لفظوں کا انتخاب………..گل بخشالوی
انسان زبان کی دولت سے سرفراز ہے وہ زبان جو بولتی ہے لیکن ہم نے شاید ہی سوچا ہوکہ لفظ بھی بولتے ہیں ۔گفتگو انسان کی شخصیت وکردار کی شان اور نکھار ہوا کرتی ہے مطلب ہے گفتگو شخصیت کی عکاس ۔جب ہم بولتے ہیں تو مخاطب کو ہمارے الفاظ میں ہمارے اندر کے انسان کا عکس دکھائی دیتا ہے اس لےے کہ گفتگو انسان کے احساسات ،جذبات کا اُس کی زبان سے اظہار کا نام ہے ۔گفتگو میں سنہرے لفظوں کا چناﺅ ہی انسان کو عزت اور احترام سے نوازتے ہیں جبکہ نامناسب الفاظ کی ادائیگی میں انسان دوسروں کی نظر میں اپنے بلند مقام سے گرجاتا ہے اور جب انسان اپنے علم میں کسی آنکھ سے گرتا ہے تو کہیں کا نہیں رہتا اس لےے لفظوں کی حرمت کا احترام لازم ہے ۔انسان کے بہترین کردار کیلئے جہاں اُس کی ظاہری شخصیت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے وہیں اس کی شخصیت اور وقار میں اُس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو رہتی دنیا تک تاریخ کے اوراق میں امر ہوجایا کرتے ہیں وہ الفاظ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی ۔
جیسے ٹیپو سلطان کا یہ جملہ آج بھی اُس کی وجاہت کا عکاس ہے ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100سالہ زندگی سے بہتر ہے“
گفتگوسے قبل ضروری ہے کہ شعور وفکر میں سنہرے اور خوبصورت لفظوں کا ذخیرہ ہو زبان سے ادا ہونے والے لفظوں میں گلاب کی مہک ہے۔انسان کو اس حقیقت سے خبردار رہنا چاہےے کہ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس آتا ہے اورنہ زبان سے نکلے ہوئے لفظ ،دونوں ہوا ہو جاتے ہیں ۔الفاظ کے چناﺅ کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ارشد اویسی اپنی کتاب”غیر پارلیمانی الفاظ“میں لکھتے ہیں ۔
ضروری ہے کہ الفاظ کے استعمال میں اختیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہی الفاظ نہ صرف اپنا بلکہ آپ کا اعتبار بھی گنوادیں گے اور آپ کی شخصیت کا ایسا تاثر قائم ہوجائے گا کہ آپ کیلئے اپنے الفاظ تبدیل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا ۔
لفظ کی حرمت اسی میں ہے کہ لفظ کو صحیح جگہ پر صحیح معنوں میں استعمال کیا جائے اس لےے کہ آپ کے خیالات اور تصورات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں جب تک آپ کے پاس خوبصورت الفاظ نہ ہوں گے آپ اپنی تحریر میں جان پیدا نہیں کر سکیں گے اس لےے کہ الفاظ بے جان نہیں ہوا کرتے ۔لفظ کے اندر اُس کی روح اور پوری زندگی ہوتی ہے ۔لفظ بولتے وقت لفظوں کوگہرائی میں سوچنے کی ضرورت ہے اس لےے کہ بعض لفظوں کے زخم اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ اُس سے اُٹھنے والی ٹھیس قبر تک ساتھ نہیں چھوڑتی ۔لفظوں کا احترام کریں اس لےے کہ لفظ ہماری شخصیت کی پہچان ہیں ۔