دلشاد پری بحثیت ایس ایچ او تھانہ شغور میں مثالی خدمات انجام دی۔۔مفتاح الدین
چترال ( نمایندہ چترال ٹایمز ) کریم آبادبریشگرام کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت، وی سی سی بختولی کے صدر اور لیزان کمیٹی کے ممبر مفتاح الدین نے کہا ہے کہ چترال پولیس کے سب انسپکٹر دلشاد پری بحثیت ایس ایچ او تھانہ شغور انتہائی ایمانداری اور فر ض شناسی سےاپنی ڈیوٹی سرانجام انجام دی جس کیلئے ہم دلشاد پری کے ساتھ ڈی پی او چترال لویر سونیہ شمروز کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک قابل بیٹی کو بحثیت ایس ایچ او ہمارے علاقے میں تعینات کیا تھا۔ بریشگرام کی سماجی شخصیت گل نیاب خان کے ساتھ چترال ٹائمز ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہ دلشاد پری نے شغور تھانہ میں مردوں سے بڑھ کر مثالی خدمات سر انجام دی ، نوجوان نسل کو نشے کی لعنت سے بچانے کیلیے منشیات کے خلاف پہلی دفعہ ایک موثر قدم اُٹھایا جس کی وجہ سے اب علاقے میں منشیات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ نوعمر موٹرسائیکلسٹ اور بے غیر لائسنس کے گاڑی چلانے والوں اور دوسرے جرایم کے خلاف بھی انھوں نے بیغیر کسی تفریق اور امتیاز کے بھرپور کاروائی کی جس کی وجہ سے حادثات میں انتہائی کمی آئی ۔ مفتاح نے کہا کہ ہمارے لیئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ شغور تھانہ میں پہلی دفعہ خاتون سٹیشن ہاوس آفیسر کی تعیناتی ہوئی جو اپنی ٹینیورانتہائی خوش اسلوبی سے مکمل کرکے تبدیل ہوئی ، اور تھانے میں کسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک نہیں کی ۔ علاقے کے عوام ڈی پی او شمروز صاحبہ کے ساتھ ایس ایچ او دلشاد پری کے مشکور اور مذید ترقی کیلئے دعاگو ہیں کہ وہ جہاں بھی جائیں اسی طرح دیانتداری اور خلوص نیت سے ڈیوٹی انجام دیتے رہیں۔مفتاح الدین نے اس امید کابھی اظہار کیا کہ شغور میں آنے والے دیگر پولیس افسران بھی انہی کی طرح جرایم کے خلاف بلاامتیاز اورموثر کاروایی کو جاری رکھیں گے۔
خداوندتعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو بہتر طور پر چلانے کے لئے مرد اور عورت دونوں کے اندر طاقت اور صلاحیت کے انمول خزانے ودیعت کر رکھا ہے جن کو استعمال میں لاتے ہوئے دونوں اس کائنات کی خوبصورتی میں اپنا حصہ ڈالتے رہےہیں۔ یہ خوبی اور صلاحیت اگر عورت کے اندر موجود ہو تو وہ شرارِ زندگی بن کر تہذیب وتمدن کے حسن کو دوبالا کرتی ہے کیونکہ عورت کا وجود صرف تصویرِ کائنات میں رنگ بھرنےکے لئے نہیں بلکہ تسخیرِ کائنات کے عمل میں برابر شریک رہنے اور مردوں کے دوش بدوش ہمسفر کی صلاحیت موجود رہی ہے۔یہی مثال دخترِچترال محترمہ دلشاد پری کےلئے دی جاسکتی ہےکیونکہ انہوں نے قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپناتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ کے-پی-کے کے محکمہ پولیس میں اپنی کرئیر کا آغاز کیا اور کئی مراحل سے گزر کر آج لوٹکوہ کے شغور تھانے میں بحیثیت خاتون SHO تعینات ہوچکی ہیں۔آپ کی یہ تقرری نہ صرف چترال کے عوام بلکہ چترال کی پوری خواتین کے لئے باعث فخر ،قابلِ صد تحسین اور اہم پیغام ہے کہ اگر عورت اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بروئی کار لائیں تو وہ بھی ناممکن کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
دلشاد پری5 نومبر 1989 ء کو اپر چترال کے خوبصورت اور ہردلعزیز گاؤں بونی گولوغوٹیک کے ایک معزز قبیلہ سادات خاندان میں آنکھ کھولی جن کے آباواجداد کو علاقے میں کئی عشروں سے مذہبی خدمات انجام دینے کی وجہ سے ہمیشہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کے والد گرامی سید عزیز ولی شاہ ہیں جس نے گزشتہ کئی عشروں سے محکمہ پولیس میں ایک وفادار اور مخلص حوالدار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بہ حسنِ خوبی انجام دے کر سبکدوش ہوئے اور کئی سال خوشی اور مسکراہٹ کے حسین لمحات اپنے بچوں کے ساتھ بانٹ کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔آپ کی اولاد میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔دلشاد پری موصوف کی دوسری بیٹی ہیں جو بہت ہی لائق، ہونہار اور سخت محنتی ہیں۔ والد نے دورانِ ملازمت اور ریٹارمنٹ کے بعد بھی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ۔ اولاد کی خوشی کے لئے شب وروز محنت کرتا رہا اور سب کے ساتھ یکسان سلوک اور ان کو اُن کا حق دلانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا ۔جس کی وجہ سے آپ کی ساری اولاد مختلف شعبوں سے منسلک ہوکر عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
البتہ دلشاد پری بہت ہی ذہین اور ہوشیار بیٹی تھی جنہوں نے اپنی بنیادی تعلیم کا آغاز آغاخان گرلز ہائی سکول بونی دوکاندہ سے کیا جہاں مارچ 2005ء کو مٹرک کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کرکے اپنی سکنڈری تعلیم کے لئے پامیر پبلک سکول بونی کا انتخاب کیا جہاں سے 2007ء کو ایف ایس سی کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ گرلز کالج سیدو شریف سوات میں پڑھائی شروع کی اور 2009 ء کو BSC کا امتحان پاس کرکے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد ایم ایس سی کے لئے جہانزیب کالج سوات میں داخلہ لے لیا ۔ اس کالج میں آپ کی پڑھائی جاری تھی کہ 2010 ء کو KPK کے محکمہ پولیس میں لیڈی کنسٹبل کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی اور ایک سال تک مزید محنت اور لگن سے اپنا مطالعہ جاری رکھ کر 2012 کو اپنی MSC یعنی Organic Chemistry ( نامیاتی کیمیا) میں سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔دلشاد پری جیسا کہ بتایا گیا ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ سخت مخنتی اور اپنے کام سے کام رکھنے والی خاتون ہیں ۔ وہ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بھی آرام سے بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھی بلکہ وہ اپنے قیمتی لمحات کو اپنی صلاحیت اور ہنر میں اضافہ کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی ۔یہی وجہ تھی کہ آپ وکالت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ Bed کی ڈگری بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اسطرح آپ صحافت اور DIT میں بھی ڈپلومہ حاصل کرچکی ہیں ۔
آپ کو شروع ہی سے قانون کے خدوخال اور اس کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لئے شوق اور دلچسپی رہی تھی۔ آپ کوئی پیشہ ور وکیل بننا نہیں چاہتی تھی بلکہ پولیس کے محکمے سے وابستہ ہوکر قانون سے خوب واقفیت حاصل کرکے قانون کے مطابق معاشرتی مسائل کو حل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے NOC لیکر مسلم لاء کالج سوات میں ایڈمیشن لیا اور تین سال میں LLB کی سند حاصل کی۔وکالت کی تعلیم کے لئے آپ کے ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران کی پشت پناہی بھی آپ کو حاصل رہی جن کی ہمہ وقت مدد اور تعاون سے آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی ۔دلشاد پری کا کہنا ہے کہ اگر افسرانِ اعلیٰ کی اعلیٰ ظرفی اور مدد شامل حال نہ ہوتی تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوتی۔اسطرح مسلم لاء کالج سوات میں دوران تعلیم میرے بہت سے اساتذہ کرام نے عقلی، ذہنی اور اخلاقی تربیت میں میری بھرپور معاونت کی اور جن کی کاوشوں سے ہی میری خوابیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوئیں۔ان اساتذہ میں کالج کے پرنسپل احمد شاہ اور شہزادہ رحمٰن قبلِ زکر ہیں اور میں اپنی پوری زندگی اُن معزز اساتذہ کرام کا شکر گزار رہونگی۔
وکالت کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد عملی زندگی میں چترال کے نامور قانون دان اور معزز شخصیت محترم صاحب نادر لال کی صحبت اور اُس کی ماہرانہ تجربوں سے بھی فیض حاصل کیا اور اُن کے زرۤین اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنانے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے دیئے ہوئے اصول آج بھی اس کی زندگی کے لئے مشغلِ راہ ہیں۔
آپ کے ذہن میں پختہ ارادہ اور ایک مضبوط وژن تھا اس مقصد کو اپنا منشور بناکر پولیس کی ملازمت کا انتخاب کیا اور معاشرے کے مظلوم لوگوں خصوصاََ خواتین کے مسائل اور ان کی محرومیوں کے سد باب کے لئے اپنی خدمات پیش کی۔آپ کی سوچ کی بلند فکری اس بات سے بھی عیاں ہے کہ آپ نے اچھا خاصا تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی کسی اعلیٰ عہدے کے انتظار میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ محکمہ پولیس میں ایک لیڈی کنسٹبل کی حیثیت سے اپنی ملازمت شروع کی اس دوران مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کا تجربہ ہوا جس سے آپ کو مشکل اور دقیق مسائل جیسے چیلنجیز سامنے آئے جن میں FRO محرر اور وومن رپورٹنگ انچارچ وغیرہ شامل تھی۔ ان ایۤام میں خواتین کو ان کا جائز حق دلانے کے لئے کوشان رہی جن میں گھریلو جھگڑا،تشدد اور جائیداد وغیرہ کے مسائل نمٹاتی رہی۔ ان اہم ذمہ داریوں میں ہر بار کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی اور لوگ آپ کی کامیابی کی تعریفیں کرنے لگےاور خصوصاََ مظلوم خواتین آپ کو دعائیں دینے لگیں اور یہ دعائیں آخر کار رنگ لائیں جن کی وجہ سے آپ نے تین بار کیڈٹ کا اعزاز حاصل کیا ۔آپ کے بہت سے احباب اور رشتہ داروں نے آپ سے کہا کہ اچھی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی پولیس میں لیڈی کنسٹبل کی حیثیت سے کیوں کام کرتی ہیں؟ آپ ان تمام منفی اور تلخ باتوں سے دل برداشتہ نہیں ہوئی بلکہ استقامت اور صبرو تحمل سے علامہ محمد اقبال کے اس پُرحکمت شعر کے مصداق اپنے کام سے کام رکھی۔
تند باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اوڑانے کے لئے
دلشاد پری پر خدا مہربان تھا کہ 2017 ء میں آپ نے اپنے محکمے میں کمیشن حاصل کرکے ASI بھرتی ہوئی اور پھر آپ کی ترقی کی راہیں کھلتی رہیں۔ آپ نے مزید دلچسپی اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی اور کبھی بھی کسی کو شکایت کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ آپ کی محنت اور اچھی کارکردگی کو دیکھ کر افسرانِ اعلیٰ بھی آپ کے بارے میں اچھے تاثرات قلمبند کئے اور اپ کو حراجِ تحسین پیش کئے۔ان خصوصیات کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ کے تمام سٹاف آپ کی صلاحیت اور حسنِ سلوک سے متاثر ہوئے اور آپ کو ہمیشہ عزۤت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب سونیہ شمروز خان پہلی بار ڈی پی او لوئیر چترال مقرر ہوئی تو آپ کے حسنِ اخلاق ، حسنِ کارکردگی کو قریب سے دیکھی تو بہت زیادہ معترف ہوئی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سونیہ شمروز خان نے آپ پر اعتماد کرتی ہوئی چترال میں پہلی بار خاتون SHO کی حیثیت سے آپ کی تقرری کا نوٹیفکشن جاری کیا جس کی وجہ سے آپ 20 ستمبر 2021 ء سے لوٹکوہ کے شغور تھانے میں اپنی ذمہ داری کا آغاز کیا۔
یہ اہم ذمہ داری ایک خاتون کے لئے کوئی آسان نہیں تھی مگر دلشاد پری میں یہ خصوصیات پہلے سے بہ حدِ قوت موجود تھیں کہ وہ اپنی مردانہ وار صلاحیتوں کو بروئے کا ر لاتی ہوئی ان مشکل گھڑیوں کو آسانی میں بدل کر اہم کردار ادا کی ۔ تبھی تو چترال کی ڈی پی او نے آپ پر بھروسہ اور اعتماد کرتی ہوئی یہ اہم ذمہ داری آپ کو سونپ دی تھی۔آپ نے شغور تھانے میں جب سے SHO تعینات ہوچکی ہیں اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ اپنے ماتحت سٹاف کے ساتھ بھی آپ کا رویہ بہت ہی مشفقانہ ہے۔آپ نے اپنے آپ کو کبھی بھی ایک افسر تصور نہیں کیا بلکہ ایک عام سپاہی کی حیثیت سے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔ آپ کی ان اعلیٰ خوبیوں اور صفات کی وجہ سے آپ کے تمام سٹاف آپ کے حسنِ عمل اور کردار سے مطمئن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ پروردگار عالم اپنی مہربانی اور رحم و کرم کے طفیل دلشاد پری پر اور بھی اپنی رحمتیں اور مہربانیاں نچھاور کرے تاکہ معاشرے کے مظلوم طبقے کو ان کی جائز حقوق ملے اور معاشرے کے لوگ امن و سکون اور آشتی کے سایئے میں زندگی گزار کر معاشرے کے پرامن شہری ہونے کے ناطے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔
جب بھی کوئی شخص اپنی زمہ داری نیک نیتی سے انجام دے رہا ہوتو اس کو اس کے فرائض منصبی سے روکنے اور اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کچھ تخریب کار ہر وہ حربہ استمعال کرتے ہیں جواسکی بس میں اور جب اس میں بھی ناکامی ہو جاتی ہے تو براہ راست مذہبی منافرت کا لیبل لگا کر میدان میں اتر ٓآتے ہیں یہی وہ ہتھکنڈا ہے جس سے عوام جلدی اشتعال میں اجاتی ہے ۔
ہمارے معاشرے کا دوسرا المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ زہنی بیمار بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں جو نہ خود عوام کے لئے کچھ کرسکتے ہیں اور نہ آپ کو کچھ کرنے دیتے ہیں جب کوئی اپنے حوصلے کے ساتھ کچھ کرنا چاہے تو یہ تخریب کار اچانک بیدار ہوتے ہیں اور مسلک یا مذہب کا سہارا لیکر اپنی زاتی دشمنی نکالتے ہیں کیونکہ سادہ لوح لوگ بات کی تہہ تک نہی جاتے اور فورا جذباتی ہو جاتے ہیں جس کا فائدہ یہ تخریب کار لیتے ہیں۔
جب ایک انسان ٖفارغ اور فضول بیٹھتا ہے تو اسکی ساری سوچ اور کام کرنے کی صلاحیتں ماؤف ہوتے ہیں کیونکہ خالی زہن شیطان کا آما جگاہ بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف دوسروں کے جذبات اور خدمات کو نفی کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف پروپیگنڈوں میں لگتا ہے او پھر اگے یہی آدمی تخریب کار بن جاتا ہے جس کا مقصد اس معاشرے میں فساد پھیلا کر اپنی نفس کی تسکین کرنی ہوتی ہے چاہے اس کے لئے اس سے مذہب کا لبادہ اوڑھنا کیوں نہ پڑے۔
گاہے اس کے لگائے گئے اگ میں کتنا خون خرابہ کیوں نہ ہو۔چاہے معاشرہ کتنے بے راہ روی کی طرف کیوں نہ جائے بس اس سے اپنی انتقام کی اگ بجانے ہوتی ہے جس کے لئے اس نے سارا سال فارغ بیٹھ کر پلاننگ کی ہوتی ہے،جس کو نہ خوف خدا ہے نہ قیامت کے آنے کا یقین۔
اج کل میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا۔ہم اپنے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض منصبی بھرپور اور احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں ۔جو بھی شخص معاشرے کی بربادی اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے وہ کسی بھی صورت معافی کے قابل نہی۔جب بھی ایسے لوگوں کے خلاف ہم لوگ میدان میں آتے ہیں تو ان تخریب کاروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور یہی تخریب کار ان لوگو ں کی پشت پناہی کے لئے سرگرم ہوتے ہیں اور پھر ہزار قسم کی حربے استمعال کرتے ہیں۔یا سوشل میڈیا میں فیک آئی ڈی سے کسی کے خلاف پروپیگنڈا کرکے عوام کو مشتعل کرتے ہیں یا مذہبی رنگ دے کر دوسروں کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں چترال کے عوام سے درخواست کرتی ہوں کہ ایسے تخریب کاروں کے مقصد کو پہلے سمجھیے اور اگر کوئی شخص کوئی پیچ چلا رہا ہو تو زمہ داری کے ساتھ چلائے۔دوسروں کی ساکھ اور عزت کے ساتھ کھیلنے کے لئے نہی بلکہ معاشرے کی فلاح کے لئے،۔ہر چیز کا ایک ضابظہ ہوتا ہے۔جس پر عمل پیرا ہونا معاشرے کے ہر فرد کی زمہ داری ہے۔