Chitral Times

بزمِ درویش ۔ خوشبو ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ خوشبو ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بہت دنوں بعد آج جمال شا ہ دور سے سفر کر کے مجھ فقیر سے ملنے آیا تھااُس کو دیکھ کر میرے چہرے پر خوشگوارمسکراہٹ پھیل گئی تھی یہ میرا پسندیدہ کردار تھا جس سے میں ہر روز مل کر بھی بور نہیں ہو تا تھا حضرت انسان روز اول سے گھر تک روزانہ الگ برنگے مزاج عادتوں شکلوں سے ملتا ہے یہ ملاقاتیں ایک ڈرل یا کارروائی ہو تی ہیں آپ مجبوراً ان کو برداشت کر تے ہیں لوگوں کو اِس تلخ تجربے سے زیادہ گزرنا پڑتا ہے جو زیادہ لوگوں سے ملتے ہیں خدائے عظیم کے کرم خاص سے جب سے اُس نے خدمت خلق کے کام پر لگایا میں روزانہ سینکڑوں لوگوں سے ملتا ہوں اب ہزاروں لاکھوں لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے پتلا خاکی انسان کو پڑھنے سمجھنے کا قریب سے موقع ملا ہے تقریبا ہر انسان جلد بازی بے چینی بے ضمیری ذاتی مفاد یا طواف کرتا نظر آتا ہے غزہ میں ہزاروں بوڑھے بچے قیمہ بنائے جارہے ہویا پاکستان کے گلی کوچوں میں طاقتور بد معاش غریبوں کا ننگا ڈانس نچا رہے ہوبے آسرا غریب عورتوں کی عزتوں کو سر عام پامال کر ہے ہوں

 

اِس سے کسی کوکوئی غرض نہیں ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میری بات سب سے پہلے سنی جائے کیونکہ میں اِس کرہ ارضی کا سب سے قیمتی اہم فرد ہو ں بھئی ہر شخص اپنی دولت بڑھانے اپنا قد کا ٹھ اونچا کر نے کی تدبیریں دن رات سوچتا رہتا ہے ان ہزاروں لوگوں میں کبھی کبھا ر کوئی کھرا سونا شخص ایسا بھی بھولے بسرے آجا تا ہے جو ذاتی خواہشات کا قیدی نہیں بلکہ دوسروں کے درد کو محسوس کر کے دوسروں کی حقیقی مدد کر تا نظر آتا ہے ایسے ہی عظیم انسانوں نے ہی بانجھ بنجر معاشرہ اپنے کندھوں پراٹھا یا ہوا ہے یہی وہ لوگ ہو تے ہیں جو اِس متعفن بانجھ میں عطر کی مانند ہوتے ہیں انہی لوگوں کے دم سے بانجھ معاشرے زندہ ہو تے ہیں ایسے لوگ اپنی نیکی کی روشنی سے جہالت کے اندھیروں کو روشن اجالوں میں بدلتے ہیں میری پہلی ملاقات جمال شاہ صاحب سے اُس وقت ہو ئی جب ایک پریشان ریٹائرڈ سرکاری ملازم اپنی پڑھی لکھی بیٹی کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے میرے پاس آیا کر تا تھا میں نے معمول کا کیس سمجھ کر باپ کو مختلف اذکار وغیرہ دیئے‘پریشان بیچارہ باپ وظیفہ مکمل کر کے واپس آجاتا تو میں اُس کو اگلی پڑھائی بتا دیتا وہ بیچارہ نئی پڑھائی لے کر واپس چلا جاتا میں چند ملاقاتوں میں ہی جان گیا تھا کہ اِس کی تین بیٹیاں ہیں دو کی شادی ہو چکی تھی اب آخری تیسری بیٹی کی شادی کے لیے میرے پاس آتا تھا

 

پہلی دو بیٹیوں کی شادی بھی اکلوتا مکان بیچ کر کی تھی کیونکہ پنشن آخری سہارا تھی اب مکان جائیداد بینک بیلنس تو تھا نہیں لوگ جب آکر دیکھنے گھر پر بھوک افلاس نے ڈیرے جما رکھے ہیں گھر کا واحد کفیل بوڑھا ریٹائرڈ بابا لہذا کمزور مالی حالات وسائل دیکھ کر آنے والے حالات کو بھانپ کر واپس چلے جاتے اور انکار کر دیتے بیچارے کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ مختلف ذکر اذکار کرتے ہو گیا تھا وہ مجھ سیاہ کار پر مکمل اعتماد کرتے ہو ئے نہایت شرافت سے آکر دبے لفظوں میں کہتا جناب میں اور میرے گھر والے آپ کی تما م پڑھائیاں توجہ اخلاص سے کر رہے ہیں لیکن ابھی تک رشتے کی بات پکی نہیں ہوئی مختلف میچ میکروں کو پیسے دے کر بہت چکر لگا چکا ہوں جب بھی جا کر ان کی جیب گرم کر تا ہوں تو دوچار ایڈریس دے دیتے ہیں ہمارے گھر میں پھر امید کے چراغ جل اٹھتے ہیں پھر چائے اور لوازمات مہمانوں کے سجا کر رکھ دئیے جاتے ہیں آنے والے آتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ہم شادی خوب دھوم دھام سے کرتے ہیں ہم رسم و رواج کا خیال دینے دلانے والے لوگ ہیں کیا آپ ہمارے معیار کے مطابق شادی کر لیں گے گھر آپ کا کرائے کا ہے اور کیا جائیداد ہے کمائی کے ذرائع کیا ہیں کتنا سونا جہیز دیں گے جب ہم معذوری کا اظہار کر تے ہیں تو بہت سارے تو چائے پئے بنا ہی چلے جاتے ہیں

 

کچھ خاموشی سے اٹھ جاتے ہیں جانے والوں کی خاموشی ہمیں انکار کا جواب دے جاتی ہے زیادہ تر لوگوں کو جب ہماری پسماندہ آبادی محلہ اور کرائے کے مکان کا پتہ چلتا ہے یا کمانے والے صرف ریٹائرڈ بوڑھا ہے تو وہ رشتہ دیکھنے ہی نہیں آتے اور اگر کوئی آبھی جائے تو گھر اور جہیز نہ دینے کی وجہ سے واپس نہیں آتا ان الم ناک تلخ حقائق کی وجہ سے لڑکی کا رشتہ نہیں ہو رہا تھا لڑکی کے گھر والے اور میں مسلسل دعائیں کر رہے تھے کہ اللہ تعالی نیک لڑکی کا رشتہ کسی اچھی جگہ کر دے پھر ایک دن جب خدا مہربان ہوا تو باپ مٹھائی کا ڈبہ لے کر میرے پاس حاضر تھاخوشی سے چہرہ کھلا ہواتھا بہت خوش جناب آپ کی دعا لگ گئی ایک بہت شاندار اعلیٰ خاندا ن سید فیملی کا رشتہ آیا ہے انہوں نے لڑکی کو پسند کر لیا سرا ٓپ کی دعا کا کرشمہ دیکھیں انہوں نے جہیز میں ایک سوئی بھی نہیں لینی بلکہ سارا فرنیچر لڑکی کے کپڑے میک اپ تک وہ خود کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے بارات کا کھانا بھی اپنے ذمے لے لیا ہے کہ آپ ہمارے کپڑوں میں دلہن کو رخصت کریں گے کچھ بھی نہیں دیں گے

 

اگر آپ نے کچھ دینے کی کوشش کی تو واپس کردی جائے گی سر ہم نے بہت کہا کہ ہماری گنجائش کے مطابق ہمیں دینے دیں لیکن انہوں نے شرط لگا ئی ہے کہ ایک روپیہ بھی آپ خرچ نہیں کریں گے ہمیں اللہ نے بہت نوازا ہے سب کچھ ہم کریں گے اگر آپ کو ہماری شرط قبول ہے تو ہم ہاں نہیں تو ناں کردیں گے لڑکی والوں نے اللہ کا شکر ادا کر کے ہاں کر دی پھر چند ماہ بعد لڑکی کی شادی ہو گئی میں اِس کیس کو بغور دیکھ رہا تھا میری زندگی میں ایسے بہت سارے کیس بھی آئے ہیں جب لوگوں نے معاشرے اپنی ناک اونچی کر نے کے نعرہ لگایا کہ ہم جہیز نہیں لیں گے لیکن پھر مختلف بہانوں سے جہیز اورپیسے لے لیے اور اگر کسی نے نہیں لیے تو بعد میں لڑکی کی زندگی عذاب بنا دی کہ تم کچھ لے کر نہیں آئی میں اب لڑکی کے باپ سے پوچھتا رہتا کہ بیٹی خوش ہے تووہ اقرار میں سر ہلا دیتے ایک سال کے بعد اللہ نے بیٹی کو اولاد سے نوازا پھر ساراخرچہ سسرال نے کیا تو میں پہلی بار جا کر لڑکے کے باپ جمال شاہ سے ملا اور ملنے کی وجہ بھی بتائی کہ آپ کی انسان دوستی مجھے آپ تک کھینچ لائی ہے میں ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتا ہوں جو حقیقی نیکی اور انسان دوستی کا جذبہ رکھتے ہیں آپ نے ثابت کیا آپ واقعی انسان دوست شاہ صاحب بہت خوش ہوئے میں نے اپنی کتابیں پڑھنے کو دیں جو شاہ صاحب کو بہت پسند آئیں اِس طرح ہماری دوستی کا رشتی استوار ہو گیا شاہ صاحب وقتا فوقتا ً میرے پاس آتے رہتے ہیں مجھے اُن کے وجود سے عجیب سی مسحور کن سی خوشبو آتی ہے وہ جب بھی آتے ہیں تو مجھے ہمالیہ سے بلند نظر آتے ہیں اور میں خود کو زمین کا رینگنے والا کیڑا کیونکہ شاہ صاحب کی ایک نیکی روز محشر ان کو با مراد کر دے گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
83510

بزمِ درویش ۔ خوشبو ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بزمِ درویش ۔ خوشبو۔ تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میں شدت سے اُس دن کا انتظار کر رہا تھا جب مجھے پتہ چلے کہ پہلوان باقی انسانوں سے مختلف کیوں ہے میں نے دو تین بار پہلوان سے اِس بات کا ذکر بھی کیا تھا پہلوان تم ایک صابر شاکر انسان ہو ایسے انسان معاشرے میں اور بھی مل جاتے ہیں لیکن تمہاری ذات شخصیت میں کوئی اور بھی نیکی اچھائی ہے جسے تم نے چھپا رکھا ہے وہ نیکی اچھائی تمہیں دوسروں سے مختلف کرتی ہے وہ کیا ہے تو پہلوان دونوں کانوں کا ہاتھ لگا کر آسمان کی طرف ہاتھ جوڑ کر میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کہتا پروفیسر صاحب بہت گناہ گار سیاہ کار چھوٹا آدمی ہوں آپ سب سے پیار کرتے ہیں اِس لیے آپ کو ساری دنیا ہی اچھی لگتی ہے وہ ہر بار میری بات کو ٹال جاتا اب میں نے فیصلہ کیا پہلوان کی بیوی جو اب میری بہن بن چکی تھی اُس سے پوچھوں گا اُس سے پوچھا تو اُس نے بھی ٹال دیا کہ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے لیکن میری چھٹی حس بار بار دستک دیتی تھی کہ پہلوان عام انسانوں سے بہت مختلف ہے اِس دوران کسی نے مجھے بوسکی کا سوٹ اور ریشمی تاروں والا کھُسہ تحفہ دیا تو وہ میں نے اِس شرط اور درخواست پر پہلوان صاحب کو دیا کہ وہ یہ پہن کر میرے پاس آئیں گے تو پہلوان نے کپڑے اپنی نم آنکھوں سے لگائے اور گلو گیر لہجے میں بولا جناب آپ کے تحفے کا بہت شکریہ آپ سے وعدہ کر تا ہوں

 

بیٹی کی شادی پر پہن کر آپ کو دکھاؤں گا اب جب میں نے پہلوان صاحب کو تحفہ دیا تو اُس نے خود پر فرض کر لیا کہ وہ بھی بدلے میں مجھے کچھ دے گا لہذا سردیوں کے آغاز پر پہلوان اپنے لیے جب مغزیات سے بھر پور پنجیری بنواتا تو ساتھ میں دیسی گھی کی خشک جلیبیاں تومیرے لیے بھی ضرور بنوکر لاتا کیونکہ میرا بچپن جوانی اور تعلق بھی گاؤں سے ہے اِس لیے یہ میرے لیے بھی بہت قیمتی سوغات سے کم نہ تھیں لہذا سردیوں میں اکثر دودھ جلیبی سے لطف اٹھا تا اِس دوران پہلوان کی بیٹی کی شادی ہو گئی تو پہلوان صاحب نے مجھے نیک بزرگ سمجھنا شروع کر دیا کہ دعاؤں سے بیٹی کی شادی اچھے گھر میں ہو گئی ہے اب پہلوان کی زندگی کے سارے مسئلے حل ہو گئے تھے پرچون کی دوکان اور چند دوکانیں تھیں جن کا کرایہ اتنا زیادہ آجاتا کہ دونوں میاں بیوی کی زندگی خوشگوار انداز سے گزر نے لگی اب پہلوان صاحب ذکر اذکار کی طرف آئے تو لطف مزہ آیا لہذا اب میں اِن کو مختلف اذکار کرا رہا تھا وہ جوش و خروش سے کر رہے تھے میرا بھی جب دل کرتا دونوں کے گھر خوشبو لینے چلا جاتا میں کھوج میں تھا

 

پھر وہ وقت آگیا جب پہلوان کی نیکی اور راز کا مجھے پتہ چلا تو میری روح جھوم جھوم اٹھی اور پکار اٹھا کہ پہلوان واقعی زندگی کا ولی ہے جس کے کردار کی خوشبو اُس کے جسم سے پھوٹتی ہے پہلوان کیونکہ خالص خوراکوں دودھ مکھن گھی گوشت باداموں انڈوں کا رسیا تھا بڑھتی عمر میں جب پرہیز کا وقت آیا تو پہلوان جو پرہیز کے نام سے ہی واقف نہیں تھا اُس نے بد پرہیزی کو جاری رکھا پہلے شوگر پھر بلڈ پریشر نے آگھیرا لیکن پہلوان اپنی روٹین پر مزید خوراک کھانے لگا جو خطرناک ثابت ہوئی فشار خون نے چھلانگ لگائی تو دماغ پر حملہ آور ہو کر چھوٹا سا فالج کا حملہ ہو گیا پہلوان کو تیز سر درد اور جھٹکے لگنے شروع ہو ئے گر کر بے ہوش ہو گئے تو محلے والے نے ہسپتال لے گئے مجھے صبح پتہ چلا تو فوری طور پر ہسپتال پہنچا جہاں پر پہلوان مختلف نالیوں اور ڈرپوں میں جکڑا نظر آیا پہلوان ہوش میں آچکا تھا لیکن بایا ں بازوں اور چہرہ تھوڑے سے فالجی ہو گئے تھے مجھے دیکھا تو آنکھوں میں چمک اور چہرے پر تبسم پھیل گیا میں حوصلہ دیا تو پہلوان نے آسمان کی طرف اشارہ کیا پھر مجھے دم اور دعا کا کہا ساتھ میں بیوی بھی پریشان تھی میں ڈاکڑوں سے ملا تو انہوں نے کہا پہلوان صاحب با ل بال فالج اور برین کے پھٹنے سے بچے ہیں

 

اب اِن کو پرہیز کر نا ہو گا تین دن ہسپتال رہنے کے بعد پہلوان صاحب کو ڈسچارج کر دیا گیا اب پہلوان صاحب سہارے سے چل اور واش روم جاسکتے تھے میں پہلوان صاحب کی تیمار داری کے لیے اُن کے گھر گیا تو بیگم کی دیوانگی کا ایک اور منظر دیکھا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو بیگم پہلوان صاحب کے پاؤں دھو رہی تھی بڑے برتن میں گرم پانی ڈال کر پہلوان صاحب کے پاؤں اُس میں رکھ کر دھو رہی تھی میں پہلوان صاحب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا پرہیز کی اہمیت کہ اب آپ نے بد پرہیزی نہیں کرنی اِس دوران میں دیکھا جو پہلوان صاحب کی ٹانگوں اور پاؤں پر گرم پانی ڈال رہی تھی جب اچھی طرح پاؤں دھو چکی تو اُس پانی کو اپنے سر پر لگا یا اپنے چہرے کو دھو یاپھر اُس پانی کو گلاس میں ڈال کر پی لیا اِس قدر عقیدت دیوانگی عشق میں حیران نظروں سے بیوی کو دیکھ رہا تھا کہ کوئی بیوی اپنے خاوند کی اِس حد تک عزت احترام عشق کرتی ہو کہ اِس کا دھلا پانی پی بھی لے میری کھوج کی حس پھر پھڑ پھڑانے لگی کہ کیا بات ہے جو بیوی اِس قدر دیوانی اور عقیدت مند ہے اب میں پہلوان کی طرف منہ کر کے بولا پہلوان جی آپ بہت خوش قسمت ہیں اتنی تابعدار نیک بیوی تو میں نے آج تک نہیں دیکھی تو پہلوان مسکرا کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگے

 

بہت دیر بعد جب میں واپس آنے لگا تو پہلوان کی بیگم مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی تو ادب سے بولا بہن جی آپ میرے اوپر ایک احسان کریں وہ بات بتائیں کہ آپ پہلوان صاحب کی اتنی دیوانگی کیوں ہیں تو پہلی بار بیوی بولی سرکار میں آپ کو اگلی بار خط دوں گی جس میں وہ نیکی او رراز ہو گا جو آپ بار بار پو چھتے ہیں کہ پہلوان عام انسانوں سے مختلف کیوں ہے پھر میں چند دن بعد پھر پہلوان صاحب کے گھر بیٹھا دونوں میاں بیوی کی محبت دیوانگی کے جلوے دیکھ رہا تھا واپسی پر بیوی نے مجھے خط دیا جس میں میرے پچھلے کئی مہینوں کے سوال کا جواب تھا میں نے کار میں بیٹھتے ہی خط کھول لیا لکھا تھا جناب میں پہلوان صاحب کے استاد پہلوان کی بیٹی تھی

 

جوان ہوئی تو بہت خوبصورت تھی محلے کے اوباش جوان نے رشتہ بھیجا تو والد صاحب نے انکار کر دیا وہ بار بار کہتا رہا جب میرے گھر والے نہ مانے تو اغوا کر کے میری عزت خراب کر دی اپنی ہو س پوری کر کے چھوڑ دیا میری ماں اور باپ اِس صدمے سے زندہ لاشیں بن گئے دو ماہ بعد جب ماں کو میرے حاملہ ہو نے کا پتہ چلا باپ کو بتایا باپ یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا ھارٹ اٹیک ہوا اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا پہلوان جی میرے باپ کے بیٹے بنے ہوئے تھے میری ماں سے آکر ملے ماں نے جب میری اوپر ہونے والے ظلم کا بتایا تو بہت پریشان ہو ئے اگلے ہی دن رشتہ لے کر آگئے اِس طرح میں شادی کر کے پہلوان صاحب کی زندگی میں آگئی پہلوان صاحب نے پہلی ہی رات کہہ دیا یہ جو بھی اولاد ہو گی اِس کو میں نام دوں گا پھر یہی ہوا پہلوان صاحب نے کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر پالا اُس کی شادی کی ہماری اولاد نہیں ہوئی پہلوان جی نے یہ راز ساری زندگی بیٹی کو بھی نہیں بتایا میری آنکھوں سے پہلوان صاحب کے لیے عقیدت کے آنسو جاری تھے اور پہلوان نے جب قدرت کے پھول کو اپنا نام دیا تو خدا نے پہلوان کو خاص خوشبو عطا کردی جو ہر وقت پہلوان کے جسم سے پھوٹتی رہتی ہے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
70621