Chitral Times

طالبان کیلئے قیام امن ترجیح اول ۔ محمد شریف شکیب

افغانستان میں ایک ہفتے کے دوران مساجد میں دوخود کش دھماکوں کے نتیجے میں 96افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں خود کش دھماکہ ہوا تھا جس میں پچپن نمازی شہید اور ستر سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ابھی قندوز دھماکے کے زخم تازہ تھے کہ اگلے جمعہ کے روز قندہار کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ ہوا۔جس میں چالیس سے زائد افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔کالعدم شدت پسند تنظیم داعش نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

پچھلے دنوں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بیان آیاتھا کہ داعش سے نمٹنا طالبان کے لئے مشکل نہیں، اس کے کارندے افغان شہری ہیں باہر سے کوئی اس تنظیم میں شامل نہیں، ملک بھر میں داعش کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیاگیا ہے اور جلد ہی ان کا مکمل صفایاکیاجائے گا۔15اگست کو جب سے طالبان نے کابل میں عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ اس وقت سے اب تک افغانستان میں داعش نے چار مرتبہ بڑا حملہ کیا ہے۔ 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں جانی نقصانات ہوئے تھے۔طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ دہشت گردوں کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں داعش کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیاگیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیاگیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے۔

افغانستان میں پے در پے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے طالبان حکومت کے لئے نہ صرف داخلی سلامتی کی صورتحال گھمبیر ہوگئی ہے بلکہ کابل حکومت پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ قندوز اور قندہار میں ہونے والے دونوں دھماکے اہل تشیع کی مساجد میں ہوئے ہیں۔ طالبان حکومت نے عالمی برادری سے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دی ہے۔امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے طالبان پر اپنے وعدے پورے کرنے کا مسلسل تقاضا کیاجارہا ہے۔ افغانستان میں بدامنی پیدا کرنے اور طالبان حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں جن قوتوں کے مفادات پوشیدہ ہیں ان دھماکوں کے پیچھے انہی قوتوں کا ہاتھ ہوسکتاہے۔کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ہوئی ہے۔ بھارت نے وہاں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے نام پر پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔

کابل میں سفارت خانے کے علاوہ افغانستان کے آٹھ شہروں میں اپنے قونصل خانے قائم کئے تھے جہاں مبینہ طور پر شدت پسندوں کو تربیت اور مالی امداد فراہم کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کیاجارہا تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے بھارت کا سارا کھیل تلپٹ ہوگیا۔مودی حکومت کو افغان پالیسی کی وجہ سے اندرون ملک شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ بالواسطہ دیگر شدت پسند تنظیموں کے ذریعے افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ اور نیٹو بھی افغانستان میں اپنی فوجی شکست کی خفت مٹانے اور طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بھی اس گھناونا کھیل میں ملوث ہوسکتے ہیں۔افغانستان میں امن کا قیام نہ صرف طالبان حکومت بلکہ پورے خطے کے لئے ناگزیر ہے۔ اس لئے طالبان حکومت کو شدت پسندی پر قابو پانے اور پائیدار امن کے قیام پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ ہزارہ برادری نے طالبان کے ساتھ مفاہمت کے لئے سب سے پہلے ہاتھ بڑھایاتھا۔ پے در پے حملوں کے بعد ان میں مایوسی اور بددلی پھیلنا قدرتی امر ہے۔ ملک سے شدت پسندی ختم کرنے کے لئے موثر قانون سازی، سزاؤں پر عمل درآمد کے ساتھ طالبان کے پاس اپنے ہمدرد ممالک پاکستان، ترکی اور چین سے تیکنیکی مدد حاصل کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
54101

طالبان سے ڈومور کا تقاضا ۔ محمد شریف شکیب

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے طالبان حکومت پرزوردیا ہے کہ خواتین کوکابینہ میں نمائندگی دینے اور لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے۔ عالمی انسانی حقوق اور قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا افغان حکومت پر لازم ہے۔ جب تک وعدے پورے نہیں ہوتے۔عالمی برادری کی طرف سے طالبان سے تقاضے جاری رہیں گے۔افغان معیشت میں خواتین کا نمایاں کردار ہے ان کی شرکت کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لیے مزید رقم عطیہ کریں کیونکہ افغانستان کے بیرون ملک اثاثے منجمد اور ترقیاتی امداد معطل ہے۔

سیکرٹری جنرل کے بیان کے جواب میں افغان عبوری وزیر خارجہ امیر متقی نے کہا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں تاہم لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے لیے طالبان حکومت کوتھوڑی سی مہلت دی جائے۔ ہمیں اقتدار میں آئے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں اور عالمی قوتیں ہم سے کارِ مملکت میں سدھار کی وہ توقعات وابستہ نہ کریں جو وہ مالی وسائل اور مضبوط سہاروں کے باوجود 20 سالہ اقتدار میں خود نہ کرسکے تھے۔15اگست کوافغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تاحال کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ عالمی قوتوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقدامات بالخصوص خواتین کے حوالے سے رویے اس بات کا تعین کریں گے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔

افغانستان کے معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وزیرخارجہ امیرمتقی کا موقف بالکل درست معلوم ہوتاہے۔ طالبان نے ایک ایسے ملک میں عنان اقتدار سنبھالا ہے جس کی معیشت مصنوعی سہاروں پر زندہ ہے۔ انفراسٹریکچر تباہ ہوچکا ہے۔سرکاری ادارے برائے نام ہیں۔ سیکورٹی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ شدت پسند تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔افغان نیشنل آرمی کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ طالبان چند ہزار رضاکاروں کی مدد سے امور مملکت چلارہے ہیں۔ بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کئے گئے ہیں جبکہ بیرونی امداد بھی نہیں مل رہی۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کا جو خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا۔ اس صورتحال کو بھی طالبان نے خوش اسلوبی سے کنٹرول کرلیا ہے۔ عالمی برادری کو افغانستان کی معاشی بحالی کے لئے فوری امداد فراہم کرنی چاہئے اور طالبان کو کم از کم چھ ماہ کی مہلت دینی چاہئے کہ وہ دوحہ امن معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیاتھا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں روزگارکی فراہمی کا وعدہ نبھانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تاہم خواتین کی سیکورٹی کے لئے انہیں الگ انفراسٹریکچر بناکردینا چاہتے ہیں خواتین کے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں الگ ہوں گی اور وہاں خواتین اساتذہ ہی مقرر ہوں گی۔

مالی وسائل کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے، حکومتی رٹ قائم کرنے اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہے یہ کام بھی مالی وسائل کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا۔دوحہ میں امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں بھی افغان وفد نے اپنے یہ مطالبات دہرائے ہیں۔ایک پرامن اور خوشحال افغانستان نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

پنتالیس سال تک بیرونی جارحیت، اندرونی خلفشار اورخانہ جنگی کا شکار ملک میں امن کا قیام اولین ضرورت ہے تاکہ دہشت گرد دوبارہ افغانستان کو اپنی محفوظ پناہ گاہ نہ بناسکیں۔دنیا نے دیکھ لیا کہ افغانستان میں بدامنی اور انتشار نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اس ملک کو محفوظ بنانا اور ترقی کی راہ پر واپس لانا بھی عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔اقوام عالم اپنی ذمہ داری پہلے پوری کریں اس کے بعد طالبان حکومت سے اپنے وعدے نبھانے کا تقاضا کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
53574

اشرف غنی اور طالبان میں فرق – محمد شریف شکیب

افغان طالبان نے افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں تعاون کا خیرمقدم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم اپنا انقلاب کسی دوسرے ملک کو برآمد نہیں کریں گے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود افغان حکومت کی فورسز خود رضاکارانہ طور پرہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کو قبضے میں لے لیں‘ایسا 20 سال میں بھی ممکن نہیں تھا کابل انتظامیہ کی فورسز ہم سے رابطہ کرتی ہیں،

وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اسلحے کے ساتھ ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ہم نے ننگر ہار، کنڑ، فریاب، زابل اور دوسرے علاقوں سے داعش کو ختم کیا ہے، اب افغانستان میں کسی بھی صوبے میں داعش نہیں ہے۔افغانستان میں داعش یا دوسرے گروپس کو جگہ نہیں دیں گے۔طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کریں طالبان ترجمان نے انکشاف کیا کہ بھارت کابل انتظامیہ کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔

کابل سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نے افغانستان کے دو تہائی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان کا جو بھی سیاسی سیٹ اپ ہوگا اس میں طالبان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ طالبان کی طرف سے افغان سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا اعلان بھارت کے لئے واضح پیغام ہے کہ افغانستان میں قونصل خانوں کی آڑ میں جاسوسی اڈے قائم کرنے اور ان کے ذریعے پاکستان میں تخریبی کاروائیاں جاری رکھنے کا انہیں موقع نہیں دیا جائے گا۔

بھارت کی طرف سے کابل انتظامیہ کو اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے طالبان کا بیان بھی پاکستان کے موقف کی تصدیق ہے کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب کابل شہر تک محدود اشرف غنی کی حکومت بھارت کے اشاروں پر چلتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کو بنیاد بناکر افغان حکومت نے پاکستان سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ سفارت کار کی بیٹی پر تشدد کرکے ہماری روح کو زخمی کیا گیا اور جب تک اس واقعے کے مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔

افغان سفارت کار واپس نہیں جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو کسی نے اغوا نہیں کیا۔ وہ خود ٹیکسی لے کر پنڈی اور اسلام آباد میں مٹرگشت کرتی رہی اور گھر آکر اغوا اور تشدد کئے جانے کا ڈرامہ رچایا۔ وزارت داخلہ نے بھی سفارت کار کی بیٹی کے اغوا اور تشدد کی تردید کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کابل حکومت طالبان کی پے در پے کامیابیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے اور دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔

بعید نہیں کہ سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور سفارتی عملے کی واپسی کے ڈرامے کا سکرپٹ دلی میں تیار کیاگیا ہو۔ افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اوچھے ہتھکنڈوں سے وہ اپنی سیاسی ساکھ کو خود خراب کرنے کے درپے ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کابل حکومت کو یاد دلایا ہے کہ افغانستان کی سرحد بھارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے ملتی ہے۔ ہم چالیس سالوں تک 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان امن عمل کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دینا کابل حکومت کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
50634