بزمِ درویش ۔ جب وہ دن آئیگا ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ جب وہ دن آئیگا ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
دونوں بچیوں کے چہروں پر عقیدت کے پھو ل کھلے تھے وہ محبت احترام عقیدت اور خوشی کا اظہار کر رہی تھیں میرے سامنے پشاور یو نیورسٹی کی دو نوجوان طالبات بیٹھی تھیں ان کے گھروں میں بچپن سے بزرگوں کی عقیدت اور احترام کا ما حول تھا والدین کی بزرگوں سے عقیدت و احترام دیکھ کر اِن کی فطرت اور مزاج میں بزر گوں اور اہل تصوف کی محبت عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی اِنہوں نے میری تصوف پر کتابیں پڑھیں تو مجھے بھی اللہ کا کو ئی نیک بندہ سمجھ کر آگئیں اور پھر جب دونوں بچیوں نے کہا کہ سر ہمارے سروں پر ہا تھ رکھ کر ہمیں دعا دیں سر یہ ہما ری زندگی کے خوش قسمت ترین لمحات ہیں جب ہمیں آپ جیسے بزرگ اور نیک بندے کا دیدار اور صحبت نصیب ہو ئی عقیدت و احترام اور اندرونی خوشی سے دونوں کے چہرے روشن تھے وہ اور بھی باتیں کر رہی تھیں لیکن مجھے بار بار اپنی حماقتیں کو تا ہیاں گناہ بے وقوفیاں، جھوٹ، سستیاں لوگوں سے سخت روئیے اپنی ذات کو ترجیح دینا،مذہبی عبادات میں سستی اور بہت سارے فرائض سے کو تا ہیاں یا د آرہی تھیں
اپنی ذات کے کمزور پہلو پانی اور درد کی صورت میری آنکھوں میں نمی بن کر تیرنے لگے صبح سے شام تک اپنی حما قتوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ یا د آنے لگا کہ میں مشت غبار جو حما قتوں گنا ہوں کا پلندہ ہوں اس سوہنے رب کا کمال دیکھیں کہ نا فرمانیوں کی لمبی داستان کے با وجود وہ مجھے پیا ر دئیے جا رہا ہے لوگوں کے دلوں کو مسخر کئے جا رہا ہے۔ اِن بچیوں کو تو میں نے ٹو ٹی پھوٹی دعائیں دے کر رخصت کر دیا لیکن اِس کے ساتھ ہی مجھے وطن عزیز کے کروڑوں عقیدت مند اور پیروکار یا د آئے جو دن رات ہما رے جیسے پیروں فقیروں، سیاستدانوں اداکاروں قلم کاروں دانشوروں مذہبی راہنماں خطیبوں شاعروں مفکروں کو کردار کے ہما لیہ سمجھ کر ان کی عقیدت کر تے ہیں مو جودہ دور بلا شبہ ما دیت پرستی اور خود پرستی کے سمندر میں غرق ہو چکا ہے انسان اس مشینی دور میں اندھا دھند اس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ یا پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ انسان خدا کی عنایت کے بجا ئے ساری ترقی اور کامیا بی کو اپنی ذاتی خو بی سمجھ کرانجوائے کر تا ہے۔
یہی انسان خو د کو کامیاب اور شہرت کی مسند پر بیٹھا نے کے لیے اپنے الفاظ اور دلا ئل کے زور پر بڑے بڑوں کو اپنا ذہنی غلام بنا لیتا ہے۔ اپنے علم اور لفاظی کے زور پر تمام لوگوں کو اپنا پیروکار بنا لیتا ہے نکتہ آرائیوں اور سخن سنجیوں سے ایک زمانے کا دل مو ہ لیتا ہے۔ اِسی طرح آج کے نام نہاد صوفی ہا تھ میں زمرد یا سچے مو تیوں کی تسبیح لے کرگلے میں ما لا پہن کر سر پر تا ج رکھ کر تصوف کی کو ئی مسند سجا کر کمزور عقیدہ لو گوں کی عقیدتوں کا مرکز بن جا تا ہے۔ اور پھر لوگوں کے جذبات کشید کر تا ہے۔ ریشمی عبا اور قبا میں دلہا یا پیرزادہ بن کر اپنے زر خرید غلام مریدوں کے بل بوتے پر اپنا روحانی سکہ جما تا ہے۔ گفتگو اور الفاظ کی چاشنی سے سادہ لوگوں کا دل لبھا تا ہے دنیا سے مصنوعی بے نیازی کا راگ الاپ کر خا موشی سے لوگوں کی دولت کو ہڑپ کر تا ہے یہی ظلم ہما رے سیا سی لیڈر کر تے ہیں ایک تیز چالاک آدمی اِس عوام کش نظام میں پسے ہو ئے غریب عوام کی معا شی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا تے ہوئے سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے دن رات اپنا گلا پھا ڑ پھاڑ کر اپنی پا کیزگی سچائی اور انسان دوستی کا یقین دلا تا ہے
لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنا سب کچھ اپنے مشن اور عوام کی فلاح کے لیے لٹا دینے کا اعلان کر تا ہے اپنی ذات کو پرموٹ اور اسمبلی میں جا کر لو ٹ ما ر کا لا ئسینس لینے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے چھلاوہ بن کر پو رے علا قے میں گھو متا ہے عوام کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ مو جودہ دور کا مسیحا اور خدمت خلق کا کو ئی عملی نمونہ ہے تو یہ ہے سیاست اور اقتدار سے نفرت اور عوام سے حقیقی محبت کے دعوے اور قسمیں کھا تا ہے اِیسے سیاسی لیڈر کے ڈراموں اور لفاظی سے متا ثر ہو کر ہزاروں لو گ جوشِ عقیدت میں اس کو اپنی آنکھوں پر بٹھا تے ہیں اس کے ہا تھ پا ں پیروں کی طرح چومتے ہیں کہ یہی مسیحا ان کے پرانے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے اِس کے جھوٹے نعروں اور الفاظ کی مذہبی کلمات کی طرح یہ عوام تشہیر کر تے ہیں۔ سیاستدانوں کو اپنی امیدوں اور خوابوں کا مر کز ٹھہراتے ہیں اس کی جھوٹی قسموں اور کھوکھلے نعروں کا اعتبار کر تے ہیں اِس منا فق سیاستدا ن جو اپنی فیملی اور ذات کی پرموشن اور لو ٹ مار کے لیے کو شش کر رہا ہو تا ہے اِس کی مو رتی دل کے مندر میں سجا لیتے ہیں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کا ٹ کر پا رٹی فنڈ میں پیسے جمع کرا تے ہیں بینر جھنڈے خو دبنوا کر لگا تے ہیں اس کے جھوٹے نعروں اور قسموں کو ہر جگہ پھیلا تے ہیں
اِس کی خا طر گلی محلوں میں لڑائی جھگڑے مو ل لیتے ہیں اپنی رشتہ داریاں اور دوستیاں خراب کر لیتے ہیں بعض اوقات قتل وغارت میں بھی ملوث ہو کر ساری عمر جیل یا پھا نسی کے پھندے تک پہنچ جا تے ہیں اور اِسی طرح جب اپنی ذات کے لیے کو ئی عالم دین الفاظ اور اپنی خطابت سے لو گوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے اور لو گ اس کو عقیدت و احترام کے ہما لیہ پر بٹھالیتے ہیں اس کی تقریر سننے کے لیے مو سموں کی پروا کیے بغیر دور دراز کے سفر کر تے ہیں۔ عقیدت مندوں کے گروہ کے گروہ پو رے اخلاص کے ساتھ عالم سیاستدان اور پیر گدی نشین کا ہر ممکن ساتھ دیتے ہیں اور کا ش یہ کالم نگار پیراورسیاستدان اِن معصوموں کی عقیدت دیکھ کر کبھی اکیلے بیٹھ کر اپنے گریبان میں جھا نک کر اپنے قول و فعل کے تضا د کو دیکھیں خو دپر نظر ڈالیں کہ کیا واقعی وہی ہوں جو میں کہتا ہوں یا نظر آتا ہوں اور اگر میں وہ نہیں جیسا نظر آتا ہوں تو یہ ڈرامہ با زیاں دنیا میں تو کامیابی کا زینہ بن سکتی ہیں لیکن آخرت کے پھندے سے مجھے کو ن چھڑائے گا ظا ہری عبا دت سے دنیا کو تو متا ثر کیا جا سکتا ہے لیکن اس رب کو کیسے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے
کسی بزرگ نے کسی طوائف زادی سے کہا تجھے ذرا بھی خدا کاخوف نہیں ہے تو بن ٹھن کر اپنی اداں سے لوگوں کو اپنے حسن کے جا ل میں پھا نستی ہے اور روپیہ کما تی ہے تو اس طوائف زادی نے مڑ کر اس بزرگ کو دیکھا اور یہ کہہ کر عرق ندامت میں غرق کر دیا کہ میں جو کچھ ہوں وہی نظر آتی ہو ں میرا ظاہر با طن ایک ہے اندر سے بھی ایسے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہ ساری عزتیں اور شہرتیں اس بے نیاز رب کریم کے تحفے ہیں ورنہ تصور کریں کہ جب وہ دن آئے گا جب عالم سیاستدان اور پیروں کے اپنے ہا تھ پا ں زبان اور آنکھیں اس کے کر توں کا بھا نڈا پھوڑ دیں گے گوا ہی دیں گے۔ یا د کر لیں ہو لناک منظر ہو گا جب اِس کا ئنات کا اکلوتا ما لک سب کے سامنے سیاستدانوں پیراور عالم کالم نگار دانش ور اور لفاظی جا دوگروں کے منصوبے اور راز ان کے چاہنے والوں کے سامنے کھول دے گا۔ یہ سوچ کر روح کانپ جا تی ہے کلیجہ پھٹ جا تا ہے اور محشرمیں جب خدا چاہنے والوں کے سامنے اِن کے نقاب سر کا ئے گا اور بتا ئے گا یہ اِن کے اصل چہرے ہیں یہ ہیں جھوٹے پیر، جھوٹے قائد عوام اور مذہب کے وارث اس دن ساری دنیا کی سخن وری دھری کی دھری رہ جا ئے گی۔