6 ستمبر۔ ابو کی ڈائری سے – تحریر: اکبر حسین کوشٹ
6 ستمبر۔ ابو کی ڈائری سے – تحریر: اکبر حسین کوشٹ
اج مجھے پانچ چھ دہائیوں پرانی ایک نحیف سی ڈائری جو کہ بظاہر ایک عام سی نوٹ بک ہے لیکن سلیقے کے ساتھ ایک قدرے موٹی سی خاکی کاغذ میں لپٹی ہوئی ہے پڑھنے کا اہتمام تھا۔ یہ میرے والد محترم کی تحریر ہے جو 1965 کی جنگ کے کچھ سال بعد آپ کی دست مبارک سے زیب قرطاس ہوئی تھی۔ املا اور قواعد میں کچھ کوتاہیاں ہونے کے باوجود تحریر کی خوبصورتی دل موہ لیتی ہے۔
ڈائری دو حصوں میں منقسم ہے ایک حصہ 1965 اور ایک حصہ 1971 کی جنگ کے لیے مختص ہے۔
ابتدائی صفحے پر ابو جان کچھ یوں رقمطراز ہیں:
“5 ستمبر 1965ء کو ہمارا یونٹ 5FF کو یہ آرڈر ملا کہ آج چار بجے یونٹ قصور سے کشمیر کی طرف جائے گا۔ تیاری مکمل ہوئی تو چار بجے کے بعد ہم روانہ ہوئے۔ رات بارہ بجے وزیر آباد کے قریب ہماری ایک گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا تو ڈرائیور ایوب فوت ہوگیا اور تین سپاہی زخمی ہو گئے۔ اسکے بعد ہم کھاریاں پہنچے تو وہاں چھاونی بالکل خالی تھی۔ ہم نے اپنی وردی وغیرہ دھونا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد آرڈر ملا کہ جلدی کرو ہم نے واپس قصور جانا ہے جہاں پر دشمن کی جہازوں نے حملہ کیا ہے۔ ہم نے جلدی جلدی سامان باندھ کر گاڑیوں میں ڈال دیا تو دوبارہ آرڈر ملا کہ شام چار بجے تک آرام کر لو کیونکہ کنوائی کی لمبائی زیادہ ہے اور دن کے وقت اگر دشمن ہوائی جہازوں سے حملہ کیا تو پروٹیکشن مشکل ہو جائے گا۔چار بجے ہم واپس روانہ ہوئے۔ لالہ موسی پہنچے تو لوگ شہر میں سڑک کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر “پاک فوج زندہ باد” کے نعرے لگائے اور ہم پر فروٹس، میٹھائیاں اور سگریٹ پھینکتے رہے۔ یہی حال گجرانوالہ اور گجرات کا بھی تھا۔ صبح ہم اپنی پوزیشن پر پہنچ گئے اور پورا دن گزارنے کے بعد شام چھ بجے دشمن کی طرف ایڈوانس کیا۔ رات بارہ بجے اس کی سر زمین پر قدم رکھا۔ ایک آدھ میل پر پہنچتے ہی ان کے ساتھ ہمارا آمنا سامنا ہوا لیکن وہ پسپا ہوگئے اور یوں ہم پانچ میل تک ان کے علاقے میں پیش رفت کی تو ہمیں پھر پوزیشن لینے کا آرڈر ملا۔ صبح دشمن کی لاشوں کو شمار کیا جن کی تعداد 246 تھی۔8 ستمبر کے دن 10 بجے تک ہم وہاں پر رہے پھر کھیم کھرن کو قبضہ کرنے کا ہمیں حکم ملا جو ہماری پوزیشن سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ساری سیویلین آبادی سکھ تھی۔
کچھ گھنٹے بعد کمانڈنگ نے جاسوس کی خبر پر ودڈرال کا حکم دیا تو ہم ایک دو میل پیچھے ہٹے۔ ایک گھنٹے بعد دوبارہ آرڈر ملا کہ جلدی واپس کھیم کھرن پہنچو۔ ہم دوباہ آگے بڑھے اور وہاں پہنچ گئے تو حیرت ہوئی کہ زیادہ تر لوگ بھاگے ہوئے تھے۔ ہم نے وہاں پھر پوزیشن سھنبال لی۔ رات کو دشمن نے حملہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ اگلی صبح پھر حملہ کیا پھر ناکام ہوگیا۔ دن بارہ بجے دشمن نے پھر سے وار کیا اور اس میں ہمارے چار جوانوں نے شہادت پائی لیکن دشمن کے بہت سے سپاہی مارے گئے۔ ان کے چار ٹینک بھی تباہ کیے لیکن ہمارا کوئی مالی نقصان نہیں ہوا۔
10 ستمبر کی رات کو ہمارے کمانڈنگ کی طرف سے حکم ملا کہ”مچھی” نام کا جو قصبہ ہے اس پر حملہ کرو۔ ہم نے رات 3 بجے وہاں پر حملہ کیا اور ان کے بے شمار فوجیوں کو ہلاک کیا۔ 234 آدمی زندہ پکڑ لیے۔ ہمارے 82 جوان شہید اور سات زخمی ہوگئے۔
ہم نے پوزیشن لیا۔ دشمن کاونٹر اٹیک کی تیاری کر رہا تھا تو ہمارے ہوا بازوں نے صبح سات بجے آکر دشمن کا منصوبہ ناکام بنا دیا اور انہیں جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کے تین ٹینک تباہ کر دیے گئے اور پانچ ٹینکوں کو ہم نے قبضے میں لے لیا۔
اسی دن دس بجے پھر دشمن کی طرف سے حملہ ہوا لیکن اس دوران ہماری دوسری کمپنی کھیم کھرن سے پہنچی اور ہم نے دفاع مضبوط کی۔
دشمن نے بھی پوزیشن لیا اور “جے ہند” کے نعرے لگاتا رہا۔ اس کے توپخانے کی طرف سے بھی فائیرنگ شروع ہوئی اور پیچھے مشین گنوں سے بھی گولی برساتے رہے۔دونوں طرف سے یہ لڑائی چار بجے تک جاری رہی اور آخر کار بے تحاشہ جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد دشمن کو پھر پسپا ہونا پڑا۔ بہت سے ایمنوشین ہمارے ہاتھ آگئے۔
13 اور 14 ستمبر کو ہمیں آرڈر ملا کہ دشمن کا ایک بڑا گاوں جس کا نام مسگاڑ (یا مسگڑھ) ہے پر حملہ کرنا ہے۔ منصوبے کے مطابق ہم نے تاریکی میں اچانک دشمن پر حملہ کیا اور ایک کرنل کے ساتھ ان کے 417 نفری پکڑ لیے۔ بہت سارے ہتھیار 92 رائفل، 6پسٹل، چار مشین گن، چار راکٹ لانچر،9 دور بین اور 10وائرلیس سیٹ ہاتھ آگئے۔
14 تاریخ آٹھ بجے دشمن نے کاونٹر اٹیک کیا۔ توپخانوں سے فائر ہوئی اور پیدل فوج نے حملہ کیا۔ ہمارے 23 جوان شہید اور 9 شدید زخمی ہوگئے۔
شام چار بجے دشمن کی طرف سے سکھوں کا ایک پورا یونٹ ہماری طرف پیش قدمی کی۔ہم نے دائیں طرف رخ کیا اور ان کو روکنے اور گھیرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہمارا میجر شمشاد انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا جن پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
15 ستمبر کی رات بغیر کسی پریشانی کے خیریت سے گزر گئی۔ 15 ستمبر کی صبح آرڈر ملا کہ امبرسر(امرتسر) سے سات میل کے فاصلے پر دشمن کی پوزیشن ہے اور ہماری پوزیشن سے دو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ طے پایا کہ 9 بجے تک اچانک ان پر حملہ کریں گے۔ ہم نے ان کی پوزیشن پر فائرنگ شروع کی۔ دشمن بھی تیار بیٹھا تھا۔ جوابی فائرنگ ہوئی اور وہ ہم پر ٹوٹ پڑے۔ اس بار ہماری زیادہ کیژولٹی ہوگئی۔ ہمارے کل 37 ساتھی شہید ہوگئے۔ جن میں سے کوئی 30 لاشوں کو لیکر ہم نے ودڈرا کیا جبکہ بریگڈئیر شامی، میجر شیخ ظہور دین، نائب صوبیدار ہمایون شاہ، حوالدار جمعہ گل، حوالدار انارگل، سپاہی میر دل خان اور سپاہی محمد ابراہیم کی لاشیں اور ہتھیار دشمن کے قبضے میں رہ گئے۔ رات کو ہم 15 آدمی اپنی شہید ساتھیوں کی لاشوں کو چپکے سے ڈھونڈنے کے لیے دشمن کے پوزیشن کے نزدیک پہنچے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ اور ایجنٹ سے معلوم ہوا کہ ان لاشوں کو دشمن نے امرتسر پہنچا دیا تھا۔
16 ستمبر کی صبح سات بجے دشمن دشمن نے توپ خانے سے فائرنگ شروع کی اور ساتھ ہی ہوائی جہازوں سے بھی حملہ کیا لیکن ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ رات بارہ بجے پھر سے دشمن نے حملہ کیا تو ہم نے ناکام بنا کر ان کے 53 آدمیوں کو جہنم واصل کردیا اور 38کو زندہ پکڑ لیا”-
ابو کے اس ڈائری میں 21 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ کے محاذ کی شب و روز کے واقعات قلمبند ہیں جن کا احاطہ میرے لیے ممکن نہیں۔ البتہ اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ دشمن سے لڑنے کے لیے جذبہ ایمانی و حب الوطنی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
مجھے اپنے والد محترم کی اس کارہائے نمایاں پر فخر ہے۔ آپ کے سینے پر دو “ستارہ حرب” اور دو “تمغہ جنگ” سجے ہوئے تھے۔ آپ نے بھی وطن عزیز کی دفاع میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔ آپ نے بھی اس ارض پاک کی خاطر اپنے خون کے چند قطریبہایا ہے۔
دشمن کے گھر میں گھس کر مارنا ایک محاورہ ہے لیکن 1965 میں پاک فوج نے یہ عملی طور پر ثابت کردی ہے۔
ان باتوں کو ہم آج تک مطالعہ پاکستان کے گائیڈ تک محدود کرکے سطحی نوعیت کے سمجھتے رہے لیکن میرے ابو کی طرح سینکڑوں ایسے غازیوں نے ان واقعات کو قلمبند کی ہوں گی۔
ابو آخری سطور میں لکھتے ہیں کہ ” 1965 کی جنگ میں جوانوں کے ساتھ افسروں نے بھی فرنٹ لائین میں جذبہ ایمانی اور دیانتداری سے لڑا۔ اور اسی وجہ سے ہی کامیابی ملی”
ابو نے ڈائیری کے دوسرے حصے میں 1971 کی جنگ کی روداد بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ اس وقت حاجرہ سیکٹر آزاد کشمیر میں اس کی پوسٹنگ تھی۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ دشمن نے کشمیر پر بھی ہمارے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔
یہ غازی میرا یہ ہیرو اس سال 3 مئی کو مجھے تا قیامت اکیلا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلا گیا۔ جب زندہ تھے تو اپنی سروس اور ان جنگوں کے واقعات کو زبانی ہی ہمیں سنا دیتے تھے۔ لیکن 6 ستمبر کو ایک عجیب احساس نے ابو کی ڈائیری دیکھنے پر مجبور کر دیا۔