Chitral Times

Sep 26, 2023

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نصاب تعلیم کیاہوتاہے؟؟؟ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

Posted on
شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نصاب تعلیم کیاہوتاہے؟؟؟ – ڈاکٹر ساجد خاکوانی

مواد تدریس کونصاب تعلیم کہتے ہیں،قرآن مجیدمیں اللہ تعالی فرماتاہے کہ  “علم آدم الأسماء كلها“ترجمہ:اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سب اشیاء کے نام سکھائے۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ ارکان تدریس تین ہیں،معلم،متعلم اور معلوم۔یہ جو تیسرارکن تدریس “معلوم”ہے اسی کو نصاب تعلیم کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔استاداورشاگردجب آمنے سامنے بیٹھتے ہیں تو عمل تدریس کاآغازہوجاتاہے تب ان کے درمیان کسی بھی موضوع پرجو گفتگو،تحریر،مباحثہ،مکالمہ،سوال و جواب،املاء یاحتی کہ اگر خاموشی بھی ہے توبھی وہ نصاب ہی ہے۔گویا مقاصد تعلیم کاحصول جن ذرائع سے ممکن ہے ان میں سے اہم ترین ذریعہ نصاب ہوتاہے۔استاداورشاگردجب کسی زمان و مکان میں مل بیٹھتے ہیں تو اس تعلق کے بھرم کاتقاضاہے کہ ان کے درمیان آموزش کاعمل جاری ہوجائے،ضروری نہیں کہ شاگردہی سیکھنے پراکتفاکرے بلکہ استاد بھی آموزش کے ذریعے کسب فیض کامحوربن سکتاہے،اس طرح یہ عمل دوطرفہ رویوں کاحامل ٹہرجاتاہے اور فریقین آموزش سے بہرہ مندہوتے ہیں،اس دوران جوامرپیش نظرہوتاہے وہ نصاب کہلاتاہے جوتعلیم اورتربیت کاجزولاینفک ہے۔جیسے عام حالات میں استادآگے چلتاہے اورشاگرداس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھاتاہے اورغیرمحسوس طورپراستادکے ایک ایک تحرک کواپنی شخصیت میں اتارتاچلاجاتاہے ،بعض اوقات جب اندھیراہویابارش ہو یا کوئی دیگرغیرمعمولی حالات ہوں تو ضرررسانی سے بچت کی خاطر شاگردآگے آگے چلتاہے اور استادکے لیے روشنی کاانتظام کرتاہے یا پھر راستے کے صاف ہونے کی خاموش ضمانت فراہم کرتاہے تب استاداپنے قدم آگے بڑھاتاچلاجاتاہے اور اگر استادپیرانہ سالی کامرقع ہوتو شاگرد اپنے استادمحترم کادست مبارک بھی تھام لیتاہے تاکہ بوقت ضرورت سہارافراہم کرنے کاسبب بن سکے۔اس مثال میں دوطرفہ آموزش کارفرماہے اوردونوں طرف کے رویے نصاب تربیت ہیں،جونسل درنسل ایک طبقہ دوسرے کومنتقل کرتاچلاجاتاہے۔

 

نصاب کی بنیادیں چار ہوتی ہیں،عقیدہ،اخلاقیات،تہذیب و تمدن اورعمل تعلیم۔عقیدہ دراصل صرف نصاب کوہی نہیں بلکہ پورے نظام تعلیم کو نظریاتی  بنیادیں فراہم کرتاہے۔جس طرح ہواکے بغیرسانس لیناممکن نہیں اسی طرح عقیدے کے بغیرنصاب کی تدوین وتدریس ممکن ہی نہیں۔عقیدہ کوئی بھی ہوسکتاہے،اگر نظریہ تعلیم عقیدہ توحیدپربنیادکرتاہوتویہ انبیاء علیھم السلام کے فراہم کردہ نظام تعلیم کے نصاب کا اعلی ترین منہج ہے جس کاانجام حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی  یوں ہے کہ”فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا(10)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا(11)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاﭤ(12)”ترجمہ”تومیں نے کہالوگواپنے رب سے معافی مانگوبے شک وہ بہت معاف کرنے والاہے،وہ تم پرموسلادھاربارش بھیجے گااوراموال سے اوراولاد سے تمہاری مددکرے گا،اورتمہارے باغات اگائے گااورتمہارے نہریں چلادے گا”۔تاہم کفروشرک،نفاق،الحادودہریت ،زندیقیت،فسق و فجور،جمع مالاََوعدداور ھل من مزید بھی تاریخی طورپراوررائج الوقت عقیدے ہیں اور دنیابھرکے کتنے ہی نظام ہائے تعلیم ہیں جن کے نصاب انہیں عقیدوں کے تقاضوں کو نبھاتے ہیں ۔عقیدہ جس طرح کاہوگا اسی طرح کی نسل تیارہوگی،اگرعقیدہ خداشناسی سے متعلق ہوگاتو آنے والی نسلیں کسی بالاترقوت کے ادراک کی مالک ہوں گی ،اس کے سامنے احساس جوابدہی کاتصوررکھتے ہوئے زندگی گزاریں گی اور ان کے اندر باہمی ہمدردی اور الفت و محبت کی شیریں ندیاں جاری رہیں گی اور اگرنصاب کی بنیاد خدا بیزارعقیدہ ہو گا یا ایسانظریہ ہوگاجس میں خداکو عبادت گاہوں میں قیدکرکے رکھاجائے گاکہ جس کی مرضی ہوخداسے ملاقات کرآئے اورباقی نظام زندگی میں خداکاکوئی عمل دخل نہ ہوگا،پارلیمان،عدالتیں،تھانے،کچہریاں بازار،تعلیمی ادارے،کارخانے پنچائیتیں،جرگے اورباہمی تعلقات تک جب خداشناسی سے نہ صرف یہ کہ دورہوں گے بلکہ تدریجاََ یاکلیتاََخالی ہوجائیں گے اور نصاب تعلیم خالصتاََانسانی عقل وخرد،تجربہ ومشاہدہ اور لسانی ونسلی وعلاقائی اورجغرافیائی بنیادوں پراستوار ہوگاتو پھر قرآن مجیدکی سورۃ آل عمران کے مطابق انسانیت اس انجام تک پہنچ جائے گی کہ”اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ ۗ”ترجمہ”کیاآپ نے کبھی ایسے شخص کے حال پرغورکیاہے جس نے اپنی خواہش نفس کواپناخدابنالیاہو”۔

 

نصاب کی دوسری بنیاداخلاقیات ہے۔اخلاقیات دراصل عقیدے و نظریے سے ہی پھوٹنے والا پھل ہے۔عقیدہ و نظریہ اگرمیٹھاہوگاتو پھل بھی بالیقین شیریں اور ذائقہ سے بھرپورہوگااور بصورت دیگرکڑواکسیلا اورزہریلا پھل ہی اس پیڑ سے اتاراجاسکے گا۔اخلاقیات کے بلاشبہ دو معیارات ہیں؛ایک عقیدہ آخرت سے پھوٹنے والا چشمہ انسانیت ہے اور دوسرااس کے برعکس۔جوآخرت پر یقین کرنے والا نصاب ہوگااس میں بچوں کوبتایاجائے گاکہ نیکی اوربدی کابدلہ اللہ تعالی نے دیناہے اوریوں انسانوں سے بدلہ اوراجر چاہنے کی ریت ختم ہوجائے گی اورصرف رضائے الہی کے لیے ہی کسی دوسرے کے ساتھ بھلائی کرکے اجر،بدلہ،معاوضہ اورواپسی کی توقع یوم حساب صرف اللہ تعالی سے رکھی  جائے گی۔بصورت دیگر ہربھلاکرنے والا جب دوسروں کی طرف سے براہی پائے گاتومایوس ہو کر خود غرض بن بیٹھے گاتب جہاں سے اسے اچھے بدلے کایقین ہوگا وہاں پروہ بھلائی کرتانظرآئے گااور دوسری جگہوں پروہ بھلائی کرنے کوکارلاحاصل سمجھے گااوراپناہاتھ کھینچ لے گا،اوریہیں سےسرمایادارانہ نظم معیشیت کاآغازہوتاہے جس میں غریب،کمزورلاغر،مجبور،دائمی بیمار،محتاج اورمسکین وغیرہ کو معیشیت پربوجھ سمجھ لیاجاتاہے کیونکہ یہ صاحب ثروت کواس کے بھلے کابدلہ نہیں اداکرپاتے۔

 

تہذیب و تمدن نصاب کی تیسری اہم بنیادہے،ہرعلاقہ دوسرے سے اپنی آب و ہوا،زمینی ساخت،خوردونشت،آداب و اطواراورلباس وغیرہ میں مختلف ہوتاہے۔ہرانسان خدائی فیصلے کے تحت کسی خاص علاقے میں جنم لیتاہے اوراس علاقے کے خواص فطرتاََاس میں عود کرآتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے علاقے کوگویااپنے اندرسموتاچلاتاہے اور اس علاقے کی تہذیب و تمدن اس کی پرورش کالازمی حصہ بن جاتے ہیں۔ان حالات میں اگراس کانصاب بھی اسی تہذیب و تمدن سے مطابقت رکھتاہوگاتووہ ایک مکمل شخصیت بن کر ابھرے گااور اپنی نسل میں تہذیب کی بڑھوتری کاباعث بنے گا۔نصاب جب مقامی تہذیب و تمدن کے مطابق ہوتاہے تو بچے کو اسباق سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی،بہت سے تصورات اس کے ذہن میں پہلے سے راسخ ہوتے ،مقامی روایات اس کے کرادارمیں پہلے سے رچ بس چکی ہوتی ہیں،مقامی معاشرتی معیارات  اس کے مشاہدوں میں اپناخاص مقام بناچکے ہوتے ہیں اورعلاقائی کہانتیں ،مقامی مشاہیراورکسی حدتک نسلی مخافرات بھی اس بچے کے نظرمیں سمارہے ہوتے ہیں۔تب ان حالات میں بچے کے لیے تعلیم کاحصول بہت آسان ہوجاتاہے کیونکہ نصاب اور تہذیب و تمدن باہم مطابقت کے حامل ہوتے ہیں۔اس کے برعکس اگرایک قوم کے بچوں کو دوسری قوم کی تہذیب سکھائی جائے توتعلیم بہت مشکل کاشکارہوجاتی ہے کیونکہ بچے دوہری شخصیت کے مالک بنتے ہیں،نصاب میں انہیں جو تہذیب سکھائی جاتی ہے عملاََ وہ ان کے سامنے موجودنہیں ہوتی ،نصاب میں بچوں کو جس تمدن کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اسے وہ مشاہدہ نہیں کرپاتے جس کے باعث ان کی تدریس میں ایک خلا باقی رہ جاتاہے جوعملی زندگی میں کبھی پورانہیں ہوپاتاکیونکہ وہ نصاب میں پڑھائی گئی تہذیب کے علاقوں میں سدھاربھی جائیں توانہیں تادم مرگ عدم قبولیت کے رویوں کاسامناکرناپڑے گاجو ان کی فطرت کے لیے سم قاتل کادرجہ رکھے گا۔اغیارکاتہذیبی نصاب کاایک نقصان یہ بھی ہے نوجوانوں کے دلوں سے اپنی تہذیب و تمدن سے محبت،حب الوطنی اوراپنے تاریخی و رثے سے لگاؤ اوراپنے مشاہیرسے قلبی وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں،شعاراغیاران کا نصب العین بن جاتے ہیں اوریوں نسلیں ضائع ہوجاتی ہیں اور قوموں میں کسی معیاری قیادت کاجنم لینا ممکن ہی نہیں رہتااور یہ ذہنی غلامی کی ایک مکروہ ترین شکل ہوتی ہے۔

 

نصاب کی چوتھی اوراہم ترین بنیاد عمل تعلیم ہے۔عمل تعلیم میں جتنااخلاص اور استنادہوگا یہ اتناہی موثر،دیرپااورنسلوں تک پرتاثیر ہوگااورعمل تعلیم میں جس قدرخودغرضی،مالیات اور مفادپرستی شامل ہوں گی یہ اتنا ہی کھوکھلا،بودھااوروقت کے ضیاع کاباعث ہوگا۔عمل تعلیم کے اہم ترین کردارمعلم و متعلم ہیں،اگرچہ اس کے علاوہ بھی بہت سارے عناصرکارفرمارہتے ہیں لیکن ان کاکردارثانوی یااس سے بھی زیریں ترہوتاہے جن کے تذکرے کایہ موقع نہیں۔استاداورشاگرد میں جس قدرقرب،پیارمحبت،ادب و احترام،باہمی الفت ووارفتگی اور اقامت حدوداللہ ہوگی عمل تعلیم اسی قدر وقیع،دوررس اورقابل اعتمادہوگا اوربصورت دیگر عمل تعلیم ان تبرکات سے خالی رہے گااور استاد و شاگرد کاتعلق محض ایک کاروباری معاہدے سے آگے نہ بڑھ سکے گااورسماجی آلودگی کاشکارہوتارہے گانتیجۃ معاشرے کی تعلیمی بنیادیں ریت کے ٹیلے ثابت ہوں گے جن پرآنے والی نسلوں کی تعمیرہونے والی عمارت کسی بڑے سانحے کو برداشت کرنے کاحوصلہ نہیں پائیں گی اور انتشار ہی انسانیت کامقدر بنارہے گا۔نصاب سازی میں اگرمرکزیت معلم کوحاصل رہے گی تونتائج  تعلیم حوصلہ افزاہوں گے اور معلم کااعتمادنفسی اس کے پیشہ ورانہ امورکی ادائگی میں اخلاقیات کامرقع ثابت ہوسکے گا۔اس کے برعکس اگر نصاب سازی کے ماہرین نے مرکزیت کے دائرے سے معلم کونکال کر متعلم کوداخل کردیاتو نظام تعلیم کی بنیادیں ارتعاش کاشکاررہیں گی اورمعلم صرف مفادات کی حدتک ہی نظام کاحصہ رہے گااورشاگردوں سے صرف واجبی ساتعلق تعلیمی ارتقاء اورمعیارتعلیم میں تعطل و زوال کاباعث بنے رہیں گے۔

 

نصاب کے  چھ عناصر ہوتے ہیں ،مواد تدریس،ذریعہ تدریس،معلم ومتعلم ،تدریج اورپیشہ ورانہ اخلاقیات۔نصاب کے یہ عناصر تب ہی بہترین نتائج فراہم کرسکیں گےجب یہ نصابی بنیادوں سے ہم آہنگ ہوں گے۔نصابی بنیادوں اور عناصر نصاب کے درمیان کسی طرح کا ٹکراؤآنے والی نسلوں سے بدترین قسم کی بددیانتی ہوگی اورملک و ملت سے غداری کاباعث بنے گی۔نصاب سازی کاسب سے پہلاعنصرموادتدریس ہے۔موادتدریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جہاں متعلمین کی ذہنی سطح کے عین مطابق ہوں وہاں ان کے جوہرپوشیدہ سے مطابقت بھی رکھتاہو۔سوفیصدبچے قدرت کے ہاں سے کسی نہ کسی صلاحیت کے ماہربناکربھیجے جاتے ہیں ۔کچھ فطری طورپر طبیب،نبض شناس،دواسازاورمعالج  ہوتے ہیں،کچھ شاعر،ادیب،افسانہ نویس،صحافی،ناول نگار،دانشوراورنقاد بناکر بھیجے جاتے ہیں،بعض پیدائشی طورپرفوجی،سپاہی،مجاہداورتلوارکے دھنی ہوتے ہیں،کچھ کی فطرت میں عالم،مصنف،محقق ،خطیب اورمعلم ہونا پہلے سے موجودہوتاہے ، کچھ بنیادی طورپر،سونار،بڑھئی،ماہرتعمیرات و برقیات وآبیات،چوبی،لوہار،کارخانہ ساز،ہتھوڑی،چھینی اورکیل ٹھوکنے کے شوقین ہوتے ہیں ،بعض کھیل،تماشے،مقابلے،تن سازی،بھاگ دوڑاورگھڑسواری ونشانہ بازی،کشتی بانی اورشکار کے خوگرہوتے ہیں اوربعض سلائی،کڑھائی،سیناپرونا،آرائش و زیبائش،پرورش،پکوان ،خدمت،ماکولات و مشروبات اورخانہ داری کے مالک ہوتے ہیں ۔ان سب کاخلاصہ یہ کہ نصاب ساز اس امر کوذہن نشین کرلیں کہ قدرت کے ہاں سے کوئی بچہ کندذہن،نکما،نالائق اور بے پروابناکرنہیں بھیجاجاتا کیونکہ اللہ تعالی قرآن مجید کی سورۃ انفال میں فرماتاہے کہ ”  وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(51)” ترجمہ “اوراللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا”۔تب ضروری ہے کہ نصاب سازی کے وقت موادتدریس اس طرح ترتیب دیاجائے کہ وہ دوران مطالعہ ہربچے کے فطری ذوق تعلیم کی تسکین کاباعث ہو۔اس طرح بچے بھاگ بھاگ کربصدشوق تعلیمی ادارے میں آئیں گے،چھٹی کے بعدآنے والی صبح کابے تابی سے انتظار کریں گے ،ان کی شامیں اپنے نصاب میں غلطاں ہوں گی اور عمل تدریس اوراساتذہ کرام سے پیاراورمحبت ان کے میناؤں سے چھلک چھلک کر باہرآرہاہوگا۔بصورت دیگرایک ہی لاٹھی سے سب کوہانکنے کانتیجہ یہ ہوگا کہ چندبچے تو دامے درمے قدمے سخنے زبردستی ،طوعاََ وکرہاََاورکھینچے تانے ہانکے  نظام کے ساتھ چل پائیں گے باقیوں کی قسمت میں غیرفطری نصاب کے باعث تعلیمی ناکامی،اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ،والدین کی لعن طعن،معاشرے کی پھٹکار اور ذاتی طورپر ذہنی دباؤ،شخصیت کی شکست وریخت،احساس ندامت  اورعدم اعتماد ان کامقدرٹہرے گی۔جو بچے ان منفی رویوں کو برداشت کرگئے وہ تو کسی طرح بادل ناخواستہ  وجبرواکراہ  اوراحساس  ندامت کے تحت زندگی گزارلیں گے لیکن اکثریت کے رویے میں زبردست قسم کاردعمل انہیں جرائم کی طرف اور نفسیاتی انتقام کی جانب لے اڑے گا اور ملک و قوم کے دشمن دلفریب نعروں کے ذریعے انہیں بآسانی اپنے مقاصد کے لیے شکارکرلیں گے۔

 

ذریعہ تدریس سے مراد وہ زبان ہے جس میں ایک نسل اگلی نسل کو علم منتقل کرتی ہے۔انسان کے خارجہ تعلقات و معاملات بہت حد تک بلکہ بہت زیادہ حدتک زبان دانی کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔نصابی مواداگر مادری و مقامی و قومی زبان میں ہوگاتو بچوں کے لیے تفہیم بہت زیادہ آسان اورمقصد تعلیم سہل الحصول ہوجائے گا۔اپنی زبان میں تدریس کاعمل بچوں کے خیالات میں نکھارپیداکرتاہے،ان میں تخلیقی صلاحیتوں کی پرورش کاذریعہ بنتاہے،جس زبان میں خواب دیکھاجائے اسی میں تعبیرکابھی نظرآنابچوں کے لیے پھولے نہ سمانے کامظہرہوتاہے،ماں باپ،بہن بھائیوں اور دیگررشتہ داروں و اقرباء سے جس زبان میں بات کی جائے تواسی زبان میں تعلیم کاحصول بچے میں اپنائیت پیداکرتاہے اسے عمل تعلیم بھی اپنااپنالگتاہے اور یہ نصابی قرب اس کی تدریسی  دلچسپی اورتعلیمی کامیابی کا باعث بن جاتاہے کیونکہ اسے تعلیم ہضم ہورہی ہوتی ہے اوربوصیلہ ذریعہ تدریس اس کے کردارکاجزو بھی بن رہی ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر ذریعہ تعلیم کسی غیرزبان ہوتو تفہیم اسباق کی بجائے رٹالگالگاکر تعلیمی کامیابی حاصل کی جاتی ہے،بچے سمجھ بوجھ سے کوسوں دورہوتے ہیں،اسباق ان کے ذہن نشین نہیں ہوپاتے،بہت اچھی شرح سے کامیابی کے باوجود بنیادی تصورات تک ان کے اذہان میں واضع نہیں ہوتے کیونکہ بہت معصوم ذہن ترجمے کی مہارت  سے نابلد ہوتاہے اور بچوں کے لیے ممکن نہیں ہوتاہے یادکرائے گئے اسباق کو پہلے اپنے ذہن میں من و عن بٹھائیں،پھران کا ترجمہ کریں،پھراس کے مفہوم کو اپنی زبان میں سمجھیں،پھر اس مفہوم کا بدیسی زبان میں ترجمہ کریں اورپھراس ترجمہ کو صفحہ قرطاس پر ثبت کر کے ممتحن کے سامنے اپنے تصورات کااظہارکریں۔ایسی صورحال میں اساتذہ اور طالبعلموں کے لیے تعلیمی کامیابی کابہت آسان راستہ ہوتاہے کہ غیرلسانی نصابی موادکورٹالگواکر مصنوعی کامیابیوں سے بچوں،انتظامیہ اوروالدین کو نہال کردیں لیکن اس سارے مرحلے میں تفہیم وتدریس و تعلیم کا گلا گھٹ جاتاہے اور اعلی ترین درجات کی حامل بڑی بڑی تعلیمی اسنادکے پس منظرمیں لاعلمی،مبہم تصورات،غیرواضع حقائق اوربعض اوقات صرف جہالت ہی میسرآتی ہے۔تاریخ انسانی میں کسی قوم نے دوسری قوم کی زبان سیکھ کر ترقی نہیں کی۔بلکہ حقیقت یہ ہے دوسری قوموں کی زبان میں تعلیم دینے سے بچوں کے اندراپنے قومی جذبات ماندپڑنے لگتے ہیں،انہیں وہی قوم اچھی لگے گی اور وہ عملی زندگی میں اسی قوم کی طرف رجوع کریں گے جس کی زبان میں  انہیں تعلیم دی جائے گی،ایسی نسل اپنے بارے میں ہمیشہ احساس کمتری کاشکاررہے گی اورکبھی بھی میدان معیشیت و معاشرت میں اپنے پاؤں پرکھڑی نہیں ہوسکے گی اوران میں جوقیادت بھی ابھرے گی اس کا قبلہ و کعبہ،اسکے خیالات اورذہنی اپج غیرقوم سے مستعارہوگی اورنتیجہ  یہ نکلے گاکہ بہترین اذہان اسی غیرقوم کی طرف سدھارجائیں گے جس کی زبان میں انہیں تعلیم دی گئی تھی اورردی،بے کار،نااہل،کچرا،نالائق اور بدعنوان لوگ ہی باقی بچیں گے جو مقامی لوگوں کی گردنوں پر مسلط ہوکران کااستحصال کرتے رہیں گے۔

 

معلم و متعلم نصاب کا تیسرااورچوتھااہم عناصر اور نظام تعلیم کا منہج حقیقی ہوتے ہیں۔والدین بچے کوآسمان سے نیچے لاتے ہیں اورمعلم انہیں پھر آسمان کی طرف محوپروازکردیتاہے۔معلم کاکمرہ جماعت دراصل اس کی ریاست ہوتی ہے اورنصاب اس کا وہ زیورہے جواس کی شخصیت میں کشش کاباعث بنتاہے۔معلم  اپنے کمرہ جماعت میں موجود رعایاکابے تاج بادشاہ ہوتاہے،وہ ایساخوش قسمت حکمران ہے کہ جس کی عوام اس سے محبت کرتی ہے،اس کاانتظار کرتی ہے،اس کی آمد پراس کاگرمجوشی سے استقبال کرتی ہے،اس کو غورسے سنتی ہے،اس کے حرف حرف کوسچااورصحیح سمجھتی ہے،اس  سے بھی آگے بڑھ کرکمرہ جماعت سے داخل ہونے سے باہر تشریف لے جانے تک کمرہ جماعت کاایک ایک متعلم اس معلم کی حرکات و سکنات،اس کے لباس،اس کے اندازگفتگو،طریق تدریس اور حتی کہ اس کی کھانے پینے اور چلنے پھرنے،ااٹھنے بیٹھنے تک کابغورمشاہدہ کرتاہے اور ان عادات و خصائل کو غیرشعوری وغیرارادی طوراپنے کردارکاحصہ بنالیتاہے۔عمومی حکمرانوں کی قدرمنزلت ان کے اقتدارتک ہوتی ہے،کرسی سےجدائی دراصل عزت و احترام سے سندفراغت ثابت ہوتی ہے  جب کہ اس کے برعکس معلم ایسا حکمران ہوتاہے  کہ عزت و احترام نہ صرف یہ تادم مرگ بلکہ اچھامعلم بعدازمرگ بھی موت کے منہ میں نہیں جاتااور اس کے متعلمین اسے اس دنیامیں زندہ رکھنے کاباعث بنتے ہیں۔معلم اورمتعلم باہمی اورمتوازن تعلق ہے،جہاں اچھے اساتذہ اپنے شاگردوں کے باعث ہمیشہ زندہ رہتے ہیں وہاں اچھے طالب علم بھی اپنے اساتذہ کے باعث کبھی گمنامی کی موت کے منہ میں نہیں جاتے۔دنیاہرکامیاب انسان ایک اچھے استادکا تراشاہواہیراہوتاہے اوراسی حقیقت کو الفاظ معکوس میں یوں  اداکیاجاسکتاہے کہ ہر اچھااستادکوئلوں کواس طرح تراشتاہے کہ ان سے روشنیاں برآمدہونے لگتی ہیں۔

 

تدریج کاعمل نصاب آسمانی کا بھی ایک اہم عنصرہے۔اللہ تعالی نے حرمت شراب،فرضیت جہاد،حجاب،ربواورمتعدددیگرحدوداللہ کو تدریجاََ نازل کیا۔نصاب سازی میں بچوں کی ذہنی و جسمانی عمرکی مطابقت کوپیش نظررکھ کر آسان سے مشکل کی طرف بڑھنا سودمندہے ۔ابتدامیں بستہ بالکل نہ ہو،اگلے درجات میں بہت ہلکاپھلکا تدریسی نصاب شامل تعلیم کیاجائے،اورپھرتدریجاََ اس میں ناگزیراضافہ کرتے رہاجائے۔تدریج کی دواقسام ہیں،پہلی قسم میں بہت سے مضامین شامل نصاب ہوتے ہیں اورایک سال کے دورانیے میں ان کی تدریس،تفہیم،آموختہ و دہرائی،ماحصل کی جانچ پڑتال اورآخرمیں پورے نصاب سے آزمائشی امتحان اورپھرکامیابی کی صورت میں اگلے درجات میں ترقی۔دوسری قسم میں صرف ایک نصابی مضمون ایک سال تک پوری محنت و تندہی سے پڑھایاجاتاہے،مضمون کی مختلف لیکن مربوط جہتیں ایک استادیامتعدداساتذہ باری باری بچوں کے ذہن نشین کراتے ہیں،پوراایک سال ایک ہی مضمون پڑھتے پڑھتے اس کی تمام جزیات تک طالب علم کے شعور،تحت الشعوراورلاشعورتک بیٹھ جاتے ہیں اوروہ اس مضمون میں یدطولی کامالک بن جاتاہے۔تب اساتذہ کرام اگراس کی کارکردگی سے مطمئن ہوں تواسے اگلے درجے میں ترقی دے کر پھراسی طرح پورے سال کے لیے اگلے مضمون کی تدریس کاعمل شروع کردیاجاتاہے۔نصاب سازی کادوسرا طریقہ تدریج اس لیے بھی بہترہے کہ اس میں طالب علم کاذہن ایک ہی نقطے پر مرکوزرہتاہے،اسے بہت سے مضامین میں پریشان نہیں ہوناپڑتا اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کے بستے کے وزن میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوتا۔چودہ پندرہ سال کی نصابی کاوش کے نتیجے میں پہلے طریقہ تدریج کاثمرکسی بھی مضمون میں عدم استنادکی شکل میں ظاہرہوتاہے۔اس طرح کے تعلیمی ادارے باہمی مقابلوں میں مشکل سے مشکل نصاب لگواتے ہیں جن میں تدریج نام کو نہیں ہوتی،بہت چھوٹی عمر میں ضخیم کتب،ان کتب کے کمرہ جماعت کاکام،گھرکاکام،ضمنی و فیصلہ کن امتحانات کابوجھ اورآموختہ ان بچوں پرلاددیاجاتاہے۔جب معمول کی تعلیم میں نصاب مکمل نہیں ہوپاتاتو اضافی راہنمائی کے لیے شام کے اوقات میں کوئی معلم گھربلالیاجاتاہے یا کسی معاون تعلیمی ادارے میں بچوں کوداخل کرادیاجاتاہے جس کے نتیجے میں بچوں کے کھیل کود کاوقت بھی اس غیرتدریجی نصاب کی تفہیم میں گزرجاتاہے۔گھرلوٹ کر گھرکابقیہ کام بچوں کے سرپرسواررہتاہے اور نامکمل نیندان کی منتظرہوتی ہے۔خاندانی تقریبات،غمی وخوشی کے مواقع،سیروسیاحت اوربچپن و لڑکپن کی دیگر پرکشش دلچسپیوں سے محروم غیرتدریجی نصاب کی شکاریہ نسل موٹی موٹی عینکیں،پتلی کمریں،جھکے ہوئے جسم اور نوجوان عمری میں پیلی رنگت والے چہروں کے ساتھ غیرفطری نظام تعلیم کی ناکامی کا منہ بولتاثبوت پیش کررہے ہوتے ہیں۔

 

پیشہ ورانہ اخلاقیات کاعنصر تکمیل نصاب کا مظہرہے۔ہرپیشہ اپناایک خاص مجموعہ اخلاق رکھتاہے،اس پیشے کے ماہر کو نصاب کے ذریعے اس اخلاق کاپابند بنایاجاناچاہیے۔محض درہم و دینار کے غلام ایساعمدہ اخلاق پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔کم از کم صدق گوئی،دیانت اور ایفائے عہدہر پیشہ ورکااخلاق لازمی ہوناچاہیے۔گویاطبیب صرف طبیب نہ ہوبلکہ ایک اچھاانسان اوربہترین مسلمان بھی ہو،ایک عمارت سازاپنے پیشے میں آجرکی جملہ ضروریات کو بھی پیش نظر رکھ کراپنافرض سرانجام دے اورصرف رقم بٹورنے کو مطمع نظرنہ بنائے اورطرح سرکاری اہل کار وہ مسنداقتدارسے کسی چھوٹے دفترتک کاقلم کارندہ ہی کیوں نہ ہواسے صرف اپنے پیشے،اپنے مطلب،اپنے دائرہ کاراور صرف اپنے بالائی اہل کار کی خوشنودی ہی دامن گیرنہ رہے بلکہ نصاب کے ذریعے اسے پیشہ ورانہ اخلاقیات کاپابندبھی بنایاجائے کہ قانون انسانوں کے لیے بنایاجاتاہے انسان قانون کے لیے نہیں تخلیق کیے جاتے اور اصول پرستی کی بجائے خداپرستی کی روش کواختیارکیاجائے تاکہ معاشرے کے افراد باہم دست و گریبان ہونے کی بجائے باہم شیروشکر ہوجائیں۔

 

اکل و شرب،دورہ حیات کی تکمیل ،افزائش نسل اور دفاع وغیرہ کے تقاضے تو پرندے،جانوراورپانی کی مچھلیاں بھی پوری کرلیتے ہیں۔لیکن ایک جانورکوبھی جس چوکھٹ سے کچھ کھانے کومل جائے توساری عمروہاں دم ہلاتارہتاہے،آخرانسان کواس کا نصاب تعلیم و تدریس اس کے حقیقی آقاکی معرفت کیوں نہیں عطاکرتا؟؟؟تعلیم  کہلانے کی حق دارتواصل میں وہی تعلیم ہے جو معرفت الہی عطاکرے اورانسان کواس کے مالک،آقا،خالق اور رازق سے ملادے۔قرآن مجیدنے سورۃ انفطار میں کیاخوب تبصرہ کیاہے کہ ” یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ(6)الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ(7)فِیْۤ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَﭤ(8)كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ(9)ترجمہ:”اے انسان تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا پھر ہموار فرمایا جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا کوئی نہیں بلکہ تم انصاف ہونے کو جھٹلاتے ہو”۔انسان مانے یانہ مانے اسے خداکے حضورتوپیش ہوناہی ہے،آخرموت سے کسے انکارہے؟؟؟۔لیکن کیاخوب ہو کہ مرنے کے بعدماننے کی بجائے کہ جب مان لینے کاکوئی فائدہ ہی نہ ہوتومرنے سے پہلے مان لیاجائے تاکہ کوئی فائدہ توہو۔پس نصاب ایساہو جس کے مقاصد قرآن و سنت سے ماخوذہوں،جس کے عناصرمسلمانوں کے دورخلافت کے عکاس ہوں اورجس کامنہج اقبالیات سے معمورہو،تاکہ نظام تعلیم کے ثمرات صرف اسی دنیاتک محدودنہ رہیں بلکہ فلاح دارین انسانیت کامقدر بنے ،ان شااللہ تعالی۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: