
داد بیداد ۔ نلکوں میں زہر ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ نلکوں میں زہر ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
عنوان چونکا دینے والا ہے لیکن اس میں حیرت اور تعجب کی کوئی بات نہیں روزنا مہ آج کا شذرہ بھی اس کی شہا دت دیتا ہے اور محکمہ صحت کے تمام سروے یا جا ئزے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ایک جا ئزے کے مطا بق خیبر پختونخوا کے بڑے شہروں کو با لعموم اور صوبائی دار الخلا فہ پشاور کو با الخصوص زہر آلو د پا نی کی وجہ سے گونا گوں بیما ریوں کا سامنا ہے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو نیسف (UNICEF) نے خد شہ ظا ہر کیا ہے کہ صو بائی دارالحکومت میں نو مو لود بچوں کا یر قان زہر آلو د پا نی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطا بق گردوں اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ، دل، جگر اور آنتوں کی 64فیصد بیما ریاں زہر آلود پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں
بین الاقوامی معیار کا تقا ضا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی روشنی میں دھات کے پا ئپوں کو ہر 50سال بعد زنگ لگ جا تا ہے اگر 50سال بعد پائپوں کو تبدیل نہ کیا گیا تو زنگ آلود پائپوں کا زہر پا نی میں شا مل ہو جا تا ہے ایسا پا نی انسا نی استعمال کے قابل نہیں رہتا پشاور کے نلکوں کو دو اقسام کے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے پہلا مسئلہ یہ ہے پشاور کی کم از کم 25لا کھ آبا دی ایسے نلکوں کا پا نی پیتی ہے جن کو بچھا ئے ہوئے سو سال ہو گئے ہیں، یہ تانبے کے پائپ ہیں اور ان کو 50سال پہلے زنگ لگ چکا ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پشاور کی پوری آبادی ایسے نلکوں کا پا نی پیتی ہے جن کے پائپ گٹر اور گندے نا لے سے گذر کر آتے ہیں فٹنگ اور جو ڑ میں بے شمار نقا ئص کی وجہ سے گٹر اور گندے نا لی کا آ لو دہ پا نی پا ئپ میں داخل ہو تا ہے اور نلکوں میں آجا تا ہے یہ پا نی صحت کے لئے مضر ہو تا ہے لیکن شعور اور آگا ہی کے فقدان کی وجہ سے شہر ی اس آلو دہ پا نی کو اپنی روز مرہ خوراک میں استعمال کر تے ہیں
اخبار بین حلقوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ قیا م پا کستان سے پہلے جن لو گوں کی حکومت تھی ان حا کموں نے شہریوں کو صاف ستھرا پا نی مہیا کرنے والے محکمے کا نا م پبلک ہیلتھ انجنیرنک (PHE) رکھا تھا جس کا تر جمہ ہے ”عوام کو صحت مند پا نی دینے والے محکمے کے انجینر“ قیا م پا کستان کو 75سال بیت گئے، محکمے کا خوب صورت اور با معنی نا م رکھنے والے لو گ ملک چھوڑ کر چلے گئے محکمے نے صحت بخش پا نی کی جگہ زہر آلود پا نی فراہم کرنا شروع کیا مگر اس کا نا م غیر صحت بحش انجینرنگ یا صحت برباد انجینرنگ نہیں رکھا گیا بلکہ وہ پرانا گھسا پٹا نا م اب بھی چل رہا ہے کتنی ستم ظریفی ہے کتا بوں میں لکھا ہے دنیا نے ترقی کر لی ہم بھی ترقی کے راستے پر گامزن ہیں حقیقت میں سب نے ترقی کر لی ہم نے کوئی ترقی نہیں کی ہماری عدلیہ قدیمی جر گہ سسٹم سے بہتر نہیں ہوئی ہمارا دفتری نظا م انگریزوں کے دور سے بد تر ہو گیا ہے،
ہمارے پینے کا پا نی 100سال پہلے سے بد تر ہو چکا ہے اب رہ رہ کر وہ زما نہ یا د آتا ہے جب لو گ ندی نا لوں، نہروں اور چشموں پر جا کر صاف پا نی پیتے تھے بیشک دنیا نے ترقی کر لی ہے مگر ہم نے کوئی ترقی نہیں کی ہم بہت پیچھے چلے گئے اگر قانون پر عمل ہوتا اگر منصو بہ بندی کے تحت ترقیا تی وسائل کی تقسیم ہو تی اگر دفتری نظام میں انگریزوں کے زما نے کی طرح کا م ہو جا تے تو پشاور میں 100سا ل پہلے بچھا ئے ہوئے پائپ 2023تک دوبار تبدیل ہو چکے ہوتے گٹر اور سیوریج لائنوں کے اندر سے پائپ گذار نے پر انجینر وں کو با قاعدہ سزائیں دی جاتیں تو ایسا ہر گز نہ ہو تا یہ پبلک کی صحت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے کوئی بھی قانون اس کی اجا زت نہیں دیتا اس وقت ملک کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی نگران حکومت آچکی ہے ترقی امور میں سیا سی مداخلت ختم ہو چکی ہے اب بہت منا سب وقت ہے کہ صو بائی دارالحکومت کے اندر شہریوں کے لئے پینے کے صاف پا نی کا مسئلہ قانون کے مطا بق حل کرنے کے لئے پرانے فرسودہ پائپوں کو تبدیل کرنے اور سیوریج لائن کی جگہ صاف جگہوں سے گذارنے کے لئے سائنسی اصولوں کے تحت منصو بہ بندی اور کام کا آغاز کیا جا ئے۔