سکالر شپ اور عزت نفس ۔ گل عدن چترال
سکالر شپ اور عزت نفس ۔ گل عدن چترال
رائی کا پہاڑ بننا کس کو کہتے ہیں یا بات کا بتنگڑ کیسے بنایا جا سکتاہے یہ ہمیں انہی دنوں سمجھ میں آیا جب ایک فلاحی ادارے سے وصول کی گئ چیک طالب علم کی جانب سے واپس کرنے کا عمل یا واقعہ بلکہ سانحہ رونما ہوا۔مذکورہ ادارے کے معززین کا غم و غصہ تو سمجھ میں آتا ہے اور جائز بھی لگتا ہے لیکن غیر متعلقہ عوام کا سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے کے بعد میں قلم اٹھانے پر اور اس معاملے کو سانحہ لکھنے پر مجبور ہوں۔مجھے اندازہ نہیں ہے کہ کوڑا دان سے چیک کو سوشل میڈیا پر پہنچانے والا پہلا شخص کون ہے؟اسکے کیا مقاصد ہیں؟آپکی نظر میں چیک واپس کرنے والا ایک جذباتی جوان ادارے کا دشمن ہے جبکہ میری نظر میں اس واقعے کو سوشل میڈیا پر اچھالنے والا نہ صرف اس ادارے کا دشمن ہے ،پورے علاقے کا بلکہ انسانیت کا دشمن ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے وہ بچہ جس نے چیک نجانے کن “وجوہات” کی بناء پر واپس کیا تھا’مسلسل تنقید برائے تنقید کی زد پر ہے.آخر کیوں؟؟
ہمارے عظیم چترالی عوام کی عدالت میں بحث برائے بحث سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ چیک کا واپس کرنے سے زیادہ متعلقہ شخص کا اپنی عزت نفس کی پاسداری کا مطالبہ اس عظیم عدالت کو زیادہ ناگوار گزرا ہے۔لہذا مجرم کو ذلت کا نشانہ بنا کر عدالت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ عزت کا حقدار صرف پیسے والا اور پیسے بانٹنے والا ہے۔جبکہ پیسہ لینے والا چونکہ ضرورت مند ہے،محتاج ہے لہذا ایک غریب کی کوئی عزت وغیرہ نہیں ہوتی لہذا ایک عوام کی عدالت اس بات پر چراغ پا ہے کہ ضرورت مند کی جب عزت ہی نہیں ہوتی تو عزت نفس مجروح کیسے ہوئی؟؟؟؟کتنی مضحکہ خیز لڑائی ہے خود عوام کے ہاتھوں۔۔یہی رویہ ہے جو احسان کو کرنے والے کے لئے بھی اور لینے والے کے لئے بھی مشکل بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں احسان لینا وہ بھی باقاعدہ تشہیر کے ساتھ ابھی تک آسان نہیں ہوسکا۔اور نہ ہی کھبی ہوسکے گا۔میں ان فیس بک صارفین سے اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا واقعی مشکل وقت میں کسی سے مدد لینے کے بعد آپکی بے عزتی کا حق پوری دنیا کو مل جاتی ہے؟ آخر کیوں؟؟کیا یہی ہے انسانی ہمدردی؟؟
کیا اسلام نے ایسے احسان کی اجازت دی ہے؟؟جسکے جو منہ میں آرہا ہے بولے جارہا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے کہ آیا ہمارے اس معاملے میں کوئی لینا دینا ہے کہ نہیں۔حقائق جانے بغیر ‘تصدیق کیے بنا ایک کمزور پر کیچڑ اچھالنا اتنا آسان کیوں ہوگیا ہے ہمارے لئے؟؟ستر فیصد لوگ نہ تو ہدایت اللہ صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں نہ ہی اس بچے کو جس نے چیک واپس کیا ہے لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ایک کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں ‘دوسرے کو مسلسل بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ میرے چترالی بہن بھائی صرف مردوں کو رونے کے لئے اور زندوں کو رلانے کے لئے زندہ ہیں۔اس تنقید برائے تنقید میں آپ شاید بھول گئے کہ گزشتہ سال چترال میں خودکشی کا تناسب کیا رہا؟؟؟کیا آپ نہیں جانتے کہ چترال میں ہر عمر کے مرد اور خواتین ذہنی امراض خاص طور پر ڈپریشن کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ کیا خودکشی اور منشیات کی بڑھتی ہوئی ریشو سے آپکو اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے رویے زہریلے ہوچکے ہیں۔ایک دوسرے کی معاملات میں بے جا دخل اندازی سے ہماری زندگیاں حرام ہوچکی ہیں۔کیا ہم صرف انسانی ہمدردی کی خاطر اپنے کام سے کام نہیں رکھ سکتے؟؟؟
کیا ہم کسی کی زندگی کی خاطر اپنی بے لگام زبانوں کو لگام نہیں ڈال سکتے؟؟؟ کیا ہم صرف ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لئے باقی ہیں؟مختصرا میں اپنے چترال کے بے حس عوام سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ اول بات تو یہ کہ پچھتر ہزار روپے کسی کی ذہنی صحت،کسی کی عزت اور زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔دوسری بات یہ کہ یہ ادارہ آپکے پیسوں سے نہیں چل رہا لہذا بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانے کا کردار نبھانے سے جتنا ممکن ہو سکے ‘باز رہیں۔
اور جہاں تک بات ادارے کی ہے تو یقینا روز جیسے ادارے اور اسکے سربراہ ہدایت اللہ صاحب جیسے لوگ بلا شبہ ہمارا فخر اور ہماری خوش قسمتی ہیں۔ایسےلوگ نہ صرف قابل ستائش ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔ایسے ادارے کی تحفظ اور ترقی کے لئے ہر صاحب استطاعت فرد کو عملی طور پر تعاون کرنے کی ضرورت ہے سو ہے لیکن ادارے کو اپنی تحفظ کے لئے کچھ شرائط و ضوابط لاگو کرنے چاہئے۔پس پردہ حقائق کیا ہیں ہم نہیں جانتے شاید ادارے کے تحفظ کو وہ تمام خطرات درپیش ہیں جنکا ذکر بارہا کیا گیا۔گمان آرائیاں سچ بھی ہوسکتی ہیں غلط بھی ۔اگر دلائل کیساتھ اپنا دفاع کرتے تو معاملہ واضح ہوجاتا۔لیکن چونکہ ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا اس لیے ادارے کے طریقہ کار پر سوال اٹھتا ہے۔سکالر شپ وصول کرنے والے افراد کو کم از کم اتنی معلومات ہونی چاہیے کہ انکا شجرہ نسب انکا نام پتہ تصویر کہاں کہاں اور کیسے استعمال کی جائیگی۔ادارے کو اپنے شرائط و ضوابط پہلے سے ہی واضح کردنیے چاہیے۔تاکہ بعد میں اس طرح کی صورت حال پیدا نہ ہو۔اور ایسی صورت حال میں ادارے کو خود اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اپنے اصول طے کرکے انہی کے مطابق کاروائی ہونی چاہئے نہ کے عوام کی عدالت لگادی جائے۔
ہم ادارے کی تشہیری مہم پر انگلی نہیں اٹھائیں گےاور آپ سے اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ وقت ایسا چل رہا کہ فلاحی کاموں کی تشہیر کرنا لازمی ہوگیا ہے تاکہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی زیادہ سے زیادہ لوگ ایسے کاموں میں حصہ لیں۔اور ایک فلاحی معاشرہ قائم ہوسکے لیکن اللہ کے احکامات میں کتنی مصلحتیں ہوتی ہیں یہ انسان نہیں سمجھ سکتا لیکن حالیہ واقعہ سے اتنا تو ثابت ہو گیا ہے کہ کیوں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکییوں کو چھپا چھپا کر کرنے کی تلقین کی ہے۔ضرورت صرف اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ اگر معاشرے میں احسان کرنے والے کی عزت ہے تو احسان لینے والے کی بھی اتنی ہی عزت ہے۔لیکن اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ احسان کی استطاعت رکھنے والوں کو خدا سمجھنے لگتا ہے اور احسان لینے والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔اس کا ثبوت یہی واقعہ ہے۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک چور’ ڈاکو،موٹر وے کیس جیسے مجرموں،منشیات فروشوں،سمگلروں جعلی پیروں کو باعزت بری کرتی ہے اور میڈیا پر انکے چہروں پر نقاب ڈال کر پیش کرتی ہے تو چندہ واپس کرنے والے “مجرم ” کی تذلیل کی اجازت کیونکر دیتی ہے؟؟