بچوں پر تشدد اور زیادتی……….. ازقلم:دلشاد پری بونی
نہ میں کوئی تجر بہ کار لکھاری ہوں نہ مجھے مشہور ہونے کا شوق ہے ۔ بلکہ معاشرے مےں جب بھی کسی برائی کی شروعات ہوتی ہے تو اسکو ضبط تحریر میں لاتی ہوں تاکہ اس سے بروقت اگاہی ممکن ہو سکے وہ بھی سادہ اور اسان الفاظ میں َ ۔ ۔ ۔
مغزز قارئیں ۔ ِِِِ ۔ ۔ ۔ آئے روز بچوں کے ساتھ تشدد اور زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہر اایک دن کوئی زینب یا کوئی ننھی فرشتہ کسی بے حس ،بے ضمیراور ہوس کی پجاری درندے کا نشانہ بنتا ہے ۔ جس کو روکنے کے لئے عبرتناک سزا کی ضرورت ہے ۔
معصوم بچے جن کو اکثر پھول سے تشبیہ دی جاتی ہے ان ننھی کلیوں کو مسلتے ہوئے کسی وحشی درندے کانہ ہی ہاتھ لرزتاہے نہ اسے خدا کا خوف اور نہ اسکے قانون کی پکڑ کا ڈر ہوتا ہے ۔ بس اپنے گندے عزائم کی تکمیل اس کے سارے جسم پر نحوست لئے سوار ہوتا ہے ۔ عبرت ناک سزا کے باوجو د یہ ناسور معاشرے میں جنم لے رہے ۔ ایک ایسا ہولناک واقعہ ٹاءون چترال میں بھی رونما ہونے جا رہا تھا ۔ جسکی ناپاک عزائم بچی کی ہوشیاری ،والدین کی بر وقت اگاہی اور پولیس کے بروقت مداخلت اور اقدام نے ناکام بنا دی ۔ اور یوں ایک ننھی کلی مسلنے سے بچ گئی ۔
بحیثیت مسلمان ہمیں حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونی چاہئے ۔ سرور کونین ﷺ بچوں پر نہایت شفقت فرماتے تھے ۔ ایک دفعہ رسولﷺ حسن بن علی سےپیار کر رہے تھے اقرع بن حابس تمیمی بھی موجود تھا ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ میرے دس بچے ہیں مگر میںنے کبھی بھی کسی بچے کو اسطرح پیار نہی کیا۔ آپﷺ نے فرمایا;جو رحم نہی کرتا اس پہ رحم نہ کیا جائے ۔
خود سوچو اپنے اولاد پر رحم نہ کرنے پر دین اسلام نے قابل رحم نہیں چھوڑا تو ایک وحشی درندہ کیسے رحم کے قابل ہو سکتا ہے.
دنیا میں بھی اگر بچوں کے تحفظ کے لئے قانون بن چکے توکیا آخرت میں نہیں ہوگا.;
ان سزاوں اور قواننین کے باوجود ان گندے لوگوں کا خاتمہ ممکن نہ ہو سکا ۔ اسلئے اپنے معصوم بچوں کے تحفظ کے لئے ماں باپ کو خود عملی اقدام اٹھانی چاہئے ۔ اپنے کم سن بچوں کو اکیلے دور مت جانے دینا ۔ اب تو اکیلے د وکان بھیجتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ واپس آئے گی بھی کہ نہیں ۔ ۔
اس کم عمری میں اپنے بچوں کو انجان لوگوں کے ہاتھوں سے کچھ لینے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔ بلکہ ان کو آگاہ کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ایسا بندہ تنگ کرنا شروع کرے تو گھر والوں کو آگاہ کریں ۔ اپنے بچوں کو اچھے اور برے میں تمیز سکھانا کم عمری میں ماں باپ کا اولین فرض ہے ۔ بعد میں پچھتانے سے قبل ازوقت اگاہی بہتر ہے ۔ ٓ