Chitral Times

شنـــــــــدور اور طاقتور نمبــــــردار – تحریر۔ شمس الحق نوازش غذری

Posted on

شنـــــــــدور اور طاقتور نمبــــــردار – تحریر۔ شمس الحق نوازش غذری

بیلوں کی لڑائی سے آنکھ کھلی تو گاؤں کی مشہور خبرنگار خاتون طلوعِ سحر کے فوراً بعد گھر آکر بیٹھی تھی۔ وجہ آمد معلوم کیا تو مصنوعی انداز میں گہری سانس لی اور چہرے میں سنجیدگی کی چادر چڑھا کر گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا بالکل عجیب شے ہے عجیب ہی نہیں بلکہ عجوبہ ھے دیکھیے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئی انکھیں جھکائی اور بالکل خاموش ہوگئ۔ جب ان کی خاموشی غیر معمولی طوالت اختیار کر گئی تو مخاطب سے بھی رہا نہ گیا۔ انہوں نے کہا جی ہاں! یہ دنیا بالکل عجیب چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مخاطب کے زبان سے سکوت ٹوٹنے پر انھوں نے سر اٹھائی تو ان کے آنکھوں سے آنسوؤں کے گولے ٹپک رہے تھے مخاطب حیرت سے انھیں تکتا رہا اور پریشانی کی وجہ دریافت کرنے کی غرض سے جونہی لبوں کو حرکت دی۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ دیکھتے ہی انہوں نے مخاطب کو کچھ بولنے کے لیے زحمت دئے بغیر دوبارہ گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی بے رغبتی کو، اور اسکی بیحسی اور اس کی زندگی کو اج لنگرخان کو بھی جینے نہیں دیا۔۔۔۔ یہ سنتے ہی مخاطب نے افسوس بھی کرلیا اور ان کی تشریف آوری کا مدعا بھی سمجھ لیا۔ اصل میں یہی خبر اج ان کی خاص بولٹن کا حصہ تھی کہ لنگرخان کی موت واقع ہوئی ھے گاؤں میں کسی کی موت کی خبر کو لاؤڈ اسپیکر میں اعلان کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ شہر کی طرح گاؤں میں گنجان آبادی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ خبر اچھی ہو یا بری سیکیڈوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ھے۔ اس خبر کو خبرنگار خاتون نے پھلائی یا خود پھیلی۔ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں البتہ گاؤں میں جس نے جس وقت اور جس کام کے دوران یہ خبر سنی ۔ اس نے اسی وقت وہ کام وہی چھوڑ دی۔ مستری نے ہتھوڑا نیچے رکھا، مالی نے کھرپہ، کسان نے درانتی پھینک دیا اور مزدور نے گھنٹی۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کی خبر سن کر گاؤں میں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا امیر تھا یا غریب،حاکم تھا یا محکوم۔۔۔۔۔۔

 

اگرچہ لنگرخان بھی بذات خود کوئی بڑے امیر، حاکم یا مخدوم نہیں تھے لیکن اج گاؤں میں ان کی اہمیت کی کوئی وجہ تھی تو وہ صرف یہ کہ موت ان کی زندگی سے روح چھین لی تھی اور ہمارے معاشرے میں روح سے محروم بدن کی اہمیّت بھی ہوتی ھے اور عزت بھی۔۔۔۔۔۔ چاہے مرنے والا لنگرخان ہو ہلاکوخان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں آج لنگرخان کے گھر کی طرف مردوں اور عورتوں،جوانوں اور بوڑھوں کی لائنیں لگی تھی۔ گاؤں کی روایت یہ ہے کہ کسی گھر میں موت واقع ہونے پر خواتین ورثاءِ میت کیساتھ ہمدردی کے لئے گریہ وزاری کرتی ہیں اور مرحوم کی جسد خاکی کو اخری آرام گاہ کی طرف رخصت کرنے سے قبل گھروں کی طرف واپس لوٹنے کو معیوب سمجھتی ہیں اور اس دن سوگوار خاندان کے خواتین اپنی سوگ میں شامل شرکاء کی آنسوؤں سے ان کی ہمدردی اور خلوص کے پیمانے کا لیول طے کرتی ہیں۔۔۔۔۔ جبکہ مرد حضرات مختصر تعزیت کے بعد قبر کشائی کے لۓ قبرستان کا رُخ کرتے ہیں۔ گاؤں والے صرف ایسے مواقع میں اپنے حصّے سے بڑھ کر کام کرنے کو باعث ثواب بھی سمجھتے ہیں اور باعث فخر بھی۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے اجتماعی کاموں میں اس دن نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی نمبرداران کی۔۔۔ کوئی کسی کے حکم کا منتظر ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کو حکم دینے کی نوبت آتی ہے میرے گاؤں میں جنوری کی یخ بستہ اور ہڈیوں کا گودہ منجمد کرنے والی طوفانی ہواؤں میں بھی چند گھنٹوں میں قبر تیار کرنے کا ریکارڈ موجود ہے۔

 

گاؤں کے لوگ روایتی انداز میں لنگرخان کی قبر کشائی میں مصروف تھے کسی کو کسی پر توجہ دینے کیلئے وقت ہی میسر نہیں تھا ہر شخص پوری دیانت داری اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کام میں محو تھا اتنے میں چلی خان بابا کی قیادت میں چند نوجوانوں کا ٹولہ لنگرخان کی جسد خاکی کیلئے ان کے گھر کی طرف چل پڑا۔ ان کی اس حرکت سے مجمع میں موجود ایک پولیٹیکل ورکر آگاہ ہوا یہ دیکھتے ہی وہ اگے بڑھا اور انتہائی سختی سے انہیں منع کیا۔ چلی خان اور اس کے ٹولے کو ہدایت کی جب تک ارام گاہ تیار نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی یہاں سے ہلنے کی حماقت نہ کرے۔ یہ کہتے ہی نوجوان اپنے کام میں میں محو رہا اور دوبارہ چلی خان بابا کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے کا انہیں خیال تک نہیں ایا۔ چلی خان بابا اور ان کا ٹولہ نوجوان پولیٹیکل ورکر کے نظروں سے خود کو بچاکر وہاں سے رفو چکر ہونے میں کامیاب ہوگۓ اور قبر تیار ہونے سے قبل ہی لنگرخان کا جسدخاکی قبرستان پہنچا دیا یہ دیکھتے ہی پولیٹیکل ورکر غصے سے کانپ اٹھا لیکن موقع غصے کو پینے اور جذبات کو ضبط کرنیکا تھا۔ یوں وہ اور اس طرح کے دیگر رضاکار خاموشی سے غصہ پیتے رہے اور دل ہی دل میں چلی خان بابا کو کوستے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ قبر تیار ہونے سے پہلے میت قبرستان پہنچانے کا کیامطلب۔۔۔۔۔۔؟ یہ سوال ہر کسی کے دل ودماغ میں کانٹے کی طرح چھب رہا تھا۔ قصہ مختصر۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی رسوائی اور بے حرمتی کے بعد بالآخر لنگر خان کی جسد خاکی زمین کی گود میں اتارا گیا۔۔۔۔ واپسی پر گاؤں والے ایک دوسرے کو اس قسم کی غلطی نہ دہرانے کا درس دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے ان سیدھے سادے اور بھولے بھالے انسانوں میں سے کسی کی بھی دل و دماغ میں یہ سوال دستک ہی نہیں دی کہ گاؤں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کی میت کا تقدس پامال کیوں ہوا۔۔۔۔۔؟ گاؤں والے مجموعی طور پر ایک انجانی سی کیفیت میں خود کو اس کا مورد الزام ٹھہرارہے تھے۔ یہ تو ان کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔۔کہ اس مکروہ دھندہ کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی راز پوشیدہ ہے۔ اس قبیح عمل کے انجام دہی میں کچھ سرغنوں کا کردار ہے اس کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی سازش پنہاں ہے۔

 

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی ماضی کا قصہ اور حصہ بن گیا۔ دنیا کے دیگر اہم واقعات اور حالات کی طرح گاؤں کے لوگوں نے بھی اس واقعے کو فراموش کردیا بلکہ یہ واقعہ تو لنگرخان کے جسدِ خاکی کی طرح منوں مٹی تلے دفن ہوکر گل گیا۔۔۔۔۔۔

 

کئی برس بعد نمبردار کی اہلیہ کا نمبردار کے قریبی عزیزہ کیساتھ جگھڑا ہوا۔۔۔ نمبردار کی اہلیہ نے انہیں سرعام نہ صرف برا بھلا کہا بلکہ ہاتھ اٹھانے میں بھی دیر نہیں کی۔ اس تضحیک کے رد عمل میں مخالف خاتون صرف اتنا کہہ گئ۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی خواہشات کی تسکین کیلئے مردوں کو رسوا کرنے سے دریغ نہ کی ہوں انکے نزدیک زندوں کی اہمیت چہ معنی۔۔۔۔۔۔؟ نمبردار کی اہلیہ اور ان کی عزیزہ کے مابین چھڑی جنگ سرد پڑھتے ہی پاس کھڑی خاتون نے نمبردار کی عزیزہ سے مردوں کی رسوائی کی وضاحت چاہی تو نمبردار کی اہلیہ کی نئ نویلی دشمن گویا ہوئی۔۔

 

آج سے کئ برس قبل اسی گاؤں میں لنگر خان نامی شخص کا انتقال ہوا اس وقت ان کا آخری آرام گاہ تیار ہونے سے کئی گھنٹے قبل ان کی میت قبرستان پہنچادی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ افسوسناک حرکت نمبردار نے اپنی اہلیہ کی ایماء پر انجام دیا تھا جس کے بارے میں آج تک گاؤں کے فرشتے بھی لاعلم ہیں
سامنے کھڑی خاتون تعجب اور حیرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر پوچھنے لگی۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ نمبردار کی عزیزہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوۓ گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی روز یہی ملکہ محترمہ بن سنور کے یہاں سے کئ دور کسی اور گاؤں میں اہم تقریب میں شرکت کرنے جارہی تھی۔ علاقے کی روایات اور رسم دنیا کے مطابق پہلے لنگر خان کے ماتم سراۓ میں تعزیت ضروری تھی۔ اس وقت گاؤں کی خاتون اول کے پاس صرف دو ہی آپشنز تھے۔ یا تو ہمسائیگی میں واقعہ فوتگی کے گھر ماتم پرسی چھوڑ کر تقریب میں شرکت کے لیے چلی جاتی یا ہنگامی طور پر لنگرخان کی میت کو کسی نہ کسی طرح گھر سے رخصت کروادیتی پہلی صورت پر عمل درآمد کرنے سے نمبردار کی نمبرداری کو خطرہ لاحق تھاپس انہوں نے دوسری آپشن پر عمل درآمد شروع کی اور کامیاب رہی جس کے بارے میں گاؤں والوں کو اج تک کوئی علم ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جب بھی شندور ایشو کا پتنگ سادہ لوح عوام کو آوارہ ہواؤں کی منشاء کے مطابق اڑتا ہوا نظر آتا ہے تو مُجھے ان کی ڈوری کسی نہ کسی طاقتور نمبــــــردار اور ان کے اہلیہ کے ہاتھ میں نظر آتی ہے لیکن میرے گاؤں کے بھولے بھالے عوام صرف اور صرف پتنگ کو ہی تکتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈورے ڈالنے والوں کی ڈوری کی طرف کسی کا خیال ہی نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ خیال اس وقت تک نہیں جاۓگا جب تک نمبرداران کی بیگمات کسی روز آپس میں دست و گریباں ہو کر ایک دوسرے کی راز فاش نہیں کریں گی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت تک لنگر خان کی ہڈیاں راکھ کا ڈھیر بن چکی ہوں گی اور ورثاء قبر کا راستہ ہی بھول چکے ہوں گے

 

 

 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
92996