Chitral Times

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق: عملی تجاویز – خاطرات :امیرجان حقانی

Posted on

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق: عملی تجاویز – خاطرات :امیرجان حقانی

 

 

پاکستان کے تعلیمی نظم میں دینی مکاتب و مدارس اور بڑی جامعات نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جہاں لاکھوں طلبہ و طالبات کو دینی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ مدارس و جامعات تمام مسالک کی ہیں جہاں لاکھوں اساتذہ کرام ، معلمین و معلمات اور قراء حضرات کروڑوں طلبہ و طالبات کو تعلیم و تربیت سے منور کررہے ہیں۔

 

مدارس کی افادیت ضرورت و اہمیت اور شاندار خدمات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، مگر وقتاً فوقتاً ان اداروں کے نظم و نسق میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ خاص طور پر اساتذہ کرام اور دیگر ملازمین کے حقوق اور مراعات کے حوالے سے اصلاحات ناگزیر ہیں، تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے سکیں۔

 

 

موجودہ سنگین صورتحال

بدقسمتی سے، دینی مدارس و جامعات میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں، مدارس و جامعات کے مہتممین اور منتظمین ہی کا عقل و خیال اور پسند و ناپسند ہی حرف آخر ہوتا ہے ۔ دینی مدارس کے امتحانی بورڈ جیسے کہ وفاق المدارس العربیہ وغیرہ کے منشور و دستور میں بھی اس حوالے سے کوئی خاص قوانین نہیں ملتے، بلکہ اساتذہ کے حوالے سے سرے سے کوئی رہنمائی ہی موجود نہیں۔صاف الفاظ میں کہا جائے تو مہتممین و منتظمین کے حقوق اور پراپرٹی کے دفاع پر مبنی اصول و ضوابط ہیں۔

 

اکثر مدارس و جامعات میں مہتمم حضرات اپنی مرضی سے اساتذہ و ملازمین کی بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے تقرری عمل میں لاتے ہیں۔ استاد یا ملازم مقرر کرنے کا واحد طریقہ مہتمم صاحب کی رضامندی اور پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی مہتممین کی ناراضگی پر اساتذہ و ملازمین کو فارغ کردیا جاتا ہے ، اور ملازمین کو اپنی شکایت درج کرنے کے لئے کوئی فورم دستیاب نہیں ہوتا۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو ایک جھٹکے میں برطرف کردیا گیا، اور ان کے پاس کہیں اپیل کا حق بھی موجود نہیں تھا۔

 

اسلامی نقطہ نظر

اسلام میں ملازمین کے حقوق کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ اور آپ کے خلفاء نے ہمیشہ انصاف پر مبنی طرزِ عمل اپنایا اور ملازمین کے حقوق کی پاسداری کی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنی چاہئے، اور کسی بھی ملازم کے ساتھ ناحق یا ظلم کا برتاؤ ممنوع ہے۔

 

فقہ اسلامی کے اصول بہت واضح ہیں۔تو مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ جبکہ مدارس میں اساتذہ کا استحصال و استیصال برابر جاری رہتا ہے جس کا ادراک طلبہ و اساتذہ کو بخوبی ہے۔ اور مہتممین و منتظمین اور ان کی اولاد، اساتذہ کرام کو “اجیرخاص” کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔ کیا چالیس پچاس سال، تفسیر قرآن، حدیث رسول، فقہ اسلامی اور دیگر مشکل فنون و علوم پڑھانے اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے مخلص لوگوں کو یہ طعنہ دینا جانا چاہیے؟۔

 

آئینی اور قانونی تحفظ

پاکستان کا آئین اور ملکی قوانین ملازمین کے حقوق کی حفاظت کے لئے واضح اصول فراہم کرتے ہیں۔ دینی مدارس میں بھی ان قوانین کو نافذ کیا جانا چاہئے تاکہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کے حقوق محفوظ رہ سکیں۔ اسی طرح ہی مدارس قومی دھارے میں شامل ہوسکتی ہیں۔
اس ضمن میں قومی اسمبلی سے ایک جامع ایکٹ پاس کیا جانا چاہئے جو مدارس کے ملازمین کے تقرری، برخاستگی، تنخواہوں، مراعات اور دیگر حقوق و فرائض کے حوالے سے قانونی تحفظ فراہم کرے۔ اور اس قانون سے کوئی مدرسہ یا مہتمم ماورا نہ ہو۔ سب مدارس پر برابر لاگو ہو۔ دینی مدارس و جامعات قطعا ملکی قوانین سے مبرا نہیں۔

 

اصلاحات کی تجاویز

مدارس و جامعات میں انتظامی اور نصابی حوالے سے بڑے پیمانے پر بہترین اصلاحات کی ضرورت ہے، تاہم آج ہم صرف اساتذہ و ملازمین کے حوالے سے چند اصلاحاتی تجاویز پیش کرتے ہیں، تاکہ بہتری کے سفر میں فکری و عملی اقدامات کا آغاز ہوسکے۔

 

1. ملازمت کا معاہدہ

تمام ملازمین، بشمول اساتذہ، کو ایک تحریری معاہدہ فراہم کیا جائے جس میں ان کے حقوق، فرائض، تنخواہ اور ملازمت کی شرائط وضاحت سے بیان کی جائیں۔ اس معاہدے میں تقرری کے عمل، برخاستگی کے طریقہ کار، اور مراعات کا ذکر ہونا چاہئے۔ اور اس معاہدہ کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ فریقین معاہدہ کا پابند ہوں۔

 

2. تنخواہ کا نظام

اساتذہ کی تنخواہوں کے حوالے سے ایک معیاری اور منصفانہ نظام وضع کیا جائے، جو ان کی تعلیم، تجربہ، اور ذمہ داریوں کے مطابق ہو۔ اس نظام میں اضافی مراعات اور سہولیات بھی شامل ہوں تاکہ اساتذہ مالی طور پر مستحکم رہ سکیں۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا غیر قانونی ہونے کیساتھ غیر اخلاقی و اسلامی بھی ہے۔

 

3. وفاق المدارس کے دستور میں تبدیلی

مدارس و جامعات جن وفاق المدارس بورڈز سے ملحق ہیں، ان کے دستور میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو واضح طور پر شامل کیا جائے۔ اور دستور میں تبدیلی کرکے ان بورڈز کے بڑے علماء کی سطح پر ایک فورم قائم کیا جائے جہاں اساتذہ اپنے مسائل اور شکایات درج کرسکیں اور ان کا منصفانہ حل نکالا جاسکے۔ بدقسمتی سے مدارس کے بورڈز کا دستور و منشور اساتذہ و ملازمین کے حقوق کے حوالے سے خاموش ہے۔ یہ مجرمانہ خاموشی بھی اسلام اور قانون کے خلاف ورزی ہے۔

 

4. قانونی اپیل کا حق

اساتذہ اور ملازمین کو برطرف کیے جانے کی صورت میں ایک مضبوط اپیل کا حق دیا جائے۔ دستوری طور پر اپیل کا یہ فورم وفاق المدارس کے بڑے علماء پر مشتمل ہونا چاہئے تاکہ اساتذہ کو انصاف مل سکے۔اعلی سطح فورم کے ذریعے مدارس و جامعات کے اساتذہ کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جاسکے اور ان کی اپیل سن کر قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ صادر کیا جائے ۔اس پر عمل نہ کرنے والے مدارس کا فوری رجسٹریشن منسوخ کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ، انہیں پاکستانی عدالتوں سے رجوع کرنے کا بھی حق دیا جائے تاکہ ان کے حقوق کا قانونی تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

 

5.اساتذہ کی یونین کا قیام

ملک بھر کی مدارس و جماعت کے اساتذہ کی ایک طاقتور یونین کا قیام نہایت ضروری ہے۔ یونین کا قیام اساتذہ کا آئینی حق ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا ہے۔
یہ یونین اساتذہ کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائے اور کسی بھی زیادتی کی صورت میں ان کا دفاع کرے۔ یونین کا قیام اساتذہ کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ اور اسی طرح اس کے ذریعے مدارس کے مہتممین و منتظمین اور منسلک بورڈ کو بھی شفافیت کیساتھ اصول و ضوابط اور قوانین پر عمل پیرا کروانے کے لیے کوشش کیا جائے۔

 

خلاصہ کلام

دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کا تحفظ نہ صرف ان کی عزت و وقار کا مسئلہ ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور ملکی آئین کی روح کے عین مطابق ہے۔ یہ حقوق وہ بنیادی ستون ہیں جن پر ایک منصفانہ اور متوازن تعلیمی نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے مدارس کے نظام میں ایسی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان معزز اساتذہ اور کارکنان کو تحفظ فراہم کریں بلکہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہو۔

 

قومی اسمبلی کو اس اہم مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے ایک جامع قانون سازی کرنی چاہئے جو اساتذہ کے تقرری، برخاستگی، تنخواہوں، اور مراعات کے حوالے سے واضح اصول وضع کرے۔ یہ قانون سازی اس بات کی ضامن ہونی چاہئے کہ مدارس کے اساتذہ کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور ان کے حقوق ہر حال میں محفوظ رہیں۔ اسی طرح، مدارس کے وفاقی بورڈز کو اپنے منشور میں اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو شامل کرنا چاہئے، اور ایک ایسا اعلیٰ سطحی فورم تشکیل دینا چاہئے جہاں اساتذہ اپنی شکایات اور مسائل پیش کرسکیں اور ان کا منصفانہ حل نکالا جا سکے۔

 

مزید برآں، اساتذہ کی ایک طاقتور اور منظم یونین کا قیام بھی ضروری ہے، جو ان کے حقوق کے لئے مضبوط آواز اٹھائے اور کسی بھی قسم کی ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو۔ یہ یونین نہ صرف اساتذہ کے مسائل کے حل میں مددگار ہوگی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کا بھی ضامن ہوگی۔

 

ان اقدامات سے نہ صرف دینی مدارس کے اساتذہ اور ملازمین کے حقوق کو تحفظ ملے گا بلکہ مدارس کے نظام میں شفافیت اور انصاف کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ اصلاحات اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوں گی اور ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف کی فضاء کو مضبوط کریں گی۔ اس طرح، دینی تعلیم کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور ہمارے اساتذہ اپنے فرائض کو مزید لگن اور اعتماد کے ساتھ ادا کر سکیں گے۔ اس سفر میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک مضبوط، منصفانہ، اور قابلِ احترام نظام ہی ایک مضبوط قوم کی بنیاد بن سکتا ہے، اور مدارس کے اساتذہ اس بنیاد کے معمار ہیں۔

 

 

 

 

Posted in گلگت بلتستان, مضامینTagged
92682