بزمِ درویش۔ شہر خموشاں ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش۔ شہر خموشاں ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں بہت دنوں بعد شہر خموشاں میں آیا تھا جب بھی دنیا کی ہنگامہ خیزی اور شور سے دل بیزار ہو تا ہے تو میں قبرستان کا رخ کر تا ہوں جہاں پر چند گھڑیاں گزار کر انسان کو اپنی اوقات یاد آجاتی ہے قلب و روح پر پڑی غبار چھٹ جاتی ہے دل کے نہاں خانوں میں یہ گونج صدائیں دیتی ہے کہ تمہار اآخر بھی یہی ہے ایک دن تم نے بھی یہاں آنا ہے جس طرح آج تم مریدوں کے ہجوم میں نظر آتے ہو اِسی طرح اِس شہر خموشاں میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہمالیہ جیسا انسان خاک نشیں ہے جب وہ تمہاری طرح دھرتی کے اوپر سانس لیتے تھے تو اِن کا بھی یہی گمان تھا کہ اُن سے بہتر اِس دھرتی پر پہلے کوئی نہیں آیا ایسے ایسے ماہ رخ دلکش چہرے جن کے حسن کے جلوے دیکھ کر کائنات کی نبض رک جاتی تھی وہ چہرے جب وہ سکرین پر نمودار ہو تے تو ٹریفک جام ہو جاتی کسی محفل میں جاتے تو رنگ و نور خوشبوؤں کا سیلاب آجاتا سارے سنگی مجسمے بن جاتے حسن کے آبروئے چشم پر اقتدار کے ایوانوں میں زلزلے آجاتے جن کے ماتھے کی ایک شکن پر دولت مند دولت کے انبار اِن کے قدموں میں لگا کر پوچھتے اور ہمارے لیے کیا حکم ہے جن کی ناراضگی پر لوگ اپنی جانیں قربان کر دیتے جن کے حسن کے لشکارے دیکھ کرہوائیں فضائیں ساکت اور بوڑھا آسمان پلک جھپکنا بھول جاتا جن کے رخ روشن کا نظارہ دیکھ کر بہت سارے لوگ خالق کے عشق میں گرفتار ہو جاتے
آج مٹی کے نیچے کیڑے مکوڑوں کی خوراک اور مٹی میں بدل چکے ہیں جو جب بھی جلوہ افروز ہو تے تو ہجوم کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا لوگ گھنٹوں ایک جھلک دیکھنے کے لیے غلاموں کی طرح کھڑے رہتے اب کتنی سینکڑوں خاموش راتیں گزر گئیں آج ان کی قبروں پر چمگادڑوں جانوروں کا راج ہے پرندے اپنے معدوں کی غلاظت صاف کرتے ہیں دوسری طرف کو چہ اقتدار کے ایسے شاہ زور جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھے جن کو لاکھوں لوگ ووٹ ڈالتے تھے جو اپنے دربایوں کو وزارتیں خیرات کے طور پر بانٹتے تھے جو سمجھتے تھے کہ وہ کوچہ اقتدار کے کوٹھے پر جلوہ گر ہوئے اور قائم رہنے کے لیے پیدا ہو ئے ہیں جو سڑکوں پر نکلتے تو پروٹوکول کے لشکر ان کے طواف کر تے جہاں جہاں سے گزرتے گھنٹوں پہلے عوام کے لیے ٹریفک روک دی جاتی تاکہ شہنشاہ عالم کو ٹریفک کی وجہ سے سست روی کا شکار نہ ہو نا پڑے جو کبھی اگر کسی جگہ خطاب کرتے تو گھنٹوں پہلے جلسہ گاہ کو عوام کے سمندر سے بھر دیا جاتا تاکہ لیڈر کو بتا یا جا سکے کہ وہ کتنا محبوب ہر دل عزیز ہے اور جب ایسے اقتدار کے لشکروں کو فرشتہ اجل نے پکڑا تو لوگ ان کو منوں مٹی کے نیچے دبا کر چلے گئے جو ہجوم درباریوں کے بغیر ایک لمحہ نہیں گزار سکتے تھے جنہوں نے اپنے آرام کے لیے دنیا بھر کے بہترین باورچی اپنے کھانے کے لیے رکھتے تھے جو دنیا بھر کے بہترین لذیذ کھانے اِن کو پیش کر تے تھے
آج اِن کے جسموں میں کیڑوں نے سرنگیں بنا دی ہیں اور اِن کے نرم و نازک جسموں کو چبا گئے ہیں کتنی راتیں دن گزر گئے نہ پروٹوکول کے لشکر نہ درباریوں کا مجمع خاموش راتیں گرمی سردی کی سختیاں اور تنہائی کا عالم میرے چاروں طرف دور تک قبروں کا جال بچھا ہوا تھا یہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک ناگزیر سو رہا تھا جو کہتے تھے ہم نبض کائنات اور ملک کے لیے ناگزیر ہیں ہمارے بغیر ملک نہیں چل سکتا لیکن نبض کائنات اور ملک ویسے ہی چل رہا ہے کو چہ اقتدار اور محفلیں ویسے ہی آباد ہیں نئے لوگ نئے چہرے جو اِس خمار میں مبتلا کہ یہ محفلیں ہمارے دم سے آباد ہیں اور ملک صرف ہماری دانش حکمت سے چل رہا ہے ہم ہی عوام کے واحد سہارے ہیں ہم نہیں تو ملک نہیں عوام نہیں لیکن وقت کی کروٹ ایک ایک کر کے اِن سب کو بھی موت کے غار میں اتار دے گی اور نئے لوگ اِن کی جگہ لے لیں گے انہی سوچھوں میں گم میں اپنے دوست کی قبر تک پہنچ گیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے دعا کے بعد میں نے دیکھا تھوڑی دور ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس جوان کسی قبر پر پھول چڑھا کہ عقیدت کا بت بنا کھڑا تھا میں اُس کے قریب گیا تو قبر کی تختی دیکھ کر چونک پڑ ادنیاوی بہت بڑے سیٹھ کی قبر تھی میری آہٹ پر جوان نے دعا ختم کی اور میر ی طرف متوجہ ہوا تو میں نے شفیق لہجے میں بو لا یہ آپ کے والد صاحب کی قبر ہے تو وہ دکھی لہجے میں بولا جناب کاش اِن کی اولادمیں سے بھی کوئی آتا وہ تو ان کے مرنے کے بعد دولت کو لٹانے اور رنگ رلیوں میں مصروف ہیں
وہ یہاں آکر اپنا وقت برباد نہیں کرتے تو میں بولا پھر آپ تو وہ بولا میں اِن کاذاتی ملازم کا بیٹا ہوں مجھے انہوں نے پڑھایا جس کی وجہ سے آج میں اہم سرکاری نوکری کر رہاہو ں اگر وہ یہ نیکی میرے ساتھ نہ کرتے تو آج میں بھی کسی کی گاڑی کا ڈرائیور ہو تا یا نوکر ہو تا وہ اپنے مالک کی بہت تعریفیں کر رہا تھا اور میں سوچھ رہا تھا کہ ہم جس اولاد کے لیے ساری زندگی جائز ناجائز کی تمیز کئے بغیر دولت اکھٹی کرتے ہیں وہ مرنے کے بعد پلٹ کر بھی خبر نہیں لیتے اور جو لوگ کسی غریب کی پرورش کر تے ہیں وہ مرنے کے بعد بھی آپ کی قبر پر دعا اور پھول چڑھا نے آجاتے ہیں کاش ہم مرنے سے پہلے کوئی ایسی نیکی کر جائیں کہ کوئی ہماری قبر پر دعا کر نے اور پھول چڑھانے آجائے کوئی نیکی جس سے قبر جنت کا باغیچہ بن جائے۔