصاب کو منجمد کرنے والی سردیوں کے بعد بہار کا پیغام لاکھوں تھکے ہوئے آعصاب کو اس خیال سے سکون دیتا ہے کہ چلو اب سردی کی لہر میں کمی آ ئیگی نامناسب موسم کے باعث رکے ہوئے روزگار دوبارہ بحال ہونگے ۔شجر کاری کا آ غا ز ہوگا گھر کے برآمدوں میں نت نئے پھول أگیں گے۔بہار کے فیسٹولز ماحول کو رونق بخشیں گے ۔ برف کی طرح منجمد تھکے ہوئے آعصاب کو تھوڑی راحت دیں گے۔لیکن یہ کیا بہار کی آمد تو پچھلے دو سالوں سے پورے ملک کے لیے بالعموم اور چترال جیسے علاقوں کے لیے بالخصوص موسم آ ذمائش بنتا آ رہا ہے ۔اس بار کی بارشوں اور بے وقت کی برف باری نے غریبوں بے بسوں مجبوروں کچے مکانات تو ایک طرف محلوں کا بھی نقشہ بگاڑ دیا ہے ۔
قصہ مختصر یہ کہ ایک شخص جسکے پاس مال و دولت ہو وہ اپنی زندگی میں سہولت کی ہر چیز خرید لیتا ہے حتیٰ کے مرنے پر اپنے پیچھے کروڑوں کی میراث چھوڑ جاتا ہے لیکن اسی ایک شخص کی جب اللہ صحت چھین لیتا ہے تو وہ اربوں کی مالیت کی جائداد بیچ کر بھی اپنے لیے نہ صحت خرید سکتا ہے نہ ہی اپنی موت روک پاتا ہے ۔ بلکل یہی صورتحال اسوقت ہماری ہے ۔ وقت نے تھوڑی ہی صحیح لیکن ترقی کی ہے۔اج ہمارے پاس ہر طرح کی مشینری موجود ہے ہمارا ایڈمنسٹر یشین سسٹم بہت بہتر ہوچکا ہے ۔ برف پڑے ملبے گریں بجلی چلی جائے ۔۔۔انتظامیہ چند گھنٹوں کے اندر روڈز کلیئر کروادیتی ہے ۔ملبے ہٹادیے جاتے ہیں ۔بجلی بحال ہو جاتی ہے ۔چند سالوں پہلے کی طرح نہ کہیں کہیں دن شب دیجور میں رہنا پڑتا ہے نہ کہیں کہیں مہینے دوسرے اظلاع سے کٹ آ ف رہنا پڑتا ہے ۔نہ اشیاء خوردونوش کی کوئی قلت ہوتی ہے حتیٰ کہ جن کو مالی نقصانات کا سامنا ہو وہ بھی بھر دیے جاتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہمارے پاس ایسا کوئی بھی سسٹم نہیں ہے جو قدرتی آ فات کو روک سکے ۔
نہ ہی ایسا کوئی سسٹم کبھی بن سکتا ہے جو ہمیں کسی بھی طرح قدرتی آ فات سے بچا سکے ۔تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں کہ آ خر کیا وجہ ہے کہ موسم بہار آزمائش بنتا جارہا ہے تو موسم گرما موسم سیلاب بن کے ڈراتا ہے خزاں جب آتا ہے تو بے وقت کی باریشیں کھڑی فصلوں کو تباہ کر کے ہماری تدبیروں پر قہقہے لگاتا ہے ۔۔ شائد وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی گریبانوں پر جھانک بھی لیں اور تسلیم بھی کر لیں کہ ہم سے غلطی کہاں پر ہوئی ہے اور اسکا تدراک کیا ہے یا اسکا خمیازہ بھگتنے کا ہم میں کتنا دم ہے ۔ انتہائی مختصراً میں صرف اتنا کہوں گی کہ جب ہماری زبانوں پر لا الہ الااللہ ہو دلوں میں بغض رشتوں میں منافقت ،مذہب میں ریا کاری اور جھوٹ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہو جائے تو ہمیں بے وقت کی آ ذمائشوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔ بے شک اکیسویں صدی کا باسی ہونے کے باعث قدرتی آ فات کو نیچرل سورسز کی کاروائی بھی سمجھا جائے لیکن بحیثیت مسلمان اگر کہ ہم مسلمان ہیں تو اس بات کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ قدرتی آ فات اس بات کی یاد دہانی کے لیے بھی آ تی ہیں کہ ایک ذات ایسی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔
کیونکہ خود اللہ کا فرمان ہے کہ والذین یمکرون الیست لھم عذاب الشدید یعننی جو لوگ بری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے ۔۔ اسلئے ہمیں اپنے اعمال کی پردہ پوشی کے بجائے انھیں تسلیم کرنا ہوگا اگر مسلمان ہیں تو اپنی طرز زندگی کو واقعی اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور مجھے یہ کہنے اور لکھنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اسوقت ہمارے درمیان کوئی بھی صاحب ایمان نہیں ہے ہم میں سے کسی کا بھی قبلہ درست نہیں ہے کسی کی بھی زندگی حقیقی معنوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے ۔ ہم سب صرف نام کے مسلمان ہیں جنکی تعریف میں اوپر کر چکی ہوں ۔ بقول اقبال ۔
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ۔۔۔دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔