Chitral Times

Dec 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

6 ججز خط پر ازخود نوٹس: طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، چیف جسٹس پاکستان

Posted on
شیئر کریں:

6 ججز خط پر ازخود نوٹس: طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد( چترال ٹائمزرپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یا انٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کسی وکیل گروپ یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کئی واقعات بتا سکتے ہیں جب مداخلت ہوئی، اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے، ججز کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتا ہے، چیختا ہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے۔جسٹس ا طہرمن اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے مداخلت کو ثابت کر دیا، گزشتہ سماعت سے ججز کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، قیاس یہ ہے کہ ریاست نے ججوں کے ذاتی ڈیٹاحاصل کیے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں؟ یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ آئندہ سماعت پر تینوں ایجنسیوں کے قانون بتائے جائیں۔عدالتِ عظمیٰ نے مزید سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی جبکہ 6 مئی تک درخواست گزاروں کو تجاویز جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے کی۔6 رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے عدالت میں دلائل جاری ہیں۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں موجود وکلاء اور دیگر غیر متعلقہ افراد کو ہدایت کی عدالت میں سنجیدگی سے بیٹھیں، بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی تو چلے جائیں ورنہ خاموش رہیں، عدالت کی سماعت کو سنجیدہ لیں، کسی کوعدالت میں بات چیت کرنی ہے تو باہر بھیج دیں گے، کون سی چیزیں ہیں جو ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں، تمام ہائی کورٹس سے تجاویز مانگی ہیں۔اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی تجاویز پڑھ کر سنائیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت کے آغاز سے پہلے کچھ چیزوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، سپریم کورٹ کی کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کا فیصلہ کیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جو ججز اسلام آباد میں دستیاب ہیں سب کو بلا لیا جائے، اس معاملے پر سماعت کے لیے ججوں کو منتخب نہیں کیا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنا حکم نامہ بھی جاری کیا، ہر جج کا نقطہ? نظر اہم ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھا جائے، میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید اگلی سماعت پر فل کورٹ ہو، 2 ججز کی دستیابی نہیں تھی، اس لیے فل کورٹ نہیں بلایا جا سکا، دیگر دستیاب ججز ملے اور کہا کہ سماعت ملتوی ہوئی تو مسئلہ ہو گا، ججز نے کہا کہ پہلے ہی ملک میں تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطہ? نظر کے پرچار میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ انتہائی تکلیف دہ تھا کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کے نشتر برسائے گئے، اگر کوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہے تو وہ بھی مداخلت ہے۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مداخلت اندر سے ہو سکتی ہے، باہر سے بھی، مداخلت انٹیلی جنس اداروں، آپ کے ساتھیوں، فیملی کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے، مداخلت سوشل میڈیا کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے اور کسی بھی طرف سے ہو سکتی ہے، ہم کنڈکٹ سے دکھائیں گے کہ مداخلت ہے یا نہیں، ججز کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتا ہے، چیختا ہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے؟ ججز کا حکم نامہ بتاتا ہے کتنی آزادی ہے؟ کتنی نہیں؟ ہم نہیں سمجھتے کہ ہم مداخلت کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیتے، ہر کسی کی مختلف سمجھ بوجھ ہو سکتی ہے، میں سپریم کورٹ کی تاریخ کا ذمے دار نہیں ہوں،میں صرف اس چیز کا ذمے دارہوں جو میرے چیف جسٹس بننے کے بعد سامنے آئی۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے توثیق کی ہے اس بات کی جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ اس معاملے کو حل کریں، اندرونی دباؤ ہو یا بیرونی دباؤ ہو، ہمیں اسے دور کرنا ہے، ہمیں ہائی کورٹس کو با اختیار کرنا ہے، عدلیہ کو با اختیار بنانا ہے، ہمیں کوئی مخصوص طریقہ کار بنانا ہے، ہمارے پاس اس سے متعلق سنہری موقع ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ کوئی صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے 2 ججز کو ٹارگٹ کیا گیا۔

 

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی بھی مثبت تجاویز دینا چاہتا ہے، چاہے پارٹی ہے یا نہیں، وہ دے سکتا ہے۔اس موقع پر سابق وزیرِ اعظم آزاد کشمیر قیوم نیازی اور مشال یوسف زئی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت کا سلسلہ جاری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہو گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں مداخلت کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا ہو گی۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ریاست کو عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ حکومت بے بس ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا، میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے خیال میں جو دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے اس سیٹ پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔

 

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سامنے ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز نے بھی مداخلت کی بات کی ہے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فیض آباد دھرنا ازخود کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس کیس میں کس نے نظرِ ثانی درخواستیں دائر کیں؟ ہائی کورٹ کے ججز نے کہا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج یہ نہ ہوتا، 5 سال تک اس کیس میں نظرِ ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئیں، اگر 5 سال پہلے یہ مقرر ہو جاتیں تو اس کام میں آسانی ہوتی، سپریم کورٹ میں جو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا، موجودہ حکومت نے بھی اس کیس میں نظرِ ثانی واپس لے لی، ہر جگہ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، عدلیہ میں، حکومت میں اور وکلاء میں بھی اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔

 

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایجنسیاں اسٹالز کا دورہ کیا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں طلبہ کی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے مزید ایسے سیمنار، کانفرنسز اور ورکشاپس منعقد کروائی جانے چاہئیں تاکہ ہمارے نوجوانوں میں ٹیکنالوجی کی مقبولیت میں اضافہ ہوسکے اور ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں شریک ہوسکیں۔معاون خصوصی نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں فری انٹرنیٹ کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے صوبائی حکومت مختلف پروگرامز شروع کروارہے ہیں جس سے طلبہ کو ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حصول میں کافی حدتک آسانی پیدا ہوگئی۔ خالد لطیف خان مروت نے کہا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو پروان چڑھانے اور انہیں گراس روٹ لیول تک پہنچنے کیلئے تعلیمی ادارے جتنا کام کرینگے اس میں انہیں مکمل سپورٹ اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔کانفرنس میں ڈائریکٹر جنرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سجاد حسین شاہ، کانفرنس چیئرمین لائق حسین، چیف آرگنائزر نصرمن اللہ اور دیگر اراکین نے شرکت کی۔تقریب کے اختتام پر معاون خصوصی نے ”وال آف فیم” کا افتتاح بھی کیا۔

 

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 828ملین ایس ڈی آر(1.1ارب ڈالر)موصول

کراچی(سی ایم لنکس) اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 828ملین ایس ڈی آر (1.1ارب ڈالر)موصول ہوگئے۔ مرکزی بینک سے منگل کو جاری اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 29 اپریل 2024 کو اپنے اجلاس میں اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے)کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کرلیا اور پاکستان کے لیے 828ملین ایس ڈی آر کی رقم منظور کرلی۔چنانچہ 29 اپریل 2024 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف سے اپنے اکاؤنٹ میں 828 ملین ایس ڈی آر(تقریبا 1.1 ارب ڈالر)موصول ہوگئے۔ 3 مئی 2024 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ ذخائر میں یہ رقم ظاہر ہوگی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged
88159