Chitral Times

بزمِ درویش ۔ آخر کب تک (حصہ دوئم) ۔  تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Posted on

بزمِ درویش ۔ آخر کب تک (حصہ دوئم) ۔  تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

مجھے سینکڑوں دکھی لاچار اور بے بس بچیوں کے چہرے یاد آرہے تھے جو پتہ نہیں کب سے اپنی آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے انتظار کے صحرا میں ننگے پاؤں چل رہی ہیں لیکن ہر ڈوبتے سورج کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں میں امید اور شادی کے سہانے سپنے دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ عظیم بیٹیاں اپنے ماں باپ اور بھائیوں کی غیرت کے لیے ہمیشہ شرافت کی زندگی گزارتی ہیں یہ وہ عظیم نور کی پوٹلیاں ہیں جو اپنے جسم اور روح کو اپنے خاوند کے لیے بچا بچا کر رکھتی ہیں کہ میں شادی کے بعد اپنے سارے خواب پو رے کروں گی۔ اور قربان جائیں ان نوجوان بچیوں کے جو دل ہی دل میں کسی کو پسند کر تی ہیں لیکن ماں باپ کی عزت کی خاطر اپنے خوابوں ارمانوں اور خواہشوں کو دل میں دبائے ہی پتہ نہیں کب نوجوا نی کی دہلیز پار کر کے بڑھاپے کے صحرا میں داخل ہو جا تی ہیں اور اف تک نہیں کر تیں عظیم اور قابلِ پر ستش ہیں وہ عظیم بیٹیاں جو ماں باپ کی خدمت کے لیے پتہ نہیں چلتا کب نوجوانی سے بڑھاپے کے دریا میں اتر جاتی ہیں اور پھر وہ نور اور شرافت کی پیکر اگر ماں باپ دونوں یا ایک فوت ہو جائے تو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت ان کی پرورش ماں بن کر کرتی ہیں اِن خدمت کی دیویوں کو پتہ نہیں چلتا کب ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے اِس دوران نوکری کرتی بچیاں دفتروں بازاروں سکولوں میں بے غیرت اوباش لڑکوں کی گندی آوازوں اور چھیڑ چھاڑ کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی جاتی ہیں اور چھپ چھپ کر خدا کے سامنے دعا اور اپنی حفاظت کے لیے پھیلاتی ہیں اور کچھ پیٹ کی آگ بجھانے اور زندگی کی گاڑی کو آگے چلانے کے لیے اپنی عزت تک تباہ کر دیتی ہیں۔

 

یہ عظیم بچیاں بھی کانچ کی گڑیاں کی طرح ہر روز ریزہ ریزہ ہو تی ہیں اور رات کے گھپ اندھیروں میں خودکو اکٹھا کر کے دوبارہ پھر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جا تی ہیں ہمارا اندھا بہرا معاشرہ ایک خوفناک عفریت کی طرح روزانہ ایسی مظلوم بے بس لاچار لڑکیوں کو زندہ نگل جاتا ہے۔ اور ہمارا معاشرہ جو اب کوفہ بن چکا ہے اس کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ حوا کی بیٹی اپنی عزت گنوا بیٹھی ہیں اور کتنی اِس جان لیوا بیلنے سے روزانہ گزرتی ہیں۔ کاش ہمارا معاشرہ اِن معصوم تتلیوں کے غم کو سمجھ سکے اِن کی مجبوریوں کا ادراک کر سکے۔ آج جو بھی اِن کا نچ کی گڑیا ں کو کر چی کر چی کر تا ہے وقت کی ایک ہی کروٹ یا شب و روز کی ایک ہی تبدیلی کے بعد اِن ظالموں کی اپنی نسل بھی مکافات عمل کے تحت اِسی عذاب سے گزر سکتی ہے۔ لیکن ہم وہ بد قسمت اور آنے والے دنوں سے بے خبر جانور نما انسان ہیں کہ آج کو ہی زندگی سمجھ رکھا ہے۔ اچھے برے کی تمیز ہم کھو چکے ہیں۔ یہ مجبور بے بس لا چار معصوم تتلیاں بہت نازک ہیں اور حساس اتنی کہ زرا سی چوٹ یا دکھ سے مر جھا جاتی ہیں۔ جو لوگ بھی اِس ظلم میں شامل ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی نبوت سے پہلے عرب معاشرہ بھی اِسی طرح بچیوں کو زندہ گاڑ دیتا تھا اور پھر شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے آکر اِس ظا لم رسم کو سختی سے ختم کر دیا۔

 

یہ تمام لوگ جو بلواسطہ یا بلا واسطہ اِن معصوم بچیوں کو زندہ در گور کر رہے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ایک دن جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ رو ئی کی طرح ہوا میں اڑتے نظر آئیں گے جب حاملہ اونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے جب سمند ر بھڑکا دئیے جا ئیں گے اور جب جانیں (جسموں سے)جو ڑ دی جائیں گی اور جب زندہ گاڑی ہو ئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم ماری گئی؟قرآن مجید میں درج بالا سطور قیامت کے ہو لناک دل ہلا دینے والے منظر اور ہوش اڑا دینے والے نقشہ کی عکاسی کر رہی ہیں۔ جب کروڑوں کلومیٹر پر محیط سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ روشن ستارے خاک کے ذرے بن کر بکھر جائیں گے زمین پر مضبوطی سے قائم پہاڑ دھنکی ہو ئی روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ رہے ہو ں گے۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مرکب آگ بجھانے والا پانی امر ربی سے اپنی ترکیب بدل کر خود آگ بن کر بھڑک اٹھے گا اور مٹی کے ذرات بنے صدیوں پرانے جسم دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجا ئیں گے۔ یہ ہو گا قیامت کا دن حساب کا دن عدل کا دن یوم محشر رب ذولجلال کا دربار لگ جائے گا اول سے آخر تک تمام انسان تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔ اور پھر سب سے پہلا مقدمہ بارگاہ ِ الہی میں پیش ہو گا۔

 

ان معصوم بچیوں کا ہو گا جنہیں اہل عرب پیارے آ قا ﷺ سے پہلے معا شرے محض نا ک رکھنے کے لیے کڑیل بیٹوں کا با پ کہلانے کے شوق میں اوربیٹیوں کو مفت پالنے کے خوف سے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ان معصوم بچیوں کا نہ قصور نہ الزام نہ فریاد نہ جرم نہ غلطی وہ معصوم بچیاں۔ جب باپ ایسی معصوم بیٹیوں کو گھر سے لے کر چلتے تو وہ ننھی پریاں باپ کی انگلی تھامے خوشی خوشی ساتھ چلتیں لیکن وحشی باپ گڑھے میں ڈال کر اوپر مٹی ڈالتے اور معصوم پھولوں کی کلیاں بابا بابا پکارتیں لیکن ان کو زندہ در گور کر دیا جا تا نبوت کے بعد جب شافع محشر ﷺ کو اہل عرب آکر اپنا یہ جرم بتاتے تو محبوب خدا ﷺ اتنا روتے کہ آپ ﷺ کی ریش مبارک آنسوں سے بھیگ جاتی اور آپ ﷺ ہا تھ کے اشارے سے منع کر دیتے کہ مجھے اور نہ سناں مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ اور پھر پیارے آقا ﷺ نے اس مکروہ سوچ کا قلع قمع کر دیا اور پہلی بار حیات آفرین تصور دیا کہ بیٹا اگر اللہ کی نعمت ہے تو بیٹی خدا کی رحمت ہے ارشادی نبوی ﷺ ہے جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو ئی اور وہ اس کو دفن نہ کرے نہ ذلیل رکھے نہ بیٹے کو تر جیح دے اللہ اس کو جنت عطا کر ے گا۔ سرور کائنات ﷺ نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمھیں بتاں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتا ئیے تو پیارے آقا ﷺ نے فرمایا تیری وہ بیٹی جو طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کو ئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔ ایسی بیٹی یا بہن کی پرورش دنیا کا سب سے اچھا صدقہ ہے احسان مند ہو نا چاہیے پو ری دنیا کی بیٹیوں کو کہ آپ ﷺ نے ماں کو جنت دہلیز اور بہن بیٹی کو مغفرت کی سبیل قرار دے دیا۔ آج اکسیویں صد ی میں بھی جاہلیت کے جراثیم کسی قدر پا ئے جاتے ہیں بیٹی جسمانی طور پر زمین میں گاڑی نہیں جا تی مگر معاشرہ اسے بو جھ سمجھتا ہے بیٹے کو ترجیح ضرور دیتا ہے۔

 

آج جو لوگ بھی بچیوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ظلم کر تے ہیں روز محشر جوا ب دہ ہو نگے۔ اِس کالم کے بعد بہت سارے لوگ سوا ل کر یں گے پھر ہم رشتہ کیسے دیکھیں تو اِس کا بھی خوبصورت اور مہذب حل موجود ہے وطن عزیز کے تمام لڑکے والوں کو یہ مثبت رویہ اپنانا ہو گا اگر آپ کو بچی کا رشتہ چاہیے تو اِس طرح دیکھیں کہ بچی کو کانوں کان خبر نہ ہو براہ راست اس کے گھر نہ جائیں بلکہ کسی درمیانی رشتہ دار یا دوست کے ہاں اس بچی کو بلا کہ دیکھ لیں یا کسی بہانے سے اس کے کالج یا آفس میں جاکر دیکھ لیں یا کسی فنکشن وغیرہ میں اِسطرح کہ اس بچی کو پتہ نہ چلے اور اگر پسند آئے تو اس کے گھر جا کر رشتہ پکا کر لیں اِس دورا ن اگر لڑکی کو یا اس کے گھر والوں کو پتہ چل جائے کہ آپ نے بچی کو دیکھا اور آپ کو پسند نہ آئی تو الزام اپنے اوپر لے لیں کہ ہمارا لڑکا بیٹی تمھارے قابل نہیں ہے ہم آپ جیسے نہیں ہیں رہن سہن آپ کو سوٹ نہیں کرے گا بیٹی تم تو بہت اچھی ہو خوش قسمت ہو نگے وہ لوگ جس گھر تم جاں ہمارا بیٹا اچھا نہیں ہم تمھیں دھو کے میں نہیں رکھنا نہیں چاہتے اِس طرح بچی اور اس کے ماں باپ بھی انکار کی اذیت سے محفوظ رہیں گے۔ قارئین ہم دوسروں کو پسند تو بہت مہذب طریقے سے کر تے ہیں لیکن اگر ہم کسی کو انکار کریں تو اِس سے ہزار گنا زیادہ بہتر مہذب اور شائستگی سے انکار کر نا چاہیے اور الزام اپنے خاندان یا بیٹے پر لے لیں تاکہ لڑکی اور اس کے گھر والے انکار کے جہنم میں جھلس جھلس کر موت کا شکار نہ ہو جا ئیں انکار کرنا بہت بڑا آرٹ اور فن ہے کاش یہ فن اِس ملک کے ہر لڑکے والے سیکھ لیں تاکہ روز محشر بیٹیوں کو مارنے والوں میں یہ شامل نہ ہوں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
68062

بزمِ درویش ۔ آخر کب تک ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بزمِ درویش ۔ آخر کب تک ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میرے سامنے کانچ کی گڑیا جیسی نرم و نازک دھان پان سے تقریبا 22سالہ نو جوان لڑکی بیٹھی تھی جو بار بار ایک ہی فقرا دہرا رہی تھی سر میں انسان نہیں ہو ں کیا، میں Hurt نہیں ہو تی کیا میری Feelings نہیں ہیں، کیا مجھے درد نہیں ہوتا، میں کو ئی بھیڑ بکری ہو ں اس کے نرم و نازک گالوں پر آنسوں کی آبشار مسلسل بہہ رہی تھی وہ بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے سوجھی ہوئی آنسوں سے لبریز آنکھوں کو پونچھتی اور روتی سسکتی گلو گیر آواز میں کہتی سر میں کو ئی میز کرسی ہوں سبزی منڈی میں کوئی پھل یا سبزی ہوں یا کسی سٹور میں گھر کے استعمال کی کوئی چیز ہوں میں پلیٹ بالٹی گلاس برتن ہوں میں کیا ہوں۔ سر میں پچھلے تین سال کی ظالمانہ ڈرل سے تنگ آگئی ہوں میں ڈیکوریشن پیش کی طرح سج کر چائے اور لوازمات کی ٹرالی سجا کر رشتہ دیکھنے والوں کے سامنے آتی ہوں اور مجرم بن کر کھڑی ہو جاتی ہوں مجھے سر سے پاں تک گھورا جاتا ہے طنزیہ اور استزائیہ نظروں اور فقروں سے نوازا جاتا ہے اور بری طرح رجیکٹ کر کے دھتکار دیا جاتا ہے میں پچھلے تین سال سے روزانہ اِس پل صراط اور صحرا سے گز ر رہی تھی میرے باپ وفات پا چکے ہیں اب میں اپنی بیوہ ماں اور دو بہنوں کے ساتھ اِس اندھے بہرے معاشرے میں اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہوں

 

سر میں اِن جلاد صفت عورتوں کا رویہ تحمل اور صبر سے برداشت کر رہی تھی لیکن تین دن پہلے ایک فیملی ہمارے گھر میرا رشتہ دیکھنے آئی۔ میری ماں نے ہمارا پیٹ کا ٹ کر کچھ پیسے سمبھالے ہو ئے تھے آنے والے مہمانوں کے لیے چائے اور لوازمات تیا ر کئے اور میں حسب معمول چائے کی ٹرالی اور لوازمات لے کر اند ر گئی تو اندر ایک میا ں بیوی اور ان کی بیٹی بیٹھی ہوئی تھی پہلے تو انہوں نے ٹرالی اور اس پر پڑے لوازمات کو گہری اور تنقیدی نظروں سے دیکھا جو ہماری غربت کا منہ بولتا ثبوت تھی مختصر لوازمات ان کی طبیعت اور مزاج پر گراں گزرے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر منفی اشارے کئے میں مجرموں کی طرح بیٹھ گئی اور میری ماں حسب معمول ان کی خاطر مدارت اور خو شامد میں لگ گئی چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر لڑکے کی ماں نے پہلا حکم یہ صادر کیا کہ میں کھڑی ہو جاں میں نے حکم کی تعمیل کی اب وہ بھی کھڑی ہو گئی میرے ہا تھ پاں کو چیک کیا جس طرح جانوروں کو خریدنے سے پہلے اچھی طرح دیکھتے ہیں کہ اس کے ہا تھ پاں درست ہیں میری نظر ٹیسٹ کی اپنے سامنے چلا پھرا کر اور بٹھا کر خوب چیک کیا میرے وزن اور قد کا خوب اندازہ لگایا میرا منہ کھلوا کر میرے دانتوں کو چیک کیا اور اچھی طرح سونگھ کر دیکھا میرے منہ سے بد بو وغیرہ تو نہیں آرہی میرے بالوں کو کھینچ کھیچ کر چیک کیا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی ہیں میری آنکھوں کو غور سے دیکھا کہ میں نے کہیں لینز تو نہیں لگا ئے ہو ئے میرے جوتے اتار کر اچھی طرح پیروں کا جائزہ لیا جب میں یہاں پاس ہو گئی تو اس نے عجیب پاگلوں والی حرکت کی مجھے بازو سے پکڑ ا اور باہر دھوپ میں لے گئی

 

میرے چہرے پر پانی لگا کر رگڑ رگڑ کر دیکھا کہ میرا اصل رنگ کیا ہے اِس کے بعد میرے جسم کو ٹٹولنا شروع کر دیا اچھی طرح میرے جسم کو چیک کر نے کے بعد اندر آکر بیٹھ گئی اور بولی سیدھی سی بات شادی صرف لڑکی کے ساتھ نہیں ہو تی اس کے گھر والوں سے ہوتی ہے اب وہ میری ماں کو کٹہرے میں کھڑا کر چکی تھی اب اس جلاد صفت عورت نے اپنے مطالبے دہرانے شروع کر دیے وہ جہیز کے نام پر لمبے چوڑے مطالبے کر رہی تھی آخر میں اس نے جو بات کی اس نے مجھے اور میری ماں کو توڑ دیا اب اس نے ایک ایسا مطالبہ کیا جو میرے اور میرے ماں کے بس میں نہیں تھا وہ کہنے لگی عید بقرہ عید اور جو باقی تہوار آئیں گے ان دنوں پر میرے بیٹے کے لیے تحفے تحائف کو ن لائے گا کیونکہ میرے بڑے دو بیٹوں کی شادی ہو چکی ہے جب بھی کوئی دن وغیرہ آتا ہے تو ان کے سسرال میرے بیٹوں کا گھر بھر دیتے ہیں تو آپ کیا کریں گی میری ماں نے التجا کی کہ میرا خاوند فوت ہو چکا ہے میرا بیٹا کوئی نہیں ہے رشتہ دار سب ہمیں چند دنوں بعد ہی چھوڑ چکے ہیں اِس لیے اب جو بھی ہو گا میں ہی کروں گی۔ اب اس ظالم عورت نے بنک بیلنس اور جائیداد کے بارے میں انکوائری شروع کر دی لمبی چوڑی انکوائری بلکہ تفتیثش کے بعد اس نے اعلان کیا کہ ہم آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ہمارا بیٹا احساس کمتری کا شکار ہو جا ئے گا اس ظالم عورت کو اپنے بیٹے کے احساس کمتری کا احساس تھا کسی کی معصوم بیٹی کے احساس کمتری کا احساس نہ تھا اس نے بھی تین سالوں سے آتی عورتوں کی طرح انکار کیا اور جاتے جاتے کہہ گئی کہ میرے کزن کی بیوی فو ت ہو گئی ہے اس کے بچوں کو سنبھالنے والا کو ئی نہیں اگر آپ کہیں تو میں ان سے آپ کی بیٹی کے لیے بات کروں اس کے کزن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔

 

میری ماں نے انکا ر کیا تو بکواس کر تی ہو ئی چلی گئی اور ہمیشہ کی طرح میری روح اور جسم کو ادھیڑ کر چلی گئی سر میں پچھلے تین سال سے انکا ر اور مسترد کر نے کے جہنم میں جل رہی ہوں ہر روز میری ماں کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن ہو تے ہیں لیکن انکار کے بعد ان کی آنکھوں کے چراغ بھی مدھم پڑھ جاتے ہیں اور ان کے سر میں چاندی کا رنگ اور گہرا ہو جاتا ہے سر کیا میں اور میری ماں انسان نہیں ہیں کیا ہمارے دل اور انا نہیں ہے کیا لڑکیاں بھیڑ بکریاں ہو تی ہیں کیا ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں ہو نا چاہیے سر کیا یتیم ہو نا غریب ہو نا جرم ہے اگر جرم ہے تو اِس میں میرا اور میری ماں کا کیا قصور ہے سر میں اور میری ماں انکار کی اِس دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں ابھی تو میری ماں کے بالوں میں چاندی اتری ہے کل جب میرے بالوں میں سفیدی آئے گی تو شاید میں یا میری ماں خود کشی کر کے ہی اِس اذیت سے نجات پائیں سر آپ کے پاس اِس عذاب اور مشکل کا کو ئی حل ہے۔ میں اور میری ماں جو دن رات دہکتے انگاروں پر لوٹ رہی ہیں کو ئی وظیفہ کو ئی عبادت ایسی ہے جو ہم اِس جہنم سے نکل سکیں سر کیا میں نا مکمل ہوں میں اپاہج ہوں میرے میں کیا کمی ہے۔

 

اس معصوم کا کرب دکھ اور بے بسی دیکھ دیکھ کر میں بھی بے بسی کیا انتہا پر پہنچ چکا تھا وہ سوالیہ نشان بنی میرے سامنے بیٹھی تھی اور میرے پاس اس کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا اس کی داستان غم سن کر میری آنکھیں نمناک ہو چکی تھیں۔ میں نے محبت اور شفقت سے لبریز لہجے میں کہا نہیں میری معصوم بیٹی ادھوری یا اپاہج تم نہیں ہو، تم ایک مکمل اور خوبصورت بیٹی ہو تمھارا کو ئی قصور نہیں ہے، نا مکمل اور اپا ہج تو وہ لوگ ہیں جو اِس اندھے بہرے گلے سڑے معاشرے کی پیداوار ہیں۔ جو جلادوں کی طرح انکار اور سو سو نقص نکال کر چلے جاتے ہیں مجھے وہ بے شمار بیٹیاں یا د آگئیں جو ہر روز مجھے ملتی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان کے چہروں پر نوجوانی کی تازگی کی جگہ جب خزاں آنے لگتی ہے اور بالوں میں چاندی اترنے لگتی ہے تو امید کے دیپ جلائے میرے یا میرے جیسے لوگوں کے پاس کشکول لے کر جاتی ہیں کہ ان کی خالی جھولی بھر جائے، مجھے بے شماروہ لڑکیا ں یاد آئیں کہ دس دس سال سے انکار کے بعد وہ نفسیاتی مریض بن گئیں پہلے تو نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس علاج کروا یا جب افاقہ نہ ہو ا تو چند بچیاں تو پاگل خانے تک پہنچ گئیں، وہ بے شمار بچیاں جن کا ذہنی توازن اِس شدید غم کو برداشت نہ کر سکا اور ان کو دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ ظالم لڑکے والے بلکل نہیں سو چتے کہ یہ نازک معصوم کانچ کی گڑیا ں جیسی اِس بے حس معاشرے کی بیٹیاں اِن کے انکار سے اِن کے ناز ک کانچ کے جسم ریزہ ریزہ ہو جا تے ہیں اور پھر پتہ نہیں کتنے دن یہ نازک بچیاں اپنے ریزہ ریزہ جسم کو اپنی نازک انگلیوں سے چنتی ہیں اپنے ماں باپ کی خوشی کے لیے پھر ظالم جلاد صفت لڑکے والوں کی ماں کے سامنے مجرم بن کر کھڑی ہو تی ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
67974