Chitral Times

دینی مدارس اسلام کے قلعے۔ میر افسر امان

بسم اللہ الرحمان الرحیم
مشرقی اُفق۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے۔ میر افسر امان

دین بیزار نظامِ تعلیم کے پھیلانے میں مغرب اورمحکوم ذہنیت کے مقامی کالے انگریزوں کا گہرا کا تعلق ہے۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے متعصب ہنددوؤں اور مسلمانوں کے ازلی دشمن نصارا سے جمہوری طور پر امن طریقے سے لڑ کر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان مثل مدینہ حاصل تو کر لی۔ مگر اُن ساتھ ملے کھوٹے سکوں نے پاکستان کو غلام ذہنیت سے نہیں نکلنے دیا۔ تحریک پاکستان کے دوران پاکستان بنانے والوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان میں اللہ کے قانون کو نافظ کریں گے۔ عام عوام کو یہ نعرہ دیا گیا کہ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ اس پر مسلمامانِ برصغیر نے قائد اعظمؒ کی لیڈر شپ میں پاکستان کی تحریک کو انجام تک پہنچایا تھا۔ جب مسلمانانِ برصغیر نے اللہ کے نام پر وطن مانگا،تو اللہ نے تشتری میں رکھ کر مثل مدینہ ریاست پاکستان مسلمانوں کو دے دی۔ مسلم لیگ کے کھوٹے سکے اللہ سے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے۔ اسلامی تعلیم کیا، اسلامی نظام حکومت،اسلامی نظام سیاست اور مسلمانوں کی قومی زبان اُردوبھی آج تک سرکاری زبان نہ بنایا۔مسلمانوں کے ہزار سالہ شاندار دور حکومت میں یکساں نظام تعلیم تھا۔اس وقت اندلس اور بخارا کی مسلم ریاستوں میں مغرب والے علم سیکھنے آتے تھے۔مغرب نے دین کو تعلیم سے الگ کر دیا۔ جو مسلم ملکوں میں بھی رائج کر دیا۔ اب بھی مسلم ھکومتوں کو یکساں نظام تعیل رائج کرنا چاہیے۔

 

مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ نے تحریک پاکستان کے دوران ہی کہا تھا کہ مسلم لیگ کے کھوٹے سکے اسلام سے مخلص نہیں۔ قائد اعظمؒ نے تو پاکستان کے بننے کے بعد ہی پاکستان کو اسلامی بنانے کے اقدام شروع کر دیے تھے۔مگر اللہ نے انہیں جلد ہی اپنے پاس بلا لیا۔ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے ملک کو سیکولرزم کے راستے میں ڈال دیا۔ سید مودودیؒ شبیر احمد عثمانیؒ نے دوسرے علماء کو ساتھ ملا کر اسلامی نظام حکومت کے لیے تحریک چلائی۔ اسی کی وجہ سے ۳۷۹۱ء اسلامی آئین بنا۔اس آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل بنی۔ اسی آئین میں لکھا ہے کہ ملک کے سارے غیر اسلامی قوانین کو ختم کر اسلامی قوانین بنائے جائیں گے۔ مگر آج تک لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ہی چل رہا ہے۔

 

راقم نے اپنے آج کے مضمون کا نام ”دینی مدارس اسلام کے قلعے“ رکھا۔ دینی مدارس کیا ہماری مساجد کے مینار بھی میزائیل ہیں، جو اسلام دشمنوں کے سینے چھیرتے ہیں۔ بھلا ہو ا،اُن علماء کا جو سوکھی سوکی کھا کر اسلام کے قلعوں مدارس کو سنبھلے ہوئے ہیں۔ مبارک باد کی مستحق ہے اسلامی مدارس طلباء کی ملک گھیر تنظیم”جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان“ جو شروع سے ہی دینی مدارس کے طلبہ کو مسلکوں سے پاک اتحاد کی طرف بلاتی رہی ہے۔ جمعیت طلبہ عربیہ پورے ملک کے دینی مدارس کے لیے آواز اُٹھاتی رہی ہے۔ پاکستان کے کالے حکمران کالجوں، یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی تو پھر پور مدد کرتے ہیں۔ ان کے لیے عمارتبناتے ہیں، ان کے لیے فنڈ مختص کرتے ہیں، اُن کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک باہر بھیجتے ہیں۔ لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محافظ اسلام کے محافظ دینی مدارس کو ان سہلوتوں سے محروم رکھتے ہیں۔ قربان جاؤں علماء پر کہ وہ عام مسلمانوں سے زکوٰۃ اور صدقات اپنے طور اکٹھے کر کے ملک کے چالیس لاکھ دینی مدارس کے طلبہ کی تعلیم نظام کو چلا رہے ہیں۔دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے کو کثیر دینے کے بعد بھی بے دین طالب علم ان کے قابو نہیں آتے، آئے روز ہنگامے کرتے رہتے ہیں۔ مگردینی جامعات(یونیورسٹوں)کے طلب علم کبھی بھی اپنے اساتذہ کے قابو سے باہر نہیں ہوئے۔ یہ اللہ کی غیبی مدد ہے۔

 

جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کے ماہنامہ رسالے”مشکوۃ المصباح لاہور“ نے دینی مدارس کے طلبہ کی فلاح بہبود کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ یہ رسالہ عرصے سے دینی مدارس کے مسائل سے حکومت کے کالے انگریزوں کو جگاتا رہتا ہے۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ جمعیت طلبہ عربیہ کا رسالہ”مشکوۃ المصباح لاہور“اتحاد طلبہ مدارس“ کاخاص نمبر اکتوبر ۴۲۰۲ء کے مہینے میں نکال رہا ہے۔ہم اس انقلابی کام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ کے مسائل ہنگامی طور پر حل کرے۔ دینی مدارس کی اسناد برابر طور پر تسلیم کرے۔بیرون اندرون اعلی تعلیم کے برابر مواقع مہیا کرے۔سالانہ بجٹ میں دینی مدارس کے لیے فنڈ مختص کرے۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور بنکنگ میں سہلولتیں پیدا کرے۔دینی مدراس کے خلاف منفی پروپیگنڈا بند کرے۔

 

کتنی عجیب بات ہے کہ ملک کے معماروں کے ساتھ جب سے پاکستان بنا ہے ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا۔ مغربی ملک اپنے ملکوں کے طالب علموں کے ملک کی خدمت کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں محب وطن دینی مدارس کی ملک کی خدما ت کی تعریف نہیں جاتی، الٹامغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتاہے۔ مدراس میں طالب علم قرآن شریف حفظ کرتے ہیں، جو ایک بڑی سعادت ہے۔ درس نظامی مکمل کر کے مسجد کے اندر امام وموذن کی خدمات پیش کرتے ہیں۔مفتی کا کورس مکمل کر کے عام مسلمانوں کے دینی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ دینی رہنما مسلمانوں کی دینی رہنمائی کرتے ہیں۔ دینی رہنماؤں ے ہی ملک میں بڑی بڑی جامعات(یونیورسٹیاں) قائم کر رکھی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کے قائم کرنے میں حکومت کا کوئی بھی کنٹربیوشن نہیں۔ اتنا بڑا کام ہمارے علما نے خود اپنی کوششوں سے کیا ہے۔ ہم دینی مدراس کے طالب علموں کے مطالبات کی پر زرو حمایت کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ رسالہ”مشکوۃ المصاح پاکستان“ کے”اتحاد طلبہ مدارس“ خاص نمبر میں اُٹھایا گئے مطالبات کوجلد از جلدمنظور کرے۔ پاکستان زندہ باد۔

 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
94561