
چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ – (بارھویں اور آخری قسط) – پروفیسر اسرار الدین
چترال کے مختلف مقامات کی لوک تاریخ – (بارھویں اور آخری قسط) – پروفیسر اسرار الدین
(موڑکھو جاری)
شاہ نوے سے تعلق رکھنے والے دو علماء
(1) میرزا محمد غفران
آپ کا تعلق شاہ نوے قبیلے سے تھا۔ان کا جدامجد خواجہ علی بابا ایوب کے پوتوں میں سے تھا۔یعنی خواجہ علی بن فضل بیگ بن محمد شاہ بن شاہ نو بن باباایوب۔اس طرح چوتھی پشت میں شاہ نوے شاخ کے سلسلے میں بابا ایوب سے ان کی نسبت بنتی ہے۔خواجہ علی کو خاص طور پرشہرت اس وقت ملی۔جب محترم شاہ اول اورخوشوقت کی معیت میں اس نے رئیسہ خاندان کی حکومت کے خلاف خدمات انجام دیئے۔ان کی پدری زمین کوشٹ اورشوگرام میں تھی اس کے بعد وہاں سے کاری منتقل ہوئے۔
میرزا محمد غفران کے والد غلام رسول خود علم سے بہرہ مند شخصیت تھے۔پہلے انہوں نے خود بیٹے کی تربیت کی۔ بعد میں تحصیل علم کے لئے ان کو پشاور بھیج دیا۔ان کو خاص طور پر نصیحت کی ”بیٹے“ قلم پکڑنا سیکھو پھر عمر بھر قلم سے رشتہ جوڑ لو!واقعی ایسا ہی ہوا۔اور عمربھر اس نے لکھنا پڑھنا اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا“آپ جب پشاور میں سات برس تحصیل علم میں گذار کے واپس آئے تو تمام چترال میں چند ہی علم وفضل والے لوگ تھے۔ان میں سے محمد غفران نے اپنی خدا داد لیاقت سے اپنے آپ کو بہت جلد نمایان کرلیا۔اور میرزا محمد غفران بن گئے۔میرزا لفظ فارسی میں ایک عالم فاضل اور مہذب انسان کو کہتے ہیں۔اس حوالے سے میرزا محمد غفران کی بڑی قدر ہوئی۔ان کا تقرر مہتر امان الملک کے دربار میں بطور ”میرزا“ہوا۔یہ نام بعد میں ان پرایسا چسپان ہوا کہ وہ اسی نام سے پہچانے جانے لگے۔
آپ 1882ء سے اپنی وفات(1926ء)تک یعنی امان الملک اور ہز ہائی نس محمد شجاع الملک کے دور تک کئی بادشاہوں کی حضوری میں کئی ممتاز عہدوں پر متعین رہے۔جن میں تجارت،جنگلات،نظام عشر سے متعلق امور کی تنظیم وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں۔بعد میں امور داخلہ مشیر اور عدلیہ کونسل کے صدر بھی رہے۔شجاع الملک کم عمری کے زمانے میں جب بادشاہ بنے توآپ ان کے ٹیوٹر رہے۔اور دبیرکبیر کا لقب پایا۔بعد میں ہزہائی نس کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی نگرانی بھی آپ کے زمے رہی۔1921ء میں شہزادہ محمد ناصر الملک نے ان کی معیت میں کھوار قاعدہ تالیف کی اور اسکو چھاپ کے عام کیا۔یہی قاعدہ کی کتاب جب بعد کے زمانوں میں کھوار لکھنے کا رواج ہوا۔کھوار لکھنے کی بنیاد بنی۔(حوالہ غلام مرتضی348-347)۔میرزا محمد غفران امور مملکت کے ساتھ جن میں برطانوی حکومت کے اہم حکام کے ساتھ خط وکتابت،معاہدوں اور دوسرے اہم دستاویز کی تحریر وترتیب وتر سیل کی اہم زمہ داریاں شامل تھیں کے علاوہ آپ نے تصنیف وتالیف کا بھی قیمتی کام انجام دیا۔جو ہمیشہ کے لئے آپ کو زندہ رکھیں گے۔اور خاص طور پر تاریخ چترال کی ابتدائی مسودہ آپ نے تیارکیا تھا۔یہ چترال پر تاریخ نویسی کی بنیاد بنی۔(یاد رکھے خیبر پختونخواہ کی دوسری ریاستوں پر تاریخیں میرزا محمد غفران کی تاریخ کے تقریباً ایک سو سال بعد میں تالیف کی گئیں)۔ان کے علاوہ مختلف دینی موضوعات پران کی تصنیفات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کتنے بڑے پایے کے عالم و فاضل انسان تھے۔ان کے تصانیف کی فہرست مندجہ ذیل ہے۔
(1) تشریح الاقاویل۔اس میں ذی القرنین کےحالات اور اس موضوع سے متعلق کئی اہم امور پر بحث ہے۔سابق صوبہ سرحد کے بعض علماء نے اس کتاب کو گوہر بے بہا تسلیم کیا ہے۔
(2) درج اللالی فی شرح الامالی؛اسلام کی بنیادی عقائد کے دفاع میں خلافت عباسیہ کے دور میں تحریر شدہ امام سراج الدین فرغانی کے عربی زبان میں ایک قصیدہ کی شرح ہے۔
(3) تاریخ خلفائے راشدین۔
(4) سفرنامہ ہندوستان
(5)تاریخ چترال(تین مختلف نسخے)
(6)حواشی فقہ اکبر
(7)توضیح مولائیہ۔فرقہ اسماعیلہ پرتحقیقی کام جواس زمانے میں چند اولیں تصنیفات میں سے ایک تھا۔
(8) کتاب الحجاب۔
علامہ شاعری کابھی ذوق رکھتے تھے۔اور فارسی زبان میں مختلف اصناف مثلاً غزلیات،قصیدہ نگاری،مرثیہ
نگار ی رزمیہ شاعری وغیرہ پران کے اعلیٰ پایے کاکام ہے۔
آپ1926میں وفات پاگئے۔آپ کے تین بیٹے تھے۔غلام مصطفے،غلام مرتضیٰ اور غلام جعفر۔غلام مصطفے بیسویں صدی کے شروع میں علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔آپ اپنی وفات 1924ء تک ہز ہائی نس شجاع الملک کے چیف سیکرٹری رہے۔
غلام مرتضیٰ شاہی باڈی گارڈ کے کوارٹر ماسٹر بعد میں جوڈیشل کونسل کے ممبر رہے لیکن انکی اصل شہرت بحیثیت مصنف نئی تاریخ چترال کے ہے۔غلام جعفر نے اسلامیہ کا لجیٹ سکول پشاور سے پڑھا اور ہزہائی نس شجاع الملک سے سیف الرحمان کے دور تک شاہی سیکرٹری رہے اور بعد میں تحصیلدار کے طورپر ریٹائر ہوئے۔
(2)مولانا عبدالحنان (کاری)۔آپ بھی شاہ نوے قبیلے سے تھے اور میرزا غفران کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آپ شجاع الملک کے دور سے چترال کے چوٹی کے علماء میں شمار ہوئے تھے۔دارالعلوم امینہ دہلی سے فارغ التحصیل تھے۔چونکہ آپ مسلکی طو رپر کئی مسائل میں پرانے علماء سے اختلاف رکھتے تھے۔اس لئے ان کو غیرمقلد اور وھابی کے القابات سے نوازاگیا اور بادشاہ کو بھی ان سے بدظن کرکے ان کو خانہ نشینی پرمجبور کیا گیا۔لیکن آپ بھی دھن کے پکے تھے۔اور اپنی پُرخلوص کوششوں سے ان بدعات کو ہمیشہ کے لئے ختم کرکے دم لیا۔ہز ہائی نس محمد ناصرالملک کے زمانے میں ان کی بڑی قدر افزائی ہوئی۔اور ان کوقضاۃ کوہ کے منصب پر مامور کیا گیا۔بتایا جاتا ہے۔کہ آپ علم حدیث میں بڑی دسترس رکھتے تھے۔آپ کے بڑے فرزند مولانا عبدالوود دارالعلوم سرحد سے فارغ التحصیل تھے اور دوسرے دو بیٹے عبدالقدوس اور عبدالروف بھی علم سے بہرمند ہیں۔آپ کا بھتجا مولانا عبدالحمید (المروف بلبل چترال) بعد کے دونوں میں پشاور سے تحصیل علم کرکے چترال آئے اور ایک خوش الحان اور فصیح و بلیغ خطیب کے طور پر مشہورومقبول ہوئے۔آپ سیاسی طور پر بھی اہم شخصیت کے مالک رہے اور دارالعلوم اسلامیہ دروش کا مدرس اور مہتمم رہے۔(حوالہ جات نئی تاریخ چترال۔از غلام مرتضیٰ اور علامہ محمد غفران از ڈاکٹر عنایت فیضی اور انوار مستجاب از پروفیسر اسرارالدین)
سومالکے ( زوندرے):
شاہ حسین گہتکی کے مطابق (بحوالہ ان کی کتاب اوراق چترال اورگلگت ۔ صفحہ 147)
شاہ سلطان جو سومالک کی نسل سے ایک بڑے زمیندار دوک کی اولاد میں سے تھا۔ آپ بونی میں دوکان دہ کا باشندہ تھا۔ خاندان جنالی کی جنگ میں وہاں سے پناہ گیر ہوکے گہکیر میں آکے آباد ہوے۔ سلطان شاہ کی نسل علاقہ کوشٹ اور گہکیر میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ان کی نسل سے شاہ میر اور بنگولہ مشہور اشخاص گذرے ہیں۔ بنگولہ شاہ مردان قلی بیگ ابن سنگ علی ثانی کے مشیروں میں سے تھے۔ ان کی عسکری خدمات کے اعتراف میں بادشاہ کی طرف سے جاری کردہ سند اب بھی ان کے خاندان میں موجود ہے۔
اس سومالکے ( زوندرے) میں سے پھوکٹ یساول مشہور شمشیر زن گزرا ہے۔ وہ 1895ء کے محاصرے میں محصورین میں شامل تھا۔ اس قبیلے سے سابق چیئرمین یونین کونسل کوشٹ خیر نظار مرحوم اہم سیاسی و سماجی شخصیت کے طور پریاد رکھے جاتے ہیں۔
گہتکی صاحب نے سومالک کی اولاد کا شجرہ بھی دیا ہے اس کے مطابق آزر کا بیٹا سومالک اول۔ اس کا بیٹا بیر گوش۔ اسکو بیٹا بیر گوٹ۔ اسکے تین بیٹے سومالک ثانی، بھاگوٹ، اور دوک۔ سومالک ثانی کے چھ بیٹے یعنی شاہ مالک، میر مالک دوم، دنیک مالک،زون، رون اور ہنزایو۔ (۔ صفحہ53)
10۔علاقہ اویر:
پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک علیحدہ منطقہ اویر ایک مردم خیز علاقہ رہا ہے۔اور چترال کی تاریخ میں مختلف وجوہات کی بنا پر نمایاں حیثیت کا مالک رہا ہے۔اس علاقے کو برم نالہ(یا اویر گول/ندی) اپنے معاون نالوں کے ساتھ سیراب کرتا ہے۔برم نالہ برم گلیشئیر(شاہ یوز) سے نکلتاہے جو براہ راست تریچمیر کلان تک پہنچتا ہے۔اس گلیشئیر کے شمال مغرب میں تریچ میر کلان کے سمیت گیارہ خوبصورت چوٹیاں ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)تریچ میر کلان(7708میٹر252881/فٹ)اس چوٹی کو 1950ء میں پہلی دفعہ ناروے کی ٹیم نے سرکیا۔
(2)تریچ میر (مشرقی)۔(7692میٹر252361/فٹ)پہلی دفعہ ناروے کی ٹیم نے1964میں اس کو سرکیا۔
(3)تریچمیر کی شمالی چوٹی۔(2056میٹر231491/فٹ)
(4)تریچمیر جنوبی(7100میٹر232941/فٹ)
(5)تریچمیر خورد(6550میٹر214891/فٹ)
(6)جنوبی برم گلشیئر چوٹی(6700میٹر218911فٹ)
ان کے علاوہ بندو گول نمبر1۔بندو گول نمبر2۔دیر گول خورد،بے نام چوٹی،لونو زوم چوٹی،دیگرچوٹیاں ہیں جو20ہزار اور تقریباً22ہزارفٹ کے درمیان ہیں۔ان تمام چوٹیوں کے لیے برم نالے کے ساتھ راستہ نزدیک ترین پڑتا ہے۔البتہ ماحولیاتی موافقت (acclimatization)کے حصول کے خاطر بعض اوقات مہم جو ٹیموں کوتریچ وادی سے دوسرالمباراستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
برم ندی پرپش مقام پرجو اویر علاقے کا زیرین ترین مقام ہے اور اس کا پہلا گاوں ہے۔دریائے چترال سے مل جاتا ہے۔اسکی اونچائی6400فٹ ہے۔یہاں سے آگے اوپر یا برم ندی اسکے معاون ندیوں کے کناروں پرکئی چھوٹے بڑے دیہات آباد ہیں جن میں سب سے اونچے دیہات میں سے شونگوش مشہور ہے جسکی اونچائی 9611فٹ ہے۔اویر وادی کا سب سے بڑا گاؤں برم ہے جو 7896فٹ بلند ہے جسے اس علاقے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔
اویر سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان محقق کلیم اللہ بیگ نے یہاں کے بارے میں کافی اہم معلومات مجھے بھیجا ہے جن کا یہاں ذکر کیاجاتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ”برم گول گلیشئیر تریچ میر کے دامن میں ایک وسیع جگے تک پھیلی ہوئی ہے۔اسکے قریب صنوبر کابڑا جنگل ہے۔جہاں پہاڑ پرچڑھنے والے مہم جو اپنا بیس کیمپ (Base Camp)قائم کرتے ہیں۔وہاں سے ترییچمیر کلان کی چوٹی کا سفرتقریباً ادھ گھنٹے ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں۔
”اویر جغرافیائی لحاظ سے بھی نہ صرف وسیع ہے بلکہ یہاں زمانہ قدیم سے چترال کے مختلف حصوں کو راستے گذرتے تھے۔وہ یوں کہ مشرق کی طرف راستہ جو کہ لون گہکیر سے ہوتے ہوئے کوشٹ،موڑکھو اور اپر چترال کو جاتا ہے۔،مغرب کی طرف راستہ اوژیر آن سے ہوتے ہوئے لوٹ کوہ اور بدخشان کی طرف نکلتا ہے۔ایک راستہ پریت آن سے ہوکر زیرین چترال کی طرف نکلتا ہے۔اسی طرح ایک راستہ برم سے ہوتے ہوئے تریچ وادی کی طرف نکلتا ہے۔یہ راستے دور قدیم میں استعمال ہوتے تھے۔اس زمانے میں دریائے چترال پرزیادہ جگوں پر پلوں کی تعمیر کا تصور نہیں تھا۔اس لئے ان پہاڑی راستوں سے گھوڑوں پریا پیدل لوگ سفر کرتے تھے۔آج کل بھی ضرورت پڑنے پر یہ راستے استعمال ہوتے ہیں۔”اویر اپنے قدیمی پولو گراونڈ وں کے لئے بھی مشہور ہے یہ پولوگراونڈ برم، شونگوش اور جیلان جولانیوں کے ناموں سے مشہور رہے ہیں اور یہاں سے اہم پولو کے کھلاڑی چترال میں مشہور رہے ہیں جن میں امیر مراد خان براموش،احمد چرویلو،گھشارے،شیخ ایوب ثانی،بودیکے لال،اتالیق مراد قابل ذکر ہیں۔امیرمرادخان براموش کاچترال پولو گراونڈ میں سے اونچا تھمپوق مارنے کا ریکارڈ اب تک قایم ہے“
مندرجہ بالا بیان سے ایک خاص بات یہ واضح ہوجاتی ہے کہ قدیم الایام چترال کے راستوں میں سے ایک اہم راستہ لٹکوہ،اویر موڑکھو کاتھا۔جو تورکھو اور بذریعہ شاہ جنالی شمالی یارخون تک جاتا تھا۔اسی طرح اویر سے بذریعہ پریت کوہ زیرین چترال کی طرف بھی ایک شاخ نکلتی تھی پریت شاچار سے لون کی طرف بھی شاخ جاتی تھی جو موڑکھو والے راستے سے ملتا تھا۔لٹکوہ اوژیراور اویر والے راستے کی ایک شاخ شوغور سے بذریعہ شاشا لوئرچترال کوجاتی تھی۔جوآگے بذریعہ ارسون بشگال اور افغانستان کی طرف نکلتی تھی۔ارندو کی طرف دریاکے مشرقی کنارے کے ساتھ راستہ بیلم یااسمار اور وہاں سے نواپاس سے باجوڑ کی طرف نکلتی تھی۔دروش کے قریب راستے میں ایک اہم گاؤں کیسو آتا ہے۔شہزادہ محمد حسام الملک مرحوم کے مطابق کیسو اصل میں یسوع ہے۔جو مرور ایام سے بدل کر کیسو بن گیا ہے۔کیسو میں کسی عیسائی کی قبر ہے جو بجائے شمالاً جنوباً ہونے کے شرقاً غرباً ہے۔شہزادہ موصوف کے مطابق اس قبر کا رخ بیت المقدس کی مناسبت سے ہے“۔اس عیسائی سیاح یا مشنری کے حوالے اس گاؤں کانام یسوع (یا اب کیسو) پڑگیا تھا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ قرون وسطیٰ میں یورپ سے بے شمار عیسائی مشنری وسطی ایشیائی ممالک میں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے آتے رہے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے بعض لوور چترال کے راستے سے آتے ہوں گے۔اور آگے بذریعہ شاشا لٹکوہ بدخشان داخل ہوتے ہونگے۔یاد رہے کاربیٹڑی کا راستہ اگرچہ کوہ اوربالائی چترال کیلیے رابطے کا ذریعہ تھا لیکن یہ بہت زیادہ دشوار گذار تھا۔1895ء میں جب انگریزوں نے شمال سے یلغار کیا تھا تو اپنے سفر مینا(Saper Minors)کے انجینئروں کے ذریعے یہاں سے توپوں کے لئے ٹریک بنائے تھے اور1937ء میں ہزہائی نس محمد ناصر الملک نے یہاں سے کوغوذی تک موٹر کار چلنے کے قابل سڑک تعمیر کرائی تھی۔بالائی چترال میں راستے دوراہ دارکھوت یاسین کے ذریعے یاسین کی طرف،دوراہ،یارخون،لاسپور(بذریعہ شاندور) غذروادی،دوراستے تھے جوکشمیر اور برصغیر کو جاتے تھے۔مستوج سے اسکی شاخ جنوبی چترال کی طرف جاتی تھی۔اسکی ایک ذیلی شاخ پرواک سے بذریعہ استروان تورکھو موڑکھو شاہراہ کی طرف نکلتی تھی۔(ان قدیم راستوں پراہل علم مزید روشنی ڈال سکتے ہیں کیونکہ ملکوں کی تاریخوں میں شاہراہوں کا اہم حصہ رہا ہے۔اور ثقافتی نفوذCultural Diffcisionمیں ان راستوں کا اہم کردار رہا ہے)برسبیل تذکرہ مندرجہ بالا بحث درمیان میں آگیا۔اویرانتظامی لحاظ سے چترال کے مرکزی حکومت کے تحت ایک بااختیار حکیم کے ماتحت ہوتا تھا۔(1953ء میں نئی تنظیم کے تحت اسکو موڑکھو تحصیل میں شامل کرلیا گیا۔اب یہ اسی تحصیل کے اندر ایک یونین کونسل ہے)۔پرپش گاؤں کے قریب جب اس وادی میں داخل ہوجاتے ہیں توسب سے پہلے ایک تنگ گھاٹی میں سے گزر نا پڑتا ہے۔بعد میں جوں جوں آگے بڑھتے ہیں تووادی کھلتی جاتی ہے اور پہاڑوں کے ڈھلوانوں کے ساتھ ندی نالوں کے کناروں پر خوبصورت دیہات کا سلسلہ سامنے آجاتا ہے۔جن کو ان کے محل وقوع اور اونچائی کی مناسبت سے اویر پائین اویر مرکزی اور اویربالا کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ان مختلف حصوں میں واقع دیہات کی تفصیل ڈاکٹر فضل الہیٰ مرحوم نے یوں بتائی تجی۔
(1) زیریں اویر یا اویر پائیں) کوےاہم گاؤں،ریری ما یُست،بوزدوں،چھلیاندور،دسشمناندور،بیاں،چھتر،ڈوک،رام لشٹ،راموڑ،شوقیاندور،کوٹو،
گھراموں،خرچم،پرپش،
(2)مرکزی اویریابرم کے گاؤں،نچھاغ،شوک،لشٹووارز،
کھوروسن،کوڑاخ، ڑومڑی۔انددختی،ایوغون،دشمنان دور اوسان
(3)اویربالا کے گاؤن؛موشین،پچتوری،شونگوش،اوی،شابرونز،نچھاغ۔
چترال گزیٹئر(1904ء)میں مندرجہ بالا کے علاوہ ان دیہات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔برونز،دیرڑانگہ،گہرتو(ان دودیہات کوملاکے
مہک کانام بھی دیاگیا ہے)ژیلان یا جیلان،لشٹ،ڑوماڑی موڑی،موڑی نوغور،ڈوک،نوغور،سیداندور،شاڈوک،سومیاندور،توری نوغورڈوک،ژین پھاش۔
2017کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی ابادی10084بتائی گئی ہے۔اور گھرانوں کی تعداد1354درج ہے۔یہ گھرانے کئی قبیلوں پرمشتمل ہیں۔جوپچھلے کئی سوسالوں کے دوران مختلف علاقوں سے یہاں آکر آباد ہوتے رہے۔
قبائل: ڈاختر فضل الہیٰ مرحوم کے مطابق قبیلوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
خوشال بیگے،مقصونے،بہیے،شاہ غوٹئیے(موجودہ حسن بیگے)۔کچوئے،شکے،عاشقے،شاہ نویے،کٹورے،اخونزادگان،خوشیے،گنڈڑوکے،گھسے یاگاسے(موجودہ نام قریشی)،محمد بیگے،زوندرے۔
آبادی کے ماہرین کے مطابق تمام چترال میں پہلے پہلے دریائے چترال کی وادی کلان اور اسکے بڑے معاون دریاؤں کی کناروں پرتین چارہزار سالوں یازیادہ)سے ابادی وجود میں آئی ہوں گی اس کے بعد مختلف ادوار میں مختلف حالات کے تحت لوگ ذیلی وادیوں میں آکر آباد ہوئے ہوں گے۔اس سلسلے میں کئی ذیلی وادیوں میں سے گذرنے والی تاریخی راستے بھی اہم رہے ہیں۔اویر چونکہ لٹکوہ اور اپرچترال کے درمیان اہم راستے پرواقع تھا۔اسلئے باہر سے آمدہ قبائل کایہاں پرانے زمانوں میں آباد ہونا سمجھ میں آسکتا ہے۔
راقم نے یہاں کے بعض قبائل کی تاریخ وار آمد کی کیفیات معلوم کرنے کی کوشش کی تھی جو حسب ذیل ہے۔
(1)مقصوتے: یہاں کے قدیم باشندے بتائے جاتے ہیں۔ یہ پُرانے زمانے میں یہاں کے میرہوتے تھے۔خاص طورپر رئیس دور میں ان کو خاص اقتدار حاصل تھا۔کٹور دور میں بھی اسکے بعض مشاہیر مثلاًفخرنایاب اور شیرنایاب شہرت کے مالک تھے۔
(2)بہے: یہ بھی قدیمی باشندے تصور ہوتے ہیں۔اس قبیلے کے جد آمجد کانام میربہے بتایا جاتا ہے۔اس قوم سے تعلق رکھنے والا حاجی عبدالمتین نے بیسویں صدی کے شروع کے ایام میں پیدل حج کیا تھا۔
(3)گھسے یاگاسے(نیانام قریشی)۔روایت کے مطابق یہ دراصل بشگال سے تعلق رکھتے ہیں۔وہاں سے رئیس کے دورمیں یہاں آکرآباد ہوئے تھے۔اسی مناسبت سے اب انہوں اپنا نام قریشی رکھاہے۔کیونکہ بشگال (موجودہ کافرستان کے لوگ قریشی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں (۔اسکی ایک شاخ سوات سے ہوتی ہوئی درگئی (پختونخواہ) میں آباد ہیں۔جہاں اس خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستان فوج اور سول سروس میں اہم عہدوں پرمتعین رہے اور اس علاقے میں نمایاں حیثیت کے مالک رہے۔موجودہ دور میں اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی شخصیت قاری بزرگ شاہ الازہری بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔بے شمار اعزازات کے علاوہ حال ہی میں ان کو گورنمنٹ پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز کا تمغہ عطاکیا گیا ہے۔
(5) خوشئیے: یہ تورکھو والے خوشیے قبیلے سے علیحدہ قبیلہ ہے۔شمس الدین ولی نام کے ایک بزرگ کے خانقاہ کے مجاور رہے ہیں۔ان کی آمد رئیس دور میں بتائی جاتی ہے۔
(6)اخونزادگان: روایات کے مطابق یہ رئیس دور میں کابل سے آئے تھے اور ریری گاؤں میں آباد ہیں۔اس خاندان سے تعلق والے کئی مشاہیر علم وفضل اور زہدوتقویٰ کی وجہ سے مشہور ومعروف رہے ہیں۔جن میں سے ملامحمد کبیر،مولانا عبدالکریم،مولانا فضل کریم اور ڈاکٹر فضل الہیٰ کے نام قابل ذکر ہیں۔
(7) عاشقے:بتایا جاتا ہے کہ شمس الدین ولی رئیس دور میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہاں وارد ہوئے تھے۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے(جسکاپچھلی قسط میں تفصیل سے ذکرہواہے)یہ بزرگ ایک شیعہ مبلغ تھے۔اور شاہ ھرات کے سفیر کے طورپر کشمیر کے سفر پرمامورتھے ان کے ساتھ کچھ اور ساتھی بھی تھے اور زمانہ 1584ء تا1520ء تھا۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہاں اور لون میں چھوڑا تھا اور کشمیرمیں تبلیغ کے بعد کئی سال کے بعد واپس آئے تھے۔اور خودواپس خراسان چلے گئے تھے۔وہاں کئی سال کے بعد دوبارہ عازم کشمیر ہوکے آئے تھے اور کشمیر میں ہزاروں ہندووں کو اسلام سے مشرف کرکے وہیں پروفات پاگئے۔اور وہیں پر ان کی زیارت گاہ ہے جو اب بھی موجود ہے۔
کلیم اللہ بیگ شمس بزرگ کے بارے جو لکھتے ہیں اگر ان کی بعض باتوں کے ساتھ میں اتفاق نہیں کرتا۔پھر بھی لوک روایات کے مطابق ان کا نکتہ نظر پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔جیسا کہ میں نے پہلے تاریخی حوالوں سے ذکر کیا تھاکہ موصوف ملتانی بزرگ دراصل شمس الدین سبزواری تھے۔جواسماعیلی تھے۔ان کا زمانہ 1165ء تا1276تھا۔وہ ملتان میں دفن ہیں۔جہاں ان کا مزار آج بھی مرجع خاص وعام ہے۔بہرحال کلیم اللہ بیگ صاحب کی روایت حسب ذیل ہے۔
”شمس بزرگ کے ساتھ میرزا ایوب اور ان کا چھوٹا بھائی شیخ ایوب اویر آئے۔اویر موژین میں قیام کی ہیں۔اور یہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد شمس واپس ملتان چلے گئے۔روانہ ہونے سے پہلے دوبھائیوں کویوں نصیحت کی۔میرزا ایوب کو لون میں رہنے کا کہا اور شیخ ایوب نے اس کے خانقا کے قریب سکونت اختیار کی۔دورقدیم میں اس خانقاہ میں لوگوں کی قطاریں لگ جاتی تھیں۔چترال کے مختلف علاقوں سے لوگ اس خانقاہ کی زیارت کے لئے آتے تھے۔ان میں زیادہ تراسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے تھے۔وہ خانقاہ ایک دربار کی حیثیت رکھتا تھا۔بعد میں علماء نے اس خانقاہ کو گرادیا۔کیونکہ لوگ وہاں جاکے بدعت کرتے تھے۔اس خاندان کاایریا ابھی بھی شیخ ایوب کی جائیداد میں شامل ہے۔اس جگہ کی نشانی اب بھی تاریخی طورپر موجود ہے۔
”قبیلہ عاشقے شیخ ایوب کے بیٹے عاشق ایوب سے منسوب ہے اور انہی کی مناسبت سے یہ نام پڑگیا ہے۔زیادہ تر وہ شیخ نام سے جانے جاتے ہیں۔عاشق ایوب کی اولادوں میں کئی شخصیات ریاست میں اہم عہدوں پر متعین رہے ہیں۔جن میں سے لعلی ایوب براموش،امیر مراد براموش،اتالیق مراد قابل ذکر ہیں“
(8) شاہ نوے: شاہ نوے کی اولاد کٹور دور میں یہاں آکر آباد ہوئیں۔
(9)خوشحال بیگے:یہ قبیلہ اس علاقے کا نہایت اہم قبیلہ تصور ہوتا ہے اور رئیس دور سے کٹور دور تک حاکمی اور چارویلی جیسے اہم عہدے اس قبیلے کے پاس رہنے کی وجہ سے یہ لوگ صاحب اعزاز چلے آرہے ہیں۔(نئی تاریخ چترال صفحے322)۔اخونزادہ کے مطابق اصلیت کے لحاظ سے اس قبیلے کا تعلق وسطی ایشیاء ممالک سے ہوگا۔کیونکہ اس کے جد امجد خوشحال بیگ کے نام کے ساتھ بیگ کا لاحقہ وسطی ایشیائی رئیسوں کی نشانی ہے(صفحہ509)۔یہ مفروضہ کسی حد تک درست بھی ہوسکتا ہے۔کیونکہ رئیس حکمرانوں کااپناتعلق بھی وسطی ایشیائی علاقوں سے تھا۔وہ اپنے ساتھ وہاں کے نامور شخصیات کو چترال لاتے رہے ہوں گے اور یہاں ان کو اہم ذمہ داریاں سونپ کے ان کو آباد کئے ہوں گے۔
ایک روایت کے مطابق اویر آنے سے پہلے یہ لوگ سوروخت میں آباد تھے۔اور وہاں بھی یہ اہم حیثیت کے مالک تھے۔نئی تاریخ چترال کے مطابق خوشحال بیگ اول کاپوتا خوشحال بیگ ثانی شاہ کٹور کے ساتھ جلاوطنی گذاراتھا۔واپسی پر انکی بادشاہت پربحالی کے بعد شاہ کٹور کے دربار میں اسکی قدرومنزلت بہت بڑھ گئی۔اور ان کو علاقہ اویر کی حاکیمی اور چارویلی تفویض کی۔جوبعد میں ان کی اولاد کو بھی ملتی رہی تاآنکہ بعد کے زمانوں میں اس علاقے میں شاہ غوٹیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا اثرورسوخ پراثرپڑا ہوگا۔
نئی تاریخ چترال کے مطابق یہ لوگ اپنے زمانے میں علاقہ اویر کے حاکم مختاررہے۔وسیع جائیداد کے مالک رہے اور جاہ و منزلت کے سارے اسباب انہیں میسر رہے۔رئیس دور سے کٹور دور تک اس قبیلے میں کئی مشاہیر گذرے ہیں جن میں سے خوشحال بیگ اول،شیرافگن،فیض،خوشحال بیگ ثانی،عندلیب،قناعت شاہ،مشتکی خان،عبدالکریم،سلطان مراد خان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
(10) زوندرے:اس قوم کے حالات پہلے تفصیلاًگذرچکے ہیں اویر والے زوندرے کٹورے دور میں بونی سے یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
(11)شاہ غوٹئے(موجودہ نام حسن بیگے) یہ خاندان عرصہ دراز سے اس علاقے میں اہم حیثیت کامالک رہا ہے۔مولانا عبدالرحیم مدظلہ کی روایت کے مطابق یہ قبیلہ کسی
زمانے میں افغانستان کے غزنی کے علاقے سے ہجرت کرکے یہاں آیا تھا۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے مشہور غازی اور مجاہدسلطان محمود غزنوی نے دسویں صدی میں اپنے گردونواح میں کفار کے خلاف جہاد شروع کیا تھا۔بعد میں برصغیر کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔اورپاک وہندمیں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ان کے جلومیں اسلام کیلئے مرمٹنے والے مجاہدین کے علاوہ علماء اور فضلا اوردانشوروں کی ایک کھیپ ہوتی تھی۔جو کفرستان کے ان علاقوں میں دین اسلام کی اشاعت اور لوگوں کودین کی تربیت دے سکیں،اسلئے کہاجاتا ہے کہ برصغیر ہندوپاک میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے خاندان کے بعد غزنوی خاندان ممتازترین خاندان ہے۔جس نے یہاں دین اسلام کی روشنی پھلانے کے لئے جدوجہد کی۔اب پاکستان کے جن علاقوں میں غزنوی خاندان آبادہیں یہ اس وقت (یا اس کے بعد مختلف ادوار میں)وہاں سے یہاں آکرآباد ہونے والے خاندانوں کی اولاد ہیں۔غزنی اور افغانستان کے مختلف علاقوں سے برصغیر اور شمال میں وسطی ایشیاء اوردیگرعلاقوں میں بزرگان دین اورعلماء وفضلا اور دیگر مبلغین کی آمد کا سلسلہ قرون وسطی کے تمام ادوار میں جاری رہا۔ان میں سے بیشتر حضرات بدخشان کے راستے شمالی راستوں کے ذریعے چترال میں داخل ہوتے رہے ہیں۔مختصراًاندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس خاندان کے افرادمحمودغزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے کے بعد رئیس دور میں ان کے تبلیغی پروگراموں کے سلسلے میں یہاں آئے ہوں گے۔مولانا موصوف کی روایت کے مطابق شاہ غوٹ جن سے اس خاندان کی نسبت ہے۔اصل میں شاہ غوث تھے۔وہ اللہ والے بزرگ تھے اوردین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں یہاں آئے تھے۔ان کی اولاد شاہ غوثیہ کہلاتی تھی۔جس کوبعد میں مخالفین نے بگاڑ کے شاہ غوٹیہ بنایا۔اخوانزاہ(صفحہ226)اس قوم کے بارے بالکل مختلف روایت بیان کرتے ہیں۔ان کے مطابق ”یہ ایک معززقوم ہے اس قوم کا اصل نا م حسن بیگے ہے۔کیونکہ ان کے جداعلےٰ کانام حسن بیگ تھا۔وہ ترکی النسل تھے۔ایران کے مغربی اورجنوبی علاقے پرنویں صدی ہجری (15ویں صدی عیسوی)کے دوران ان کی حکومت تھی۔خانہ جنگی کے نتیجے میں حسن بیگ کی حکومت ختم ہوگئی۔ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ فرار ہوکر بدخشان جاکے آباد ہوئے۔انہی لوگوں میں سے بعد میں ایک بچہ پیدا ہوااور بہت نامور ہوا اور اپنے قبیلے کا سردار بن گیا۔اس کا نام عطا محمد گورزاد رکھا گیا تھا۔اسکے نام کو لوگوں نے غلط استعمال کرکے اسکی اولاد کو شاہ غوٹئے کے نام سے مشہور کردیا۔اس شخص کی اولاد کے کچھ لوگ بدخشان کے علاقے زاروبومیں آباد ہوئے اور کچھ چترال آئے اور علاقہ موژگول،چرن اویر،مستوج،اویر،ارسون اور ارندو میں آباد ہیں“۔
اخوانزادہ کے مطابق قوم ہذا نے عہدکٹور میں کافی عزت حاصل کی۔کٹور مہتر شاہ افضل کے عہدمیں جمک اقسقال نے بڑا اعتبار حاصل کیا۔اس نے شاہ افضل کے بیٹے شادمان بیگ کی تربیت کااعزاز حاصل کیا۔اور اس کا بیٹا گشارے اقسقال نے شہزادہ عبدالرحمان خان کی رضاعت کرکے مزیدطاقت حاصل کی اور علاقہ اویر کے چارویلی کامنصب بھی قوم حسن بیگے کے ہاتھ آیا“۔
ایران کی تاریخ ان چندملکوں کی تاریخ میں شامل ہے۔جوتین ہزار سالوں سے زیادہ عرصہ پرمحیط ہے۔میرے سامنے ایران کے بادشاہوں کی ایک تفصیلی فہرست ہے۔جوتاریخ واردرج ہیں۔اس فہرست میں خاکم بدہن مجھے اس مذکورہ حسن بیگ کاکہیں ذکرسامنے نہیں آیا۔۔بہرحال اس قبیلے کا اوریجن(Origin)جوبھی ہو۔ان کاعروج چترال کی ریاست میں کٹور دور میں جمک نامی شخصیت سے اور ان کی وجہ سے ہوا۔بتاتے ہیں وہ ایک بہادر شخص تھے اور اس وجہ سے بادشاہ کی نظرمیں آئے اور مہترشاہ افضل ثانی کے عہد میں نام پیدا کرلیا اور اعتبار حاصل کیا۔شاہ امان الملک کے زمانہ میں اس کا لڑکا شاہ بمبر باپ سے دس گنازیادہ ترقی یافتہ ہوا۔اعلٰحضرت محمدشجاع الملک کے دور میں چارویلی کامنصب خوشحال بیگ قبیلے سے گشرہ کے ہاتھ منتقل ہوا۔ان کی وفات کے بعد ان کابیٹا شاہ بمبربادشاہ کامنظور نظرہوا۔ریاست کے اہل کاروں میں ترقی کرکے باڈی گارڈ کے میجرکاعہدہ حاصل کیا۔جنگ بریکوٹ میں نمایاں خدمات کے صلے میں انگریز حکومت سے ایم بی اے کا خطاب حاصل کیا۔اس قبیلے کے مشاہیر میں مولانا محمد مستجابؒ (المعروف اویرو مولوی)سرزمین چترال کے عظیم داعی،مصلح اور مردحق آگاہ کے طورپر مشہور ہوئے۔جن کا مختصراً کاذکرکیا جاتا ہے۔
مولانا محمد مستجاب رحمتہ الہ علیہ)
آپ شاہ غوثیہ قبیلے کے شاہ بمبر کے رشتہ دار تھے۔آپ نے ہندوستان کے جامعہ ملیہ دہلی میں مفتی کفایت اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی زیرسرپرستی تحصیل علم کیا اور واپسی پر اویون میں سکونت پذیررہے۔آپ نے سلسلہ نقشبندیہ کے ایک مشہور ولی حضرت فضل علی قریشی سے بیعت کی تھی اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔گوشہ نیشنی کی زندگی گذاری۔شاہی درباروں سے مکمل طورپر دوررہے۔علم وعمل زہدوتقویٰ اخلاص اور محبت ان کے اعلےٰ صفات تھے،زندگی بھرامرباالمعروف اورنہی عنی المنکرمیں مصروف رہے۔چترال کے دوردراز علاقوں تک سالانہ دورے کرتے اور وعظ ونصیحت فرماتے۔ان کے وعظ سننے کے لئے بلاتفریق مسلک یافرقہ ہزاروں لوگ جمع ہوجاتے اور ان کے گرویدہ ہوتے۔ان کی وعظ و نصیحت کی بدولت ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔پیرانہ سالی تک یہ مشغلہ جاری رکھا۔ان کے مرید چترال کے علاوہ پاکستان کے لاہور،کراچی اور پشاورتک پھیلے ہوئے تھے۔نیزافغانستان میں بھی کئی نیک لوگ ان کے مریدیں میں شامل ہوگئے تھے۔چترال کے بادشاہاں محمد شجاع الملک سے لیکر ان کے بیٹوں تک ان کی بہت قدرکرتے تھے اور محمدمظفرالملک نے شاہی کتب خانے سے صحاح ستہ کی تمام مجلات ان کوبخش دئیے تھے تاکہ درس وتدریس کے لئے ان کے کام آئیں۔(آپ کی وفات کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق یہ کتابیں دارالعلوم اسلامیہ عربیہ(شاہی مسجد چترال)کی لایبریری کووقف کی گئیں)۔آپ نے ننانوے برس کی عمرمیں 1985ء میں وفات پائی اور اویون میں دفن ہوئے۔آپ نے ساتھ دفعہ حج کئے تھے۔آپ کی کرامات کے کئی واقعات لوگوں کو یاد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کرامات والے ولی تھے آپ کے نیک اخلاق کااثر کلاش قبیلے تک پھیل گیا تھا اورکئی کلاش لوگ ان کے ہاتھوں دین اسلام سے مشرف ہوگئے تھے۔چنانچہ حکومت کی طرف سے ایک عامل ایک دفعہ ان کے پاس گیا اور حکومت کی طرف سے ان کو حکم سنایا کہ کلاش کوتبلیغ نہ کریں۔مولانا نے جواب دیا۔”برخوردار!جواللہ کومنظور ہے وہی ہوگا۔مجھے ڈرہے کہ ان لوگوں کوکوئی ہم سے چھین نہ لے“(حوالہ۔راقم کی کتاب انوار مستجاب)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تتمہ
یہ قسط ضلع اپرچترال کے حوالے سے مختلف مقامات کی لوک تاریخ کے سلسلے کی آخری کڑی تھی اسکے بعد وقتی طورپر یہ سلسلہ ختم کیا جاتا ہے کیونکہ راقم کسی دوسرے اہم موضوع پرلکھنے کاارادہ رکھتا ہے۔اگرزندگی نے مہلت دی لوورضلع چترال پربعد میں لکھنے کی کوشش کروں گا ورنہ مواد کسی کے حوالے کروں گاتاکہ وہ اس پرلکھے۔
اس سلسلے کی تحریر سے چند باتیں میں نے محسوس کی جو آپ سے شیرکروں گا۔
1۔چترال کے دیہات تاریخ،ثقافت اور کئی دیگرامور میں معلومات کاخزانہ ہیں۔جن پرتفصیل سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
2۔چترال کے مختلف علاقوں میں کئی شخصیات موجودہیں،جن کو اپنے علاقوں کے بارے میں بے پناہ معلومات حاصل ہیں۔نیز کئی شخصیات اب بھی ایسے ہیں۔جوچترال کے مختلف ثقافتی تاریخی اورروایاتی پہلوؤں پرقیمتی معلومات کے وارث ہیں۔ضروری معلوم ہوتاہے کہ اس سے پہلے کہ یہ معلومات ان لوگوں کے ساتھ ختم ہوتے جائیں کس طرح ان کو محفوظ کیا جائے۔
3۔میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس وقت بھی ہمارے ان علاقوں میں کئی ایسے تعلیم یافتہ نوجوان موجود ہیں جن کواپنی تاریخ اورثقافتی اقدار سے محبت ہے اور وہ ان کونہ صرف زندہ رکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کو دوسروں تک پہنچانے کے خواہشمند ہیں۔ایسے حضرات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔چترال باوجود پہاڑوں میں بندایک مختصر خطہ ہونے کے جغرافیائی،جیالوجیائی،تاریخی،ثقافتی،لسانی،نسلیاتی،انتھرویولجی(علم الانسانی)وغیرہ پہلوؤں پرمعلومات کاخزانہ ہے۔اس طرح ان موضوعات پرتحقیق کرنے کی ایک زبردست قدرتی لیبارٹری ہے۔اس امر کے پیش نظر راقم نے ایک میٹنگ میں یونیورسٹی آف چترال کے وائس چانسلر سے درخواست کی تھی کہ اپنے ادارے میں ایک چترال سٹڈی سنٹر کھول دیں تاکہ نہ صرف چترال کے اپنے محققین بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں سے محققین یہاں آکر تحقیق کرسکیں۔انہوں نے اصولی طورپر راقم کے اس موقف سے اتفاق کرلیا ہے۔بہرحال یونیورسٹی میں جب بھی یہ سنٹر قائم ہوگا،فبہا لیکن کیا چترال ریسرچ فورم کے نام سے ہم خود ایک ادارہ تشکیل نہیں دے سکتے جس میں مندرجہ بالا مختلف مضامین میں مہارت حاصل کردہ(specialized)محققین کاایک کھیپ جمع کرکے نیز مقامی کئی روایتی دانش کے مالک بزرگوں کوشاملکرکے ایک ادارہ تشکیل دے سکیں۔توانشاء اللہ انجمن ترقی کھوار کی مانند آگے چل کریہ ادارہ اہم ادارہ ثابت ہوسکیگا۔اس ادارے کے تحت تحقیقی کام کے علاوہ سیمنارکانفرنسیں اور اشاعت کاکام بھی انجام دئیے جاسکینگے۔ہمت مردان مددخدا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمیمہ
ڈاکٹر ظہیر احمد صاحب نےکچھ غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ۔ جو یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
اس کے مطابق بوشے کا جد امجد ماہ باق تھا جو ماہ چاق یا مچھوک کا بیٹا تھا۔ وہ کشم میں آباد ہوا تھا۔ اس کا بیٹا بوٹ شاہ تھا اس سے بوشے قبیلے کا نام پر گیا یے۔
گا چھترک، ڈولے، ڑافے، بیگانے، بالیے ، بوہچونتک، بحیثیت علیحدہ قبیلے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ وہ بوشے کی شاخیں نہیں ہیں ۔ واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد