
اساتذہ کا دن: مقصود الرّحمٰن
اساتذہ کا دن: مقصود الرّحمٰن
ہر سال کی طرح 5 اکتوبر 2023 ٕ “یومِ اساتذہ” کے طور منایا گیا. اس موضوع پر چند سطور حوالہِ قرطاس کرنا چاہتا ہوں۔
استاد کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو ظُلمات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں علم کے شمعیں روشن کرتے رہتے ہیں۔
استادی کو پیغمبرانہ پیشہ بھی کہا جاتا ہے اور سب سے پہلا استاد اللّہ ربّ کائنات خود ہے جس نے آدم ؑ کو علمِ اشیاء پڑھایا تھا۔
نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے:
“اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً”
میرے ایک عزیز فرحان علی خان جب مُعملی کے پیشے سے نئے نئے منسلک ہوئے تھے تو دوسروں کے دیکھا دیکھی ‘استادی’ پہ مثبت تبصرے شروع کر لیا تھا۔ تب تو میں نے اسے خاموش کرایا تھا کہ معلمی کے پیشے پہ تبصرہ برداشت نہیں۔ مگر نا جانے کیوں آج اس پُل صراط سے خود گزرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ معلمی کے پیشے پہ لب کشائی وہ موضوع ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ اللّہ خیر کرے۔۔۔
مشہور برطانوی محقق کین روبنسن کہتا ہے:
“School kills creativity of a Child”
اسی طرح شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ بھی غلط نظامِ تدریس پہ یوں رقمطراز ہیں:
شکایت ہے مجھے یا رب! خدا وندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
اور :
جس علم کی تاثير سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہيں اسی علم کو اربابِ نظر موت
چند دن پہلے ہمارے ایک اور قابل دوست استاد ‘شمس الحق نوازش’ کی پوسٹ نظروں سے گزری جس میں لکھا تھا:
“جنگوں اور وباؤں سے اتنی تباہی نہیں آتی جتنی ایک استاد کے غلط طرزِ تدریس سے تباہی مچتی ہے”
مذکورہ بالا حوالوں کے علاؤہ مختلف اوقات میں مقامی اور ملکی اخبارات کے ریپورٹس بھی موجود ہیں جو سفاک اور ظالمانہ رویہ رکھنے والے اساتذہ کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔ آئے روز ایسے دلخراش اور نا خوشگوار واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔
میں صرف دو مثال پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
پہلا واقعہ لاہور کا ہے۔ غالبًا سن 2019 کا واقعہ ہے کہ ایک استاد کی ذدو کوب، تھپڑوں،لاتوں اور مُکّوں کی بوچھاڑ کا پامردی سے سامنا کرتے کرتے ایک طالب علم نے جامِ شہادت نوش کر لی تھی۔
یاد رہے یہ ایک پرائیویٹ سکول کا واقعہ ہے جہاں 6 سے 7 ہزار روپے فیس دے کر لوگ اپنے بچوں کو پڑھانے بھیجتے تھے”
“دوسرا واقعہ تحصیل دروش کا مجھے یاد آرہا ہے جہاں ایک پرنسپل دیر سے اسمبلی پہنچنے پر بچیوں کو درندگی سے مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی نے چُھپ کے ویڈیو بنائی تھی جو بعد میں وائرل کیا گیا تھا۔”
ہم کوئی ‘مقدس گائے’ نہیں ہے۔ شعبہِ معلمی میں بھی انسان ہی خدمات انجام دیتے ہیں جن میں کمی بیشی اور بشری کمزوریوں کی ہر وقت گنجائش موجود رہتی ہے۔ اسلئے اپنے گریبان میں وقتاً فوقتاً جھانکنے کی زحمت گوارا کرنا پڑتا ہے خاص طور سے اِن دنوں میں جو ہمارے نام سے “منسوب” کر دئے گئے ہیں۔
اللّہ ہمیں اپنے پیشے سے انصاف کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین
حکومت وقت بھی اپنے حصّے کی زمّہ داریاں پوری کرنے سے پہلو تہی کرتا آیا ہے مثلاً “تعلیمی شعبے”کا عمیق جائزہ لینے سے مُندرجہ ذیل چیدہ چیدہ حل طلب مسائل واضح نظر آتے ہیں :
ایک طرف ڈبل شیفٹ سکول(ڈی ایس ایس) کے اساتذہ گزشتہ 9 مہینے سے دلجمعی سے پڑھانے کے باوجود پائی پائی کو ترس رہے ہیں۔بے چاروں کی تنخواہ ہے نہ ملازمت کی سیکورٹی۔ تو دوسری طرف پرائمری سکول ٹیچروں(پی ایس ٹی) کے سروں پہ جی پی/سی پی فنڈ کٹوتی کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے۔ اسٹاف کی کم یابی اور انفراسٹرکچر کی نا مکملی اپنی جگہ قدیم سےمستقل مسئلہ چلا آرہا ہے۔
حکومت کے سوتیلی ماؤں جیسے سلوک کو روتے ہوئے،مستقبل میں اچھے حکمران نصیب ہونے کی امید کے ساتھ خود اپنے اندر اصلاحات لانے کا عزم اور دورِ جدید سے ہم آہنگ استاد بننے کی مقدور بھر کوشیش کا ارادہ کرتے ہیں۔
سب ساتھی اساتذہ کو ‘تارے زمین پر’، ‘ہِچکی’ یا کم از کم ‘3 ایڈیٹ’ ضرور دیکھنے کی درخواست کروں گا۔ یہ موویز کروڑوں کے خرچے پہ (طریقہِ تدریس) میں اصلاحات کے موضوع پر بنائے گئے ہیں۔
آخر میں سابق مرحوم امریکی صدر ابراہَم لنکن کے اِن الفاظ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں جو اپنے بچے کو سکول میں داخل کرتے ہوئے پہلے دن “استاد” کے نام لکھے خط میں درج کیا تھا:
اِسے سیکھاؤ کہ:
“لفنگے کے مقابل ایک نیک صفت بہادر شخص بھی ضرور ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ہر لالچی سیاستدان کے مقابلے میں ایک بے لوث رہنما بھی ضرور پیدا ہوتا ہے۔”
اِسے سکھا دیجئیے کہ:
“ہر دشمن کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوتا ہے اگرچہ یہ سیکھنے میں اُسے وقت لگے گا، اسے یہ بھی ضرور بتائیں کہ خون پسینے سے کما یا گیا ایک ڈالر اُن پانچ ڈالروں سے زیادہ قیمتی ہے جو مفت میں مل جائیں۔
اسے ہار برداشت کرنا اور جیت کو منانا بھی سکھائیں۔”
(احقر:مقصود الرّحمٰن)