انقلاب کی چنگاری یا بھانبھڑ – میری بات:روہیل اکبر
انقلاب کی چنگاری یا بھانبھڑ – میری بات:روہیل اکبر
ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر سیاستدان اپنی زبان پر لا چکا ہے مگر جیسے وہ وہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں اس بات کو بھول جاتے ہیں کیونکہ وہ خود اس سیاسی کشمکش سے باہر نکل جاتے ہیں جو انہیں اقتدار کے حصول میں درپیش ہوتی ہے اور انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہو رہا ویسے تو ہم قیام پاکستان کے بعد ہی خانہ جنگی کی ہلکی ہلکی موسیقی سے لطف اندوز ہونا شروع ہوگئے تھے مگر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو سیاسی راستے سے الگ کرکے اس موسیقی کو تھوڑا سے تیز کردیا تھا جو اب تیز ہوتے ہوتے پہلی منزل کو پہنچ چکی ہے یہ وہ چنگاری ہے جو گذشتہ 77سال سے سلگ رہی ہے اور اب مہنگائی کے طوفان سے اس چنگاری کو ہوا دینا شروع کردی ہے جو کسی بھی وقت بھانبھڑ بن سکتی ہے اور پھر اس آگ میں کون کون جھلسے گا اسکا اندازہ شائد کسی کو بھی نہیں اس وقت بجلی کے بلوں کی وجہ سے پورا ملک پریشان ہے اور وزیر اعظم نے عوام کو تسلی دینے کے لیے ایک پالیسی بیان جاری کردیا ہے کہ اس معاملہ کی تحقیقات کی جائیں حالانکہ انہیں یہ حکم دینا چاہیے تھا کہ فوری طور پر بڑھائے جانے والے بل واپس لیے جائیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ عوام کے زخموں پر نم چھڑک کر انہیں ٹرپنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے
اس وقت عوام کا رونا صرف بجلی کے بلوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انسانی جان بچانے والی ادویات سمیت روز مرہ کی گھریلو استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں خانہ جنگی کی باتیں کرنے والے شائد اسکی حقیقت سے بھی آگاہ نہیں ہیں اگر وہ یہ سب کچھ جانتے ہوتے تو کم از کم ان ملاوٹ والی اشیاء کا تو قلعہ قمع کرتے جو عرصہ دراز سے ہماستعمال کررہے ہیں چلیں آج اسی خانہ جنگی پر ہی بات کرتے ہیں جنہیں ہر سیاسی حکمران اپنی زبان سے ادا کرچکا ہے کہ یہ ہے کیا بلا۔کسی ملک گروہ یا علاقے کے لوگ جو سب مل کر اکٹھے رہ رہے ہو آپس میں ایک دوسرے کو مارنے کے در پہ ہو جائیں تو اسے عام فہم زبان میں خانہ جنگی کہا جاتا ہے پاکستان اس وقت ہر طرف شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے لوگ ایک دوسرے کو مار کر اپنی دولت میں اضافے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔
میری یہ بات سن کر اپ سب پڑھنے والے حیران بھی ہوں گے اور پریشان بھی کہ ملک کا کون سا حصہ ہے جس میں اتنے بڑے پیمانے پر خانہ جنگی ہو رہی ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے اسے مزید آسان کر دیتے ہیں کہ ہمارے پاک وطن میں کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہے جو ملاوٹ سے پاک ہوکھانے پینے کی اشیاء جس میں دودھ،چائے کی پتی،گھی ،سرخ مرچ، مصالحے اورٹماٹو کیچپ سے لے کر بیماروں کی ادویات اور بچوں کے دودھ تک سب ملاوٹ شدہ ہوتی ہیں ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جو اپنے بچوں کو خالص دودھ پلانے سے بھی قاصر ہے یہ سب ہماری قوم کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے یہ ملاوٹ شدہ اشیاء کہیں باہر سے درآمد نہیں کی جاتی بلکہ یہیں ہمارے ملک میں ہی تیار کی جاتی ہے
ایک شخص جو ملاٹ شدہ دودھ بیچ کر دوسروں کی زندگیوں سے کھیل کر اپنی دولت میں اضافہ کر رہا ہے تو دوسری طرف کوئی دوسرا شخص جعلی گھی بیچ کر دوسروں کی جان سے کھیل رہا ہے تیسری طرف ملاوٹ شدہ مرچیں بن رہی ہیں تو چوتھی طرف ادویات یہ تمام ملاوٹ مافیا اسی خوش فہمی کا شکار ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کو جعلی خردو نوش کی اشیاء کھلا کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں مگر دیکھا جائے تو پوری قوم ایک دوسرے کو جعلی اشیاء کھلا کر ایک دوسرے کو مارنے کا سبب بن رہی ہے اس سے بڑی اور خانہ جنگی کیا ہو سکتی ہے پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن پاکستان کے بڑے شہروں جن میں سر فہرست لاہور کراچی اسلام اباد شامل ہے کے رہائشیوں کو سپلائی کیا جانے والا دودھ 80 سے 90 فیصد ملاوٹ شدہ دیکھنے میں آیا ہے جگہ جگہ کیمیکل سے دودھ بنانے کی فیکٹریاں بڑے دھڑلے سے کام کر رہی ہیں جن کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج سے ایک دھائی قبل اگر کسی کو دودھ کی بڑی مقدار مثلا 20/ 30 لیٹر کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ دودھ والے کو دو چار دن پہلے آگاہ کرتا تھا پھر جا کے اس کو دودھ دستیاب ہوتا تھا لیکن آج کل جتنی مقدار میں دودھ چاہیے ملک سینٹروں سے بغیر کوئی وقت ضائع کیے فورا مل جاتا ہے اور ان دوکانوں پر 24گھنٹے دودھ ملتا رہتا ہے
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ لاہور میں بھینسیں ختم ہو چکی ہیں جن لوگوں نے رکھی ہوئی ہیں وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ہی دودھ بڑی مشکل سے سپلائی کررہے ہیں لیکن پورے لاہور،کراچی،فیصل آباد،ملتان اور اسلام آباد /پنڈی میں دودھ ختم نہیں ہوتا سوچنے کی بات ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں دودھ کہاں سے آرہا ہے 2013 سے پہلے بڑے شہروں میں میونسپل کارپوریشنز اور چھوٹے شہروں میں میونسپل کمیٹیز اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں فوڈ انسپکٹرز کو ملاوٹ مافیا کے خلاف کاروائی کرنے کے اختیارات حاصل تھے مگر 2013 میں حکومت پنجاب نے صوبے کے سول علاقوں میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا جس کا مقصد صرف اور صرف ملاوٹ مافیا کے خلاف کاروائیاں کرنا تھا
اس ادارے میں جب تک عائشہ ممتاز رہی تب تک اس ادارے کے لوگوں نے خوب کام کیالیکن جیسے جیسے اس ادارے میں تبدیلیاں آتی گئی یہ ادارہ بھی باقی کے اداروں کی طرح بیٹھ گیا اور آج اس اتھارٹی کی موجودگی میں ہر طرف دھڑلے سے ملاوٹ مافیا سرگرم ہے اس مافیا کو لگام ڈالنے والی دلیر خاتون عائشہ ممتاز کی وجہ سے اس اتھارٹی کا اب تک نام بنا ہوا ہے اور لوگوں کی امیدیں اسکے ساتھ جڑی ہوئی ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے ویسے ویسے یہ اتھارٹی بھی بدنام ہوتی جارہی ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پنجاب فورڈ اتھارٹی کی انتظامیہ بڑے شہروں میں خالص دودھ کی سپلائی کو ممکن بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ملاوٹ مافیا کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود بھی شہری ملاوٹ شدہ اشیاء کھا کر بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں یہ بھی انقلاب کی ایک خاموش قسم ہے جو کسی بھی وقت اس انقلاب میں شامل ہو سکتی ہے جسکا اکثر ہمارے حکمران بتا کر ناجانے کس کو ڈراتے ہیں اس لیے عوامی حکومت کو عوام کی سہولت کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ عوام کو سکھ کا سانس مل سکے لیکن اس کے لیے شرط عوامی حکومت کی ہے جو عوام کی طاقت سے برسراقتدار آئے نہ کی کسی ڈنڈے والے کے زور پر۔