Chitral Times

Dec 1, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انتخابات سے پہلے اصلاحات – محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

انتخابات سے پہلے اصلاحات – محمد شریف شکیب

الیکشن کمیشن نے جنوری 2024کے اواخر میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی 88نکات پر مشتمل انتخابی ضابطہ اخلاق بھی جاری کردیا ہے جس کی خلاف ورزی پرسیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے خلاف کارواٗئی کی جائے گی۔ نئے ضابطہ اخلاق میں سین ٹ کے ممبران اور منتخب بلدیاتی ممبران کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی آزادی دی گئی ہے جبکہ صدر، وزیراعظم،وزراء اور عوامی عہدیدار انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے۔ ضابطہ اخلاق میں سیاسی جماعتوں کو کم از کم پانچ فیصد جنرل نشستوں پر خواتین کو نمائندگی دینے کا پابند بنایاگیا ہے۔ انتخابی امیدوار ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات نہیں کرسکیں گے۔ نہ ہی لوگوں کو ووٹ دینے کے لئے رشوت، تحائف اور لالچ دیں گے۔ عوامی مقامات پر اسلحہ کی نمائش اور سرکاری خزانے سے انتخابی مہم چلانے پر پابندی ہوگی۔جلسوں میں فرقہ ورانہ، علاقائی،لسانی اور منافرت پر مبنی گفتگو، تقریر اور تحریروں پر پابندی ہوگی۔ سرکاری املاک پر پارٹی کاجھنڈا لہرانا ممنوع ہوگا۔حیرت انگیز طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی مہم پراٹھنے والے اخراجات کو کوئی تحمینہ نہیں رکھا گیا۔

 

انتخابی ضابطہ اخلاق کے جو چیدہ چیدہ نکات میڈیا کو بتائے گئے ہیں۔وہ حوصلہ افزاء اور جمہوریت کی روح کے مطابق ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کے پاس کتنے اختیارات اور کتنی فورس ہے۔ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ ان کے لئے صرف پانچ فیصد نہیں بلکہ ایک تہائی نشستیں مختص ہونی چاہیئں۔ووٹ کا حق استعمال کرنے کے قابل ڈیڑھ کروڑ پاکستانی ملک سے باہر ہیں۔ ان کی بھیجی ہوئی رقومات سے نہ صرف ان کے گھروں کاخرچہ چلتاہے بلکہ ملکی معیشت کا بھی اس پر زیادہ انحصار ہے مگر ان محب وطن پاکستانیوں کو اپنا ووٹ استعمال کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔سینٹ کے ممبران اور منتخب بلدیاتی نمائندے بھی سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ ہیں۔اگر انہیں پارٹی کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی تو وہ لامحالہ سرکاری وسائل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کریں گے۔ ہمارے ہاں قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابی مہم چلانے کے لئے پانچ دس کروڑ اور صوبائی نشست کے لئے کم از کم پانچ کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں انتخابی مہم پر اخراجات کی حد مقرر نہ ہونے کی وجہ سے صرف بااثر اور متمول لوگ ہی الیکشن لڑکر قومی ایوانوں تک پہنچتے ہیں ان لوگوں کو عوام کے مسائل کا کوئی ادراک نہیں ہوتا نہ ہی انہیں عوام سے دلچسپی ہوتی ہے۔

 

انتخابی مہم پر دس کروڑ خرچ کرنے والوں کی ساری توجہ اپنی خرچ کی گئی رقم منافع سمیت وصول کرنے پر مرکوز ہوتی ہے اور گذشتہ 76سالوں میں وطن عزیز میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ پیسے والے لوگ پانچ پانچ چھ چھ حلقوں میں بیک وقت انتخاب لڑتے ہیں۔ اور جیت بھی جاتے ہیں انہیں صرف ایک نشست اپنے پاس رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ باقی پانچ نشستیں چھوڑنی پڑتی ہیں اور ان پر ضمنی انتخابات کرانے کے لئے قومی خزانے سے مزید کروڑوں اربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ایک امیدوار اور ایک نشست کاقانون لاگو ہونا چاہئے تاکہ چند افراد کے سیاسی شوق کے لئے قومی خزانے سے اربوں روپے ضائع نہ کرنے پڑیں۔انتخابات سے قبل انتخابی نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہے۔ اگر سات دہائیوں سے رائج نظام کے تحت ہی انتخابات کرائے گئے تو عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور سیاسی عدم استحکام،ہارس ٹریڈنگ، فلور کراسنگ اور کرپشن کا سلسلہ جاری رہے گا۔ عوام موجودہ سیاسی نظام، انتظامی انفراسٹرکچر اور نظام انصاف سے مایوس ہوچکے ہیں سیاسی عمل پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ورنہ پولنگ اسٹیشن خالی رہیں گے۔اور ٹرن آوٹ بیس سے تیس فیصد ہی رہے گا۔ پچیس کروڑ کی آبادی میں سے اگر کوئی جماعت دس کروڑ ووٹ نہیں لیتی تو وہ حکمرانی کا حق نہیں رکھتی۔ہمارے ہاں ڈیڑھ دو کروڑ ووٹ لینے والی پارٹیاں حکومتیں بناتی ہیں جوجمہوریت کی روح کے منافی ہے۔سوشل میڈیا کی بدولت عوام میں سیاسی شعور بدرجہ اتم موجود ہے۔ انہیں اب دلفریب نعروں اور وعدے وعید کے سبز باغ دکھا کر بہلایانہیں جاسکتا۔ جو سیاسی جماعتیں آج بھی عوام کو بھلکڑ اور جاہل سمجھتی ہیں انہیں اپنی اس حماقت کی انتخابات میں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔


شیئر کریں: