Chitral Times

کمرشل اراضیات اور غذر ایکسپریس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

کمرشل اراضیات اور غذر ایکسپریس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

ماہرین اقتصادیات نے تجارتی اراضیات(Commercial Land) کی مختلف تعریف بیان کی ہیں:
”تجارتی اراضی کوئی بھی پلاٹ یا زمین کا حصہ ہو سکتا ہے جو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال ہو اور اس کا مقصد منافع کمانا ہو۔اس کا مطلب یہ کہ وہ زمین جو دکانوں، ہوٹلوں، ورکشاپس، میڈیکل اسٹورز، گوداموں، پارکنگ لاٹس، مالز، دفتری عمارتوں اور طبی مراکز کی میزبانی کرتی ہے“ یا
”تجارتی مقامات (کمرشل ایریاز) سے مراد وہ مقامات ہیں جو کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور تجارتی املاک سے مراد عام طور پر وہ عمارتیں ہوتی ہیں جن میں کاروبار ہوتا ہے اور ایسی زمین کا حوالہ بھی ممکن ہے جس میں کاروباری یا تجارتی سرگرمیوں کی بدولت منافع کمایا جاتا ہے“
ڈی سی غذر کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن نمبرNo.DK-1(14)/2019کے مطابق 24جولائی 2019؁ء کو کمشنر گلگت ڈویژن کی ہدایات کی روشنی میں ضلع غذر کے تمام تحصیلوں کے اراضیات کا ریٹ مقرر ہوا ہے یعنی 2019کی ری وائیسڈ ریٹ کے مطابق ضلع غذر کی اراضیات کو ان کی افادیت و اہمیت اور حیثیت کے اعتبار سے سے تین حصوں میں بٹوارا گیا ہے۔ان تین حصو ں کو لغت اردو میں مزروعہ، غیر مزروعہ اور تجارتی زمین کا نام دیا گیا ہے جبکہ یہی اراضیات انگریزی میں Cultivated, Un Cultivatedاور Commercialنام سے موسوم ہیں۔ غذر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر سے 17اکتوبر 2019کو ری وائیسڈ ریٹ کے عنوان سے جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اس نوٹیفکیشن میں غذر کے اراضیات کی مذکورہ تین اقسام درج ہیں لیکن اس نوٹیفکیشن میں غذر کے کسی بھی ڈویژن میں ”اراضی سکنی“ ”اراضی شاملات“ اراضی شور“اور ”اراضی وقف“ کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ایسے اراضیات ہر ڈویژن، ہر تحصیل اور ہر یونین میں موجود ہیں۔ ایسے اراضیات کی نشاندہی یا تذکرہ نہ ہونے سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی میں ہر کام کی طرح اپنی نوعیت کے اس اہم کام میں بھی خامیوں کی بھرمار ہے۔


ڈسٹرکٹ غذر کے تمام ڈویژنز میں زمین کی جن اقسام کا ذکر ہے ان میں مزروعہ(Cultivated) غیر مزروعہ(Un Cultivated) اور تجارتی زمینیں (Commercial) شامل ہیں۔ مزروعہ اور غیر مزروعہ ارضیات ہر ڈویژن، ہر تحصیل اور ہر یونین میں موجود ہیں جبکہ کمرشل زمینیں جہاں جہاں موجود ہیں ان میں سیلپی پائین میں گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول سے۔۔۔ ڈی جے سکول (شمالی جانب) مین روڈ تک۔۔۔۔۔ گلو داس میں۔۔۔۔ اے کلاس ڈسپنسری سے گلو داس مین (Main) چینل کے آخری کلوٹ تک۔۔۔۔۔ گلمتی تھنگ داس میں۔۔۔ ہاشوان فلور مل (Hashwan Floor Mill) سے گلمتی پٹرول پمپ تک۔۔۔۔ اور (اسی ایریا میں ہی) میر عزیز کارخانہ سے ”شیر ہاؤس“ تک۔۔۔۔۔لنک روڈ پاور ہاؤس سے تھنگ داس جماعت خانہ تک۔۔۔۔ سنگل میں سول سپلائی ڈپو سے سنگل آر سی سی پل تک۔۔۔۔ گچ میں مرتبان شاہ جنرل سٹور سے فضل ہاؤس تک۔۔۔۔۔گوہر آباد میں نیت جعفر ہاؤس تا پناہ ہوٹل تک۔۔۔۔ شیر قلعہ میں ہائی سکول لنک روڈ سے شیر افضل ہاؤس تک۔۔۔۔۔ بیارچی میں بیارچی سے پرائمری سکول بیارچی تک۔۔۔۔۔۔

گلاپور دلناٹی میں وٹرنری ہسپتال گلاپور سے گورنمنٹ پرائمری سکول راجی داس ((Rajidaars تک روڈ کے دونوں اطراف اراضیات (سو فٹ تک) تجارتی مقامات یا کمرشل ایریاز کہلائیں گے۔ انتہائی تعجب اور حیرت آفرین بات یہ ہے۔ گوپس بلتم (Gupis Baltam) سے شندور تک 105 کلومیٹر کے طویل ترین حصے میں ضلعی انتظامیہ غذر کو خوردبین میں بھی کہیں ”کمرشل ایریا“ نظر نہیں آیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق روڈ کے اس حصے میں اراضیات یا تو قابل کاشت ہیں یا بالکل لق و دق صحرا۔۔۔۔ سوال کا انتہائی اہم پہلو یہ ہے متوقع گلگت چترال ایکسپریس وے کے اطراف گوپس تا شندور جہاں تیس تیس،چالیس چالیس اور کہیں سینکڑوں دُکانیں موجود ہیں اُن دُکانوں کو کون سا نام دیں گے؟کمرشل ایریاز میں تجارتی سرگرمیوں کیلئے جو عمارتیں ہوتی ہیں۔ اُن عمارتوں کو بازار، دُکانیں، مارکیٹ، منڈی، شاپنگ سینٹر اور ہٹی کانام دیا جاتا ہے۔روڈ کے اطراف جن جن اراضیات میں دُکانیں، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس موجود ہیں جن کا وجوداُن کے ثبوت کی سب سے بڑی اور مظبوط دلیل ہے۔اب دُکانوں اور ہوٹلوں کے اندر کاشت کاری تو ہو نہیں سکتی لہٰذا وہ مزروعہ کہلانے سے تو رہ گئے۔جب مزروعہ نہیں کہلائیں گے تو ڈی سی غذر کی نوٹیفیکشن کے مطابق ہوٹلوں اور دُکانوں کے مقامات غیر مزروعہ کے زُمرے میں آجائیں گے۔ ”غیر مزروعہ“ (Un Cultivated) کسی بھی خطے کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی ہے یعنی وہ زمین جوتی ہوئی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ اُس قسم کی زمین کو عام لفظوں میں ”بنجر زمین“ کہتے ہیں اور وہی زمین انگریزی میں ”بیرین لینڈ“ کہلاتی ہے۔بیرین لینڈ اور صحرا میں کوئی فرق نہیں۔ اُردو لُغت کے ماہیرین وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی بنجر زمین کو ہی صحر ا کہتے ہیں۔تو مختصر رقبے پر مشتمل بنجراَراضی کو ”صغیر صحرا“ کہنے میں کیا قباحت ہے۔صحرا چھوٹا ہو یا بڑا، اُس کے رہائشی صحرائی کہلاتے ہیں۔ صحرائی کا مطلب جنگلی اور بیابانی ہے۔ جنگلی اور صحرائی انسانوں کے ساتھ ازل سے سرکار کا رویہ انوکھا رہا ہے۔


اس نوٹیفیکشن کی رُو سے یہاں کے دُکانوں، بازاروں اور ہوٹلوں کے مقامات کو چارو ناچار غیر مزروعہ اراضی یا بیرین لینڈ کہنا ہی پڑے گا۔ دُکانوں اور ہوٹلوں کے مقامات جب بیرین لینڈ (بنجر اراضی) ظاہر ہوں گے۔تو پھر تجارتی اصطلاح میں سرکار کاروباری عمارتوں کے مقامات کیلئے کون سی نام تجویز کرے گی۔یہ اور اس قسم کی بے شمار سوالات ایسے ہیں جن کے خوف سے اب تک ضلعی انتظامیہ عوام کیلئے کُھلی کچہری کا انعقاد کر سکا اور نہ ہی آگہی سیشن منعقد ہو سکا۔این ایچ اے کے ذمہ دار اہلکار بھی عوام کے رُوبرو بیٹھ سکے اور نہ ہی دُو بدو گفتگو کر سکے ہیں۔اور تو اور اس حلقے کا منتخب نمائندہ اور اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے عہدے میں متمکن شخص کو پھنڈر آئس فیسٹول کے اجتماع سے جب خطاب کی دعوت ملی تو موصوف بلی کی پاخانہ چھپانے کے طرز میں حقائق کو تلے برف خِفا رکھنے کی تگ و دو میں بد ترین خِفت سے دو چار ہوا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
58199

سرکاری اطلاعات اور غذر ایکسپریس وے تحریر : شمس الحق نوازش غذری

سرکاری اطلاعات اور غذر ایکسپریس وے تحریر : شمس الحق نوازش غذری

غذر ایکسپریس وے کے حوالے سے تحصیل گوپس سے جو معلومات میڈیا کو فراہم کی گئی ہیں وہ مِن و عن اپنی اصلی شکل اور روپ میں حسب ذیل ہیں۔


۱۔ گلگت سے شندور کے آخری حدود تک (آخری حدود کا نام اورنشاندہی کا ذکر موجود نہیں) روڈ کی کل لمبائی 216 کلومیٹر ہے۔


۲۔ روڈ کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول کا کام باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا ہے اور اب تک موضع داہیمل مکمل کرلیا گیا ہے۔


۳۔ روڈ کی چوڑائی مختلف جگہوں میں مختلف ہے۔ آبادی سے باہر اور پہاڑی علاقوں میں روڑ کی کل چوڑائی 50 میٹر ہے جو کہ فٹ میں 164 فٹ بنتا ہے۔ کل چوڑائی میں 33فٹ موجودہ روڑ بھی شامل ہے۔


۴۔ جب کہ آبادی والے علاقوں میں رو ڈ کی کل چوڑائی 15 میٹر ہے جو کہ فٹ کے حساب سے 50 فٹ بنتا ہے۔ اس 50 فٹ میں بھی موجودہ 33 فٹ روڑ شامل ہوگا۔ یعنی کہ 17 فٹ اضافی زمین کا حصول ہوگا۔


۵۔ رو ڈ کے لیے جانے والی تمام زمینوں اور اس میں موجود اسٹریکچر کا بروقت معاوضہ دیا جائے گا۔


۶۔ زمین کا حصول این ایچ اے کے سروے کے مطابق ہورہا ہے۔


۷۔ عوام کی مزید آگہی (آگاہی) کے لیے گوپس میں ایک آگہی سیشن بھی رکھا جائے گا۔


معزز قارئین! غذر چترال روڑ کے گردونواح میں قدرتی مناظر حسن و جمال میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ یہ گلگت بلتستان میں واحد رو ڈ ہے جس کے آخری سرے میں پہنچ کر سیاح کو واپس مڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ سیاح غذر سے شندور، شندور سے چترال اور چترال سے براستہ دیر پشاور پہنچ سکتا ہے۔ دُنیا کے حالات اِدھر سے اُدھر ہوجائیں غذر سے لیکر لواری ٹنل تک کے آس پاس غاروں میں چھپے درندوں کے جذبات میں بھی غیر ضروری جوش اور ہیجان پیدا نہیں ہوتا۔ دُنیا کی کوئی خاتون اس رو ڈ میں اکیلی سفر کرے تو اس کی عفت و عصمت کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

دُنیا کی بلند ترین پولوگراؤنڈ شندور غذر چترال ایکسپریس وے کے عین وسط میں واقع ہے۔ قدرتی حسن و جمال کے علاوہ یہاں کے باسی انتہائی صلح جُو اور نرم خُو مزاج کے حامل ہیں۔ یہاں کے مکینوں کی اِن صفاتِ حمیدہ کی بناء پر دُنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ میں یہاں کا امن و امان بدنظروں کی چشمِ بد سے محفوظ رہا ہے۔ جی ہاں۔۔! وہی امن و امان۔۔۔جس کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھ کر اُس وقت دُعا کی تھی۔ جب آپ حضرت حاجرہ ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ اور ویران زمین میں چھوڑ کر واپس جارہے تھے (آپ ؑ نے دُعا کی تھی) اے پروردگار تو اس جگہ کو امن و امان کا شہر بنادے اور اپنے فضل و کرم سے اس شہر میں بسنے والے اُن تمام لوگوں کو ہر قسم کی رزق عطا فرماوے۔ جو تجھ پر اور آخرت پر ایمان لے آئیں۔


آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیمؑ نے دُنیا میں خوشحالی، ترقی اور رزق کی فراوانی کا فارمولا طے کردیا تھا چنانچہ جب تک کسی ملک میں امن امان نہیں ہوتا اس وقت تک وہ ملک خوشحال اور ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا۔ تم امریکہ سے لے کر جاپان اور ملائشیاء سے لے کر دبئی تک دُنیا کے تمام خوشحال ملکوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لو تمہیں ان سب مین امن و امان مشترک ملے گا اور تم راوانڈا سے افغانستان اور برازیل سے پاکستان تک کے تمام غیر ترقی یافتہ ممالک کا مطالعہ کرو تمہیں یہ تمام ممالک لاء اینڈ آرڈر کے مسائل کا شکار ملیں گے ہم کتنے خوش نصیب ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کے شہریوں کے لیے جو امن و امان مانگ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وراثتی جائیداد کی طرح اُسی امن و امان سے ہمیں نوازا ہے۔ دنیا میں ایسے خطے انتہائی قلیل تعداد میں موجود ہیں جہاں انتہا درجے کی قدرتی حُسن و گلوسوز بھی ہے اور بے مثل اَمن و امان بھی۔۔۔۔ یہ دو نعمتیں زمین کے کسی بھی خطے کو اس کے دیگر حصوں سے منفرد بھی بنادیتی ہیں اور ممتاز بھی۔ دُنیا میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں دلکش اور دل آویز مناظر موجود ہیں لیکن وہ امن و امان کی نعمت سے محروم ہیں اور کئی خطے اور علاقے ایسے ہیں جہاں چیونٹی کا قتل جرمِ عظیم ہے لیکن وہاں کا جغرافیہ حسن و دلکشی سے محروم ہے۔ زمین کا جو حصہ ان دو نعمتوں سے مالا مال ہو اُس حصے کی مٹی کو ہیروں کے ساتھ تولا جائے تو بھی اس مٹی کا حق ادا ہیں ہوگا۔ چہ جائے کہ اب اس قسم کی بقعہئ خاکی کو وہاں کے مکینوں کی سادہ لوحی سے غلط فائدہ اُٹھا کر غصب کرنے کی کوششوں اور سازشوں میں لگے رہیں جہاں پہنچ کر ہر سیاح کے زبان سے بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے۔


اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56834