Chitral Times

داد بیداد ۔ بنیا دی نکات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ بنیا دی نکات ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اخبارات میں خبر لگی ہے کہ عدالتوں کی وزیر ستان منتقلی کا کا م مو خر کر دیا گیا ہے 2010میں جب سابقہ فاٹا کو صوبے میں ضم کر نے کی بات چل نکلی تو ایک ستم ظریف نے بھری محفل میں جو ن ایلیا کا شعر سنا یا تھا نہیں بنیا د کی کوئی بنیاد یہی بابا الف کا ہے ارشاد اب معلوم ہوا کہ فاٹا کو ضم اضلا ع کا نا م دینے کے لئے دس سالوں تک جو کا م ہوا وہ بنیا دی نکا ت سے خا لی تھا مثلاً بنیادی ڈھا نچہ کس طرح قائم ہو گا، پو لیس، عدالت اور ضلعی انتظا میہ کسطرح قائم ہو گی ان پر کسی نے غور نہیں کیا تھا بنیا دی نکا ت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر ستان میں عدالتیں قائم کرنے کا کام چوتھی بار ملتوی کر دیا گیا ہے جب عدالتیں قائم ہو نگی تو عوام کو محسوس ہو گا کہ فاٹا کو اب واقعی ضم اضلا ع کہا جا تا ہے اس کی کوئی وجہ بھی تھی کوئی تبدیلی بھی نظر آنی چا ہئیے تھی

آج کے بنیادی نکا ت میں ایک نکتہ اخبارات میں قرآنی آیات چھاپنے اور چھپوانے کا ہے کوئی بھی روز نا مہ اخبار اگلے دن پرانا ہوجا تا ہے مہینہ بعد کباڑ یا اُسے اٹھا لے جا تا ہے عموماً اشتہارات ڈیزائن کرنے والے مرحوم یا مر حومہ کی رسم قل، چالیسویں یا برسی کے اشتہارات میں قرآنی آیات کو جلی حروف میں لکھ دیتے ہیں مختلف مصنو عات کے اشتہارات میں روزی، آمدن، خوشی اور صحت کے حوالے سے قرآنی آیات کو اشتہار کا حصہ بنا یا جا تا ہے یہ غیر صحت مند انہ رجحان ہے مر حوم یا مرحومہ کی کسی خو بی یا خد مت کو سامنے رکھ کر اشتہار ڈیزائن کیا جا سکتا ہے زمینات کی خریدو فروخت یا بازاری مصنو عات کی خریدو فروخت کے اشتہارات میں بھی قرآنی آیا ت کا تقدس اور احترام ملحوظ خا طر ہو نا چا ہئیے

 

اگر کوئی شخص اپنا ما ل فروخت کرنے کے لئے قسم کھا تا ہے تو فائدہ حرام ہوجا تا ہے اگر کوئی شخص اپنا مال بیچنے کے لئے قرآنی آیا ت کا سہا را لیتا ہے تو پڑھنے والے کو ایسا لگتا ہے اس مال میں کوئی خو بی نہیں جس کا ذکر اشتہار میں آنے کے قابل ہو اس لئے آیتوں کا سہا را لیا جا رہا ہے یہ اخبارکباڑ میں جا ئے گا تو آیت کریمہ کی بے حر متی کا جر م اشتہار دینے والے اور ڈیزائن کرنے والے کے ساتھ ساتھ اشتہار چھاپنے والے پر بھی لا زم ہو گا اس کا باقاعدہ قانون بھی مو جو د ہے اس لئے احتیاط کا دامن تھا منا چاہئیے ایک اور نکتہ دونوں کے برابر اہم ہے رمضا ن المبارک کا چاند دیکھنے کے لئے سعودی حکومت کی اعلیٰ عدالت دار القضا نے اعلا ن کیا ہے کہ چاند اگر کسی نے دیکھا تو اپنی شہا دت قاضی کے سامنے آکر ریکارڈ کرائے سعودی عرب کے اس نظا م کو دیکھ کر بنیا دی بات یاد آگئی کہ مقروض ملک پا کستان میں بھی رویت ہلا ل کا کام عدلیہ کے سپرد کر کے چاند دیکھنے والی کمیٹی کو گھر بھیجا جا سکتا ہے

 

وفاقی حکومت میں ایسے کئی ادارے بنا ئے گئے ہیں جن کا کام دوسرا دفتر بخو بی انجا م دے سکتا ہے مثلاً نیشنل ہجرہ کونسل، نیشنل سیرت کمیٹی، اسلا می نظریا تی کونسل اور رحمتہ العا لمین اتھارٹی یا مثال کے طور پر اکا دمی ادبیات اور ادارہ برائے فروع اردو، یا اس قبیل سے لو ک ورثہ اور پا کستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس دیگر شعبوں میں بھی ایسی مثا لیں مو جو د ہیں غیر ترقیا تی اخرا جا ت کو کم کرنے کے لئے اس نو عیت کا اپریشن بنیا دی نکا ت میں شا مل ہونا چا ہئیے آج کا آخری بنیادی نکتہ یہ ہے کہ منشیا ت کی روک تھا م کا نیا قانون بنا یا گیا ہے جس میں پو لیس کو پا بند کیا گیا ہے کہ وہ کسی مشتبہ شخص یا ملزم سے کوئی نشہ آور چیز مخصوص مقدار میں برآمد کر تے وقت اس واقعے کی ویڈیو بنا ئے اس ویڈیو کی مدد سے عدالت ملزم کو سزا سنا ئیگی اب تک عدالتیں پو لیس والوں سے کہتی تھیں کہ خود گواہ نہ بنو کسی شہری کو گواہ بناؤ، پو لیس کے لئے نشہ آور چیز برآمد کرتے وقت گواہی کے لئے شہری تلا ش کرنا بڑا مسئلہ تھا اور شہری کو رضا کا را نہ طور پر شہا دت کے لئے عدالت میں پیش کرنا بھی جا ں جو کھوں کا کا م تھا اب یہ کا م مزید مشکل ہو گیا اب پو لیس کو کیمرہ مین بھی ڈھونڈ نا پڑے گا ویڈیو کیمرہ لیکر گھومنا پڑے گا بنیا دی نکتہ یہ ہے کہ عدالت پو لیس کی شہا دت پر اعتبار کیوں نہیں کر تی اس طرح کے قو انین سے معا شرہ جرائم کا گڑھ بن جا تا ہے یہ بھی بنیا دی نکا ت میں اہم نکتہ ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
72817

داد بیداد……….آ فت، کشمیراور چترال …….. ڈا کٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

آزاد کشمیر کا تا زہ ترین زلزلہ بہت بڑی قد رتی آفت ہے 38اموات، 400سے زیا دہ زخمی اور کھر بوں کی جا ئداد، سڑ کوں، نہروں اور دیگر سکیموں کا نقصان، پھر بحا لی کے کام میں نا کامی، اللہ جانے آگے کیا ہو گا؟ چترال میں 8جو لائی کو سیلاب آیا آب پا شی کی 4سکیموں کو بہا لے گیا آب نو شی کی ایک سکیم اس کی زد میں آگئی ڈھا ئی مہینے گذر کئے بحا لی کا کام شروع نہیں ہوا 80ہزار کی آبا دی کے لئے پینے کا پا نی نہیں ہے ڈیڑ ھ لا کھ کی آ بادی آب پا شی کی سکیموں سے محروم ہے کھڑی فصلیں بر باد ہو گئیں۔ سیب، انگور، انا راور آخروٹ کے بڑے بڑے با غا ت کھنڈ رات میں تبدیل ہوئے لو گوں نے با ربار روڈ بلا ک کرکے احتجا ج کیا مقا می انتظا میہ بے بس ہے صو بائی حکومت کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں دکھ کی بات صرف یہ نہیں کہ آزاد کشمیر کے ضلع میر پور اور دوسری جگہوں میں زلزلے نے تبا ہی پھیلا ئی دکھ اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اختیارات کی مر کزیت نے آفت زدہ لو گوں کی بحا لی اور امداد کا راستہ بند کیا ہے آزاد کشمیر کی مقا می انتظا میہ اسلا م اباد کی منظوری کے بغیر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے ”کینو لا“ بھی نہیں دے سکتی یہ اُس کے دائر ہ اختیار میں نہیں ہے چترال میں 47کروڑ روپے کی لا گت سے 6سال پہلے مکمل ہونے وا لی گو لین گول واٹر سپلائی سکیم 8جو لا ئی کو متاثر ہو ئی یہ پبلک ہیلتھ انجینئر نگ کے محکمے کی سکیم تھی صو بائی حکومت نے سکیم کی دوبارہ بحا لی کے لئے 329ملین روپے کا فنڈ ریلیز کیا لیکن سکیم کا ٹینڈر اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اسلام اباد سے منظور ی نہ ملے یا اسلام اباد کا دفتر خود ٹینڈر طلب نہ کرے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ قدرتی آفت کو انگریزی میں ڈیزاسٹر کہا جا ئے گا ڈیزاسٹر کی صورت میں اسلام اباد کا ایک دفتر ذمہ دار ہو گا اس کا نام نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) ہے ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹیو انجینئر، چیف انجینئر اور چیف سکرٹری کا کوئی اختیار نہیں یہ کام اُن کے دائرہ کار سے با ہر ہے اگر NDMAکے بجائے مقا می محکمے، مقا می دفتر یا مقا می افیسر کے ذریعے ایک پا ئی خر چ کی گئی تو وہ کر پشن میں شمار ہو گی ”نا زی پا کستان“ کا گسٹا پو یعنی نیب (NAB) حر کت میں آئے گا پھر چر ا غوں میں روشنی نہیں رہے گی 2005سے پہلے ایسا نہیں تھا 2005کے زلزلے کے بعد قدرتی آفت کی صورت میں مصیبت زدہ، غم زدہ اور آفت زدہ لو گوں کی امداد کا کام مقا می حکام اور متعلقہ اداروں سے لیکر اسلام اباد میں ایک دفتر کو دیدیا گیا بالا کوٹ کی نئی سٹی کا منصو بہ اس وجہ سے نا کام ہوا جب بھی قدرتی آفت آتی ہے لو گ بے یارو مد د گا ہو کر دہا ئی دیتے ہیں 2005سے پہلے ضلعی سطح پر ایمر جنسی رسپانس سسٹم(ERS) ہوتا تھا کنٹن جنسی پلان ہوتا تھا اس پلا ن کے تحت ضلع کے اندر مقامی حکام فوراً آفت زدہ عوام کی امداد کے لئے پہنچ جا تے تھے وسائل کو استعمال کر کے بنیا دی ضروریات فراہم کرتے تھے انگریزوں کے دور سے یہ طریقہ رائج تھا اور بہت کامیاب تھا سٹینڈرڈ اوپر ٹینگ پرو سیجر (SOP) یہ تھا کہ ڈپٹی کمشنر ریلیف کے کام کا ذمہ دار ہوتا تھا تما م محکمے ان کے ما تحت ہو تے تھے وہ صو بائی حکومت سے وسائل حا صل کرکے ان محکموں کے ذریعے بحا لی کا کام کرواتا تھا یہ طریقہ آسان تھا کیونکہ لو گ ڈپٹی کمشنر سے رجوع کرتے ہیں اُس کے پاس وسائل اور اختیارات نہ ہوں تو وہ کس طرح لو گو ں کی مدد کرے گا NDMAکا طریقہ کار اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ ایک تباہ شدہ پائپ لائن کی بحالی کے لئے ٹینڈر طلب کرنے میں دو سال لگتے ہیں جبکہ لو گ بوند بوند پا نی کو ترس رہے ہو تے ہیں اس وجہ سے مقا می پریس کلب میں جب گفتگو ہوتی ہے تو NDMAکو محتصر کر کے ”نیشنل ڈیزاسٹر“کا نام دیا جا تا ہے تو می اخبار کے ایک نا مہ نگا ر نے منیجمنٹ اتھارٹی کی جگہ ”مس منیجمنٹ اتھار ٹی“ لکھ کر دل کی بھڑا س نکا لی تھی جیو فزیکل سروے کی رو سے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلا ع خصو صا ً چترال، مانسہرہ، دیر،سوات، بٹگرام وغیرہ قدرتی آفتوں کی سرخ لکیر کے اوپر واقع ہیں کسی بھی وقت کوئی بھی آفت آسکتی ہے بعض ایسی آفتیں ہیں جنکی پیش گوئی سے بھی جدید آلا ت اور ٹیکنا لو جی والے ادارے عا جز آگئے ہیں اس لئے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کا سا بقہ طریقہ بحا ل کرنے کی اشد ضرورت ہے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کا کام مر کزیت کا تقا ضا نہیں کر تا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا تقا ضا کر تا ہے اس وقت جو اختیارات اسلام اباد میں قا ئم بڑے دفتر کے گریڈ 22کے افیسر کے پاس ہیں وہ اختیارات مقا می نا ئب تحصیلدار کو دیدے جائیں تو مسا ئل فو راً حل ہو سکتے ہیں کیونکہ گریڈ 22کا افیسر مو قع پر مو جو د نہیں نا ئب تحصیلدار مو قع پر مو جو د ہے 2005سے اب تک 14سا لوں میں جتنے زلزلے اور سیلاب آئے ہر مو قع پر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہئیں مو جو دہ حکومت اگر NDMAکو تحلیل کر کے وسائل اور اختیارات مقا می انتظا میہ کو دیدے تو یہ قوم پر حکومت کا احسان ہو گا قدرتی آفات سے متا ثرہ لو گ حکومت کو دعائیں دینگے .

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
26558

دادبیداد………… امن کا نشان…………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

اس سال یوم پاکستان کا مرکزی خیال’’امن کا نشان ہمارا پاکستان‘‘رکھا گیا ہے انٹرسروسز انٹیلی جنس کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 2018ء ؁کا سال کئی لحاظ سے تاریخ کا اہم سال ہے پاکستان نے بدامنی،لاقانونیت،ملک دشمنی اور تخریب کاری کے خلاف گزشتہ 5سالوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے اس سال کو خاص طور پر امن کا سال قرار دیا جارہا ہے اور یوم پاکستان کا مرکزی خیال یا تھیم اس کی پوری غمازی کرتا ہے 2018ء ؁ کا سال اس لئے بھی اہم ہے کہ اس سال پاکستان خطے میں امن کیلئے ہمسایہ ممالک اور عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لیکر کام کر رہا ہے افغان امن فارمولے پر کام میں پاکستان عالمی برادری کی معاونت کر رہا ہے مشرقی وسطی میں پائیدار امن اور مسئلہ کشمیر کو پُرامن ذرائع سے حل کرنے کیلئے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کررہاہے اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے مقام پر قائم پریڈ گراؤنڈ میں یوم پاکستان کی سلامی کیلئے تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں ایسے مواقع پر یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ قومی اہمیت کے دنوں کومنانے میں 50سال پہلے والا جذبہ اور ذوق وشوق اب نہیں رہا 1968ء ؁ میں ہم نویں جماعت میں پڑھتے تھے تو 23مارچ اور 14اگست کے پروگراموں کی ریہرسل ایک ماہ پہلے شروع ہوتی تھی سکول کے طلباء سلامی دیتے تھے سلامی کے بعد سکول کے ہال میں ملی نغموں اور تقریروں کے مقابلے ہوتے تھے رات کو مشاعرہ ہوتا تھا مشاعرے کے بعد محفل موسیقی منعقد ہوتی تھی مالی وسائل کم تھے مگر جوش و خروش دیدنی تھا 10سال بعد ہم سرکاری ملازمت میں آئے تو وہی جذبہ دیکھنے کو ملا23مارچ اور 14اگست سے ایک ماہ پہلے ضلع کے تمام محکموں کے افسران کی میٹنگ بلائی جاتی تھی میٹنگ میں یوم پاکستان اور یوم آزادی کو شایان شان طریقے سے منانے کا جامع پروگرام طے ہوتا تھا افیسروں کو مختلف کام دئے جاتے تھے پھر ہفتہ وار میٹنگ منعقد کرکے انتظامات کا جائزہ لیا جاتا تھا پروگرام سے تین دن پہلے فل ڈریس ریہر سل ہوتی تھی کوئی کمی خامی نظر آتی تو اس کا ازالہ کیاجاتا تھا 1976اور1978میں وزارت اطلاعات و نشریات کی موبائل وین دور دراز اضلاع اور قبائل ایجنسیوں کا دورہ کرکے سکول کے بچوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تحریکِ آزادی کی تاریخی دستاویزی فلمیں دکھانے کا اہتمام کرتی تھیں سارا مہینہ یہ سلسلہ چلتا تھا موبائل وین 1968میں چترال تک بھی آئی1974میں پھر آگئی1976میں بھی آئی 1978میں آئی اس کے بعد پتہ نہیں اس وین کو کیا ہوگیا شاید ڈائریکٹوریٹ آف فلمز اینڈ پبلی کیشنز کا بوریا بستر گول کردیا گیا تحریک پاکستان کے حوالے سے سکول کے بچوں میں آگاہی پھیلانے میں DFPکا بڑا کردار تھا اس کے بعد جو اہم واقعہ ہمیں یاد ہے وہ جنرل ضیاء کے دور میں 14اگست کو پورے ملک میں ایک ساتھ ایک وقت پر سائرن بجاکر منانے کی روایت ہے اس روایت کو پاک فوج نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے 23مارچ کی مناسبت شاندار پریڈ اور سالمی کی روایت کو بھی پاک فوج نے اب تک زندہ رکھاہوا ہے سیاسی قیادت اور سول انتظامیہ کی دلچسپی اسطرح کے قومی معاملات میں بہت کم نظر آتی ہے ایک بات جو ہمارے دلوں میں بُری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ 5فروری کا یوم یکجہتی کشمیر جماعت اسلامی مناتی ہے 23مارچ اور 14اگست کو یوم پاکستان اور یوم آازادی پاک فوج مناتی ہے 25دسمبر کو بابائے قوم کی سالگرہ کا دن ریڈیو اور کیبل ٹیلی وژن پر منایا جاتا ہے 11ستمبر کو بابائے قوم کی برسی کا دن بھی ریڈیو اور ٹیلی وژن سے باہر کوئی نہیں مناتا مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی پیدائش اور وفات کے دن کی چھٹی بھی ختم کردی گئی ہے اس دن ناشناس کی آواز میں علامہ محمد اقبالؒ کا کلام ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سنائی جن لوگوں کی عمریں 60سال سے اوپر ہیں وہ لوگ سوچتے ہیں کہ قومی اہمیت کے دنوں کو منانے کا اجتماعی جوش و جذبہ کیوں ماند پڑ گیا؟ ہم نے کیوں طے کرلیا کہ یوم پاکستان اور یوم آزادی منانا پاک فوج کا کام ہے؟اگر1965اور 1975میں سیاسی جماعتیں اور سول انتظامیہ قومی اہمیت کے دنوں کو منانے میں متحرک ہوتی تھی تو آج متحرک کیوں نہیں ہوتی؟ سوچنے والوں کو بیشک سوچنے کا حق حاصل ہے مگر سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت یوم پاکستان اور یوم آزادی،یوم قائداعظم اور یوم اقبالؒ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیوں نہیں کرتی؟شاید ہماری سیاسی قیادت اور سول انتظامیہ کی ترجیحات بدل گئی ہیں شاید ہماری قومی ترجیحات کو غلط رُخ پر ڈال دیا گیا ہے اب بھی یوم پاکستان کے آنے میں 10دن باقی ہیں اب بھی سیاسی قیادت اور سول انتظامیہ کو 1965اور1976کی طرح ایک بار پھر قومی دن کے حوالے سے متحرک کیا جاسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
7265