اسٹیٹ آف دی یونین خطاب: ماسکو افغان امن کانفرنس پیامبر……..قادر خان یوسف زئی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے5فروری کو کانگریس کے دونوں مشترکہ ایوان سے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران اپنی کئی کامیابیوں و ترجیحات کا ذکر کیا ۔ جس میں ان کی خاص توجہ امریکا میں غیر قانونی امیگریشن اور میکسکو میں حفاظتی دیوار کے حوالے سے ڈیموکریکٹس سے مدد کی اپیل کی ہے ۔ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب امریکی معلوم تاریخ کے مطابق امریکی صدر کا ایک ایسا روایتی خطاب ہوتا ہے جس میں امریکی انتظامیہ اپنی حکومت کی ترجیحات اور خدوخال سے کانگریس کو آگاہ کرتی ہے۔میکسکوسرحد پر حفاظتی دیوار کی تعمیر کے لئے بھاری اخراجات کے سبب امریکی ٹرمپ کو کانگریس میں کامیابی نہیں ملی۔ جس پر امریکا کی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن ہوا ۔امریکی صدر کو کانگریس میں اسٹیٹ آف یونین خطاب کی دعوت اسپیکر نینسی پلوسی نے واپس لے لی تھی ۔ تاہم شٹ ڈاؤن کے عارضی خاتمے کے اعلان کے بعد 5فروری کو امریکی صدر نے کانگریس کے دو نوں ایوانوں سے مشترکہ خطاب کیا ۔ بظا ہر یہ علامتی خطاب ہوتا ہے جس میں امریکی صدور اپنی کامیابیوں کا ذکر کیا کرتے ہیں۔ لیکن اس کی اہمیت اس لئے دوچند ہوجاتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کے خدوخال کے نمایاں ترجیحات سامنے آجاتے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی کامیابیوں میں جہاں شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا ذکر کیا تو ایران و چین کے لئے بھی اپنی پالیسی کو بیان کیا ۔
ایک جانب امریکی صدر اپنی مملکت کے لئے میکسکو دیوار کی تعمیر کا مقصد امریکا کی حفاظت کرنا قرار دیتے ہیں ، کہ اس سے امریکا بیرونی عناصر کے غیر قانونی داخلے سے محفوظ ہوجائے گا تو دوسری جانب امریکا عالمی طاقت کے توازن میں اپنی بالادستی کے قائم رکھنے کے لئے آئی این ایف معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان بھی کیا اورملکی دفاعی بجٹ میں گزشتہ سال کی بانسبت اضافہ بھی کیا ۔ گزشتہ سال700ارب ڈالر کے مقابل 716ارب ڈالر مختص کئے جب کہ نیٹو اتحادی کے اتحاد کو 100ارب ڈالر بھی دیئے گئے۔امریکا اس وقت خلائی فورس بنانے اور خلائی بالادستی کے لئے بھی سرگرم ہوچکا ہے تو ڈیفنس میزائل سسٹمز بھی تیار کررہا ہے۔ امریکی کانگریس میں اخراجات کے بل میں میکسکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لئے ابتدائی اخراجات کے بل کی منظوری میں ناکامی کے بعد امریکی صدر ایمرجنسی لگا نے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی صدر بننے کے بعد کئی ایسی پالیساں اختیار کیں گئی جس سے امریکا اور عالمی برداری کے درمیان تعلقات کی نوعیت بدلنا شروع ہوئیں۔ امریکی صدر نے ’’ آزاد تجارت ‘‘ کی پالیسی میں تبدیلی پیدا کی ۔امریکا ،کینیڈا و میکسکو کے درمیان تجارت کے کئی معاہدوں کو ختم کیا ۔ چین کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس(ڈھائی ارب ڈالر) میں اضافہ کیا اور چین امریکا کے درمیان معاشی جنگ میں تیزی پیدا ہوئی۔ تاہم یونین خطاب میں امریکی صدر نے چینی مصنوعات کی بالادستی کا ذمے دار اپنے پالیسی سازوں کو قرار دیا اور چینی کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا ۔
امریکی صدر نے پیرس میں انسداد ماحولیاتی کے معاہدے سے نکلنے کا بھی اعلان کرکے موسمی تبدیلی کے لئے دی جانے والی امداد کو کہیں کم اور ختم کیا ۔جس پر عالمی برادری نے سخت احتجاج کیا گیا لیکن امریکی صدر نے کسی کی پرواہ کئے بغیر خود کو انسداد ماحولیاتی معاہدے سے الگ کرلیا ۔سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر روس و امریکا کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ وینزویلا تنازعے میں امریکا و روس آمنے سامنے ہیں ۔ووینزیلا پر امریکا نے پابندیاں عاید کی ہوئی ہیں ۔ٹرمپ انتظامیہ وینزویلا میں بھی اقتدار کی تبدیلی کیلئے سرگرم ہے، وینزویلا کے صدر نکولس ماڈورو نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کیا تو روس،چین شمالی کوریا و دیگر ممالک کی طرح امریکا نے وینزیلا پر بھی اقتصادی پابندیوں کو جال پھینک دیا۔وائٹ ہاؤس میں بریفنگ دیتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور امریکی محکمہ خزانہ نے وینزویلا کی تیل کی سرکاری کمپنی پرپابندی لگادی۔روس پر امریکا نے یہ الزام بھی عاید کیا کہ اس نے یورپ کو کروز میزائل کے نشانے پر رکھ لیا ہے ۔ امریکا نے آئی این ایف معاہدے سے نکلنے کا عندیہ دیا تو روس نے بھی امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ وہ بھی آئی این ایف معاہدے سے الگ ہوجائے گا ۔ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا 2014میں سابق صدر اوبامہ نے روس پر آئی این ایف کی خلاف ورزی کا الزام عاید کیا تھا ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی پر الزام عاید کیا کہ روس نے1987کے انٹر میڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ( آئی این ایف) معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔امریکا نے معاہدے کے تحت اپنی ذمے داریوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا تو روس کے صدر نے عندیہ دے دیا کہ روس بھی امریکا کے ساتھ درمیانے فاصلے کے جوہری میزائلوں کے معاہدے کو عارضی طور پر معطل کرکے نئے میزائلوں کی تیاری کردے گا ۔امریکا اور روس کے درمیان اس تنازعے سے تناؤ پیدا ہوچکا ہے کیونکہ اس معاہدے کے بعد فریقین نے تقریباََ 2700میزائلوں کو تلف کیا تھا جس سے سرد جنگ کے خاتمے میں مدد ملی تھی ، امریکا پانچ برسوں سے روس پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عاید کررہا ہے ، جس کی وجہ سے اختلافات ختم ہونے میں مشکلات درپیش ہوئیں ۔
امریکی صدر نے ایران کے حوالے سے بھی کانگریس کو آگاہ کیا کہ گزشتہ برس ایران سے کئے جانے والے بین الاقوامی جوہری معاہدے غلط تھے اس لئے امریکا نے ایران کے خلاف سخت پابندیاں عاید کیں ۔ گو کہ امریکا و ایران کے درمیان معاہدے کے خاتمے کے حوالے سے کئی مغربی ممالک نے امریکا کے اقدام کو درست نہیں قرار دیا ۔ لیکن امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یہاں تک کہ امریکی صدر ٹرمپ نے شام و افغانستان سے فوجی انخلا کا عندیہ دیا تو عراق میں موجودگی کا جواز دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ امریکا ، ایران پر عراق میں رہ کر نظر رکھے گا۔ایران کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ”یہ ایک سرکردہ مطلق العنان، قدامت پسند اور دہشت گرد ملک ہے، جو ‘مرگ بر امریکہ’ کے نعرے لگاتا ہے اور یہودی عوام کی نسل کشی کی باتیں کرتا ہے۔ ایران ، اس وقت اسرائیل اور امریکا کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ جس کی واحد وجہ اسرائیل ہے ، جس پر صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ یہودیوں کے خلاف ایرانی اقدامات قابل برداشت بات ہے”۔ ایران نے عراق میں اپنا اثر رسوخ بڑھایا تو شام میں بھی ایران نے بشار الاسد کی حمایت میں جنگجو تنظیموں کی حمایت کی ، یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت اور اسلحے کی فراہمی میں سعودیہ سے لڑوا دیا ، ایک جانب امریکا کو ان جنگوں سے مالی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہیں تو دوسری جانب ایران کے اثر نفوذ سے امریکا پریشان ہے ۔ جس کی وجہ سے یہودی لابی کے زیر اثر امریکی صدر اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو ویٹو کردیتا ہے اور جو ملک اسرائیل کے خلاف ہوتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی کرتا ہے۔
مملکت شام کے بعد افغانستان کے حوالے سے امریکی صدر کا واضح موقف بھی سامنے آیا کہ وہ افغانستان میں جاری طویل جنگ سے تھک چکے ہیں اور دوعشروں کے بعد مذاکرات کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں ۔ تاہم امریکی صدر کی جانب سے شام و افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر خود امریکی کانگریس گومگوں کیفیت کا شکارہے۔ امریکی سینیٹ نے شام اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کر دی جبکہ شام اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کے حوالے سے ترمیم کو بڑے پیمانے پر منظور کر لیا گیاہے۔ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ”سینیٹ یہ محسوس کرتی ہے کہ امریکا کو اس وقت شام اور افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خطرے کا سامنا ہے لہذا امریکا کی جانب سے جلد انخلا تمام پیش رفت اور اسی طرح قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے”۔ امریکا اور افغان طالبان کے براہ راست مذاکرات میں کابل انتظامیہ بھی خوف زدہ نظر آتی ہے۔
افغان طالبان پر امریکا کے علاوہ کابل انتظامیہ کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ ماسکو میں فغان تنازع کے حل کے لئے افغان طالبان نے بڑی اہم پیش رفت کرکے مستقبل کے حکومت کا خاکہ بھی سامنے رکھ دیا ہے۔امریکا اور کابل حکومت نے اپنے تحفظات کی وجہ سے ماسکو کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ تاہم ماسکو کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے افغان طالبان نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہ’’ روس کے دارالحکومت ماسکو شہر میں05/فروری 2019ء کو افغانستان کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے نمائندوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی،جس میں جناب شیرمحمد عباس ستانکزئی کی قیادت میں دس رکنی وفد شرکت کی۔اس کانفرنس کا ایجنڈا افغان تنازعہ کے متعلق آگاہی، مؤقف کا بیان اور کابل انتظامیہ کے علاوہ مختلف افغان گروہوں کیساتھ ایک افہام وتفہیم تک رسیدگی کا حل بتلایا گیا ہے۔امارت اسلامیہ مناسب فرصت سے سالم فائدہ کے ذریعے اپنے شرعی اور اصولوی مؤقف کو مختلف فریقوں کے سامنے واضح کیا ہے۔ جارحیت کے خاتمے، ملک میں دائمی امن وامان کی برقراردی اور افغان شمول اسلامی نظام کے نفاذ اور افغانستان کے مستقبل کے بارے میں انہیں امارت اسلامیہ کی پالیسی کی وضاحت کی گئی‘‘۔نومبر2018میں روس نے افغان تنازع حل کے لئے کانفرنس کا انعقاد کیا تھا ۔ کابل انتظامیہ نے اُس وقت بھی کانفرنس کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ اب فروری 2019میں ہونے والے مذاکرات پر کابل صدر اشرف غنی کا اعتراض سامنے آیا ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ تاہم اشرف غنی کے بیان سے قطع نظر دیکھا جائے تو افغان طالبان اور اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی کے موجودگی میں ماسکو مذاکرات کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بعد افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اہم نکات پر گفت و شنید سے مسئلے کے حل کے لئے امن کی راہ مزید ہموار ہونے کی توقع ہے۔ افغانستان میں اگر سیاسی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اشرف غنی اپنی مدت صدارت سے زیادہ وقت لے چکے ہیں۔ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں مزید تین مہینے کے لئے توسیع کردی گئی ۔ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کا حتمی نتائج بھی ابھی تک سامنے نہیں آسکا اور انتخابات کے انعقاد کی شفافیت پر خود کابل انتظامیہ کے اعتراضات و الزامات بھی پس پردہ نہیں ہیں۔
اگر افغان طالبان ماسکو میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر کسی متفقہ لائحہ عمل کے لئے یکجا ہوئے ہیں تو اسے متنازعہ نہیں بنانا چاہیے ۔ افغان طالبان وفد کے سربراہ کی جانب سے ماسکو کانفرنس میں واضح بیان بھی سامنے آچکا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر پورے افغانستان پر حکمرانی نہیں چاہتے ،طالبان وفد کے سربراہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے ماسکو کے اجلاس کے دوران کہا‘‘ کابل حکومت کا آئین جائز نہیں ہے۔ یہ مغرب سے درآمد کیا گیا ہے اور یہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔’’انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ آئین‘ متنازع ہے۔ ہم ایک اسلامی آئین کے خواہاں ہیں، اس کا چارٹر اسلامی علما وضع کریں گے۔‘شیر محمد عباس ستنکزئی نے مزید کہا ہے کہ طالبان افغانستان میں اجارہ داری کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ سب کی شرکت کے ساتھ ایک اسلامی نظام کے متمنی ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغان طالبان نے انہیں ماضی کے مقابلے میں اسلامی و افغان روایات کی پاسداری پر مبنی نظام میں خواتین سمیت کئی اہم معاملات پر تحفظات دور کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے ۔
امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے افواج کے مرحلہ وار انخلا کے بعد کابل انتظامیہ سے مذاکرات بھی اُس وقت ہی ممکن ہے جب حقیقی معنوں میں پورے افغانستان کی عوام کی نمائندگی شامل ہو۔ افغان طالبان نے داعش کے خلاف اپنی حکمت عملی کے ساتھ سرزمین افغانستان کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے کی ضمانت کے ساتھ ساتھ منشیات کے خاتمے کے لئے بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ افغانستان میں متفقہ نظام حکومت پر ہونے والی گفت و شنید ایک اہم و حساس معاملہ ہے جس کے لئے افغان طالبان نے موجودہ کابل انتظامیہ کے بجائے سیاسی جماعتوں سے راوبط کا آغاز کیا ہے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس طرح عسکریت اور سیاسی معاملات پر افہام تفہیم کے مزید مذاکرتی دور کی ضرورت ہے۔ سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ ’عظیم اقوام نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتیں‘۔افغان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کا حوالے دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا ‘ہم نہیں جانتے کہ ہم کسی معاہدے تک پہنچیں گے یا نہیں تاہم دو دہائیوں سے جاری جنگ کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ہم کم از کم امن کی کوشش کریں۔’عباس ستانکزئی کا بھی کہنا تھا کہ ان کا یہ خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ‘افغانستان میں امن لانا چاہتی ہے‘۔خیال رہے کہ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرت سے علیحدہ ہیں۔ ان میں طالبان کے مندوبین کے علاوہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور حزب اختلاف کے دوسرے سرکردہ رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
افغان طالبان مزید اسیروں کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سنیئر رہنماؤں کو امریکی بلیک لسٹ سے نکالنے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ تاہم حتمی معاہدے پر عمل درآمد سے قبل افغان طالبان جنگ بندی نہیں کرنا چاہتے ۔ امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز پر حملے بھی جاری ہیں اور افغان سیکورٹی فورسز بھی افغان طالبان پر حملے کررہی ہے۔ جنگ بندی اس وقت ممکن نہیں ہے جب تک غیر ملکی افواج افغانستان سے انخلا نہیں کرتی ۔ افغانستان میں افغان طالبان کے علاوہ دیگر متحارب و سیاسی گروپوں کے درمیان اقتدار کی شراکت کے معاملے باہمی مذاکرات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اشرف غنی کے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں ان کی حمایت یافتہ ہی کامیاب ہونگے ۔ اس بات کی توقع بھی کم نظر آتی ہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات وقت مقررہ پر ہوسکیں ۔ اس لئے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد دیگر متحارب گروپوں سے بھی مذاکراتی دور نتیجہ خیز اس صورت میں ہوسکتے ہیں جب تمام اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہوں ۔ پاکستان ، ایران ،چین ، روس اور بھارت کے اپنے اپنے مفادات بھی افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ جس میں سب اہم کردار پاکستان اور ایران کا ہے۔ پاکستان ، بھارت کے ملک دشمن مقاصد کی وجہ سے اہم تحفظات رکھتا ہے ۔ جبکہ بھارت پاکستان کے خلاف مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ شمال مغربی سرحدوں سے بھی پاکستان کے خلاف شرانگیزی میں مصروف ہے۔ بھارت کی سازشوں کو روکنا بھی افغان امن عمل کا حصہ ہے۔ اشرف غنی کی جانب سے امریکی فوج کو انخلا سے روکنے کے لئے امریکی صدر کو لکھے جانا والا خط خطے میں امن کے قیام میں اشرف غنی انتظامیہ کے مقاصد کو عیاں کررہا ہے۔ تاہم افغان طالبان کے سینئر رہنما و قطر سیاسی دفتر کے ڈپٹی عبدالسلام حنفی نے ماسکو میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے قطر مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ امریکا نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپریل تک افواج کی واپسی شروع کردے گا ۔ انہوں نے یہ بتایا کہ ماسکو کانفرنس میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ فغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ضروری ہے ، حنفی نے یہ بھی واضح کیا کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام، نہیں ہوگا ۔ امریکا اگر افغانستان سے اپنی نصف فوج اپریل کے اوخر تک واپس بلا لیتاہے ۔تو افغان سیکورٹی فورسز کی عسکری مورال بُری طرح نیچے گرجائے گا ۔ نئے سیکورٹی معاہدے کے بعد کابل انتظامیہ کی افغان طالبان و دیگر گروپوں سے مقابلے کے طاقت مزید کم ہو جائے گی ۔تاہم امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے امریکی افواج کی واپسی سے متعلق دیئے جانے والے ماہ اپریل کے ٹائم فریم دینے کی یقین دہانی سے انکار کیا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔
18برس کی طویل جنگ میں افغان سیکورٹی فورسز کے استعداد کا اندازہ کلی طور پر ہوچکا ہے ۔ اس لئے اہم خدشات یہی ہیں کہ امریکا تو بہرصورت اپنی افواج کا انخلا کرے گا ۔ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو موجودہ غنی انتظامیہ کے لئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔ ان 18برسوں میں لاکھوں غیر ملکی افغان جنگ میں حصہ لے چکے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ نے واپس آنے والے امریکی فوجیوں کی حالت زار کا جو نقشہ بیان کیا تھا۔وہ انتہائی سبق آموز و ظاہرکرتاہے کہ افغان جنگ سے دراصل کون تھک چکا ہے ۔ اس وقت کئی مسلم اکثریتی ممالک افغان طالبان پر امن کے قیام کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ افغان طالبان کے مذاکراتی وفد میں جوسینئر رہنما شرکت کرچکے ہیں وہ افغان طالبان کی سابقہ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ۔ اس لئے نئے افغانستان میں افغان طالبان نے بھی کئی معاملات پر لچک کا مظاہرہ کیا ہے ۔ قدامت پسندی و سخت گیر پالیسیوں میں تبدیلی کی جھلک وعید الفطر میں جنگ بندی کے دوران نظر آئی تھی جب افغان طالبان ، عوام اور افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکار تک بغل گیر ہوگئے تھے ۔ افغانستان میں نیا نظام کیا ہوگا ، اس پر افغان عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے جہاں افغان طالبان اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کرے گی تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ باہمی مذاکرات سے افغان عوام کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ کابل حکومت کو امن کے قیام کے لئے کسی بھی ایسے عمل و تبصرے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے جس سے امن کی کوششیں متاثر نہ ہو۔