Chitral Times

داریل کا سیاسی منظر نامہ ۔ تحریر: ثمر خان ثمر 

داریل کا سیاسی منظر نامہ ۔ تحریر: ثمر خان ثمر

داریل کے سیاسی اُفق پرکئی ستارے نمودار ہوئے، کئی ایک جگممگانے کی تگ ودو میں رفتہ رفتہ غروب ہوگئے ، سیاسی اُفق پر اپنا جلوہ دکھانے کی حسرت لیے راہی ملک عدم ہوئے ، کئی اس دوڑ میں آج بھی دوڑ رہے ہیں پر منزل ابھی کافی دور نظر آتی ہے۔ حاجی جان عالم پھوگچی مرحوم کا نام لیے بنا داریل کی سیاست کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ اُن کا گھرانہ سیاسی تھا ، اس گھرانے نے صاف شفاف سیاست کی لیکن بدقسمتی سے حاجی صاحب کے انتقال کے بعد یہ گھرانہ سیاست سے کنارہ کش ہوا۔ جانے کیا بات ہوئی کہ یہ خاندان سیاسی تاریخ اور بہترین ساکھ رکھنے کے باوجود سیاست سے الگ ہوگیا۔ ان کے ہم نام حاجی جان عالم منیکالی نے سیاست میں قدم رکھا ، کافی ہلچل مچائی ، ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور یوں یہ ستارہ بھی ٹمٹماتے ٹمٹاتے بجھ گیا۔ ڈاکٹر محمد زمان صاحب نے  2015 میں پہلی بار سیاست میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، ان کی انٹری سے داریل کے سیاسی اکھاڑے میں ایک طوفان آیا۔ تُندی اور تیزی آئی ، ڈاکٹر صاحب کاویژن نوجوان نسل کو متاثر کرنے لگا ، خود میں نے انھیں ووٹ دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان کے مزاج میں عجلت کا عنصر نمایاں ہے۔ برسوں کا کام مہینوں میں ، مہینوں کا دنوں اور دنوں کا گھنٹوں میں کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات قطعاً ممکن نہیں ہے۔ وہ سیاسی اکھاڑے میں اُترنے والے ناتجربہ کار پہلوان تھے اور ان کا سامنا دو گھاگ پہلوانوں سے ہوا تھا جو سیاست کے ہر داؤپیچ کو بہ خوبی جانتے تھے۔ خیر ہار گئے لیکن سُرخیوں میں رہے۔ کچھ نامساعد حالات کی وجہ سے واپس سعودیہ جانا پڑا ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پانچ سال یہاں جم کر لوگوں کی خدمت بجا لاتے تو آمدہ الیکشن میں جیت بھی سکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب آج بھی سیاست کے میدان میں نظر آتے ہیں ۔ ملک ٖ غفار خان صاحب بھی کافی عرصے سے قسمت آزمائی کررہے ہیں ، دو بار الیکشن لڑا ، اچھے خاصے ووٹ بھی لیے۔اب دیکھئے ان کا سیاسی مستقبل کتنا تابناک ہے؟
درحقیقت داریل کی سیاست اس وقت دو خاندانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ دو خاندان یہاں کی سیاست کے قطب ہیں۔ ان کے گرد داریل کی سیاست گھومتی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے باری باری یہ دو خاندان اقتدار پر قابض ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ انھیں ہرانا ناممکن ہے ہاں یہ کہہ سکتا ہوں انتہائی مشکل ضرور ہے۔ سیانے تو کہتے ہیں داریل کی سیاست “دوبیر” ہے ، “سہ بیر” کے امکانات فی الحال دکھائی نہیں دیتے ۔ ان کی عظیم خدمات ہیں۔ عوام کے اندر ان کی گہری جڑیں ہیں۔ یہ جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اکھاڑ پھینکنا محال ہے۔ تقریباً اسی فیصد لوگ ان دو خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور باقی بیس فیصد دوسرے اُمیدواروں میں منقسم ہیں۔ یہ میرا اندازہ ہے ، ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔ حاجی حیدر خان صاحب اور حاجی رحمت خالق صاحب ان دو خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ دو اس وادی کی ہردلعزیز شخصیات ہیں۔ انھوں نے سیاسی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی لیکن اقدار کو سلامت رکھا۔ اقدار اور روایات کو پامال ہونےنہیں دیا۔ انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے کو نرم گرم بھی کہا مگر ذاتیات پر لے کر نہیں گئے۔ یہ تو سیاست دانوں کا وتیرہ رہا ہے کہ عوامی جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف زبانیں آگ اُگلتی ہیں اور بند کمروں میں پھول جھڑتی ہیں۔ مطلب جلوتوں اور خلوتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن سادہ لوح لوگ اس بات کو اپنی انا کا مئلہ بنا کر خونی رشتوں اور ناطوں کا قتل عام کرتے ہیں۔ ان دو میں سے ایک آج سیاسی اکھاڑے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ رہا ہے۔  جی ہاں حاجی حیدر خان صاحب!
حاجی حیدر خان صاحب نے آج گماری داریل میں اپنے کارکنوں کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے سیاست سے سبک دوشی کا اعلان کیا اور اپنے کارکنوں سے نیا لیڈر منتخب کرنے کی درخواست کی ۔کارکنوں نے یک آواز ہو کر نوجوان لیڈر محمد نسیم کو حاجی حیدر خان کا جانشین مقرر کیا۔ وہ ایک ابھرتے ہوئے نوجوان لیڈر ہیں۔ حاجی حیدر خان صاحب کا سیاسی کیریئر تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا عرصہ نہیں ہوتا ، ایک عمر ہوتی ہے۔ اس دوران ایک بچہ خود کئی بچوں کا باپ بن جاتا ہے  پہلی بار 1994 میں سیاست میں قدم رکھا اور پہلی ہی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور انھیں مشیر جنگلات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔  1999 میں شکست ہوئی ،  2005 میں ایک بار پھر جیت گئے ،  2010 میں ہار گئے ، 2015 میں فاتح قرار پائے  اور منسٹر ایکسائز بنے۔  2020 میں شکست ہوئی اور دو سال معاون خصوصی کے طور پر کام کیا۔  تین دہائیوں میں تین باریاں لیں۔اُن کے دور میں کافی ترقیات کام ہوئے۔ چند ایک یہ ہیں:  منیکال گبر روڈ ، تبوڑے روڈ  ،ہائر سکینڈری سکول گماری ، پبلک سکول داریل ، نادرا آفس ،تیس بیڈ ہسپتال گماری ،ڈوڈشال ، پھوگچ ، سمیگال اور پدیال ہائی اسکولز ،  کئی پرائمری اسکولز ، ٹی ٹی لائن ، گندم گودام ، لنک روڈز اور سوت چینل پچاس لاکھ فنڈ ؤغیرہ۔  چھوٹی بڑی درجنوں اسکیمیں حاجی صاحب نے داریل کے لئے اپنے دور اقتدار میں رکھی ہیں جن سے آج لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ ان کی گران قدر خدمات ہیں ۔ان شاءاللہ عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
کشادہ  پیشانی ،گول مٹول چہرہ اور روشن آنکھیں ، وہ بھاری بھرکم جسامت کے آدمی ہیں۔ چیرے پر بشاشت ہمہ وقت تیرتی رہتی ہے۔ وہ جتنے بھاری بھرکم ہیں اتنے ہی کشادہ دل ہیں۔ مزاج میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ ہے۔ وہ ایک انتہائی گھاگ اور جوڑ توڑ کے ماہر سیاست دان کے طور پر جانے جاتے تھے۔  سیاسی داؤ پیچ میں مہارت حاصل تھی۔ سوچ سمجھ کر مہرے چلاتے تھے۔  ان کے مزاج میں  تُند رو ندیوں سا بہاؤ نہیں تھا ، گہری جھیل سا ٹھہراؤ تھا۔ طوفانوں کی سی شوریدہ سری نہیں تھی ، باد صبا کی سی لطافت تھی۔ وہ دنوں کا کام مہینوں میں نکالنے کے عادی تھے۔ عجلت ان میں نہ تھی۔ میں نے ایک بار انھیں ووٹ دیا تھا ، سچ کہوں تو ان کے سیاسی حریف سے ناراض ہو کر دیا تھا ، ان کے کہنے پر نہیں ، اس لیے کوئی احسان  نہیں۔ مردم شناسی ان میں بدرجہا اتم پائی جاتی تھی۔ چار پانچ موقعوں پر مجھے ان کے قریب رہنے کا موقع ملا ہے ، کچھ لوگوں کے بارے میں انھوں نے اس وقت کچھ فیصلے کیے تھے ، تب مجھے ان کی دماغی صحت پر شک ہونے لگا تھا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کردیا کہ وہ حق بجانب تھے۔ بزلہ سنجی ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ ہمیشہ دھمیے سُروں میں بولتے ہیں اوربزلہ سنجی سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ ان کے کچھ مقولے ظرافت کی معراج پا چکے ہیں لیکن میں رقم کرکے کسی کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔  وہ  لوگوں کی نبض پکڑ کر فیصلے کرتے تھے۔  اپنے ووٹروں کو سبز باغ دکھانے کے عادی نہ تھے ، راست گو تھے ، صاف کہتے تھے یہ کام ممکن نہیں ہے ، میں وعدہ نہیں کر سکتا۔ ان کا ایک وسیع حلقہ تھا ، لوگ انھیں دیوانہ وار چاہتے تھے۔ نرم خُوئی ، نرم گوئی ، ظرافت ، بشاشت اور شگفتگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔
 2017 میں حاجی صاحب کے فرزند اول حاجی افتخار میرے رفیق سفر حج رہے ہیں۔ چالیس روزہ رفاقت رہی ، ایک کھٹکا میرے دل میں شروع دن سے لگا رہا کہ کبھی نہ کبھی حاجی صاحب سیاست کی بات چھیڑ کر مجھے شدید آزمائش میں مبتلا کر دیں گے ، چالیس دن گزر گئے ، ہم سفر حج سے واپس آگئے ، اُنھوں نے کبھی سیاست کی بات تک نہیں کی۔ میں شدید متاثر ہوا اور اس خاندان کے ظرف کا قائل ہوا۔ حاجی حیدر خان صاحب ایک قبائلی سیاست دان تھے ، انھیں قبائلی سیاست کا ہر گُر آتا تھا۔  وہ ایک ماہر جرگہ دار بھی تھے ، کئی خاندانی دشمنیاں ان کی کاوشوں سے اخوت میں بدل گئیں۔  ہمیشہ اُصولی سیاست کی۔ حزب مخالف کو عزت دی ، احترام دیا۔  بازاری سیاست سے ہمیشہ نالاں رہے۔ وہ اپنے ساتھ سنجیدہ لوگ رکھتے تھے ، ایسے لوگ کہ جن کی موجودگی دوسروں پر گراں نہ گزرے۔ 2020 کے الیکشن میں “داداسرکار” کے نام سے سوشل میڈیا پر بڑی شہرت پائی اور آج دادا سرکار “چھوٹے سرکار” کے  حوالے سیاست کرکے خود علیحدہ ہوگئے۔  اب چھوٹے سرکار کا مقابلہ سیاست کے نامور کھلاڑی “ماماسرکار” سے ہوگا۔ میرا وجدان کہتا ہے ، ٹکر کانٹے دار ہوگی ، سیاست ایک الگ رخ اختیار کرے گی۔
محمد نسیم صاحب بھی سیاست میں کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ نووارد ہیں ، دادا سرکار کی سیاسی ڈوریاں ہلانے اور مہرے کھسکانے میں نسیم بھائی کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے۔  اب یہ ان پہ منحصر ہے کہ وہ اپنے چچا اور پارٹی کی اُمیدوں پر کیسے اُترتے ہیں؟  میری صلاح ہوگی کہ آپ کے چچا محترم نے ہمیشہ ایک اصولی سیاست کی ہے ، وہ سنجیدہ سیاست دان رہے ہیں۔ روایات اور اقدار کا پاس اور لحاظ رکھا ہے۔جانشین کو چاہیے کہ اُن کے نقش قدم پر چلے۔ سیاست میں مخالفت  اور مخاصمت چلتی رہتی ہے ، ایک دوسرے پر تنقید بھی ہوتی ہے لیکن کبھی ذاتیات پر  نہیں اُترنا چاہیے۔ سیاست ایک کھیل ہے اور کھیل کو کھیل سمجھ کر کھیلنا چاہیے جنگ نہیں۔ علاقے کا امن زیادہ عزیز ہے اور اگر امن نہیں تو پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ ماحول کو سازگار بنانا خود سیاستدانوں کا کام ہے عوام کا نہیں۔ عوام تو اُن دنوں بالکل پگلا جاتے ہیں۔ سیاستدان لوگ کرتب ہی ایسے دکھاتے ہیں کہ عوام پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے ، پھر ایسے ایسے کرتوت سرزد ہوجاتے ہیں کہ ہوش آتے آتے پُلوں کے نیچے سے ٹنوں پانی گزر چکا ہوتا ہے۔  ذرا سی حرکت ایسا گھاؤ دے جاتی ہے کہ رفو کرتے کرتے پانچ سال گزر جاتے ہیں اور ابھی رفوگری کا کام ادھورا ہوتا ہے کہ ایک اور الیکشن  رشتوں ناطوں کو تار تار کرنے آن پہنچتا ہے۔  حاجی حیدر خان صاحب کو الوداع اور  محمد نسیم بھائی کو سیاسی اکھاڑے میں خوش آمدید۔
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
91992