
تعلیم اور جہالت کا فرق – محمد شریف شکیب
تعلیم اور جہالت کا فرق – محمد شریف شکیب
پاکستان میں ایک گاون ایسا بھی ہے جہاں کوئی ان پڑھ نہیں۔پنجاب کے علاقے راجن پور کے گاؤں رسول پور میں شرح خواندگی 100فیصد اور جرائم کی شرح صفر ہے۔رسول پورگاوں 1933 میں آباد ہوا یہاں کی مجموعی آبادی 10ہزار کے لگ بھگ ہے یہاں کے بچے، بوڑھے نوجوان اور خواتین سب پڑھے لکھے ہیں پورے گاؤں میں ایک بھی ان پڑھ شخص نہیں ملے گاچھوٹی سے چھوٹی دکان پر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بیٹھے ہوتے ہیںیہاں کے زیادہ تر لوگ ڈاکٹر،پی ایچ ڈی، پائلٹ،انجینئر،استاداور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔رسول پور کے باسیوں کی اکثریت کا وسیلہ روزگار کھیتی باڑی ہے۔ترقیاتی کام اوردیگرمسئلے مسائل لوگ باہمی مشاورت سے طے کر لیتے ہیں۔پولیس کہتی ہے کہ اس گاؤں میں آج تک کسی بھی شخص کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔گاؤں میں خوبصورت آموں کے باغات بھی ہیں۔لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس گاؤں کو ماڈل بنارکھا ہےگاؤں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔گاؤں میں پان ،سگریٹ کی دکان نہیں ہے۔راجن پور کے اس مثالی گاوں کے تذکرے کا مقصد تعلیم کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنا ہے۔
بلاشبہ ترقی و خوشحالی اور غربت و افلاس میں فرق صرف تعلیم کا ہے۔ آج مغربی ممالک ترقی کی جس منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ معیاری تعلیم ہے۔انہوں نے خود کو تعلیم کے ہتھیار سے لیس کردیا ہے اپنی ہر ضرورت خود پوری کرتے ہیں۔وہاں چوری، رہزنی، ڈکیتی، قتل، اغوا برائے تاوان،اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جعل سازی کا تصور بھی نہیں پایاجاتا۔وہ اپنے سارے کام خود کرتے ہیں۔کوئی کام کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔خواہ وہ صدر، چانسلر، وزیراعظم، وزیر، جج اور جرنیل بھی ہو۔ اپنے گھر کے کام خود کرتے ہیں اپنا کھانا خود بناتے ہیں اپنے بچوں کی پرورش خود کرتے ہیں۔آسٹریا کے وزیراعظم کی مثال اس سے قبل بھی دے چکا ہوں۔جب پاکستان کا پارلیمانی وفد ناشتے کی میز پر ان سے ملاقات کےلئے گیا تو وزیراعظم وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ تاخیر سے وہاں پہنچا۔اور سیدھا روسٹرم پر جاکر سب سے پہلے معذرت کی اور کہا کہ رات کو ان کی بیوی اچانک بیمار ہوگئی اسے لیکر وہ ہسپتال چلا گیا۔جہاں اسے داخل کردیا گیا۔
صبح سویرے وہ ہسپتال میں بیوی کو چھوڑ کر گھر آگیا۔ بچوں کو اٹھایا، ان کے لئے ناشتہ بنایا۔انہیں کھلایا اور تیار کرکے سکول خود لے گیا۔اس عرصے مین انہیں دیر لگی۔ انہوں نے اس تاخیر پر معافی مانگی۔تعلیم یافتہ لوگوں میں بردباری،برداشت، رواداری اور اھترام انسانیت کا جذبہ ان پڑھ اور جاہل لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔وہ مسائل درپیش ہونے پراسے زور بازو اور جذباتی ہوکر حل کرنے کے بجائے غور وفکر اور سوچ بچار کرکے منطق کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔انہی اقدار کا پرتو ہمیں رسول پور مین نظر آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے شمالی علاقوں اور چترال میں بھی خواندگی کی شرح85فیصد سے زیادہ ہے۔ اور وہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پولیس افسروں کو سزا کے طور پر وہاں تعینات کیاجاتا ہے کیونکہ جہاں جرائم نہیں ہوں گے اور سارے لوگ قانون کی پاسداری کریں گے تو سرکاری اہلکاروں کو اوپر کی آمدنی کہاں سے ملے گی۔اگر ہم بھی اپنے گاوں کو رسول پور بنانے کا عہد کریں۔اپنے بچوں کو کاغذ چننے، ریڑھیاں لگانے اور بھیک مانگنے کے بجائے تعلیم کے حصول پر لگادیں تو ہمارا ہر گاوں امن و سلامتی اور ترقی وخوشحالی کی مثال بن سکتا ہے۔صرف گاوں اور محلے کے بڑوں کا ایک بار اپنے لئے لائحہ عمل طے کرنا ہے اس کےبعد معاشرتی زندگی اسی رنگ میں رنگ جائے گی۔قوم کا سب سے بڑا مسئلہ جہالت ہے۔ یہ مسئلہ حل ہوجائے تو باقی سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔