Chitral Times

امریکا کی افغانستان میں مقدس مقامات پر بمباریاں……… پیامبر…..قادر خان یوسف زئی

Posted on

امریکا کی جانب سے افغانستان میں خون کی ہولی میں بھارت کی شمولیت نے مسلمانوں کے لئے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں ۔ قندوز آرچی میں’ عمریہ ہاشمیہ‘ مدرسے پر افغان سیکورٹی فورسز نے امریکا اور بھارت کے ساتھ ملکر جس طرح معصوم بچوں اور عام شہریو ں کو جانی نقصان پہنچایا ہے ایسی بربریت کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی ۔ امریکا نے نئی اسٹریجی کے تحت اپنی مذموم کاروائیوں کے لئے سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس میں جعلی تصاویر جاری کردی جاتی ہیں ۔ نام نہاد لبرل و سیکولرز اور اسلام دشمن عناصر’ ہمدردی ‘کی آڑ میں بڑی چالاکی سے ان جعلی تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے منفی پروپیگنڈا پھیلاتے ہیں کہ فلاں تصویر تو سانحے سے قبل کی ہے ۔ یہ تو فلاں کے سوشل اکاؤنٹ پر پہلے سے موجود تھی ۔ یہ واقعہ مشکوک نظر آتا ہے ۔عام شہری نہیں افغان طالبان تھے ۔ بمباریاں تو ہوتی ہیں تو اس میں عام شہری کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ فلاں فلاں واقعے میں بھی تو عام شہری ہلاک ہوئے تھے ۔ فلاں بازار ، فلاں علاقے ، فلاں سانحے میں بھی تو عام شہری ہلاک ہوئے اُن کی مذمت کیوں نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ یہ وہ عام سوالات ہیں جب سوشل میڈیا میں پھیلائے جاتے ہیں تو عام فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر بے ہنگم ہوگیا ہے کہ بغیر تصدیق کسی کے بھی اکاؤنٹ سے کوئی بھی خبر پھیلانے میں لمحہ نہیں لگتا۔ افسوس کا مقام تو یہ تھا کہ قندوز جیسے عظیم سانحے کے بعدالم ناک تصاویر اور ویڈیوز پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے گئے کہ اتنے جلدی یہ تصاویر کہاں سے آگئی ۔ اس ڈیجیٹل دورمیں جب کہ ایک فرد کے ہاتھ میں پوری دنیا(موبائل فون، انٹرنیٹ) سمٹ آئی ہو ۔ ایساسوال کرنا انتہائی احمقانہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک افغان چینل نے واقعے سے قبل ایک جعلی فضائی ویڈیو میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ افغان طالبان موجود تھے ۔ دنیا جانتی ہے کہ مذکورہ علاقہ امارات اسلامیہ کے زیر انتظام ہے ۔ افغانستان میں اس وقت امارات اسلامیہ کے خلاف سی آئی اے( امریکا) ، نیٹو ، این ڈی اے( افغان سیکورٹی فورسز) ، را ، (بھارت)موساد( سرائیل) ، ایم آئی 6( برطانیہ ) اور سب سے بڑھ کر شمالی اتحاد و حکومت کے جنگجو گروپس اور عالمی دہشت گرد تنظیم داعش مسلسل حملے کررہی ہے ۔کیا ان حالات میں مذہبی تقریب میں انتظامیہ کسی حفاظت کے لئے اہتمام نہیں کرے گی ۔ واضح ر ہے کہ جعلی تصاویر و واقعات کی غلط منظر کشی کی روایت کابل حکومت نے شروع کی ۔ کئی بار کابل حکومت کی ان منفی کوششوں کو امارات اسلامیہ نے غلط ثابت بھی کیا ۔ کئی مثالوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے سب سے بڑی مثال تو خود مغربی میڈیا نے بیان کرتے ہوئے کابل حکومت کا تمسخر اڑایا تھا۔ جب کابل کے صدر اشرف غنی اور امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے24اکتوبر2017کو امریکی فوجی اڈے بگرام ائیر بیس کے بنکر میں ملاقات کی لیکن سرکاری طور پر کابل انتظامیہ نے تصاویر جاری کیں کہ یہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی تھی ۔ لیکن جھوٹ کا ڈھول اُس وقت پھٹا جب امریکی میڈیا نے( جو اس وقت امریکی ؑ عہدے دارکے ساتھ تھا ) ملاقات کی اصل تصاویر شائع کردیں۔ جس کے بعد غنی حکومت کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس قبل بھی کئی مرتبہ کابل حکومت جعلی تصاویر کے منفی پروپیگنڈے کا سہارا لے چکی ہے ۔ 21اپریل2016کے ایک واقعے کی مثال دینا چاہوں گا ۔ جس میں کابل حکومت نے جعلسازی کی انتہا کردی تھی ۔ کابل شہر میں امارات اسلامیہ کی جانب سے این ڈی اے ( نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف اینٹلی جنس) کے مرکز پر حملے میں کابل دوہری انتظامیہ کے افغان سیکورٹی اہلکار ، اعلی و ادنیٰ عہدوں پر فائز خفیہ ادارے سے منسلک افراد ہلاک و ززخمی ہوئے ہیں ،واقعہ2016ماہ اپریل میں واقع پزیر ہوا تھا لیکن کابل دوہری انتظامیہ نے عوامی اذہان کو افغان طالبان سے بدظن کرنے کیلئے مختلف النوع تصاویر کو اکھٹے کرکے سوشل میڈیا اور دیگر ابلاغی ذرائع میں پھیلا کر انھیں افغان طالبان سے منسوب کردیا تھا ۔ یہ تمام عمل جعلی اور پر فریب عمل قرار دیا گیا تھا ۔ افغان طالبان کے مرکزی ترجمان اس سے پہلے بھی اعلامیہ جاری کرچکے تھے کہ حملہ اُس جگہ کیا جاتا ہے جہاں عام شہری کی رسائی ممکن ہی نہیں ہوتی ۔ سخت سیکورٹی کے حامل علاقے میں بچوں ، خواتین اور عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے کابل دوہری انتظامیہ کے دعوے کو کئی بار ا فغان طالبان پہلے بھی رد کرچکے ہیں۔ افغان حکومت کے زیر اثر بعض افغان میڈیا اور دیگر ابلاغی ذرائع میں ایسی تصاویر خبر کے ساتھ لگائی گئیں جن کا مذکورہ حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ چند تصاویر کے ساتھ تفصیل بھی دی گئی مثلاََایک تصویر یکم فروری2016کابل کے دہمزنگ کے علاقے میں نظم عامہ کے مرکز پر ہونے والے دہماکے کی تھی یہ تصویر اے پی کے نامہ نگار نے کھینچی تھی لیکن اس تصویر کو افغان میڈیا اور دیگر ابلاغی ذرائع نے اپریل2016 حملے کی تصویر ظاہر کی اسی طرح ایک تصویر 2011کی تھی جو اہل تشیع کے محرم الحرم کے ماتمی جلوس کے دہماکے کے وقت لی گئی تھی ، ایک تصویر2008ء میں کابل میں بھارتی سفارت خانے کے قریب دہماکے کی تھی۔افغان میڈیا ذرائع ابلاغ کے بعض اداروں نے جلد بازی میں مصر 2013کو صدر مرسی کے حامیوں پر عبدالفتاح کی سیکورٹی اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والے فائرنگ سے شہید ہونے والی بچے کے جسد خاکی کے پاس ان کی ماں کی روتی تصویر کو بھی تازہ کابل حملے کی تصویر ظاہر کردی بلکہ دسمبر2014میں پاکستانی شہر پشاور میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم کی لاش کے پاس کھڑی ماں کی روتی تصویر کو کابل حملے کے شہری نقصان ظاہر کیا گیا اور تو اور ابلاغی ذرائع نے پانی کو فوٹو شاپ کے ذریعے خون آلود اور شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد کی افواج کی جانب سے کی جانے والی 2012میں ذخمی ہونے والی بچی اور اپریل2007میں عراق بم دہماکے میں زخمی ہونے والے دو بچوں کی تصاویر بھی یہ لکھ شائع کردی کہ افغان طالبان کی جانب سے این ڈی اے ( نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف اینٹلی جنس کے مرکز پر حملے میں سویلین زخمی ہوئے ہیں یہ تمام تصاویر جب و اصل سیاق و سباق کے ساتھ جاری ہوئی تو کابل دوہری حکومت کی نا اہلی سے پردہ اٹھا گیا تھا۔ جس طرح افغانستان کی حکومت ہر معاملے کی طرح اس دہماکے میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کے جھوٹے الزامات لگاتی ہوئے شرم محسوس نہیں کرتی وہی ہتھکنڈا مارات اسلامیہ پر آزمانے کی کوشش کی اور کابل حملے کے بعد قندوز سانحے میں اٖٖفغان سیکورٹی فورسز کی ناکامی کو چھپانے کیلئے عام شہریوں و افغان طالبان کو نقصان پہنچانے کا بھونڈا طریقہ اختیار کیا گیا ۔

رمدرسہ ’ عمریہ ہاشمیہ ‘ پر بزدلانہ حملہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ بلکہ افغانستان میں امریکی و افغان سیکورٹی فورسز نے مدارس و مساجد کو شہید کرنا وتیرہ بنا ہوا ہے ۔اس کی چند مثالیں ذیل سطور میں دی جا رہی ہیں ۔ تاکہ عام قاری سمجھ سکے کہ امریکا ، کٹھ پتلی حکومت اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ کسی امن مشن سے نہیں جڑا ہوا بلکہ ان کا مشترکہ مقصد مسلم نسل کشی اور اسلامی شعائر و مذہبی مقدس مقامات کو نشانہ بنانا ہے اور جب اس پر احتجاج کیا جائے تو جعلی و منفی بے بنیاد پروپیگنڈے کرکے مسلم امہ اور دنیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی جائے۔افغانستان کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی نئی جنگی حکمت عملی کے اعلان کے بعد افغان شہریوں کے گھروں، دکانوں، فصلات، مساجد، مدارس، اسکولوں اور دیگر عوامی مقامات پر امریکی فوجیوں کے چھاپوں، بمباریوں اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں میں شہریوں کو وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ ان کے گھر تباہ کیے جا رہے ہیں۔خاص طور پر دینی مدارس، مساجد اور علمائے کرام پر قابض امریکی اور کٹھ تپلی حکومت کے حملوں میں زیادہ شدت آئی ہے۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں دینی مدارس اور مساجد پر فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ ان کو جلا دیا گیا۔ طلباء، علماء اور اساتذہ کو گرفتار یا قتل کیا جا رہا ہے۔

17 نومبر2016 کو صوبہ لوگر کے ضلع چرخ کے علاقے ’’ملا علیم‘‘ گاؤں پر امریکی اور افغان سیکورٹی فورسزنے چھاپہ مارا، جس میں دو مدارس اور گھروں کی تلاشی لی گئی اور مدرسے کے طلباء سمیت پانچ شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا۔20 نومبر کو مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع شیرزاد کے علاقے مرکی خیل پر قابض امریکی اور کٹھ پتلی فورسز نے مل کر چھاپہ مارا۔ جس میں ایک عالمِ دین ’’مولوی شیریندل صاحب‘‘ کو قتل کردیا گیا ۔22 نومبر کو صوبہ میدان وردگ کے ضلع نرخ کے علاقے عمر خیل میں قائم ایک دینی مدرسے پر امریکی اور افغان فورسز نے چھاپہ مارا۔ امریکی فوجیوں نے آٹھ چھوٹے طالب علموں کو ایک دیوار کے نیچے بٹھانے کے بعد ان پر گولیاں برسا دی گئی تھی ۔اسی دن صوبہ پکتیا کے ضلع احمد آباد کے علاقے کامران خیل میں پولیس نے ایک عالمِ دین مولوی حمداللہ کو جاں بحق کردیا۔26 نومبر کو قابض افواج نے صوبہ لغمان کے ضلع قرغی کے علاقے چار باغ اور امبیڑ میں ایک عالمِ دین سمیت پانچ شہریوں کو قتل کیا گیا۔22 اکتوبر کو صوبہ غزنی کے ضلع ناوا کے علاقے تنگی میں حملہ آوروں نے چھاپہ مارا۔ جس میں دو شہریوں حمداللہ اور لطف اللہ اخوندزادہ کوقتل اور خواتین اور بچوں سمیت دس افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔22 اکتوبر کو صوبہ زابل کے ضلع شاجوئی اور ضلع نوبہار کے درمیان لوڑ مرغہ غٹ بٹ خیل کے علاقے میں ایک مسجد پر امریکی طیاروں نے بمباری کی، جس میں تین طالب علم قتل کئے گئے۔ 22 اکتوبر کو امریکی اور کٹھ پتلی فورسز نے صوبہ غزنی کے ضلع ناوہ کے علاقے چادر ماندہ پر چھاپہ مارا اور علاقے کے معزز دینی رہنماء اور روحانی شخصیت قطب اللہ اخوندزادہ سمیت تین افراد کو قتل اور ایک خاتون سمیت ان کے خاندان کے تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔11 ستمبر کو صوبہ غزنی کے ضلع قرہ باغ کے علاقے شیر میں پولیس نے فائرنگ کر کے دو طالب علموں کوقتل اور ایک زخمی کر دیا۔15 ستمبر کو صوبہ بغلان کے ضلع برکی میں کٹھ پتلی فوجیوں نے مولوی کمال الدین کے مدرسے پر قبضہ کر کے اس میں مورچے قائم کیے۔ دیواروں کو گولیوں سے سوراخ زدہ کر دیا۔ جس سے مدرسے کی عمارت مخدوش ہو گئی ہے۔17 ستمبر کو صوبہ غزنی کے ضلع دہ یک کے علاقے بالائی میں پولیس نے ایک عالمِ دین مولوی عبدالہادی اخوندزادہ کوقتل اور ان کے بیٹے اور اہلیہ کو زخمی کر دیا۔27 ستمبر کو صوبہ بادغیس کے ضلع درہ بوم کے بازار میں فورسز کے راکٹ حملے میں مقامی مدرسے کے دو طالب علموں کو قتل کیا گیا۔دینی مراکز پر حملوں اور علمائے کرام اور طالب عملوں کی شہادت کے مذکورہ چند اعداد و شمار بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں۔ افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہر روز حملہ آوروں اور کابل حکومت کے چھاپوں، بمباریوں اور حملوں میں نہتے شہریوں کے مکانات تباہ، خواتین اور بچے جاں بحق ہوتے ہیں۔ جب کہ مختلف بہانوں سے بے گناہ اور نہتے شہریوں کو گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے ننگرہار کے ضلع خوگیانو کے علاقے ٹٹنگ میں ایک دینی مدرسہ مسمار کر دیا تھا جس۔ تین طالب علموں جاں بحق اور متعدد طلبہ کو زخمی ہوگئے تھے۔ تقریبا دو ماہ قبل بھی قابض اور کٹھ پتلی فورسز نے صوبہ میدان وردگ کے ضلع نرخ میں ایک مدرسے پر چھاپہ مارا۔ 16 نوجوان طالب علموں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ جب کہ مختلف علاقوں میں اس طرح کے الم ناک واقعات وقتا فوقتا رونما ہوتے رہتے ہیں۔امریکا کی سرپرستی میں داعش بھی مذہبی مقامات کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ داعش کے حوالے سے افغانستان میں دو بڑے اہم واقعات کا ذکر بھی کرتا چلوں ۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں21اکتوبر2017 کوامام زمان مسجد میں داعش کے خودکش بمبار نے گھس کر نمازیوں پر فائرنگ اورپھر خود کو دھماکے سے اڑادیا تھا جس کے نتیجے میں 40 افراد جاں بحق اور 45 زخمی ہوگئے تھے۔کابل دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد افغانستان کے صوبے غور کی مسجد میں بھی خودکش حملے کے نتیجے میں 20 سے زائد افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہو گئے شدت پسند تنظیم داعش نے ان دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔داعش، امریکا ، اسرائیل ، بھارت اور کابل کٹھ پتلی حکومت کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ خطے میں امن کا احیا نہیں چاہتے تاکہ خطے میں موجودگی کا جواز برقرار رہے ۔ تین برسوں سے موخر انتخابات اور اکتوبر میں دوبارہ انتخابات کے اعلان کے بعد اس قسم کے واقعات سے کابل حکومت عالمی رائے عامہ اپنے حق میں کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہے۔ لیکن غیر جانب دار میڈیا کابل حکومت کی کارستانیوں کے پول کھولتا رہتا ہے۔ کابل حکومت امن کے قیام کے لئے کھوکھلے دعوے کرتی ہے ، مزاحمت کاروں سے مذاکرات کے لئے ہاتھ پیر جوڑتی ہے ۔ کبھی پاکستان تو کبھی سعودیہ و متحدہ امارات کو اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کرتی ہے ۔ لیکن دوسری جانب اشتعا ل انگیز کاروائیاں کرکے تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیتی ہے۔

امارت اسلامیہ نے تمام عالمی غیرجانبدار تنظیموں، اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ قندوز میں رونما ہونے والے جنایت کے بارے میں وسیع اور غیرجانبدار وفود کا انتخاب، انہیں علاقے روانہ کیجیے، تاکہ المیہ کی آزادانہ اور ہمہ پہلو تحقیقات کریں اور یہ ظاہر کریں، کہ حملہ کس پر ہوا ہے اور کن مقاصد کے لیے کیا گیا ہے۔امارت اسلامیہ ایسی وفود کی آمد کے لیے انتظامات کریگی اور علاقے میں ہر قسم کی سیکورٹی کا یقین دلاتی ہے۔ اسی طرح امارت اسلامیہ تمام ذرائع ابلاغ، صحافی حضرات اور محقیقین سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ آزادانہ طور پر علاقے کا دورہ کریں، مذکورہ جگہ کو قریب سے دیکھ لے، عوام اور متاثرین کیساتھ گفتگو کریں اور المیہ کے متعلق مؤثق معلومات جمع کرکے عوام اور دنیا تک پہنچا دیں۔امارات اسلامیہ کی جانب سے متعدد واقعات میں عالمی ذرائع ابلاغ کو کھلی دعوت دی کہ وہ آئیں وہ آزادنہ تحقیقات کریں کہ ظالم کون ہے ، لیکن کابل حکومت کسی بھی واقعے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے لیکر مدارس ، اسپتالوں اور عوامی مقامات میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کی کوریج کے لئے میڈیا کی آمد کو یقینی نہیں بناتی اورمیڈیا کو واقعے کی جگہ سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ شواہد کو مٹا یا جا سکے ۔ بعد ازاں جعلی تصاویر اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے اصل واقعے کو دھندلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ افغانستان میں میڈیا کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ میڈیا کو کابل دوہری حکومت اور امریکا کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا ہوتا ہے ۔ کابل حکومت کی منشا پر حقائق جاری کرنے والے صحافیوں اور اداروں کو نشانہ بنایا جانا معمول بن چکا ہے۔ اس عالم میں افغانستان کی درست صورتحال کی عکاسی غیر جانب دارانہ ممکن نہیں ہے ۔ تاہم ان تمام نامساعد حالات کے باوجود اصل حقائق عالمی ذرائع ابلاغ میںآ جاتے ہیں۔عالمی ذرائع ابلاغ قندوز آرچی سانحہ کے حوالے سے نہ چاہتے ہوئے بھی اصل حقائق کی منظر کشی پر اس لئے مجبور ہوا کیونکہ واقعے کی موبائل پر بنی ویڈیو سوشل میڈیا کی توسط سے پوری دنیا میں پھیل چکی تھیں۔تاہم اس کے باوجود معصوم ، نہتے حفاظ القرآن بچوں کی مختلف تصاویر کو جعلسازی سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس ریاستی دہشت گردی میں بچے نشانہ نہیں بنے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی ایسے احباب کی موثرتعداد ہے جو اس منفی پروپیگنڈے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں ۔ دہشت گردی کا واقعہ کہیں بھی اور کسی بھی جانب سے ہو ، اس کی مذمت احترامِ انسانیت ہے ۔ کسی بے گناہ کی جان کوئی بھی لے اس کو کبھی درست نہیں کہا جاسکتا ۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی دلیل دی جاسکتی ہے۔ دہشت گردی میں عام شری اور بے قصور انسانوں کی ہلاکتیں قابل مذمت ہیں ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب ، رنگ و نسل و فرقے سے کیوں نہ ہو ۔ کسی انسان کو حق نہیں کہ وہ کسی بے گناہ کی جان لے۔

افغانستان میں امارات اسلامیہ اپنی سرزمین پر قابض جارح مملکتوں کے خلاف مزاحمت کررہی ہے ۔ دونوں مسلح گروپوں کے درمیان جھڑپیں و جنگ کا تعلق جارحیت و مزاحمت سے ہے ۔ اس کا عام شہری سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کا کوئی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ حالتِ جنگ میں ہسپتالوں ، مقدس مقامات ، تعلیمی اداروں سمیت عوامی مقامات میں نہتے اور بے گناہ شہریوں کو نقصان پہنچایا جائے ۔ ہمیں امارات اسلامیہ اور امریکا کے درمیان 17برسوں سے جاری جنگ کو سمجھنا ہوگا کہ امریکا ایک منصوبے کے تحت افغانستان میں داخل ہو اتھا ۔ زمینی جنگ میں امریکا اور اس کے حلیفوں کو شدید نقصان کا سامنا ہے لیکن امریکا عالمی معاشی جنگ میں افغانستان کو اپنی چھاونی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کو پاکستان اور افغانستان میں امن سے کوئی غرض نہیں ۔ بلکہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان ، و افغان مزاحمت کار اپنا رخ چین کے صوبے سینانگ کی جانب منتقل کرلیں تاکہ چین کی توجہ و توانائی خانہ جنگی کے خاتمے میں صرف ہوسکے اور معاشی سپر پاور بننے کا خواب پورا نہ ہوسکے۔پاکستا ن ، امریکا کی خواہشات پر پہلے ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔ اب پاکستان نے اپنی ڈاکٹرئن تبدیل کی ہے تو امریکا اپنی ضد و جبر چھوڑنے کے لئے کسی صورت تیار نہیں ہورہا ۔ کابل امن پراسس کے چار ادوار ہونے کے بعد اور پھر پاکستان کی جانب سے اعلیٰ عہدے داروں کا افغانستان جانا ، سعودی عرب اور متحدہ امارات کو امن پراسس میں شمولیت کے لئے امریکا کی نام نہاد کوششوں کا پول ایک بار کھل چکا ہے۔کہ امریکا افغانستان میں امن کے نام پر دہشت گردی کررہا ہے۔پاکستانی وزیر اعظم ، صدر اشرف غنی کے دورے پر پھر کابل پہنچے ۔ لیکن جب تک خود کابل حکومت امن کے لئے سنجیدہ نہیں ہوگی ، پاکستا ن کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی رہیں گی ۔ یہ غنی حکومت کو سوچنا ہوگا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , ,
8784