Chitral Times

ایک لفظ جو معتبر ٹھہرا – از: فرحین فضا

Posted on

ایک لفظ جو معتبر ٹھہرا – از: فرحین فضا

 

جب تک انسان کو کسی چیز کی افادیت کے بارے میں پتہ نہ ہو اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح میرے نزدیک اس پانچ حرفوں کا مجموعہ لفظ “احساس” کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی جتنی اس ایک رات کے بعد ہوئی۔۔

 

ہوا یوں کہ ایک رات میں سوئی ہوئی تھی۔ تقریباً ڈھائی،پونے تین بجے کے قریب مجھے ایک آہٹ سنائی دی جس سے آنکھ کھل گئی۔ پہلے لگا کہ خواب میں ڈر گئی ہوں یا ایسے ہی وہم آرہا ہے لیکن غور کیا تو واضح آواز کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ میں مکمل طور پر جاگ چکی تھی۔ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ادھر ادھر دیکھا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لائٹ آف تھی۔ موبائل ٹارچ کھولا دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ لیکن مجھے کسی کی تیز تیز سانسوں کی آواز بدستور آرہی تھی۔ میری دونوں روم میٹ رضائی اوڑھے سو رہی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ آواز ان دونوں میں سے کسی ایک کی ہو سکتی ہے۔ اٹھی ایک کے قریب گئی تو اس کی نہیں تھی اس سے آگے بیڈ پر گئی تو شک یقین میں بدل گیا آواز وہیں سے آرہی تھی۔ فوراً رضائی ہٹائی تو لاش پڑی تھی مگر سانسیں لے رہی تھی۔ جونہی پیشانی پر ہاتھ رکھا، لگا جیسے توے پر رکھا ہے۔ وہ تو تپ رہی تھی۔ اتنا زیادہ ٹمپریچر دیکھ کر میں بہت پریشان ہو گئی۔ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ نہ ہی میرے پاس کوئی دوا تھی اور ہوتی تب بھی نیم حکیم خطرہ جان کے مصداق اسے دینے سے ڈرتی۔ صرف ایک بات کا علم تھا کہ ٹمپریچر کیسے کم کرنا ہے۔ فخر کیا آخر میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہوں۔(ان دنوں FSC کے امتحانات کی تیاری ہو رہی تھی) فوراً تولیہ گیلا کر کے اس کے سر پہ رکھا،ہاتھ پاؤں پر پانی ڈالا۔یہ عمل مسلسل 15-20 منت کیا تب کہیں جا کر اس کا تپنا تھوڑا کم ہوا۔اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا فضا تم۔۔؟ اور بتایا کہ پورا بدن دکھ رہا ہے۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا ندی کی روانی کا سماں پیش کر رہا تھا۔ سسکیاں لیکر روتی ہوئی کہہ رہی تھی فضا! شکریہ۔۔۔۔اب تم جاؤ آرام کرو تمہاری طبیعت بھی تو ٹھیک نہیں تھی۔ رات جاگنے سے کہیں مزید نہ بگڑ جائے۔۔ میں اب کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔۔

 

ایک لمحے کے لیے مجھے لگا، ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ میں مذید جاگ کے کر بھی کیا سکتی ہوں۔۔ نا ہی ڈاکٹر ہوں نہ ہی کوئی دوا میرے پاس ہے۔یہی ایک ہنر تھا جو ازمایا گیلی پٹی رکھنے کا۔۔۔ جس سے کچھ افاقہ ہوا مذید جاگ کر کیا کروں گی۔

 

اپنے بستر پر گئی،لیٹی، آنکھیں بند کی تو پتہ چلا نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ بے وجہ آنکھیں بند کرنے کو بے سود سمجھ کر اٹھی وضو کیا، نفل پڑھے، روم میٹ پر دم کی غرض سے قریب جا کر نادانستہ طور پر پیشانی کو ہاتھ لگایا تو محسوس کیا کہ اسکا ٹمپریچر پھر سے بڑھ گیا ہے۔ اب تو مجھے غصہ آنے لگا کہ میری اتنی کوشش کے باوجود یہ کم ہونے کے بجائے پھر سے بڑھنے لگا آخر کیوں؟۔۔۔۔اور ساتھ ایک کرم اور ہوا کہ عجیب خیالات اور وسوسوں نے گھیرا کہ کہیں اسے کچھ ہو گیا تو کیا کروں گی۔۔ اس سوچ کا آنا تھا زمین پاؤں تلے سے سرکنے لگی اور میں اللہ اللہ کرتی ہوئی اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔ قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر دم پہ دم کرتی ہوئی اس کی خیر مانگنے لگی۔اور ساتھ گیلی ہٹیاں لگاتی اور بدن دباتی رہی تو سوچوں کے مذید در کھلتے گئے کہ اس قسم کی خدمت میں نے کبھی اپنے گھر والوں کی نہیں کی۔ حلانکہ ہفتے میں نہیں تو مہینے میں ایک ادھ بار ضرور کوئی نہ کوئی بیمار پڑتا ہے۔ لیکن میں نے کبھی ان کی اس طرح خدمت نہیں کی۔ ہاں البتہ امی اور خالہ وغیرہ کو کسی کو فرسٹ ایڈ دیتے ہوئے صرف سنا اور دیکھا ہے۔ پھر مجھے ان لوگوں کا قد بہت بڑا محسوس ہونے لگا جو اپنے اہل وعیال اور دوسرے بندگانِ خدا کی خدمت میں نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔ہر وقت خلق خدا کی کسی نہ کسی طرح خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کسی بیماری و تکلیف حتیٰ کہ خوشی کے موقع پر بھی ایک دوسرے کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور آج مجھے بھی یہ احساس ہو رہا تھا کہ انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہے اور یہ میرے اللہ کا بھی فرمان ہے کہ “خیرالناس من ینفع الناس”۔۔۔پھر مجھے لگا یہی “احساس ” ہی تو ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بنا دیتا ہے ورنہ سبھی مخلوقات جانور ہی تو ہیں۔ آج تک اس لفظ کے بارے میں صرف سنا تھا لیکن کبھی اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
سوچوں کا سلسلہ تب ٹوٹا جب روم میٹ نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا۔۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

فضا تمہاری تیما داری نے مجھے حوصلہ دیا ورنہ میں مر چکی ہوتی اور ساتھ یہ سبق بھی کہ ہر رشتہ خون کا نہیں ہوتا کچھ رشتے ایمان کے بھی ہوتے ہیں اور یہی قیمتی اور مضبوط ہوتے ہیں۔۔۔

 

جس طرح تم نے میرا خیال میری ماں کی طرح رکھا اسی طرح تمہارا خیال سوہنا رب اپنی شان کے مطابق رکھے۔۔۔ میں نے کہا آمین اور ساتھ یہ بھی کہ “یہ میرا فرض تھا”۔ تین مہینوں کا ہی سہی پر آپ میری ساتھی ہیں ہم ایک کمرے میں رہتے ہیں۔۔۔ اگر آپ شام ہی کو بتا دیتیں کہ بخار ہے تو شام ہی کو کوئی دوا بھی منگوا لیتے یوں ہم دونوں کی رات تکلیف سے نہ گزرتی۔۔ اس نے سوری کہا تو میں نے بھی دیکھا اس کا ٹمپریچر بالکل نارمل ہو گیا ہے اور وہ کافی بہتر محسوس کر رہی ہے۔

 

اسی روز مجھے لگا کہ ہمدردی میں کتنی طاقت ہے۔۔ کتنی اپنائیت ہے اور کتنی محبت ہے۔۔۔ اسے شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی سب اس کے چہرے سے عیاں تھا۔۔۔ اور مجھے اپنے انسان ہونے کا شعور مل گیا تھا۔۔۔ کسی کی تکلیف کو محسوس کرکے اسے یہ احساس دلانا کہ “میں آپ کے ساتھ ہوں” یہی انسانیت ہے اور اس رات کے اس احساس نے مجھے انسانیت سے روشناس کیا اور لفظ “احساس” کو میرے نزدیک معتبر ٹھہرایا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92251