حجاب ایک تہذیب – از :کلثوم رضا
حجاب ایک تہذیب – از :کلثوم رضا
سر پر رکھے جانے والے ڈیڑھ گز کا کپڑا جسے ہم حجاب کا نام دیتے ہیں، محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ایک نظریہ ہے ایک تہذیب ہے ۔۔جس کے لغوی معنی دو چیزوں کے درمیان کسی ایسی حائل ہونے والی چیز کے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے اوجھل ہو جائیں۔اسلامی دنیا میں یہ لفظ تب سے معروف ہے جب سے رب کائنات نے اپنے نیک بندوں کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پردے کا حکم سنایا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ؛ نبی کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 53 )
اس حجاب کے بارے میں پہلے حکم کو آیت حجاب کہتے ہیں ۔سب سے پہلے پردے کا حکم مردوں کو دیا گیا تھا۔یہ اختلاط سے بچنے کا حکم بھی ہے اور عورت کی توقیر و تحفظ کے معنی بھی رکھتا ہے ۔دوسری طرف خواتین کو حکم دیا گیا :
ترجمہ؛اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔(سورہ الاحزاب آیت نمبر 59)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی نیک بندیوں کو گھر سے باہر جانے کے آداب بتا رہے ہیں کہ جب گھر سے باہر یعنی معاشرے میں جاؤ تو چادر اس طرح اوڑھو کہ اوپر سے لٹک جائے ،جس سے چہرہ ڈھک جائے۔اور یہ بھی بتایا کہ ایسا کیوں کریں؟ تاکہ پہچان لی جائیں کہ یہ شریف عورتیں ہیں اور ستائی نہ جائیں ۔۔
یہ چادر ،یہ گاؤن ،یہ حجاب جسے ہم ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ،ایک دقیانوسی سوچ کی پہچان،ایک فیشن یا اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کا آسان طریقہ کا نام دیتے ہیں دراصل اسلام کے نظام عفت و عصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا ہے ۔یہ کسی مولوی یا فقیہ کا وضع کردہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے اللہ کا حکم ہے ۔جس کا مقصد عورت کو وقار و عظمت عطا کرنا ہے ۔یہ عورت کی شخصیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس میں پاکیزگی اور خیر ہے۔
حجاب کی تہذیب مسلمانوں کے عقائد کی آئینہ دار ہے۔ یہ مسلمان مرد کی شعار ہے اور مسلمان عورت کی پہچان۔ ایک مومنہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے پاکیزہ جسم کو شر پسند نگاہوں سے بچائے۔ شرم و حیا کے قلعے میں اس کی حفاظت کرے ۔اسے معلوم ہونا چاہیے کہ پردہ قید نہیں تقوی اور اسلام کا شعار ہے ۔یہ ایک صدف کی مانند ہے جو پاکیزہ عورت کو موتی کی طرح اپنے اندر چھپا کر اس کی قدرو قیمت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اور پردے کے اہتمام میں مردوں کو اپنی عورتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں خاندانی زندگی پاکیزہ اور مستحکم ہوتی ہے۔
حقیقت میں تقدیسِ نسواں کا اصل محافظ مرد ہی ہے۔ مرد اگر باحیا ہو جائیں اور اپنی زمہ داریوں سے آگاہ ہو جائیں تو معاشرے سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اپنی عورتوں کو تہذیب ،اخلاق، دین، دنیا اور آخرت کی باتیں سکھانا مردوں ہی کی زمہ داری ہے۔۔۔ یوں مرد و عورت کے تعاون سے اگر حیا اور حجاب معاشرے کا عمومی کلچر بن جائیں تو اسلامی تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آئیں گے۔ پاکیزہ گودوں میں پروان چڑھنے والی نسلیں بھی یقینا پاکیزہ ہوا کرتی ہیں۔ جس معاشرے کی بنیادیں حیا اور تقوی پر استوار ہوتی ہیں وہ معاشرہ بہترین اقدار کا مظہر بن جاتا یے ۔جس معاشرے میں مردوں کی نگاہیں نیچی ریتی ہیں وہاں عورت کا احترام اور وقار بڑھ جاتا یے۔ اور ایک باوقار عورت باوقار نسلیں جنتی ہے اور پالتی ہے۔ جس سے ایک باحیا اور تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔
میرے مہربان رب کریم نے گھر کے اندر بھی سترو حیا اور لباس کے لیے تقوی کو معیار بنا کر ارشاد فرماتے ہیں۔۔
“اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ۔(سورہ الاعراف ایت ننبر 36)
اللہ تعالیٰ نے “تقوی” کے لباس کو بہترین لباس قرار دیا یے۔۔۔ تقوی اللہ سے ڈر کر اللہ کی مرضی کا لباس پہننے کا نام ہے۔عزت نہ مال میں ہے نہ لباس کے اعلیٰ اور قیمتی ہونے میں بلکہ ایمان اور تقویٰ میں ہے ۔۔۔۔ لیکن ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ آج ہم نے اپنے لباس کا معیار کچھ اس طرح رکھا ہے کہ نیم برہنہ ہو گئے ہیں۔ دور جاہلیت کی عورتوں کا ذکر قرآن و حدیث میں ملتا ہے ۔کہ اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی تھیں ۔اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کو نمایاں کرتی تھیں۔ان کا لباس ایسے ہوتا جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں۔وہی صورت حال اب دیکھنے کو ملتی ہے ۔لباس جتنا زیادہ مہنگا اتنا عریاں بھی ہوتا جاتا ہے۔ جو دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا یوتا ہے ۔۔
لباس میں ہونے والے تیز تر غیر شرعی تغیرات شیطان کے فتنوں میں سے بڑا فتنہ ہے۔ یہ فتنہ ہر دور میں اسی طرح جاری رہا ہے ۔۔۔البتہ موجودہ دور میں یہ فتنہ عروج پر ہے۔ سابقہ ادوار میں میڈیا اور برقی لہریں شیطان کو میسر نہیں تھیں ۔۔۔اب اسے یہ بھی میسر ہیں۔میڈیا حسن و زینت کو اتنا بڑھا دیتا ہے کہ لباس کم سے کم یوتا جاتا ہے ۔ اور حسن و زینت نمایاں ہوتی جاتی ہے۔۔۔اسی کو “تبرج جاہلیہ”کہا گیا ہے۔۔۔ اس نے ہر دور میں اپنے باطل قوانین کو جدیدیت اور روشن خیالی قرار دیا ہے اور اللہ کے دین اور انبیا کی باتوں کو پرانے زمانے کی کہانیاں قرار دے کر انسان کو خواہشات نفس کی پیروی میں لگا دیا ہے۔جس سے معاشرتی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی دراصل معاشرے کے تقویٰ سے دور ہونے کی علامات ہیں ۔۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے نظام عفت و عصمت کی طرف پلٹیں۔یہ اسلامی تہذیب ہی ہے جس میں اس بات کی ضمانت یے کہ ایک عورت تن تنہا “صنعا سے حضر موت تک “سفر کرے گی اور اسے کسی کا خوف نہ ہوگا ۔۔۔
مومن جانتا ہے کہ اس کے رب کے احکامات میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔۔وہ عمل نہ کرنے کے لیے بہانے نہیں تلاشتا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بنائی ہیں جیسے چاہیں استعمال کریں بس خیال رکھیں کہ مالک نے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں ان کے پابند رہیں۔جو حرام ہیں اس سے بچ کر رہیں۔
بے شرمی حرام ہے یعنی ایسا طرز عمل جو فحش پر مبنی ہو۔ ایسا فیشن جو حیا کے تقاضے پورے نہ کرتا ہو۔ جو لباس ستر کو نہ ڈھکے وہ حرام ہے۔ باقی اللہ کے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کے اندر ہر فیشن کی آزادی ہے۔ ہمارا رب رؤف الرحیم ہے۔ اس نے جو حدود ہمارے لیے مقرر کی ہیں ان کے اندر ہمارے لیے خیر ہے۔ رحمت ہے برکتیں اور آسانیاں ہیں۔ ان حدود سے باہر بدامنی ہے انتشار یے، بے سکونی ہے، جھگڑے ہیں، طلاقیں اور فساد ہے۔
دین اسلام وہ دین نہیں جو زبردستی کسی کو مسلمان بناتا ہو۔۔ کسی نبی کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی پر جبر کرکے مسلمان کرے۔ اس معاملے میں بھی کسی پر زبردستی نہیں ہے کہ وہ ضرور حجاب لے۔۔۔ اور ساتر لباس پہنے ۔۔البتہ واضح رہے دین اسلام فرد کی آزادی کو مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ اجتماعیت اور معاشرے کے حقوق کا بھی ضامن ہے۔لہذا ایسے تمام معاملات جن میں انسان کے انفرادی افعال کا اثر اجتماعیت پر پڑتا ہو ،اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود طے کر دی ہیں،جس کے اندر انسان مکمل آزاد ہے۔
اسلام انسان کو اس وقت تک شخصی ازادی دیتا ہے جب تک اس کی آزادی سے معاشرے کے دوسرے افراد کو نقصان نہ پہنچے ۔جہاں اس کی آزادی سے دوسرے انسان کی مالی، جانی حقوق یا عزت متاثر ہونے کا خطرہ ہو وہاں پر اجتماعی اصول و ضوابط لاگو ہو جاتے ہیں۔
نبی کریم کا فرمان ہے کہ “مسلمان کی جان،مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔(مسلم)
جب ایک مرد اللہ کے قوانین سے روگردانی کرکے فحشی میں مبتلا ہو کر محرم رشتوں کو پامال کرتا ہے، نکاح کے بے غیر تعلقات اور دوستیاں بڑھاتا ہے گویا وہ اس قانون کو ٹوڑ کر ظلم اور فساد کا موجب بنتا ہے۔ اور اسی طرح عورت بھی جب نامکمل لباس میں حجاب کے بے غیر باہر نکلتی ہے تو گویا وہ اپنا حفاظتی حصار خود ہی توڑ دیتی یے جس سے ممکن ہے کہ کوئی بد باطن شخص اس کی عزت کو نقصان پہنچائے اور دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی شریف عورت کا گھر اپنی بے حیائی کی وجہ سے اجاڑ دے۔
آئیے اس عالمی یوم حجاب کے موقع پر یہ عہد کریں کہ اپنے رب کے بتائے یوئے احکامات پر عمل کر کے ایک باحیا اور باحجاب زندگی بسر کریں گے۔ مرد بھی تقوی اور حیا کے سارے تقاضے پورے کریں گے اور عورتیں بھی اپنی نسوانیت اور حسن کی حفاظت اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں گی۔ اپنی اولادوں کے اندر حیا کا جذبہ اس طرح پروان چڑھائیں گے کہ وہ معاشرے کی پاکیزگی اور استحکام کا ذریعہ بنیں۔ اور اس کام کے لیے اللہ سے مدد اور استقامت مانگیں۔