مخصوص نشستوں کے کیسز میں فیصلے پر عمل نہ ہوا تو سنگین نتائج برآمد ہونگے، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو تنبیہ
مخصوص نشستوں کے کیسز میں فیصلے پر عمل نہ ہوا تو سنگین نتائج برآمد ہونگے، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو تنبیہ
اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں عمل درآمد نہ ہونے اور الیکشن کمیشن کی متقرق درخواست کو تاخیری حربہ قرار دے دیا اور کہا ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ دینے والے آٹھ اکثریتی ججز نے وضاحتی بیان جاری کردیا جس میں انہوں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے۔چار صفحات پر مشتمل وضاحتی بیان میں ججز نے لکھا ہے کہ انتخابی نشانہ نہ ہونے کے باعث سیاسی جماعت کا آ ئینی و قانونی اختیار ختم نہیں کیا جاسکتا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے اس نے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں، مخصوص نشستوں کے کیسز میں فیصلے پر عمل نہ ہوا تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججوں کی وضاحت جاری
اسلام آباد(سی ایم لنکس)مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے 8 ججز نے وضاحت جاری کردی۔سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواستوں پر 8 رکنی بینچ نے وضاحت جاری کردی ہے۔اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔8 ججز کا PTI کے حق میں فیصلہ، مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کالعدم، سپریم کورٹ کا 5-8 کے تناسب سے حکمنامہعدالت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا شارٹ آرڈر بہت واضح ہے، الیکشن کمیشن نے اس حکم کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگین نتائج ہوں گے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن بیرسٹر گوہر کو چیئرمین پی ٹی آئی اور عمر ایوب کو سیکریٹری جنرل تسلیم کرچکا۔مختصر حکم کے پیراگراف 8 میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ حاصل کردہ نشست فوراً اس سیاسی جماعت کی حاصل کردہ نشست تصور کی جائے گی، کوئی بعد کا عمل اس وقت کے متعلقہ تاریخوں پر ہونے والے معاہدے تبدیل نہیں کر سکتا، طے شدہ حیثیت کے مطابق یہ کامیاب امیدوار پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، واضح معاملہ پیچیدہ بنانے، ابہام پیدا کرنے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔
ججز کی وضاحت میں کہا گیا کہ کمیشن کے ذریعے جاری فہرست محض انتظامی عمل ہے، مقصد تمام متعلقہ افراد کو معلومات اور سہولت فراہم کرنا ہے، قانونی طور پر پابند ذمہ داری پوری کرنے میں ناکامی، انکار کے نتائج ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن ذمے داری فوری پوری کرے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشین تسلیم کر چکا ہے پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمشین کا تحریک انصاف ارکان کے سرٹیفکیٹ تسلیم نہ کرنا غلط ہے، الیکشن کمشین کو اس اقدام کے آئینی، قانونی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، سرٹیفکیٹ جمع کروانے والے تمام ارکان تحریک انصاف کے تصور ہوں گے۔فیصلے کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا، الیکشن کمیشن کی کنفیوڑن پیدا کرنے کی کوشش کو سخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے، واضح کیا جا چکا فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے الیکشن کمشین کو فیصلے پر فوری عملدرآمد کرنے کی ہدایت کر دی۔عدالت نے کہا کہ انتخابی نشان سے محرومی کسی سیاسی جماعت کے حقوق ختم نہیں کرتی، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے، انتخابات میں نشستیں بھی حاصل کیں۔یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ جاری کیا تھا۔سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) اراکین کی بنیاد پر تخلیق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن / پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر کی گئی اپیلوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔عدالت نے 5-8 ججوں کی اکثریت کے تناسب سے فیصلہ جاری کیا تھا۔