Chitral Times

جمہوریت کا حسن …………..محمد شریف شکیب

ھموجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ وزراء اور اراکین اسمبلی اپنے آخری دنوں کو یادگار بنانے میں مصروف ہیں۔ اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔کچھ اراکین اسمبلی طویل روپوشی کے بعد منظر عام پر آگئے ہیں۔اور نئے عزم کے ساتھ سیاسی سفر شروع کرنے کا قصد کیا ہے۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے موسم بھی کافی گرم ہے۔ پارٹی میں نئے آنے والوں کی ایسی آو بھگت ہورہی ہے جیسے وہ کشمیر فتح کرکے آئے ہوں۔کئی سالوں تک پارٹی اور اس کے لیڈروں کو روئے زمین پر بدترین مخلوق قرار دینے والے اب ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے ہیں اور دیکھنے والے کبھی ان کا اور کبھی اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔جمہوریت کے عاشقوں کا کہنا ہے کہ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔اور حسینوں کا شعار ہی دغا دینا، دل توڑنا اور پلکوں کی جنبش کے ساتھ پینترے بدلنا ہے۔ جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر یہی حسن ہے تو وہ حسینوں اور ان کی اداوں سے وہ باز آئے ۔سیاست دانوں کے انفرادی یوٹرن اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں مختلف جماعتوں کا اجتماعی یوٹرن بھی دیکھنے میں آیا۔جسے دیکھ کر سیاست کا تھوڑا بہت ادراک رکھنے والے حیران بھی ہیں اور کسی حد تک پریشان بھی۔قصہ اس اجمال کا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے چترال کی ایک صوبائی نشست ختم کرنے کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں نے ایکا کیا تھا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپیل دائر کی اور اعلان کیا کہ اگر چترال کی دوسری نشست بحال نہ کی گئی تو اعلیٰ عدالتوں میں فیصلے کو چیلنج کرنے کے علاوہ آئندہ عام انتخابات کا بائی کاٹ کیا جائے گا۔پیپلز پارٹی کے دونوں ایم پی ایز سلیم خان اور سردار حسین کے علاوہ تحریک انصاف کی خاتون ایم پی اے فوزیہ بی بی،آل پاکستان مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی شہزادہ افتخار الدین، جماعت اسلامی کے ضلع ناظم حاجی معفرت شاہ ، اے این پی ، قومی وطن پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماوں نے بھی بائی کاٹ کے فیصلے کی تائیدو توثیق کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے دوسری سیٹ بحال کرنے سے صاف انکار کردیا۔ تو تمام سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر انتخابی سرگرمیاں شروع کردیں۔ پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے دوڑ دھوپ جاری ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے بھی کوششیں ہورہی ہیں۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاست دان انتخابات کا بائی کاٹ کرنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ کیونکہ ان کی روزی روٹی اسی سے وابستہ ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ سیاسی گہما گہمی کی وجہ سے سیاسی رہنماوں کے ذہنوں سے الیکشن کے بائی کاٹ کی بات نکل گئی ہو۔ رکن قومی اسمبلی نے قوم کو مژدہ سنایا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بارہ مئی کو شاہراہوں کی تعمیر اور گیس منصوبے کا افتتاح کرنے چترال آرہے ہیں جس کے دو دن بعدچودہ مئی کوسابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم کے ہمراہ چترال آنے کا پروگرام بناچکے ہیں۔ سابق وزیراعظم کا ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ والا نعرہ کافی مشہور ہوا ہے۔ ان کے جلسے کے منتظمین سپاسنامہ میں ’’ ایک صوبائی نشست سے ہمیں کیوں نکالا‘‘ کا شکوہ کرتے ہوئے اس کی بحالی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اور عوام بھی یہی نعرہ لگائیں تو میاں صاحب بھی خوش ہوں گے کہ چلو۔چترال والے اردو بولنا سیکھ گئے ہیں۔اور ان کے نعرہ مستانہ کی صدائے بازگشت ہندوکش کے دامن میں پھیلی وادی چترال میں سنائی دینے لگی ہے۔ ممکن ہے کہ میاں صاحب خوش ہوکر ہماری کھوئی ہوئی نشست واپس دلادیں۔اس کا سیاسی فائدہ بھی شہزادہ افتخارالدین کو ملے گا۔بشرطیکہ وہ بھری محفل میں ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کریں ۔ممکن ہے کہ رائے دہندگان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا ہو۔ اور وہ انتخابات کے روز پولنگ اسٹیشن آنے سے صاف انکار کردیں۔ لیکن اس کا امکان کم ہی ہے۔ کیونکہ ہمارا قومی مزاج یہی ہے کہ تنخواہ بڑھائیں۔۔ ورنہ۔۔ پرانی تنخواہ پر ہی کام کریں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , ,
9507