جہد مسلسل کے 83 سال ۔ از: کلثوم رضا
جہد مسلسل کے 83 سال ۔ از: کلثوم رضا
“میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصد زندگی ہے۔میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے،کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو نہ ہو،بہرحال مجھے تو اسی پر چلنا اور اسی پر جان دینا ہے۔کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا،کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ساری دنیا متحد ہو کر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں ہھی باک نہیں ہے۔”
(روداد جماعت اسلامی اول و دوم ص 30)
یہ صدق دل سے نکلے ہوئے الفاظ مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ کے ہیں۔جنھوں نے 26 اگست1941 کو لاہور میں 75 افراد اور قلیل سرمائے لیکن اخلاص کی دولت کے ساتھ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔یہ اس اخلاص للہیت اور پاکیزگی کا اثر تھا کہ جماعت اسلامی نے زندگی کے ہر دائرے میں بہت جلد پیش قدمی کی۔اس کے بے لوث اور مخلص کارکنان اور قیادت نے مقصد اور نصب العین کی جانب مسلسل جدو جہد کی۔
الحمد للہ جماعت اسلامی اپنے قیام سے ہی انسانی زندگی کے نظام،اس کے تمام شعبہ ہائے زندگی سمیت الله تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کی اطاعت و بندگی اور انبیائے کرام کی تعلیمات و شریعت پر قائم کرنے کے لیے گزشتہ 83 سال سے اقامت دین کی جدو جہد میں سرگرم عمل ہے۔اس دوران جماعت کئی سنگ میل عبور کرتے ہوئے عوام الناس میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے میں مسلسل پیش قدمی کے راستے پر ہے۔۔۔۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ کا فرمان روداد جماعت اسلامی حصہ اول صحفہ نمبر 15 میں درج ہے کہ”یہ بات ہر اس شخص کو سمجھ لینی چاہیے جو جماعت اسلامی میں ائے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور اسان کام نہیں ہے۔اسے دنیا کی پورے نظام ذندگی کو بدلنا ہے۔اسے دنیا کے اخلاق،سیاست،تمدن،معیشت،
معاشرت،ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔دنیا میں نظام حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت میں قائم کرنا ہے اور اس کام پر تمام شیطانی قوتوں سے اس کی جنگ ہے۔اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر ائے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہر شخص کو قدم اگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خار زار میں قدم رکھ رہا ہے۔۔۔۔یہ وہ راستہ نہیں جس میں اگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں۔جو قدم بڑھاؤ،اس عزم کے ساتھ بڑھاؤ کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں ہٹے گا۔”
تو یدخلون فی دین اللہ افواجا کے مصداق لوگ اس میں داخل ہوتے رہے۔۔ جس میں خواتین بھی پیش پیش رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد 1948 میں جماعت اسلامی نے خواتین میں اپنے کام کو منظم کرنے کا اغاز کیا۔محترمہ آپا حمیدہ بیگم جو کہ ایک پر عزم اور نصب العین سے وابستگی رکھنے والی خاتون تھیں نے خواتین کی ایک خاطر خواہ تعداد جمع کرکے اپنی سرگرمیوں کو منظم انداز میں شروع کیا۔تو سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ علیہ نے جو ہمیشہ خواتین میں دین کے کام کے بارے میں فکرمند رہا کرتے تھے خوشی کے ساتھ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کے قیام کا اعلان کیا اور آپا حمیدہ بیگم کو اولین جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔قیام پاکستان کے اول دن سے آج تک حلقہ خواتین کی سرگرمیاں اس عزم کی غماز ہیں کہ
رکو نہیں تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر
نئے سرے سے چھڑ چکی جہاں میں رزم خیر و شر
اس قافلہ حق میں شریک ہونے والی ہر خاتون حصول علم اور اس کی روشنی میں سیرت و کردار کی تبدیلی کی فکر میں منہمک ہو جاتی۔مثالی کردار،نصب العین سے دلی وابستگی،سمع و اطاعت کے نظامِ پر استقامت اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند باہمی تعلقات کا قائم ہونا وہ اعلیٰ بنیادی صفات تھیں جنھوں نے حلقہ خواتین کی بنیاد کو مضبوطی عطا کی۔جذب باہم کی کشش دائرے کو وسیع کرتی گئی اور جلد ہی ملک بھر میں حلقہ خواتین کی سرگرمیاں منعقد ہونے لگیں۔
وہ ہم نہیں ہیں کہ اپنے گھر میں ہی صرف شمعیں جلا کے بیٹھیں
وہاں وہاں روشنی کریں گے جہاں جہاں تیرگی ملے گی
درس قران، قرآن کلاسز اور لٹریچر کی تقسیم سے شروع ہونے والی سرگرمیاں آج دعوت دین کے بڑے بڑے میدانوں تک پھیل چکی ہیں۔خدمت خلق کا عنوان ہو،بچوں یا نوجوانوں میں دعوت دین پہنچانی ہو،غریب بستیوں میں تعلیم کے چراغ جلانے ہوں،بچیوں کو معیاری دینی و دنیاوی تعلیم دینی ہو،شہری اور دیہی ورکنگ ویمن تک پہنچنا ہو،قیدی خواتین کو اللہ کے پیغام سے آشنا کرانا ہو،مظلوم خواتین کو چھت فراہم کرنی ہو،ادب کو صالحیت کا راستہ دکھانا ہو،ابلاغ کی میدان میں حق کی آواز بننا ہو یا حکومتی ایوانوں میں شرعی نظام کی جدو جہد کرنی ہو،حلقہ خواتین نے ہر جگہ اپنی موجودگی ثابت کی ہے۔اور پاکستان بھر میں حضرت عائشہ صدیقہ حضرت فاطمتہ الزہرہ اور دیگر صحابیات رض اللہ عنھن کی سیرت کی روشنی میں خواتین قیادت کو روشناس کرایا ہے۔
قافلے کی قیادتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو پرچم سپرد کرتا رہا اور یوں عزم مسلسل کے ساتھ قافلہ بڑھتا رہا۔محترمہ حمیدہ بیگم کے بعد حلقہ خواتین کی ذمہ داری بالترتیب محترمہ ام زبیر،محترمہ نیر بانو،محترمہ قمر جلیل کے کاندھوں پر رہی۔جنھوں نے طویل عرصے تک اس قافلے کی قیادت کی اور جدو جہد میں حصہ ڈالا۔اس کے بعد محترمہ عائشہ منور صاحبہ،محترمہ ڈاکٹر کوثر فردوس،محترمہ ڈاکٹر رخسانہ جبیں اور محترمہ دردانہ صدیقی اس قافلے کی سالاری کے فرائض انجام دیتی رہیں اور اب اس کی قیادت محترمہ حمیرا طارق کے سپرد کی گئی ہے۔الحمد للہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی خواتین نے جہاں گھر اور خاندان میں اپنے فرائض بہترین طریقے سے نبھائے، بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینے کے ساتھ ساتھ انھیں اور اپنے خاندان کو تحریک سے جوڑا، تحریکی ہم سفر کو بہترین معاونت فراہم کی وہیں حلقہ خواتین کی دعوت کو ہر دائرے میں وسعت دینے، استقامت کے ساتھ نتائج کے حصول تک محاذ پر جمے رہنے، بلند خواب دیکھنے، اور ان کی تعبیر پانے کے لیے ہمہ تن جدو جہد کو اپنا شعار بنایا۔ ساتھ ہی ساتھ پروفیشنل زندگی کے تقاضوں کو نبھانے پر بھی بھر پور توجہ دی۔ ایسی ہی ہستیوں کو دیکھ کر اقبال کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ
جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامین پیدا
آج 26 اگست یوم تاسیس جماعت اسلامی کے موقع پر اس دعا کے ساتھ ہم مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ سمیت اپنے تمام اسلاف کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ “اللہ تعالیٰ انھیں وہ بلند مقام عطا فرمائے جو اس کے ہاں سابقون الاولون کے لیے مقدر ہے۔اور ان کی دی ہوئی رہنمائی تا قیامت انسانیت کو صحیح راہ دکھاتی ریے۔امین
تیزی سے گزرتا ہوا وقت ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ اپنا سب کچھ حق کے راستے میں لگانے والے بن جائیں اور یہ یقین رکھیں کہ جنت کی راہیں اللہ کی راہ میں جان،مال اور وقت دینے سے ہی کھلتی ہیں۔ ہماری اجتماعیت کے لیے ہمارے اسلاف کا نمونہ ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔اس روشنی میں اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کا عمل ہی ہمیں منزل مقصود تک پہنچانے کا سبب بنے گا ان شائاللہ
ہم دل میں روشن خوابوں کی تعبیر کو پا کر دم لیں گے
ہم راہ وفا کے راہ رو ہیں منزل پہ ہی جا کر دم لیں گے
کانٹوں نے اگر دامن تھاما،دامن ہی جدا کر ڈالیں گے
منزل کی طلب میں تن من دھن سب کچھ ہی لٹا کر دم لیں گے
اس گلشن کی ویرانی پر آنکھیں نم ہیں،دل غمگیں ہے
ہم خون رگ جاں دے کر بھی گلشن کو سجا کر دم لیں گے
ہم کل بھی تھے اور آج بھی ہیں اور کل بھی دنیا دیکھے گی
تاریخ کے ہر عنوان میں ہم خود کو منوا کر دم لیں گے
ظالم کے ظلم سے ڈر جانا ہم نے تو کبھی سیکھا ہی نہیں
سولی پہ بھی ہم کو کھینچو گے تو سچ ہی سنا کر دم لیں گے
ہم ڈرتے ہیں نہ دبتے ہیں نہ جھکتے ہیں نہ بکتے ہیں
جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں وہی کرکے دکھا کر دم لیں گے
ہر درد کا درماں ہو جائے ہے ناز ہمارا عزم یہی
انسان کے ہر زخم پہ ہم،مرہم ہی لگا کر دم لیں گے
(روبینہ فرید ناز کی مرتب کردہ کتاب”قیادت کا سفر” زیر مطالعہ ہے تو تحریر کے لیے الفاظ کا چناو اسی مطالعے کے زیر اثر رہا۔)#