Chitral Times

آنے والے الیکشن کے تناظر میں چترالی سیاست – تحریر: حیات طیبہ

آنے والے الیکشن کے تناظر میں چترالی سیاست – تحریر: حیات طیبہ

 

کہنے کو میدان سج چکا ہے مگر ملکی حالات اب بھی اس یقین کو پنپنے نہیں دے رہے ہیں کہ الیکشن واقعی میں ہوں گے۔ اگر ہوں گے بھی تو کیسے ہوں گے، کیا واقعی میں الیکشن ہی ہوں گے یا پھر کچھ اور ہی ہوں گے مگر عوام الناس کو باور کرایا جائے گا کہ الیکشن ہی ہوئے ہیں۔ خیر سے یہ سب کچھ ہمارے ملک میں خوش قسمتی یا بدقسمتی جو بھی کہیں چلتا رہتا ہے۔ آج ہم چترال کی زمینی حقائق اور الیکشن پر اثر انداز ہونے والے چند شخصیات اور پارٹی پوزیشن پر اپنی بالکل ہی ذاتی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔کوشش ہوگی کہ یہ سلسلہ الیکشن تک جاری رہے۔

چترال میں آنے والے الیکشن کے لئے جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام،پی پی پی، مسلم لیگ نو، پی ٹی آئی پارلیمنٹریرین اور کچھ حد تک پی ٹی آئی والے بھی آنے والے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان تیاریوں میں کارنر میٹنگز، شمولیتی تقریبات اور سیاسی جلسوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ زور آزمائی شروع ہوچکا ہے۔ کس کا زور اور کتنا چلتا ہے وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔فی الحال کی سیاسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ سیاسی پارٹیاں اور کچھ سیاسی لوگ میلہ لوٹنے میں مصروف ہیں۔

چترال کے دونوں صوبائی اور ایک قومی سیٹ کے لئے اب تک جو امیدوار ایک حد تک کنفرم ہوچکے ہیں ان میں سے مغفرت شاہ، جماعت اسلامی، سلیم خان، پی پی پی اور شہزادہ خالد پرویز، پی ٹی آئی پی، صوبائی اسمبلی پی کے 2 کے لئے اور پی کے ون کے لئے پی ٹی آئی پی کے غلام محمد شامل ہیں۔ یاد رہے کہ غلام محمد اور خالد پرویز کو کافی عجلت میں پی پی پی نے صوبائی اور قومی اسمبلی کے لئے امیدوار نامزد کرچکا تھا اس کے باوجود یہ دونوں شخصیات پی پی پی چھوڑ کر پی ٹی آئی پی میں شامل ہوگئے۔دیکھا جائے تو لوئرچترال سے اب تک ٹکٹ حاصل کرنے والے تمام شخصیات چترال میں قدآور اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں ان سب کی نہ صرف اپنی پارٹی میں پوزیشن بہت مظبوط ہے بلکہ پارٹی سے باہر بھی لوگ ان سب کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔

اس دفعہ ایم ایم اے بننے کے چانسز کافی کم ہیں مگر سیاسی منظر نامے کے پیش نظر الیکشن کے آخری ہفتوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ایم ایم اے نہ بننے کی صورت میں جماعت اسلامی کے امیدوار حاجی مغفرت شاہ باقی امیدواروں کو کافی ٹف ٹائم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ حاجی مغفرت شاہ جماعت سے باہر بھی کافی مقبول ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بنا کر رکھنا ان کا کمال تصور کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ کسی بھی سیاسی نظریے سے ہٹ کر انہیں پسند کرتا ہے۔

سلیم خان دو دفعہ ایم پی اے بن چکے ہیں اور صوبائی وزرات تک پہنچنے والے چترالی شخصیت ہیں۔ پی پی پی ہمیشہ سے ایک مظبوط اور چترال میں کافی مقبول جماعت تصور کی جاتی ہے۔ ماضی میں اس پارٹی نے جس کو بھی ٹکٹ دیا چترال کے عوام نے تمام نظریات سے بالاتر ہو کر ہر شخص کو قبول کیا۔پی پی پی کو اتنی مقبولیت پاکستان کے کسی بھی حصے میں نہیں ملی جتنی چترال میں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چترال کو منی لاڑکانہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔

معروضی حالات اب ویسے نہیں رہے۔ پی پی پی کو تمام نظریات سے بالاتر ہو کر چاہنے والی نسل اب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ نوجوان نسل سیاست میں سب کچھ ہی بدلنے کو تیار ہے۔وادی لوٹکوہ کے عوام نے ہمیشہ سے لوٹکوہ سے الیکشن لڑنے والوں کو فوقیت دی ہے۔ یہ ایک پلس پوائنٹ ہے سلیم خان کے پاس کہ اگر وادی لوٹکوہ سے کسی اور پارٹی کا امیدوار پارٹی ٹکٹ یا آزاد امیدوار کے طور پر آنے والے الیکشن میں حصہ نہیں لیتا تو لوٹکوہ کا ووٹ کم ازکم 50 فیصد سلیم کو پڑ سکتا ہے۔

 

خالد پرویز کنگ پارٹی کا حصہ ہے ساتھ میں ان کے والد کا ووٹ بنک اور قومیت کا ووٹ مل جائے تو آپ مذکورہ دونوں شخصیات کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ خالد پرویز اپنے والد کی طرح سیاست کے اسرارو روموز سے خوب واقف ہیں اور کون سا پتہ کہاں کھیلنا ہے اس سے بھی بخوبی آگاہ۔ ان کی دور اندیشی اور سیاست سے آگاہی کے لئے یہی ثبوت کافی ہیں کہ پی پی پی جیسی پارٹی کا ٹکٹ ٹکرا کر ایک بالکل نئی پارٹی میں شمولیت انتخابات چند مہینے قبل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

 

مذکورہ شخصیات اب تک پارٹی کے ٹکٹ حاصل کرچکے ہیں مگر کچھ بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کا نام آنا ابھی باقی ہے۔ ان میں سے جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے امیدوار بڑے سے بڑے اپ سیٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کوشش کے باوجود پتہ کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ مگر جس سب سے بڑے اپ سیٹ کا چترال کی سیاسی پارٹیوں اور نمائندوں کو انتظار کرنا چاہئے وہ منجھے ہوئے سیاست دان مولانا فضل الرحمن کے فیصلے سے متوقع ہے۔جے یو آئی نے جو نام چترال لوئر کے لئے ہائی کمان کو بھیجے ہیں ان میں سے ایک نام وادی لوٹکوہ سے تعلق رکھنے والے نصرت الہی کا بھی ہے۔ نصرت الہی عرصہ دراز سے جے یو آئی کا حصہ ہیں۔ سابقہ میئرشپ کے لئے ان کا نام آخری مراحل تک ہائی کمان کے نوٹس میں تھا۔ذرائع بتا رہے ہیں کہ صوبائی اسمبلی کے لئے نصرت الہی کا نام پھر سے شامل کیا گیا ہے۔ اگر ہائی کمان ان کا انتخاب کرتی ہے تو نصرت الہی لوٹکوہ میں ایک بہت بڑے اپ سیٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔

 

لوئر چترال کی صوبائی اسمبلی تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک پرکشش سیٹ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لئے اگلے چند دنوں میں نون لیگ، اے این پی اور استحکام پاکستان پارٹی کے بھی امیدواروں کے ناموں کا اعلان متوقع ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
81805