برمس کی کھر برادری اور حلقہ نمبر1 کی سیاست ………. تحریر: عبدالرقیب قریشیؔ
ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں!
برمس گاؤں کا قدیم آباد محلہ کھر کی آبادی تقریباً ڈھائی سو گھرانوں پر مشتمل ہے کے مکینوں بلکہ پوری برادری کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہی 1982 ء سے اب تک دیوار سے لگایا جا رہا ہے جس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ مذکورہ برادری کا تعلق اس خاندانی قبیلہ سے ہے جس کا رشتہ پورے خطے میں پھیلا ہوا ہے اور ہمیشہ رنگ ، نسل و مسلک کے تعصبات سے بالاتر ہوکر اس خاندان نے امن و اُخوت اور قومی بالادستی کی بات کی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ گلگت باالخصوص حلقہ نمبر 1 میں اہلسنت و الجماعت اور اہل تشیع مساجد کے عمل دخل کا سب سے زیادہ نقصان یا تو کھر برداری نے اُٹھایا ہے یا پھر میجر (ر) حسین شاہ کی برادری نے اُٹھا یا ہے ۔ اگر اس حلقے میں مساجد کا عمل دخل نہ ہوتا تو سیاست کی رسی ان دونوں خاندانوں کے پاس ہوتی مگر مساجد کے سیاست میں عمل دخل کے باعث کھر برادری جسے برمس کی ترگفہ برادری بھی کہا جاتا ہے کو اور بزرگ سیاست دان میجر (ر) حسین شاہ کی برادری کو عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کرکے رکھ دیا ۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ 1982 ء میں این اے مشاورتی کونسل کے انتخابات کے لیے کھر برادری نے باہمی مشاورت کے بعد اپنے خاندان کے معروف سینئر سیاست دان فضل الرحمٰن عالمگیر مرحوم کو گلگت کے حلقہ نمبر1 سے اُمیدوار نامزد کیا تو اس کی جیت کو یقینی دیکھتے ہوئے گلگت میں پہلی مرتبہ فرقہ واریت کا بیج بویا گیا اور مرکزی جامع مسجد اہلسنت و لجماعت گلگت کے خطیب مولانا قاضی عبدالرازق (مرحوم) کے ذریعے بعض سازشی طاقتوں نے اہلسنت و لجماعت کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرایا گیا اور زبردستی فضل الرحمٰن عالمگیر صاحب کے کاغذات نامزدگی نکلوائے گئے ۔ عالمگیر صاحب کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاست سے باہر کردیا گیا اور یوں حلقے کی سیاسی بھاگ دوڑ سابق رکن کونسل لطیف حسن (مرحوم) کے پاس گئی۔ اگر ایسا نہ کیا جا تا تو گلگت میں نہ فرقہ واریت جڑ پکڑتی اور نہ ہی سیاست میں مساجد کا عمل دخل باقی رہتا ۔ بعدازاں سال 1987 ء میں کیا ہوا ۔ کشروٹ سے سابق رکن کونسل سنبل شاہ صاحب کو سنی اُمیدوار اور مجینی محلہ سے کرنل (ر) وجاحت حسن خان صاحب کو شیعہ اُمیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا اس الیکشن میں وجاحت حسن صاحب جیت گئے ۔ 1992 ء میں اہل تشیع مسجد کی جانب سے الیکشن کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا اور یوں سنبل شاہ صاحب بلا مقابلہ حلقہ نمبر1 کے رکن کونسل منتخب ہوگئے ۔1994 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے این کونسل توڑ کر نئے سیٹ اپ یعنی قانون ساز کونسل کے تحت انتخابات کرائے تو اس الیکشن میں بھی حلقہ نمبر 1 میں برداری ازم سے ہٹ کر سید رضی الدین رضوی (مرحوم) شیعہ اُمیدوار جبکہ مولانا خلیل قاسمی کو سُنی اُمیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا ۔ اس الیکشن میں سید رضی الدین رضوی (مرحوم ) جیت گئے ۔ 1999 ء کے قانون ساز کونسل کے الیکشن میں دیدار علی صاحب شیعہ اُمیدوار جبکہ شاہد اقبال مرحوم کو سنی اُمیدوار بنا کر حلقہ نمبر1 کے عوام کا امتحان لیا گیا اور یوں دیدار علی صاحب جیت گئے ۔2004 ء میں قانون ساز اسمبلی کے تحت ہونے والے الیکشن میں حمایت اللہ خان صاحب سنی اُمیدوار اور سید رضی الدین رضوی شیعہ اُمیدوار بن کر الیکشن لڑے اور اس الیکشن میں حمایت اللہ خان صاحب جیت گئے۔ 2009 ء کے الیکشن میں سید رضی الدین رضوی نے شیعہ مسجد اور جعفر اللہ خان نے سنی مسجد کی حمایت لیکر الیکشن لڑے اور یوں صرف چند ووٹوں کی برتری سے رضی الدین صاحب جیت گئے ۔ پھر گزشتہ مئی 2015 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ” ن” کے نامزد اُمیدوار جعفر اللہ خان صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد اُمیدوار امجد حسین ایڈوکیٹ کو شکست دیکر میدان مارلیا اور اس الیکشن میں بھی دونوں مساجد کا عمل دخل نمایاں رہا ۔ ان تمام ادوار میں مضبوط برداریوں سے الحاج صمد خان ، میجر (ر) حسین شاہ ، عبدالواحد خان ، راجہ اکبر ولی ، سید نظام الدین ، جوہر علی ، الیاس صدیقی ، مولانا سلطان رئیس ، جہانزیب انقلابی ، محمد عالمگیر وغیرہ سامنے تو آئے مگر مذکورہ مساجد کی حمایت حاصل نہ کرسکے یا تو اُنہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے یا پھر الیکشن ہار گئے ۔ بہر حال جو ہوا سو ہوا ان مساجد کی سیاسی عمل دخل کا سب سے زیادہ نقصان کھر برادری اور میجر (ر) حسین شاہ کی برادری نے ہی اُٹھایا ہے ۔ اگر حلقہ نمبر 1 کی فرقہ ورانہ سیاست سے ہٹ کر گلگت کی ضلع کونسل الیکشن کاجائزہ لیا جائے تو ضلع کونسلوں کی سیاست میں مساجد کا عمل دخل نہیں رہا ہے یہی وجہ سے 1987 ء کے ضلع کونسل الیکشن میں گلگت وارڈ نمبر 1 سے سابق رکن کونسل آذر خان منتخب ہوئے اور گلگت وارڑ نمبر2 سے سابق رکن کونسل عبدالحمید (مرحوم) منتخب ہوئے ۔ آذر خان صاحب کا تعلق میجر (ر) حسین شاہ کی برادری جبکہ عبدالحمید کا تعلق کھر برادری سے ہے ۔ 1992 ء کے ضلع کونسل الیکشن میں گلگت وارڑ نمبر1 میں کھر برادری سے تعلق رکھنے والے دو اُمیدوار نظام الدین اور محمد وکیل سامنے آئے اور دونوں الیکشن لڑے حالانکہ اس الیکشن میں دیگر برادریوں کے اُمیدوار بھی تھے مگر نظام الدین الیکشن جیت گئے اور محمد وکیل دوسرے نمبر پر رہے۔1999 ء کے ضلع کونسل کے الیکشن میں کھر برداری کے تین اُمیدوار محمد عالمگیر ، محمد اعظم اور نظام الدین میدان میں رہے ۔ محمد عالمگیر الیکشن جیت گئے ، محمد اعظم دوسرے نمبر پر رہے ،گلباز خان (مناور) تیسرے نمبر پر جبکہ نظام الدین چوتھے نمبر پر رہے ۔2004 ء کے ضلع کونسل کے الیکشن میں گلگت وارڑ نمبر1 سے کھر برداری کے محمد ایوب، حبیب الرحمٰن اور محمد عالمگیر الیکشن لڑے اس کے علاوہ سکوار کے گلاب شاہ آصف ، شروٹ کے بختاور خان ، اور مناور کے گلباز خان بھی اُمیدوار تھے ۔ اس الیکشن میں کھر برمس برداری کے محمد ایوب جیت گئے جبکہ اسی برداری کے ہی حبیب الرحمٰن دوسرے نمبر پر اور محمد عالمگیر تیسرے نمبر پر رہے ۔2009 ء میں ضلع کونسل کی مدت پوری ہونے کے بعد تاحال پورے گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہوپائے ہیں ۔ یہاں ضلع کونسل الیکشن کی اتنی لمبی فہرست بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر الیکشن میں مساجد کا عمل دخل نہ ہوتاتو اکثریت کی حق رائے دہی کو کوئی بھی متاثر نہیں کر سکتا ۔یہاں نہ صرف مساجد کے ذریعے مذکورہ اکثریتی برداری کی حق رائے دہی کو متاثر کیا گیاہے بلکہ قانون ساز اسمبلی کی نشست سے محروم کرکے انہیں دیوار کے ساتھ بھی لگادیا گیا ہے ۔ مساجد کمیٹیوں کو چاہیے کہ یا تو مذکورہ حلقے کی سیاست میں مداخلت بند کردیں یا پھر ان کے حق میں بھی فیصلے کریں تاکہ ان میں پائی جانے والی احساس محرومی اور غم و غصے کو ختم کیا جاسکے ۔ حالانکہ مذکورہ برداری کا بڑا ووٹ بنک گلگت کے حلقہ نمبر2 ، حلقہ نمبر 3 اور جی بی کے دیگر اضلاع میں بھی ہے ۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مذکورہ برداری سے تعلق رکھنے والے قابل اور اچھی شہرت کے حامل شخصیات نے اپنی وابستگیاں وفاق پرست جماعتوں باالخصوص حکمران جماعت مسلم لیگ “ن” ، پاکستان پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی ، جے یو آئی ، جماعت اسلامی وغیرہ سے بھی جوڑی رکھی ہوئی ہیں اوران پارٹی ورکروں کی اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے دی جانے والی قربانیاں و خدمات بھی بے شمار ہیں ۔ باوجود اس کے مذکورہ وفاق پرست جماعتوں کے قائدین انہیں گھاس تک نہیں ڈالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس برداری کے لاتعداد نوجوان بے روزگار اور دیگر افراد مسائل کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس برداری کے لوگ خواہ وہ جی بی کے کسی بھی حلقے میں ہوں متحد ہوکر اپنے سیاسی مستقبل کا لائحہ عمل خودطے کریں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے والی پالیسیوں کوترک کرکے خود کو سیاسی میدان میں اُتار دیں خواہ اس کے لیے انہیں بڑے سے بڑا نقصان بھی اُٹھانا پڑے۔