خودکشی: ذہنی مرض یا جرم . تحریر: دیدار علی شاہ
خودکشی : ذہنی مرض یا جرم – تحریر: دیدار علی شاہ
صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال سے پروین (فرضی نام)گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے نازیہ (فرضی نام) گلگت شہر سے عمران (فرضی نام) اور ہنزہ سے آفتاب(فرضی نام) نے ایک مہینے کے اندر خودکشی کی۔ان جوان سال بیٹا اور بیٹیوں کے جانے سے ان کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان میں سے دو نے دریا میں چلانگ لگا دی تھی اور دو نے گلے میں پھندا ڈال کر زندگی کا خاتمہ کیا۔ پھر یوں ہوا کہ ان چاروں کی لاش برآمد ہوئی، اور لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوائی گئی، ڈاکٹروں نے لکھ کر دیا کہ ان کی موت پانی میں ڈوبنے سے اور گلے میں پھندا کے دباو سے ہوئیں۔پھر خاندان اور گاوں کے کچھ لوگوں نے پولیس سے درخواست کی کہ لاش ان کے حوالے کیا جائے۔ کیوں کہ ان کے خاندان، گاوں اور علاقے کی عزت اور بدنامی کا مسئلہ ہے۔ اور ہاں پولیس کو قانونی طور پر قائل کرنے کے لئے یہ جھوٹی بات بتا دی کہ خودکشی کرنے والا ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا۔ یہ تھے وہ قصے جو آج تک خود کشی کے کیسوں میں چترال اور گلگت بلتستان میں ہوتا رہا ہے۔
خودکشی کے عمل میں انسان اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر معاشرہ اس پر مختلف رد عمل کا اظہار کرتا ہے کہیں اسے مذہبی، سماجی اوروعقلی طور پر غلط عمل سمجھا جاتا ہے۔ اور کہیں اسے حالات اور واقعات کے لحاظ سے درست بھی قرار دیا جاتا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق چترال میں پچھلے دس سالوں میں خودکشی کے 175 واقعات درج کیے گئے۔ جن میں سے 106خواتین شامل تھیں۔اور گلگت بلتستان میں ہونے والے واقعے میں انڈپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 سے2020 تک 70 واقعات رپورٹ کئے گئے ہے۔
خودکشی کے کیسوں میں اگر ہم پولیس کی نقطہ نظر کو جاننے کی کوشش کرے تو ان کے مطابق جب پولیس مکمل چھان بین کرنے کی کوشش کرے تو انھیں گاوں یا کمیو نٹی کی طرف سے دباو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور بعض دفعہ بات احتجاج تک پہنچتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کی پولیس کو اس کیس میں گواہ اور شواہد نہیں ملتے اور کیس کمزور پڑتا ہے۔
پھر ہم نے گاوں یا علاقے کے زمہ داران سے اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو ان کے مطابق گاوں یا علاقے کے لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہے۔ اس لئے زیادہ تر خودکشی کے کیسوں میں قانونی کاروائی یا بدنامی کے خوف سے وہ سچ بتانے سے ڈرتے ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر چالیس سکینڈ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ جس میں پندرہ سے اُنتیس سال کی عمر کے بچوں میں موت کی دوسری اہم وجہ ہے۔ اور ان میں سے 79فیصد واقعات غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں پیش آتے ہے۔
پاکستان اور دنیا بھر کی ماہرین نفسیات کے مطابق معاشرہ تیزی سے بدل رہی ہے۔ اور اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ٹیکنالوجی نے انسانی ضروریات کی زیادہ تر چیزوں کو ریپلیس کیاہے۔ جس سے نوجوانوں میں ذہنی دباوَ سے نمٹنے کی صلاحیت میں کمی اور دباو برداشت نہ کرنا اس نوعیت کے خیالات جنم لیتا ہے جس میں خودکشی سرفہرست ہے۔
ایکسپریس نیوز کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کا سب سے زیادہ رجحان گلگت بلتستان میں ضلع ہنزہ اور ضلع غذر میں ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ہنزہ اور غذر میں یہ رجحان سب سے زیادہ ہے۔ پورے پاکستان میں چترال کے علاوہ ایسے دوسرے ضلعے یا صوبہ ہونگے جہاں خودکشی زیادہ ہوتے ہونگے مگر بدنامی کی خاطر رپورٹ نہیں کرتے۔
گلگت بلتستان میں خودکشی کے واقعات کو جانچنے کی کوشش کرے تو ہمیں اس کے دو پہلو نظر آتے ہیں۔ پہلا عدم برداشت اور دوسری ذہنی بیماری۔ عدم برداشت کی وجہ معاشرے میں آپس کی تعلقات میں ناچاقی، رشتوں میں تنازعات، گھریلومعاملات میں نااتفاقی، افسردگی، کم اعتمادی، ظلم و جبر، بے جا تنقیدات، مایوسی، غصہ، جبری شادی، غربت و افلاس، بے روزگاری، محتاجی، مالی تنگی، قرضوں کا بوجھ، ذہنی و جسمانی تشدد اور تیزی سے بدلتی معاشرہ شامل ہے۔
دوسری وجہ یعنی ذہنی بیماری، کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس طرح سے انسانی جسم میں ہر اعضا کی مختلف بیماریاں ہے۔ ذہنی بیماری بھی اسی طرح ایک قسم ہے۔ اور قابل اعلاج ہے۔ َِ؟.
جس طرح جسمانی صحت کے لئے سہولیات موجود ہے۔ اسی طرح اب وقت کی ضرورت ہے کہ ذہنی صحت کے لئے بھی کام شروع کرے۔ اور ذہنی بیماریوں سے متعلق لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اقدامات کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ماہر نفسیات سے ملنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔یہی وقت ہے کہ ذہنی بیماری کو تسلیم کر کے علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔
پاکستان کے دوسرے علاقوں کی بات کرے توپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر روزانہ خودکشی کے اوسطاً پانچ واقعات رپورٹ ہوتے ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس سنگین مسئلے کو روکنا صرف حکومت یا ایک ادارے کا کام نہیں۔ بلکہ اس میں معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز مل کر کام کرے۔
حکومت گلگت بلتستان ہر ضلعے میں کم از کم ایک ماہر نفسیات کی تقرری کو یقینی بنائے۔ اور ساتھ ساتھ ہر گاوں میں ذہنی صحت سے منسوب معاشرتی بدنامی کے ڈر اور خوف کو مٹانے کے لئے آگاہی مہم چلائے۔ اور ساتھ ساتھ اس مرض میں مبتلا افراد کی امداد کو بھی یقینی بنائے۔
گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات سے متعلق ابھی تک کوئی ریسرچ نہیں ہوسکا ہے۔ لہذا کسی ایسے ادارے جو مینٹل ہیلتھ سے متعلق عبور رکھتا ہو۔ سے ایک جامع تحقیق کرانے کی اشد ضرورت ہے۔جس سے ان واقعات میں کمی لانے پر کام کیا جاسکے۔اور ساتھ ساتھ خودکشی سے متعلق گلگت بلتستان کی حکومت ایک موثر تفتیشی نظام کے ساتھ قانون سازی کرے۔تا کہ قانون کے مطابق پولیس اپنی انوسٹگیشن پوری کرے۔ اور ان عوامل اور محرکات کا پتہ چل سکے جس کی وجہ سے خودکشی ہوئی۔ اور اسی عوامل اور محرکات کے زریعے آنے والے وقت میں خودکشی پر قابو پایا جاسکیں۔ تاکہ خاص کر خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر کے خودکشی کے نام پر دفن کرنا بند ہوں
آج تک گلگت بلتستان اور چترال میں جتنے بھی خودکشی کے واقعات ہوئے ہیں۔ ان کے خاندان کے لئے یہ دردناک موت کو بھلاناممکن نہیں۔وہ آج بھی یہ جاننے کی کوشش میں ہے کہ ان کے بچوں نے اتنے بڑے اقدام پر کیوں مجبور ہوگئیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2015میں خودکشی کے ایک ہزار نو سو واقعات رپورٹ کئے گئے۔ اور دو سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر تین ہزار پانچ سو تک جا پہنچی۔اور تقریباً 90فیصد واقعات ذہنی بیماری میں مبتلا افراد کی ہے۔ ہر خودکشی کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہے۔لہذا ہر واقعے کو خودکشی قرار دینا ہر گز درست نہیں۔
خودکشی کو ختم کرنا ممکن نہیں اور آسان بھی نہیں اگر ایسا ہوتا تو ترقی یافتہ ممالک کب کے کر چکے ہوتے۔ اسی لئے جن کو آپ جانتے ہے اور پیار کرتے ہے۔ ان کا خیال رکھیں۔ اگر ان کی زندگی باہر سے ٹھیک دکھائی دے رہی ہے تو ہر گز اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے نجی معاملات سب ٹھیک ہے۔ اسی لئے شعوری طور پر ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ اور اگر آپ کے جاننے والوں میں کسی کی مزاج، گفتگو اور حرکات میں اچانک تبدیلی محسوس کرے تو انھیں انزائٹی، ڈیپریشن یا کوئی اور ذہنی بیماری کی علامت ہوسکتا ہے۔ لہذا انھیں ڈاکٹر تک پہنچاکر زمہ دار اور ایک مہذب شہری ہونے کا ثبوت دے۔ ورنہ ان کا بھی انجام وہی ہوگا جن کا اوپر ذکر کرچکا ہوں۔
ایون صحن میں 17 سالہ نوجوان نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی
ایون صحن میں 17 سالہ نوجوان نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی
چترال ( نمایندہ چترال ٹایمز ) ایون صحن میں 17 سالہ نوجوان نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی ہے۔ خودکشی کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ۔ تفصیلات کے مطابق ایون کے گنجان آباد گاوں صحن میں 17 سالہ نوجوان عبد اللہ ولد محمد شریف خان نے گلے میں پھندہ ڈال کر خود کشی کر لی ہے ۔ پولیس ذرائع نے خودکشی کی تصدیق کر لی ہے ۔ تاہم خودکشی کی وجوہات معلوم نہ ہو سکی ہیں ۔ چترال کے نوجوان نسل میں خودکشی کا رجحان تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ اور سالانہ کئی نوجوان مردو خواتین اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گل کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے سد باب حکومتی سطح پر کسی قسم کے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں ۔
چترا ل میں گزشتہ سال خودکشی کے 30 واقعات رونما ہوئے۔ جن میں اپر چترال کے 21واقعات شامل ہیں
چترا ل میں گزشتہ سال خودکشی کے 30 واقعات رونما ہوئے۔ جن میں اپر چترال کے 21واقعات شامل ہیں
چترال (نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال میں خودکشیوں کا نہ روکنے والا سلسلہ جاری ہے ۔ چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کرنے کے بعد زیادہ ترخودکشیاں اپر چترال کے حصے میں آئیں، گزشتہ سال 2021میں اپر چترال میں 21خودکشی کے واقعات رونما ہوئے، جن میں پندرہ خواتین اورباقی مرد تھے۔ اورخودکشیوں کا تناسب موڑکہو تورکہوتحصیل میں زیادہ ہے ۔
اسی طرح لوئر چترال میں گزشتہ 9 خودکشیوں کے واقعات ہوئے۔ جن میں اکثریت خواتین کی تھیں۔
خودکشی کرنے والی خواتین کی عمریں 17 سے 35 سال کے درمیان ہے ۔ اور اکثر پڑھی لکھی بچیوں نے خودکشی کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کردیا ہے ۔ اوران خواتین کی اکثریت نے دریا ئے چترال میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی ہیں۔
بی بی سی کی حالیہ جامع رپورٹ کے مطابق چترال میں گزشتہ دس برسوں کے دوران مبینہ خودکشی کے لگ بھگ 175 واقعات درج کیے گئے جن میں 106 خواتین شامل تھیں۔ ان میں سے ہر واقعہ میں پولیس نے بظاہر جامع تحقیقات نہیں کیں۔ زیادہ تر واقعات میں یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ مرنے والے نے خودکشی کیوں کی۔
پولیس کے ریکارڈ کے مطابق حال ہی میں ختم ہونے والے سال سنہ 2021 میں اپر چترال میں جن 21 افراد نے خودکشی کی، ان میں سے دس واقعات میں وجہ ‘نامعلوم’ تھی۔ ان میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔ باقی واقعات میں جو وجوہات بتائی گئیں ان میں دماغی بیماری کا شکار ہونا، مرگی، سکول نہ جانے کی ضد، امتحانات میں نمبر کم آنا یا گھریلو ناچاقی اور لڑائی جھگڑے شامل تھے۔
اب تک جتنے بھی خودکشی کے واقعات ہوئے ان کے پیچھے مرحکات کو سامنے لانے میں مقامی پولیس کامیاب نہ ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ متاثرہ خاندان کی طرف سے عدم تعاون ہے ۔ اکثر والدین خودکشی کے مرتکب بچیوں کو ذہنی مریضہ قرار دیکر فائل کو داخل دفتر کرانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
چترال میں خودکشیوں کے سدبات کیلئے ابھی تک کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ، تاہم بعض غیر سرکاری ادارے اس حوالے سے سیمینار اور ورکشاپ کرکے صرف پیسے بٹوررہے ہیں۔ جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔
اپرچترال میں خودکشی کی ناسور کو ختم کرنے کیلئے مذہبی رہنماوں،اساتذہ،ڈاکٹرز اورٹی ایم ایزکے زریعے اگہی مہم چلانے کا فیصلہ
اپرچترال میں خودکشی کی ناسور کو ختم کرنے کیلئے مذہبی رہنما وں،اساتذہ اور ٹی ایم ایزکے زریعے اگہی مہم چلانے کا فیصلہ
اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے اور اگہی پھیلانے کے حوالے سے ایک اہم میٹنگ زیر صدارت محمد عرفان الدین ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اپر چترال بونی میں منعقد ہوا۔ اس میٹنگ میں اسسٹنٹ کمشنر مستوج، ڈی،ایس،پی ہیڈکوارٹر، ایم، ایس کیٹیگری ڈی ہسپتال بونی، ڈسٹرکٹ آفیسر سوشل ویلفئر اپر چترال، تحصیل میونسپل آفیسر مستوج،محکمہ ایجوکیشن میل/فیمل اپر چترال کے اے،ڈی،اوز، اورتحصیل خطیب مستوج نے شرکت کیں۔
اپر چترال میں خودکشی کے واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے درجہ ذیل لائحہ عمل طے کرنے پر ا تفاق کیا گیا۔
تحصیل خطیب جمعہ کے دن لوگوں کو خودکشی جیسی ناسور سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے موضوع پر لوگوں کو درس دیں گے۔۔ اسماعیلہ کونسل آپنے مستند سکالرز کے زریعے خودکشی جیسی بیماری کے سدباب اور نتائج سے متعلق لوگوں کو آگاہ کریں گے۔۔ محکمہ ایجوکیشن اپر چترال سکولوں میں خودکشی کو روکنے کے حوالے سے طلباء و طالبات کو درس دیں گے۔
محکمہ صحت اپر چترال اس ضمن میں ماہر نفسیات کی تعاون حاصل کریں گے۔
TMOمستوج اور TMO موڑکہو خودکشی اور اس کے نتائج سے متعلق اگہی بینرز چسپاں کریں گے۔
دروش؛ دو سگی بہنیں دریائے چترال میں ڈوب گئیں، ایک کی لاش دریا سے نکال لی گئی۔ریسکیو۱۱۲۲
دروش ( نمائندہ چترال ٹائمز ) دروش شمس آباد لوئرچترال سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں عاصمہ اور سیمہ دختران جاوید دریائے چترال میں ڈوب گئیں، ایک کی لاش نکال لی گئی جبکہ دوسری کی تلاش جاری ہے ۔ مقامی پولیس کے مطابق چھوٹی بہن عاصمہ خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دریائے چترال میں چھلانگ لگانے پر بڑی بہن ان کو بچا نے کی کوشش میں خود بھی دریا میں ڈوب گئی ہیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق عاصمہ کی شادی تین ماہ قبل کیسو گاوں میں معین خان سے ہوئی تھی جوکاروبار کی عرض سے تمرگرہ میں مقیم ہےجبکہ انکی بیوی عاصمہ میکے میں تھی۔
عاصمہ کی والدہ نے تھانہ دروش میں درخواست میں دعویدار ی کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ عاصمہ کی خودکشی کی وجہ انکے شوہر ہیں جس کے ساتھ موبائل فون پر لمبی بات کی اور فون بند کرتے ہی دریا ئے چترال کی طرف نکل گئی ۔ جس کو بچانے کیلئے بڑی بیٹی بھی نکل گئی مگر بدقسمتی سے وہ اپنی بہن کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ا ور چھوٹی بہن دریا میں چھلانگ لگانے پر بڑی بہن ان کوبچانے کی کوشش میں خود بھی ڈوب گئی ہے۔ پولیس نے دفعہ 322کے تحت ایف آئی آر درج کرلیا ہے.ایک ساتھ دو بہنوں کی دریا میں ڈوب جانے پر علاقے میں کہرام مچ گیا ہےاورہر ایک انکھ اشکبار ہے۔
اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122 کی ٹیم نے دریائے چترال میں سرچ آپریشن کے دوران جنجریت کے مقام پر دریائے چترال سے خودکشی کرنے والی 17 سالہ بچی عاصمہ کی لاش کو نکال کر THQ ہسپتال دروش منتقل کردیا،جبکہ بڑی بہن(19سال) کی تلاش جاری ہے ۔ اخری اطلاع تک ریسکیو 1122 کی ٹیم نے سرچ آپریشن شام تک جاری رکھی ہوئی تھی.
اپرچترال؛ تھانہ لاسپور کے حدود میں ایک اور خاتون کی مبینہ خودکشی
اپر چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) تھانہ لاسپور کے حدود میں ایک اور شادی شدہ خاتون نے مبینہ طور پر دریا ئے لاسپور میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی ہے ۔پولیس ذرائع کے مطابق مسماۃ طاہرہ زوجہ غلا م سکنہ بالیم عمر تقریبا پچیس سال نامعلوم وجوہات کی بناپر گزشتہ شب سے لاپتہ تھی جس کی تلاش جاری تھی کہ آج اسکی لاش دریا کی کنارے سے ملی ہے ۔ جس کو مقامی پولیس پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالہ کردی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق خاتون نے خودکشی کرلی ہے تاہم مقامی پولیس انکوائری کررہی ہے ۔
اپرچترال؛ ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ،لاش دریا سے نکال لی گئی۔ ریسکیو 1122
اپرچترال؛ ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ،لاش دریا سے نکال لی گئی۔ ریسکیو
اپر چترال(چترال ٹائمز رپورٹ ) ریچ تورکھو سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ خاتون زوجہ سید کریم شاہ گزشتہ دن علی الصبح گھر سے نکل کر لاپتہ تھی۔بعد میں پتہ چلا کہ خاتون نے دریائے تورکہومیں چھلانک لگاکر مبینہ طورپر خودکشی کی ہے، اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122 کی غوطہ خور ٹیم اپر چترال تورکھو پہنچ کر ثور وخت کے مقام پر دریائے چترال سے ڈیڈ باڈی ریکور کرکے ورثاء کے حوالے کر دیا، ابتدائی معلومات کے مطابق خاتون زہنی مریضہ تھیں.تاہم مقامی پولیس انکوائری کررہی ہے۔
ہر خودکشی کرنیوالے کا ایک قاتل ہوتا ہے! – گل عدن
ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ ہر خودکشی کرنے والے کا کوئی قاتل بھی ہوتا ہے ۔مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے اور میں نے اپنی محدود سمجھ کے مطابق اس قتل کے ذمہ داروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔لیکن یاد رہے کہ یہ میری رائے ہے ایک فرد واحد کی حثیت سے۔قارئین کا مجھ سے اتفاق رائے رکھنا ضروری نہیں ۔
اب ہم اپنے موضوع کیطرف آتے ہیں ۔اس جرم کے حصہ داروں میں پہلا نام والدین کا آتا ہے ۔میں والدین کو قاتل تو نہیں کہتی مگر جو والدین اپنی اولاد میں تفرقہ کرکے انہیں ذہنی امراض میں دھکیل دیتے ہیں’جو اپنی اولاد کو حلال اور حرام میں ‘سہی اور غلط میں تمیز نہیں سکھا پاتے’ جو اولاد کے معصوم ذہنوں میں رشتے داروں کے خلاف زہر بھرتے ہیں ‘جو اولاد کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں’جو اپنے بچوں کی صحبت پر نظر نہیں رکتھے اور اونچ نیچ ہونے کی صورت میں اپنی اولاد کی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرا کر اپنی اولاد کو ہمیشہ ہر جرم سے بری الزمہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ایسے والدین کو میں خودکشیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہوں۔ یاد رہے اولاد کی حق میں والدین کا بہترین عطیہ انکی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
یہاں آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خودکشی کرنے والے کہ ذہن میں بہت سی وجوہات کے علاوہ ایک مقصد کسی مخصوص فرد یا کچھ مخصوص رشتوں کو دنیا کے سامنے اپنی موت کا ذمہ دار دکھانا ہوتا ہے یا کسی کو اسکے برے سلوک کا احساس دلانا یا اپنی ہر بایعنی ضد کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔اب آپ مجھے بتایئں کیا ایسی سوچ ایکدم سے دماغ میں آتی ہے ؟؟نہیں !!یہ سوچ ہمارے اندر بچپن سے پروان چرھتی آرہی ہے ۔جب گھر میں بیٹے کی سگریٹ پینے کی شکایت موصول ہوتی ہے یا سکول سے بچوں کی نالائقی کی شکایت آتی ہے تو کیسے ہماری مائیں ہر چیز کا ذمہ ہمارے دوستوں پر ڈال دیتی ہیں۔ہمارے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ہم جب جب کچھ غلط کریں گے تو اسکا قصوروار ہم سے زیادہ ہمارے دوست ہونگے۔ ۔
بس ایسا دیکھتے دیکتھے ہم اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کے جاتے جاتے اپنی موت کی ذمہ داری بھی کسی کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں۔کیونکہ اپنا کیا دھرا دوسروں کے سر پر ڈالنے کی ہماری گندی عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ 2:خودکشی کرنے والے کا دوسرا قاتل “گھر کا ماحول ” ہے ۔ایک کہاوت ہے کہ ایک گندی مچلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ۔گھر میں اگر ایک شخص بخیل ہے تو علاقے میں کنجوس گھرانہ آپکا تعارف بن جاتا ہے ۔ گھر میں ایک فرد اگر پیشانی پر بل ڈال کر مہمانوں سے ملتا ہے تو باقی تمام اہل خانہ کی مہمان نوازی خاک میں مل جاتی ہے ۔
گھر کا ماحول بنانے میں تو سبھی گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے مگر بنے بنائے ماحول کو بگاڑنے کے لئے ایک فرد کافی ہوتا ہے ۔اس اک فرد کو جسے آپ کسی بھی طرح خوش یا مطمئن نہیں کر پارہے ہیں ۔ جو آپکی نہ خوشی دیکھتا ہے نا غم۔جو چاہتا ہے کہ پورا گھر بس اسکے مسائل میں الجھا رہے ۔اور جسکی پریشانیاں مسائل بیماریاں کسی صورت ختم نہیں ہورہیں اس شخص کو ذہنی امراض کے ماہرین سے ملوانے کی ضروت ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ذہنی مریض کھبی تسلیم نہیں کرتے۔اور کسی صورت اپنی علاج پر راضی نہیں ہوتے۔لیکن ایک ذہنی مریض کو جانتے بوجھتے اسکے حال پر چھوڑ دینا اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔بلکہ ایک فرد کا دماغی علاج نہ کرنا پورے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پاگل خانہ بنا دینے کے مترادف ہے ۔
یاد رہے ذہنی اذیت جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور قابل رحم ہوتے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کے ہر کوئی ماہر نفسیات تک رسائی نہیں رکھتا ہے لیکن اگر آپکے گھر کا کوئی فرد ڈپریشن کا شکار ہے تو آپ اسکے ساتھ ہمدردی کا رویہ رکھیں۔اپنے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ثبوت دیں اور اسے ” پاگل” کے خطاب سے نہ نوازیں۔ 3خودکشی کرنے والے کا تیسرا اور سب سے بنیادی ذمہ دار (قاتل ) خودکشی کرنے والا خود ہوتا ہے۔ ۔باوجود اسکے کہ ہمیں اچھے والدین نہیں ملے۔ ۔باوجود اسکے کے ہمیں بدترین خاندان ملا ۔بہت برے رشتہ دار ملے۔باوجوداسکے کے کسی کو ہم سے ہمدردی نہیں ‘محبت نہیں ۔ ہمیں کچھ بھی حسب منشا نہیں ملا ۔ ۔
باوجود اسکے کے ہمیں ہر قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔کوئی ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔باوجود اسکے کے کہ ہم بہت بدصورت ہیں ۔غریب ہیں ۔مصائب کا سامنا ہے ۔ہار گئے ہیں ۔ازیت میں ہیں ۔کوئی چھوڑ کر جا چکا ہے کسی کو چھوڑنا پڑ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود کوئی وجہ اس قابل نہیں ہے جو “خودکشی” کے لئے “کافی”ہو جائے۔ بڑی سے بڑی وجہ اور بڑی سے بڑی مصیبت بھی “زندگی “جیسے قیمتی تحفے کو جو اللہ رب العزت کی ذات نے ہمیں عطاء کی ہے’ کو ٹھکرانے کے آگے چھوٹی پر جاتی ہے ۔ جب خالق کی ذات اتنی مہربان ہوسکتی ہے کہ ہماری گناہوں سے تر زندگی کو ایک اشک ندامت پر معاف فرمادے تو ہم کون ہوتے ہیں خود کو یا دوسروں کو سزا دینے والے۔اور یہ کہاں لکھا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے ہر میدان میں کامیاب ہونا شرط ہے ؟
کس نے کہا کے دنیا صرف خوبصورت لوگوں کے لئے ہے ؟یا اہم ہونا زندگی کی شرط ہے ؟ کس نے آپ سے کہا ہے کہ اچھی زندگی کہ لئے خاص ہونا’امیر ہونا’پسند کی زندگی گزارنا شرط ہے ؟ یہاں تو پھول بھی کانٹوں کے بغیر نہیں اگتے پھر آپکو کیوں نہیں دکھتا کہ ہر شخص باوجود خوبصورت ہونے کے’ کامیاب ہونے کے ‘ بے تحاشہ دولت مند ہونے کے پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے ۔آپکو محبوب نہ ملنے کا غم ہے اور کچھ لوگ محبوب کو پاکر غمگین ہیں ۔کوئی ہار کر غمزدہ ہے کسی کو جیت مزہ نہیں دے رہی ہے۔امیر غریب پہ رشک کھا رہا ہے ۔غریب امیر کو دیکھ کے آہیں بھرتا ہے۔ آپ کسی کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہ سکتے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فیصد خوش یا مطمئن ہے زرا سوچیں آپکی آنکھوں پ بندھی پٹی محبت کی ہے یا کم عقلی کی۔خودترسی سے جتنی جلدی ہوسکے باہر آجائیں۔ضرورت یہ جاننے کی ہے کہ اگر دنیا کے سارے لوگ مصائب کا تو شکار ہیں مگر سارے لوگ تو خودکشی نہیں کر رہے ہیں ۔
کیوں؟ کیونکہ سارے لوگ بزدل اور بے وقوف نہیں ہیں۔ کیونکہ پسند کی شادی نہ ہونا’افسر نہ بننا ہر دلعزیز نہ ہونا اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ آپ اپنی موت کو ہی گلے لگالیں۔مجھے ان لوگوں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وقت انہیں کچھ سال پیچھے لے جائے تاکے ان سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ان سے بچ نکلیں۔آپ دس سال پیچھے جا کر غلطی سدھار آئیں لیکن اس بات کی کیا گاڑنٹی ہے آپ دس سال بعد یا موجودہ وقت میں کوئی غلطی نہیں کررہے ہیں ؟؟ جبکہ انسان تو خطاء کا پتلا ہے ۔غلطیوں کو سدھارنا یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کو غلطی تسلیم کرلیں۔اس سے سبق حاصل کریں۔اور انہیں بار بار دہرا کر اپنی عادت نہ بنائیں۔
اور پسند کی شادی نہ ہونا محبوب کا آپکو چھوڑ دینا یا اپنی والدین کی خوشی کی خاطر اپنی خوشی سے دستبردار ہونا کوئی اتنی بڑی قیامت نہیں ہے کہ جسکے بعد آپکی زندہ رہنے کی وجہ ختم ہوجائے۔مثال کے طور پر جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے اپنے کس دل سے اسے منوں مٹی تلے دفنا کر اپنے گھر اور دنیا کیطرف لوٹ آتے ہیں۔اس میں یہی ایک سبق ہے ہماری زندگی کی تمام معاملات کو لیکر ۔جسطرح مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔اگر آپ اپنے ہی جان چھرکنے والے ماں باپ کو بہن بیٹی بھائی یا کسی بھی عزیز کو مٹی کے حوالے کرکے واپس دنیا کی طرف لوٹ سکتے ہیں کھا پی سکتے ہیں ہنس بول سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ایسے ہی آپ کسی بھی خواہش خوشی اور فرد کے بغیر زندہ اور خوش باش رہ سکتے ہیں۔
دنیا کی کوئی بھی چیز رشتے اور تعلق آپکی زندگی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ صرف آپکی آزمائش ہیں۔اور ہاں ایک بات اور آپکو کیوں لگتا ہے کہ خوش رہنا ہی زندگی ہے سچ تو یہ ہے کہ اپنے غموں محرومیوں اور ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نام ہی زندگی ہے اور یہ سب ایسے ممکن ہو سکتا ہے کہ کہ ہر معاملے کو رب کی رضا جان کر اس میں راضی رہ کرصرف صبر اورشکر سے ہماری زندگیاں آسان ہوسکتی ہیں ۔ اللہ ہمارا مدد گار ہو۔آمین
پرھنے اور سمجھنے والوں کا بے حد شکریہ
بونی ، ایک اورجوانسال خاتون نے دریائے چترال میں چھلانگ لگاکرخودکشی کرلی
بونی (نمائندہ چترال ٹائمز) جنالی کوچ بونی میں ایک اورجوان سال بیٹی نے مبینہ طور پر خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ہے . پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ دن جنالی کوچ کی رہائشی سید بادشاہ کی جوانسال بیٹی نے نامعلوم وجوہات کی بناپر مبینہ طورپر خود کودریابردکردیا ہے . جنکی لاش بعد میں دریا سے برآمد کرکے ٹی ایچ کیوہپستال بونی پہچنا دیا گیا ہے . زرائع کے مطابق خاتون کی عمرتقریبا 28 سال اوریونیورسٹی سے فارع التحصیل تھیں. مقامی پولیس انکوائری کررہی ہے .
چپاڑی، امتحان میں کم نمبرآنے کا صدمہ، ایک اورذہین طالبہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا
مستوج (نمائندہ چترا ل ٹائمز ) مستوج کے نواحی گاوں چپاڑی سے تعلق رکھنے والی ایک اور ہونہار طالبہ نے مبینہ طور خودکشی کرکے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق چپاڑی کے رہائشی فاروق صوبیدار کی بیٹی مسماۃ سبرینہ نے دریائے یارخون میں چھلانگ لگاکر خودکشی کی ہے ۔وہ مقامی کالج میں ایف ایس سی کی طالبہ تھیں۔
ذرائع کے مطابق وہ اپنی سکول میں انتہائی ذہین اور لائق طالبہ تھیں اورہمیشہ فسٹ پوزیشن لیتی رہی ہے ۔ تاہم گزشتہ کسی امتحان میں نمبر کم انے پر وہ ڈپریشن کا شکارہوکر ذہنی مریضہ بن گئی تھی۔ اور ہمیشہ کم نمبرآنے کا شکوہ کرتی رہتی تھی. والدین نے ان کی علاج ملک کے بہترین ہسپتالوں سے کروارہے تھے۔ اور گھر میں بھی ان کی دیکھ بھال کی طرف خصوصی توجہ تھی ۔ مگر گزشتہ دن والدین کسی ضروری کام کے سلسلے میں بریپ گئے ہوئے تھے ۔ جس پر موقع ملتے ہی متوفی نے کھوژ پل سے دریائے یارخون میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ہے۔ جس کی لاش کو دریا سے نکال کرآبائی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا ۔ ایک ذہین طالبہ کی خودکشی پرعلاقے میں افسردگی اورہرآنکھ اشکبارہے.
یادرہےکہ سال 2019میںکسی طالبہ کی خودکشی کا یہ پہلا واقعہ ہے.
چترال شہر کے نواحی گاؤں کاری بالا میں طلاق یافتہ خاتون نے خودکشی کرلی
چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال شہر کے نواحی گاؤں کاری بالا میں ایک طلاق یافتہ خاتون نے زہر کھاکر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس کے مطابق پرواز 23سالہ بی بی دختر قدیر خان نے گزشتہ رات کے پچھلے پہر اپنے گھر میں زہر کھاکر موقع پر ہی جان بحق ہوگئی جسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے بعد دفنادیا گیا ہے جبکہ خودکشی کی ابتدائی وجہ گھریلو تنازعہ بتایا جاتا ہے ۔ گاؤں والوں کے مطابق پرواز بی بی کی پنجاب کی کسی گاؤں میں شادی ہوئی تھی لیکن انہوں نے بعدازاں طلاق لے کر واپس آگئی تھی اور ان کے ساتھ بیٹا بھی تھا جس کی عمر ابھی چھ سال کے لگ بھگ ہے۔ چترال کے عوامی حلقوں کے مطابق بغیر تحقیق کے چترال سے باہر لڑکیوں کی شادی نہ صرف ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ ان کی اکثریت کا انجام بھی خودکشی پر ہوتی ہے اور ایسی شادیاں بعض پیشہ ور دلال کراتے ہیں۔
ظُلم رہے اور امن بھی ہو…….. میر سیما آمان
گزشتہ ماہ 7 روز کے اندر چترال میں ہونے والے خود کُشی کے مسلسل 7 واقعات نے پورے علاقے کو جہاں جھنجوڑکر رکھ دیا ۔ وہیں چترال کے امن رپورٹ کو بھی سبوتاژ کیا۔یوں تو چترالی خواتین میں خود کُشی کا رُجحان کوئی نئی بات نہیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجائے اس غلط فعل میں کمی آنے کے اور بھی اضافہ ہونا یقیناً انتہائی تشو یش ناک امر ہے۔اس پہ متضاد یہ کہ اب خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی یہ رُجحان تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے ۔گزشتہ ماہ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں۔یہ چترالی عوام کے لئے نہایت لمحہِ فکریہ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں سچ بولنے سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔ اور اگر بولنے والی عورت ہو تو اُسے تو بات کرنے سے پہلے باقاعدہ ’’ استخارہ ‘‘ کرنا چاہیے کہ ایا وہ اپنے درپیش مسائل پر ’’ بات کرے یا نہ کرے۔۔کیو نکہ ہمارے اس سو کالڈ معا شرے میں سچ بولنے والے ہمیشہ’ بد اخلاق اور باغی ‘‘ کہلا تے ہیں ا۔ بحثیت مسلمان ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم ہے اور بحثیت ایک قلم کار ہمیں حبیب جالب کے عقیدے کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جسکے مُطابق ’’ چُپ رہنا بد دیانتی اور بے غیرتی ہے ‘‘ آج اگر ہم خود کشی کے وجو ہات جانتے ہوئے بھی صرف اسلیے حقائق پر پردہ ڈالیں کہ اس سے ہمارے چترال کا ’’ ا میج ‘‘ خراب ہوتا ہے تو یہ اس د ھر تی کے ساتھ ظلم ہے یہ اس ’’ قلم ‘‘کے ساتھ نہ انصافی ہے جسے ہم نے خود کو ’’قلمکار ‘‘ کہلوانے کے لیے ہرگز نہیں اُٹھا یا ہے۔۔۔ہم بحثیت چترالی اس بات پر ہمیشہ فخر کرتے ہیں ۔کہ چترال بہت سے جاہلانہ رسومات سے پاک ہے ۔خاص طور پر خواتین کے حوالے سے بات کریں ۔تو یہ پا کستان کا واحد علاقہ ہے جہاں والدین ’’ بیٹی ‘‘ کی پیدائش پر سوگ نہیں مناتے۔جہاں خواتین کو تعلیم اور مُلازمت کی مکمل آزادی حاصل ہے۔جہاں جائداد بچانے کے لئے بچیوں کی شادی قُرآن سے کرنے کے غلط رسومات نہیں ہیں۔جہاں خواتین کو ونی ، سوارہ اور کاری جیسے رسومات کے بھینٹ نہیں چڑ ھایا جاتا۔۔یہاں حا دثہ کے نام پر بہووں پر پٹرول نہیں پھینکا جاتا۔یہاں تیزاب گردی نہیں ،یہاں ’’عورت ‘‘ نام کے مخلوق پر ایسا کوئی ظلم حقیقتا نہیں ہے جسکا رونا ا خباروں میں رویا جائے۔۔۔ہم تمام چترالیوں کو واقعی ’’ چترالی ‘‘ ہونے پر فخر ہے۔۔لیکن کیا وجہ ہے کہ اس سب کے با وجود ہر سال ہماری درجنوں بیٹیاں دریا ئی موجوں کو گلے لگانے پر مجبور ہوتی ہیں؟؟؟؟؟ کیا واقعی ہر خود کشی کے پیچھے و جہ مُحض ’’ عدم برداشت ہی ہے ؟؟؟؟؟ کیا آپکا ضمیر ہر بار ہر خود کُشی پر یہی ر پورٹ دینے کی اپکو اجازت دیتا ہے ؟؟؟؟اگر ا یسا ہی ہے تو میں ایسے ضمیر والوں کو مُحض ’’ سلام ‘‘ ہی پیش کر سکتی ہوں۔۔ماہرین نفسیات اور علاقے کی عزت رکھنے والے رپورٹرز بے شک ہر واقعہ کو ’’ عدم برداشت ۔ نفسیاتی مرض ۔اور مرگی کا نام دے دیں۔لیکن میں اپنے مشاہدے میں آنیوالے اُن واقعات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی جن کے و جو ہات محض ’’ جا ہلانہ رویے ‘‘ تھے۔۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسے واقعات میں ۹۵ فیصد لوگ صرف رشتہ داروں ۔ محلہ داروں اور اساتذہ کے غلط رویوں سے تنگ آکر خود کُشیاں کرتے ہیں۔۔ماضی میں سینکڑوں لڑ کیوں نے اُساتذہ کے غلط رویوں سے تنگ آکر ۔کہیں لڑکیوں نے غلط الزامات کے بناء پر تو کہیں خواتین نے محض ’’ طعنہ بازیوں ‘‘ سے تنگ اکر خود کُشیاں کیں۔خود کُشی کرنے والے چاہے عورتیں ہوں مر د ہوں یا نوجوان بچے۔سب کے لئے دل دُکھتا ہے۔موت خود ایک صدمہ ہوتی ہے اور اگر یہ حرام کی صورت میں ہو تو یہ دُکھ اور صد مہ دُگنا ہو جاتا ہے۔میں اپنے معزز عوام کو صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ضروری نہیں کہ ہر خُود کُشی کی وجہ ’’ عدم برداشت ‘‘ ہی ہو۔بہت مرتبہ ان واقعات کی بنیادی وجہ ’’ برداشت کی حد ‘‘ بھی ہوتی ہے۔۔دوسری طرف وہ تمام لوگ جنھوں نے امن رپورٹ کو لیکر خود کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔انکے لئے میرا مودبانہ پیغام ہے کہ چترال جنت کا ٹکڑا ضرور ہے مگر چترالی عوام عام انسان ہی ہیں۔یہ فر شتوں کا علاقہ ہر گز نہیں ہے۔جن سے کوئی غلطی ہی نہ ہو۔ہمیں کُھلے دل سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنی چاہیے۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر ہم نا کامیوں پر ایک دوسرے کو طعنے دینا چھوڑ دیں،اگر ہم اپنی اولاد کو تعلیمی میدان میں مخصوص ٹارگٹ دینا اور اس پر انہیں ٹارچر کرنا چھوڑ دیں۔اگر ہم دوسروں کے لئے بھی بالکل و ہی سوچنا شروع کردیں جو ’’اپنے ‘‘ لئے سوچتے اور پسند کرتے ہیں۔اور بالخصوص اگر ہم دوسروں کی بیٹیوں کے لئے اپنے رویے اپنے الفاز اور اپنے لہجے دُرست کر لیں۔تو ایسے واقعات میں بہت حد تک کمی آ سکتی ہے۔اور وہ نوجوان جنھوں نے مُحض ’’ڈگری ‘‘ یا گر یڈز کو اپنا مقصد ِ حیات بنا لیا ہے ۔ان سے میں صرف اتنا کہونگی یاد کریں کہ تاریخ میں ایک ’’ عمر و بن ہشام ‘‘ بھی تھا جو اپنے دور کا نہایت ذہین و فطین ادمی تھا مگر پھر بھی ’’ ابو جہل ‘‘ ہی کہلایا۔۔لہذا جس تعلیم کی خاطر آپ خود کُشی جیسے حرام فعل کے مر تکب ہونے جائیں اُس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس وقت علاقے کے ذمہ داران ،ہمارے علما ء کرام ہمارے اُساتذہ ہمارے والدین بلکہ ہر شخص پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کہ ہر کوئی اپنے سطح پر خود کُشی جیسے حرام فعل کے خلاف مہم چلائے۔اسلام کی روشنی میں زندگی کے اصل مقصد کو اُجاگر کریں اور اس شعور کو دوسروں تک پہنچائیں۔اور بلخصوص ہر کوئی اپنے گھروں میں اس بات کا خصوصی نو ٹس لیں کہ گھر کا کوئی فرد دوسروں کے معاملات میں دخل اند اذی تو نہیں کرتا۔دوسروں کے بارے میں آ پکے ’’ الفاذ ‘‘‘ کیسے ہیں۔ اپکا لہجہ کیسا ہے۔میں اس بات پر ذور دیتی ہوں کیو نکہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ اچھا ہونا تو کوئی نئی بات نہیں اپکا اصل امتحان دوسروں کے لیے اچھا ہونے میں ہیں۔۔یہاں میں اپنے پڑھنے والوں سے ایک گذارش ضرور کرنا چاہونگی کہ براہ ِ کرام ’’ حقوق نسواں اور آزادی ِ نسواں میں فرق کو پہچانیں۔بلکہ روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ حقوق نسواں ، آزادی ِ نسواں اور ’’’خواتین کے ساتھ رویے ٹھیک کرنے کی بات ‘‘‘ تینوں بلکل الگ الگ چیزیں ہیں۔جب کوئی ان ’’ رویوں ‘‘‘ پر بات کرتا ہے تو بعض لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ علاقے کی امیج کو خراب کرنے کے مترادف ہے ۔میرا ان لوگوں سے یہ سوال ہے کہ کیا یہ بڑھتی ہوئی خود کُشیاں چترال کے امیج کو خراب نہیں کرتیں ؟؟؟ کیا امیج مُحض سچائیوں سے پردہ اُٹھانے سے ہی خراب ہوتیں ہیں۔میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ کسی بھی واقعے کے پیچھے ہزاروں و جو ہات ہو سکتے ہیں لیکن ’’ خراب ر ویے ‘‘ ایک بہت بڑی وجہ بہت بڑی حقیقت ہیں۔ا سے تسلیم کریں ۔مت بھولیں کہ انسانی جسم میں ’’ زبان ‘‘ ہی وہ عضو ہے جو بیک وقت بہترین بھی کہلاتا ہے اور بد ترین بھی۔یہ انسانی زبان کا غلط ا ستعمال ہی ہے جس سے کہیں گھر اُ جڑ تے ہیں تو کہیں ’ ’ ز ند گیو ں کا خا تمہ ‘‘ ہو جاتا ہے۔۔۔۔
ریچ میں ایک اور شادی شدہ خاتون کی مبینہ خودکشی ، خاتون گزشتہ رات سے لاپتہ
چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال سے 100کلومیٹر انتہائی شمال میں واقع گاؤں ریچ میں ایک شادی شدہ خاتون گزشتہ رات سے لاپتہ ہے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق خاتون نے مبینہ طور پر دریا میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ پولیس اسٹیشن تورکھو کے ایس ایچ او شیر نواز بیگ نے بتایاکہ سکینہ بی بی دختر شیر بیرش خان کی شادی تین سال قبل زار احمد خان سے ہوئی تھی جس کے ایک ماہ بعد وہ سعودی عرب جانے کے بعد گزشتہ مئی کو واپس آئے تھے۔ انہوں نے مزید بتایاکہ سکینہ کی عمر 17سال کی لگ بھگ تھی اوردونوں کانوں سے بہری تھی اور ان کا سسروالوں سے معمولی نوعیت کا لڑائی جھگڑا رہتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپس میں بات کرتے تو ان کو شک پڑجاتی تھی ۔ گزشتہ رات وہ گھر سے غائب ہوئی تو ان کی تلاش شروع ہوئی اور ان کے موبائل ٹیلی فون سیٹ اور دوسرے سامان دریا کے کنارے پر پتھر کے اوپر رکھے ہوئے ملے اور صبح ہونے پر ان کی لاش کی تلاش جاری ہے مگر تاحال کامیابی نہیں ہوئی ہے ۔ ایس ایچ او کا کہنا تھاکہ تلاش کے کام میں پولیس کے جوان بھی گاؤں کے باشندوں کی مدد کررہے ہیں۔ پولیس نے ضابطہ فوجداری کے دفعہ 156کے تحت مقدمہ درج کرکے انکوائر ی کا آعاز کردیا ہے۔