Chitral Times

عورت مارچ، کورونا وائرس اور اسلامی تعلیمات …….. تحریر: عبدالکریم کریمی

میں اپنے قارئین کی محبت کا ہمیشہ سے مقروض رہا ہوں وہ میری کمی محسوس کرتے ہیں۔ میری تحریروں کا انتظار کرتے ہیں اور یہ انتظار جب شدت اختیار کرتا ہے تو پیار سے پوچھتے ہیں “سر! کہاں غائب ہیں۔ عورت مارچ پر کچھ نہیں لکھا۔” میری طرف سے مسلسل خاموشی پر لہجہ قدرے تلخ ہو جاتا ہے “سر! کورونا وائرس پر تو کچھ لب کشائی کیجئیے گا، مساجد، امام بارگاہے اور عبادت خانے حتیٰ کہ خانہ کعبہ تک کو بند کر دیا گیا۔ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ آپ کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔”وغیرہ وغیرہ۔

یہ دلچسپ مسیجز کرنے والے میرے شُب چنتک ہیں۔ ان کا کہنا بجا ہے۔ ایک عرصے سے ذہن ماوف سا ہے۔ عورت مارچ گزر گئی۔ چاہت کے باوجود نہیں لکھ سکا۔ کورونا وائرس اپنے عروج پر ہے۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے، قلم اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی کہ یہ میدان تو میڈیکل سائینس کا ہے بھلا میں کیا لکھ سکتا ہوں۔ نیم حکیم والا کام اچھا نہیں ہوتا۔ کسی نے خوب صورت تبصرہ کیا تھا کہ پاکستان میں کورونا کے مریض کم اور ماہرین زیادہ ہیں۔ لیکن جناب! ذرا ٹھہریے! کل تو حد ہوگئی۔ پوری دنیا اس وبا کی روک تھام کے لیے کاوشیں کر رہی ہیں لیکن ایک ٹی وی چینل سے اس خبر نے مجھے اندر سے ہلاکے رکھ دیا۔ خبر سنانے والی خاتون کا کہنا تھا “خانہ کعبہ کا معجزہ تو دیکھئے۔ جب یہ لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا تو اللہ نے پرندوں کے ذریعے اپنے گھر کی طواف کروائی۔” اس خبر پر تبصرے کرنے والوں میں ایک دل جلے نے کمنٹ کیا “کل ہمارے مندر کے طواف کے لیے بھی کچھ پرندے منڈلا رہے تھے۔”

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے پرندے حق پر ہیں یا مندر پر منڈلانے والے پرندے؟ ہم کب تک ان سطحی معجزات کو لے کر زندہ رہیں گے؟ ہم کب تک کھجور کھانے کے اسلامی طریقوں اور چپکلی مارنے کے اسلامی طریقوں پر کتابیں لکھ کرجدید مسائل کا مقابلہ کر سکیں گے؟ ہم کب تک مخالف مسلک کو کافر کہتے ہوئے دل کا بھڑاس نکالیں گے؟ (مجھ سے اختلاف کرنے والے یوٹیوب پر صرف مناظرہ لکھے اور دیکھیئے کہ پورے مسلمان تو خیر ائمہ اربعہ کو ماننے والے بھی ایک دوسرے کی مسلمانیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی آسانی کے لیے لنک دیا گیا ہے) ہم کب تک عورت مارچ کی مخالفت کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک اسلامی لباس کا رونا روتے رہیں گے؟ ہم کب تک دین اسلام کی سطحی چیزوں کو زادِ راہ سمجھتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟

لنک: مناظرہ (ضرور ملاحظہ فرمائیے گا۔)

خلیجی ملک کویت میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر جہاں مساجد میں نماز پر عارضی پابندی عائد کی گئی ہے وہاں اذان میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ویڈیوز میں سنا جا سکتا ہے کہ موذن “حی علی الصلواہ” یعنی آو نماز کی طرف کی بجائے “الصلات فی بیوتکم “کہہ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنے گھروں میں نماز ادا کریں۔

پھر ہماری اجتماعی نمازوں کا ثواب کہاں جائے گا؟ یہاں ان لوگوں کے لیے بھی اہم پیغام ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شریعہ میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس وائرس سے نجات کے لیے ہمیں اجتماعی عبادات میں حصہ لینا چاہئیے تھا مگر کیا کریں وائرس نے جو ڈرا دیا ہے۔ ہم تو اذان تک کے الفاظ تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کے پیچھے بہت سارے دلائل ہیں۔ سر دست ایک ہی دلیل آپ کی بینائیوں پر ٹانکتا ہوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور دینِ فطرت میں تبدیلی زندگی کی نشانی ہے۔ شریعہ کی تعریف میں بھی جائے تو ایک دلچسپ تعریف نظر نواز ہوتی ہے کہ شریعہ وہ راستہ ہے جو چلتا ہوا پانی کی طرف جائے۔ اب ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہم نے راستہ تو چھوڑیئے اس چلتے ہوئے پانی کو بھی روکنے کی کوشش کی اور ہزار سال پہلے کی تعلیمات کو اپنے نصاب کا حصہ بنایا اور ہزار سال پہلے ہمارے علما (نام لکھنے کی ضرورت نہیں، تاریخ سے وابستہ لوگ بہتر جانتے ہیں) نے عقل پر پابندی لگاکر کہا عقل سے کام لینے والے مشرک ہیں۔ اور جس جس نے عقل سے کام لیا حکمران وقت نے ان کے سر پر کوڑے برسائے۔ سائینس اور عقل کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی روایت اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ مولوی کے کہنے پر ابنِ رشد جیسا ماہر فلکیات، اتنے بڑے سائنسدان کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھا جاتا ہے اور نمازیوں سے کہا جاتا ہے کہ آتے جاتے ان پر تھوکو۔ یعقوب الکندی جو فلسفے کا باپ تھا۔ اس عظیم مفکر کو عراق میں حاکم وقت نے پچاس کوڑے مارے اور ہر کوڑے پر عوام تالیاں بجاتے رہے۔ کہانی ختم نہیں ہوتی۔ الرازی جس نے چیچک اور خسرہ کے درمیان فرق کو واضح کیا۔ حاکم وقت نے حکم دیا کہ اس کی اپنی لکھی ہوئی کتاب اس کے سر پر اتنا مارو کہ یا کتاب پھٹ جائے یا اس کا سر ٹوٹ جائے۔ تاریخ کہتی ہے کہ اس تشدد میں الرازی جیسے عظیم سائنسدان نابینا ہوجاتے ہیں۔

ایسے میں امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ جیسی ہستیوں کی مثالیں بھی تاریخ میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جب خلیفہ منصور جو امام مالکؒ کے ہم مکتب بھی تھے، امام سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ فقہ کی کتاب لکھے تاکہ لوگ اس کے مطابق زندگی گزارے۔ امام انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں لوگوں کی سوچ کو آزاد رہنے دیا جائے۔ ورنہ وہ افکار کے غلام ہوں گے۔ پھر یہی درخواست امام ابو حنیفہؒ سے کی جاتی ہے لیکن وہ بھی انکار کرتے ہیں تو خلیفہ منصور جب دیکھتے ہیں کہ امام نہیں مان رہے تو امام کو قاضی القضاد یعنی چیف جسٹس کا عہدہ آفر کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے، فرماتے ہیں کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ خلیفہ منصور غصے میں کہتے ہیں کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ جواب میں امام فرماتے ہیں اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو آپ ایک جھوٹے آدمی کو قاضی القضاد کیسے بنا سکتے ہیں؟ خیر اس چپقلش میں امام ابو حنیفہؒ جیل کو ترجیح دیتے ہیں لیکن قاضی القضاد بن کر فقہ کی کتاب لکھنے کی حامی نہیں بھرتے کیونکہ وہ ایک دور اندیش عالم دین تھے ان کی دوربین نگاہیں مسلمانوں کو غلام بنانا نہیں چاہتیں۔ بعد میں ان سے منسوب جو فقہ کی کتاب لکھی گئی وہ ان کے شارگرد قاضی ابو یوسف نے لکھا تھا۔

امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ جیسے جید عالم دین کیوں نہیں چاہتے کہ فقہ کی کتاب لکھی جائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح ہم مسلمانوں کی سوچ پر قدغن لگاسکتے ہیں۔ آپ اسلام کے آٹھویں تا چودھویں صدی عیسوی میں منطقی علوم میں مسلمانوں کے فتوحات پر ںظر ڈالیں، تو آپ کو حضرت امام جعفر الصادقؑ، طفیل ابن کندی، ابنِ رشد، الزاواری، یعقوب الکندی، الرازی، نصیر الدین طوسی، ابن الہیثم، ابنِ سینا اور اس قبیل کے سائنسدان نظر آئیں گے۔ مریم اضطرلابی کا نام مسلم خواتین کے لیے یقیناً چراغِ راہ ہے۔ پھر آپ ذرا رسول کریم صلعم کے دور میں جائیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ علم حاصل کرنے کے لیے ہر مسلمان مرد و عورت کو چین جانے تک کی تلقین کی جاتی ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مدینے سے شام تک تجارت کرتی نظر آتی ہیں اور رسول کریم صعلم کو شادی کا پیغام بھی خود بھیجتی ہے۔ ایک خاتون کتنی آزاد تھی، مسجد نبوی میں آگے مردوں کی صفیں اور پیچھے عورتیں ہوتی تھیں اور مرد و عورت ایک ساتھ نماز پڑھا کرتی تھی پھر کیا ہوا کہ ہم نے کہا نہیں عورتوں کے مسجد آنے سے شیطان ہمیں اغوا کرتا ہے لہذا عورتوں کو چادر اور چار دیواری کے اندر نماز پڑھنی چاہئے۔ عورتوں کو مردوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی اس سوچ نے اتنی شدت اختیار کیا کہ ہم نے تالیاں بجانے پر بھی خواتین کو قتل کرنا شروع کیا، پھر مسجد تو دور کی بات ایک خاتون اپنا بنیادی حق “حقِ رائے دہی” سے بھی محروم ہوئی۔ چادر اور چار دیواری میں یہ لاوہ اتنا پکا کہ ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ “میرا جسم، میری مرضی” کہتی ہوئی ہمارے گھر کی خاتون عورت مارچ کرنے لگی اس میں قصوروار خاتون نہیں ہمارا پدرشاہی سماج ہے کہ جس نے ایک باعزت خاتون جو کبھی تاریخ اسلام میں سائیسندان بنکر مریم اضطرلابی کی صورت میں دنیا کو حیرت میں ڈالتی تھی اور خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی صورت میں مدینہ سے شام تک تجارت پر چھائی ہوئی ہوتی ہے وہی خاتون آج “میرا جسم، میری مرضی” کہنے پر مجبور ہوئی۔ وجہ صرف یہ کہ ہم نے اسے انسان سمجھنے اور انسانی حقوق سے دور رکھنے کی کوشش کی۔

اللہ معاف کرے ہم وہ لوگ ہیں کہ جب ہلاکو خان مسلمانوں کا عظیم علمی سرمایہ دریا کی نذر کر رہا تھا تو مصر کے ایک مسجد میں دو مولوی صاحبان اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ خرگوش ہلال ہے یا حرام؟؟؟

یہ ہلال حرام اور جنت دوزخ کی تقسیم کا عمل بھی تب سے شروع ہوا جب ہم نے عقل پر پابندی لگادی اور سائینس کو حرام قرار دیا۔ جب یورپ ڈارگ ایج سے روشنی کی طرف محو سفر تھا تو اس دوران پرنٹنگ پریس مشین کا ایجاد ہوتا ہے یورپ میں کتابیں مشینوں پر پرنٹ ہوتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں علما فتویٰ دیتے ہیں کہ مشین وضو نہیں کرتی اس پر اسلامی کتابیں چھاپنا حرام ہیں۔ لاوڈ اسپیکر آتا ہے تو شیطان کی آواز کہہ کے ایک دفعہ بھی یہ ایجاد فتووں کی نذر ہوجاتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کو شیطان کی آواز کہنے والے ہی اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ترقی کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپاکر سمجھتے رہے کہ طوفان تھم جائے گا۔ سائینس و ٹیکنالوجی کا طوفان کبھی تھمنے والا نہیں بلکہ ہمیں اپنے دین کے اندر لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ سطحی چیزوں سے نکل کر اسلام کی سچائی اور قرآن پاک کی گہرائی پر غور کرنا ہوگا جو سات سو چھپن دفعہ عقل پر زور دیتا ہے۔

پھر نہ ہمیں کورونا وائرس کے علاج کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا اور خواتین مارچ ہوں گے اور نہ خواتین مارچ سے ہمیں پریشانی ہوگی۔ ورنہ ہماری یہ سطحی سوچ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں حقیقی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!

حوالہ جات:
دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھنے کے لیے چند کتابوں کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کا مطالعہ کیجئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے کہ میں اور آپ کہاں کھڑے ہیں؟

۔ دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ اِن اسلام از ڈاکٹر علامہ اقبالؒ
۔ پاکستان اَنڈر سیج از مدیحہ افضل
۔ سیپئنس از ڈاکٹر یول نوح ہراری
۔ ہومو ڈِیوس از ڈاکٹر یول نوح ہراری
۔ فاطمی اور ان کی تعلیمی روایات از ہینز ہالم
۔ خلافت و ملوکیت از مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ
۔ کیجڈ ورجن از آیان حرسی علی

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
33135