اساتذہ کی تربیت – تحریر کلثوم رضا
اساتذہ کی تربیت – تحریر کلثوم رضا
کسی بھی قوم کی تعمیر وترقی میں اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ طلباء کی ذہنیت سازی کر کے انکی صحیح سمت کا تعین اساتذہ ہی کرتے ہیں۔ دورِ جدید کے تقاضوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو مسلسل تربیت کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن اساتذہ کی تربیت کئی اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
تدریسی مہارتوں کی کمی کے سبب اساتذہ کو ساری عمر یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح طلباء کو صحیح تعلیمی رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ طلباء کی نفسیات سے ناواقفیت کی بناء پر ایک وہ استاد جو بہت اچھی طرح طلباء کی رہنمائی کر سکتا تھا ساری زندگی ان کو اس طرح پڑھاتا ہے کہ بچوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا اور سال پورا ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بچے سالہا سال سکول و کالج میں پڑھنے کے باوجود یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس سارے عرصے میں انہوں نے علم کے نام پر جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ان کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے ناکافی ہے۔ استاد اور طلباء کے درمیان اس ناواقفیت کو دور کرنے کے لئے اساتذہ کی تربیت کروانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اسی ضرورت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چند دن پہلے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فاؤنڈیشن خیبرپختونخواہ نے سوات میں گرلز کمیونٹی سکولز کے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا۔ “جی سی ایس اساتذہ” کی یہ دوسری تربیت تھی۔ اس کا پہلا سیشن فروری 2023ء میں پشاور میں منعقد ہوا تھا۔ اب کی بار مالاکنڈ ریجن “جی سی ایس اساتذہ” کی تربیت کے لئے مقامی ہوٹل مینگورہ سوات کو چنا گیا تھا۔اور یہ تربیت “آفاق” والے کروا رہے تھے۔ ٹھیک آٹھ بجے پروگرام کا اغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ فضل الٰہی اعوان صاحب جو ( پروگرام کے مینجنگ ڈائریکٹر بھی تھے) نے تعلیم وتعلم کے موضوع پر درس قرآن سے ہمیں مستفید کیا۔ بعد ازاں ای ایس ای ایف، آفاق اور سپانسر کمپنی کے ڈائریکٹرز کے ساتھ تعارف ہوا۔ کچھ ہدایات دی گئیں، ان پر کاربند رہنے کی تلقین کی گئی۔ ہماری تربیت کا آغاز ٹرینرز کے تعارف سے ہوا۔ ہال “بی”کے حساب سے ڈائریکٹر عامر زیب صاحب، فضل الٰہی اعوان صاحب، جناب عبد المنصف صاحب، ڈاکٹر طلحہ ابرار صاحب، میڈم پروین فنیاس صاحبہ، میڈم منیرہ شاہ، میڈم کلثوم ریاض اور میڈم انیسہ صاحبہ ہمارے ٹرینر تھے۔
اس پانچ روزہ تربیتی سیشن میں ہمیں کلاس روم مینجمنٹ میں” کمرہ جماعت کی تنظیم اور استاد کا کردار، اساتذہ اور طلباء کے درمیان موثر ابلاغ، طلباء کے رویے/طرز عمل، موثر تدریسی طریقے، تدریسی معاونات اور کثیر الجماعتی طریقہ تدریس” سمجھایا گیا۔ریاضی، سائنس، انگریزی، اردو، معاشرتی علوم ، معلومات عامہ، اسلامیات کی تدریس اور ای سی سی ای یعنی “ارلی چائلڈ ہڈ کئیر ایجوکیشن”کے “سبقی خاکے” سمجھائے گئے۔
“سکول انتظام و انصرام میں سالانہ تقسیم کار اور ٹائم ٹیبل کی تیاری، ریکارڈ سازی، سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیاں، مقامی آبادی کو متحرک کرنا، سکولوں میں حفظان صحت اور ابتدائی طبی امداد” کے متعلق بتایا گیا ۔نیز “جائزہ کے اقسام، امتحانی سوالنامے اور نتائج کی تیاری اور بلوم ٹکسانومی” کے متعلق لیکچرز سے ہمیں مستفید کیا گیا اور ان سارے موضوع پر زیر تربیت اساتذہ سے پریزینٹیشن لیا گیا۔اس ناچیز نے “ای سی سی ای” کے موضوع پر پریزینٹیشن دی تو میڈم انیسہ نے بڑی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “میں چاہ رہی تھی کہ کوئی اس موضوع پر پریزینٹیشن دے کیوں کہ یہ بہت اہم موضوع ہے آپ کا شکریہ آپ نے اس موضوع کو چن لیا”۔
ان تمام موضوعات پر شاید تمام اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے، لیکن ہماری اس تربیت کا حصہ دو اور اہم موضوعات بھی تھے۔ ایک “ڈیجیٹل پن” کے ذریعے ناظرہ قرآن پڑھانا اور دوسرا “پوہا”۔
ڈیجیٹل پن کے ذریعے قرآن مجید کی تلاوت درست تلفظ کے ساتھ کی جاتی ہے سنا اور دیکھا بھالا تھا، لیکن کمیونٹی سکولوں میں اس قیمتی چیز کا
استعمال کرنا، کروانا اساتذہ اور طلباء دونوں کے لئے اعزاز سے کم نہیں۔ اس کے بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں لیکن تین بنیادی فائدے (میری نظر میں)یہ ہیں مثلاً
1- اساتذہ میں کوئی قاری یا قاریہ نہیں تو اس سے بآسانی درست تلفظ کے ساتھ پڑھا سکتا/سکتی ہے۔
2- اگر کوئی اپنے لہجے کی وجہ سے “ف” کو “پ” اور” ق” کو “ک” پڑھتا/پڑھتی ہے تو ان کا یہ مسئلہ اس پن کے استعمال سے حل ہو جائے گا۔
3- کسی شرعی عذر کی وجہ سے اساتذہ قرآنی آیات کو ہاتھ سے چھو نہیں سکتے اور نہ پڑھ سکتے ہیں اور بچوں کے سبق متاثر ہوتے ہیں تو یہ پن اس مسئلے کا بھی بہترین حل ہے۔اس ڈیجیٹل پن کے استعمال کی ٹرننگ قاری نوید نے دی۔
اب دوسرا اہم موضوع جو سب سے نمایاں ہے وہ ہے “پوہا”
جو طلباء اور طالبات پرائمری کے بعد وسائل کی کمی یا کسی اور وجہ سے اپنی تعلیم خواہش کے باوجود جاری نہیں رکھ سکتے ان کے لیے “ای ایس ای ایف” “پوہا “پڑھائی کی سہولت دے رہا ہے۔
“پوہا” ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے جس میں طلباء و طالبات گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے یہ بچے پرائیویٹ شمار نہیں ہوں گے اور سائنس بھی پڑھیں گے۔ یہ سسٹم ان علاقوں کے لئے زیادہ موزوں ہے جہاں تعلیمی ادارے موجود نہیں اور بچے حصولِ تعلیم سے محروم ہیں۔ اس سسٹم میں آن لائن اور آف لائن دونوں سہولیات موجود ہیں۔ تو اس موضوع پر سیرحاصل تربیت ہوئی کہ کس طرح بچوں کا ایڈمیشن ہوگا، کس طرح انھیں پڑھایا جائے اور کس طرح وہ پڑھیں گے؟ یہ سب اس تربیت کا حصہ تھے۔اور اس کی ٹریننگ ڈپٹی ڈائریکٹر ای گورننس نور شیر افریدی صاحب دے رہے تھے۔
یوں یہ چاروں دن تربیتی لحاظ سے بہت اہم رہے۔ پانچویں دن اختتامی پروگرام ہوا جس میں منتظمین اور مہمانِ خصوصی کا خطاب اور اسناد کی تقسیم ہوئی۔ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فاؤنڈیشن خیبرپختونخوا جاوید اقبال صاحب مہمان خصوصی تھے۔اور انھوں نے اپنے خطاب میں “جی سی ایس ٹیچرز” کے کام کو بہت سراہا ۔ان کا کہنا تھا کہ جو قلیل تنخواہ میں اپ لوگ کام کرتے ہیں یہ اپ کی محنت کا صلہ نہیں ہے اپ لوگ اپنی تنخواہوں سے کئی ذیادہ لگن سےکام کرتے ہیں اور ماشاءاللہ اپ کی محنتیں رنگ لائی ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ آئندہ بھی نسل نو کی تربیت اسی ہمت و جذبے سے کریں گے۔یوں یہ تربیتی سیشن اپنے اختتام کو پہنچا۔
تمام ٹرینرز اور ہیڈ آفس سے منسلک تمام افراد نے بہت لگن اور محنت سے اس پروگرام کو تکمیل تک پہنچایا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ای ایس ای ایف جو کہ شاید اس بھاری ذمہ داری کی وجہ سے ہمیشہ پریشان سے دکھائی دے رہے تھے، آخری روز وہ بھی مسکرا مسکرا کر ہر کسی سے بات کر رہے تھے۔ یقیناً ان کی خوشی کی وجہ پروگرام کا احسن طریقے سے انجام پانا تھا۔ خصوصاً عامر زیب صاحب (جنہیں دیکھ کر ہمیشہ ایک مشفق باپ کا چہرہ نظروں کے سامنے آجاتاہے) تمام اساتذہ کی بہت حوصلہ افزائی کرتے رہے اور جناب افتخار صاحب جنہیں دیکھ کر نجانے کیوں مجھے یہی لگا کہ اگر قائد اعظم رحمۃ الله علیہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ ہو بہو افتخار صاحب ہوتے۔
اور ان تمام تربیتی دنوں میں جب جب بھی ڈی پی او ملاکنڈ محمود علی صاحب اردو زبان میں ہم سے مخاطب ہوئے تو ان کے پشتو لہجے میں اردو سے ہم لوگ محفوظ ہوتے رہے۔اس دوران چترال کے سابق ڈی پی او سیف الدین صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی۔جب انھوں نے خود ہی پہچان کر میرے نام سے مخاطب ہو کر خریت دریافت کی اور ہمارے سکول اور باقی اسٹاف کا بھی پوچھا تو بہت اچھا لگا۔اس دوران ایک خاتون ( جو کے بونیر کی ڈی پی او تھی) کو ٹرینرز اور ہیڈ افس والوں کو مسلسل سہولیات فراہم کرتے دیکھا گیا جس کا اعتراف ڈی ایم ڈی صاحب نے بھی کیا کہ طلعت شاہ صاحبہ کی سکولوں کے متعلق کوئی فرمائش ہیڈ افس اتی یے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ہم سمجھ جاتے ہیں کہ بس اب مذید کچھ کہا نہیں جا سکتا ،یقیناً یہ بہت ضروری کام ہے،وہ اتنی دلجمعی سے کام کرتی ہیں ۔چوتھے روز observation کے لیے چترال افس سے مانیٹرنگ افیسر عالمزیب شہزاد اور اپر چترال کے ڈی پی او عالمگیر صاحب بھی ائے ہوئے تھے۔واپسی ایک ساتھ ہوئی۔
جنہوں نے پہلی بار اس تربیت میں حصہ لیا تھا ان کے تاثرات بھی تمام ٹرینرز کے متعلق یہی تھے کہ کتنے عظیم لوگ ہیں جو ہمیں اتنی زیادہ عزت دیتے ہیں۔ اس طرح ہم بہت سی مہارتیں سیکھ کر، بہت ہی اچھی یادیں لئے چار بجے کے قریب سوات سے چترال کی جانب روانہ ہوئے اور بخیرو عافیت رات دو بجے چترال ٹاؤن والے اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔ ہم اپر چترال والوں کو اپنے گھر ٹھہرانے کا وعدہ کر کے لائے تھے لیکن یہاں پہنچتے پہنچتے ان کے عزیزوں نے انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی اور ہمارے نصیب میں صرف تین ساتھیوں کی مہمان داری ٹھہری۔ چار پانچ گھنٹے سستانے کے بعد ان کی گاڑی اپر چترال جانے کے لئے تیار تھی وہ چلے گئے اور میں سینہ تان کر ایک بالکل نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ اپنے سکول کی طرف چل دی کیونکہ میری فنی مہارتوں کے سلسلے میں یہ میرے وقت کا بہترین استعمال تھا۔