“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” – خاطرات :امیرجان حقانی
“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” – خاطرات :امیرجان حقانی
گندم شاید گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ایشو ہے. اور گندم جی بی کی سب سے بڑی ضرورت ہے. اور جی بی کے لیے گندم سے بڑی سبسڈی کوئی نہیں. اور شاید سب سے زیادہ کرپشن بھی گندم میں ہی ہورہی ہے.
پنجاب میں جس گودام سے گندم اٹھایا جارہا ہے اس گودام سے لے کر محلے کے ڈیلر تک ہر کوئی اپنا حصہ وصولتا ہے. یہ نرا جھوٹ ہے کہ صرف چند کلرک، آفیسر یا منتظمین گندم کرپشن میں ملوث ہیں. بلکہ ٹرک ڈرائیور، گودام، فلورملز، آٹا سپلائی کرنے والے مزدے، ٹریکٹر اور محلہ کے ڈیلر تک ہر آدمی ہاتھ صاف کرتا ہے. اور شاید اس گندم کو بہانہ بناکر گلے کوچے کے کئی لوگ لیڈر بنے ہیں اور خوب مفادات بٹورے ہیں.
جی بی کے گندم سے بذریعہ کرپشن و فساد، ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام وزیر مشیر اور اصحاب اقتدار اور سیاسی مذہبی رہنماؤں اور پریشر گروپس، سب مستفید ہوئے ہیں. عوام سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں.
سوائے عوام کے ہر ایک نے اپنا الو سیدھا کیا ہے. اور بہتی گنگا میں اشنان کیا ہے. اس “گنگا کے گاہک” بہت سارے ہیں.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس گندم کا مستقل کوئی حل نہیں کہ اس کو کرپشن سے پاک کیا جائے اور منصفانہ تقسیم کے ذریعے مستحق تک پہنچایا جائے.
اگر حکومت چاہیے تو یہ بہت آسانی سے ہوسکتا.
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ملک کے کروڑوں لوگوں کو شفاف طریقے سے ڈیل کرتا ہے اور سالوں قبل کسی غیر مستحق نے اس گنگا میں اشنان کرنے کی کوشش کی بھی ہوگی مگر سالوں بعد اسے ریکوری کی گئی، ایک ایک روپیہ. اب صرف مستحقین مستفید ہورہے ہیں. اتفاق سے اب ڈاکٹر امجد ثاقب اسکے امین ہیں. وہ مزید چار چاند لگائیں گے.
اگر جی بی حکومت، فورڈ ڈیپارٹمنٹ اور گندم کے نام پر سیاست کرنے والے اور ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران چاہیے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح “جی بی گندم سبسڈی پروگرام” کے نام سے ایک بہترین آن لائن سسٹم وضع کیا جاسکتا. ایک ایسا شفاف سسٹم جسے گندم کا ایک دانہ بھی چوری نہ ہوسکے.
“جی بی گندم سبسڈی پروگرام” کے لئے، ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے وژنری اور ایماندار شخص کی ضرورت ہے.
اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی. کاش ایسا ہو.
مگر مجھے یقین ہے. یہ کبھی بھی نہیں ہوگا. کیونکہ اس سے گندم کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا بھاری نقصان ہے. حکومت اور ڈیپارٹمنٹ بھی نہیں چاہیے گا. گندم کے نام پر سیاست کرنے والے مُلا و مسٹر بھی نہیں چاہیے گے اور کمیٹی کے احباب بھی.
کوئی اپنے “غیبی رزق، خواہ مخواہ کی بھرم، لیڈری اور پریشر ککر سے دستبرداری اختیار نہیں کرسکتا.
سب مل کر عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں.
نوجوانوں اور عوام کو چاہیے کہ اب ان لائن شفاف سسٹم کا ڈیمانڈ کریں اور ہر حال میں بائیو میٹرک ہو. شفاف بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے گندم/ آٹا کی تقسیم ہی واحد حلبہے. اور اس پر کمپین چلائیں. ورنا ہمیشہ اس ایشو پر خوار ہونے کا فائدہ نہیں.لہو آپ کا جلے گا چراغ کسی کا روشن ہوگا.