عظیم نعمت- تحریر:کلثوم رضا
عظیم نعمت – تحریر:کلثوم رضا
*درد کی دو ہی دوائیں ہوتی ہیں
باپ ہوتے ہیں مائیں ہوتیں ہیں*
بلا شبہ والدین ہی دنیا میں ایسی عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی والدین کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
والدین الله تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔انہوں نے اپنی جوانی ،اپنی خوشیاں اپنی اولاد کی خاطر قربان کی ہوتیں ہیں۔ اپنی اولاد کے لیے ہر لمحہ فکر مند اور دعا گو رہنے والی ان ہستیوں کو دم مرگ تک انکی اولاد بچے نظر آتے ہیں۔
میری اس عمر ( یعنی دادی، نانی بننے کی عمر )میں بھی طبیعت اگر خراب ہو جائے تو میری امی اپنے گھر میں پریشان ہوتی ہیں اور تو اور کھانا اگر نہ کھاؤں تب بھی سب ماجرا خواب میں دیکھتی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے میں اپنے مرحوم والد صاحب کی یاد میں کافی پریشان اور بے چین رہی تو صبح سویرے سات بجے امی کا فون ایا پوچھا”بیٹا طبیعت ٹھیک ہے، بچے سب خریت سے ہیں، ساری رات خواب میں اپ ہی کو دیکھا “اور وہ ساری باتیں سنا ڈالیں جو مجھ پہ گزری تھیں۔ میں حیران تو نہیں ہوئی کیوں کہ یہ معمول ہے کہ ہم بہن بھائیوں کو جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے ہم امی سے چھپا بھی لیں تو ان کی دلی کیفیت انہیں بتا دیتی ہے کہ یقیناً کچھ ہوا ہے میرے بچوں کے ساتھ۔ میں نے کہا نہیں امی بس ابو کی بہت یاد آ رہی تھی اور میں کچھ پریشان ہو گئی تھی تو اگلی صبح ملنے آکر میرے گھر کو رونق بخشی۔ میرے اور بچوں کی اصرار پر چند دنوں کے لیے رک گئیں۔ لمحہ لمحہ ان کو میرا اور بچوں کا خیال رہتا ہے۔ مجھے کہتی ہیں بیٹی سکول پڑھانے جاتی ہو ذرا یہ میرا شال اوڑھ لو یا میری بنیان پہن کر جاؤ میں ویسے بھی گھر میں ہوتی ہوں مجھے سردی نہیں لگتی۔۔۔ جب میں سکول سے واپس آجاؤں تو میری بیٹیوں سے کہتی ہیں اس کے لیے جلدی سے کھانا لگاؤ بیچاری صبح کی گئی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے دعائیں دیتی ہیں۔ شاید اسی محبت و شفقت کے عوض الله تعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی تو باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا۔
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 23,24 میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
ترجمہ:اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اسی کے کسی کی عبادت نہ کرو اور تم اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں کے دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی ہاں سے ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انھوں نے بچپن میں مجھ کو پالا پرورش کیا۔
اس آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصاً اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیونکہ اس عمر میں انسان عموماً چڑچڑا ہو جاتا یے۔ یاداشت صحیح نہیں رہتی۔ اس کی طبیعت میں بے چینی اور بے قراری پیدا ہوتی جاتی ہے۔ خوراک بھی بالکل چھ مہینے کے بچے جتنی لیتے ہیں لہٰذا والدین کو اس وقت اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی ضرورت یوتی ہے۔
محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے والدین کی اہمیت و عظمت کو یوں بیان فرمایا ہے
“جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو الله تعالیٰ اس نظر محبت پر اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔”
“والدین پر خرچ کرنے کی وجہ سے الله تبارک وتعالیٰ اس اولاد کے رزق میں وسعت فرما دیتا ہے۔”
“تمہیں اپنے ضعفاء کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہےاور انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔”
(ترمزی شریف)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ گناہوں میں جس گناہ کو الله تعالیٰ چاہے آخرت تک مؤخر کر دے گا لیکن والدین کے ساتھ بد سلوکی اور بد تمیزی کی سزا الله تعالیٰ دنیا میں ہی دے گا اور جب تک انسان اپنے اس سنگین گناہ کی سزا بھگت نہ لے اس کو موت نہیں آئے گی۔ ماں باپ کے لیے ایذا کا سبب بننے والا شخص چین سے زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ریتا یے۔
ماں باپ کی عزت اور خدمت کرنے سے اولاد خدمت گار ہوتی یے۔
یہ سوچ کر ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایہ میرے بچوں کو ملے گا
(منور رانا)
سو میں نے بھی اس موقع کو غنیمت جان کر والدہ صاحبہ کے ساتھ خوب وقت گزارا۔ کچھ یادیں تھیں کچھ باتیں تھیں جنھیں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کیا۔ بہت ساری دعائیں اور نیک تمنائیں ان سے حاصل کیں اور بہت ساری دعائیں ان کے لیے کہ الله تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عاجلہ دائمہ نصیب کرے ان کی باقی ماندہ عمر میں برکت ڈالے اور ہم کو ان کی خدمت کا شرف بخشے۔ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر سلامت رکھے، ان کی دعائیں ہی ہمارے گناہوں اور عذاب الٰہی کے بیچ حائل ہوکر عذاب الٰہی سے ہمیں بچاتی ہیں۔ کل شام والدہ محترمہ اپنے بیٹے (میرے بھائی) کے ساتھ خراماں خراماں اپنے گھر چلی گئی اور آج پھر سے ان کی بہت یاد آرہی ہے۔#