
بزمِ درویش ۔ دوبارہ حاضری ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
بزمِ درویش ۔ دوبارہ حاضری ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ستارہ بیگم عاملہ بہت بڑی بزرگ بن کر پاکستان آگئی تھی میرے کزن کے ساتھ اُس کی شادی ہو گئی تھی مجھے آنے والے دور میں بہت بڑا عہدہ دینے کی بشارت دی گئی تھی اب پاکستان میں ہم لوگوں کو گھیر گھیر کر ستارہ بیگم کے پاس لاتے ستارہ بیگم کی پاکستان میں نام رابعہ بصری رکھا گیا تھا کہ رابعہ بصری کی ستارہ بیگم کے جسم میں حاضری ہو تی ہے اب میں نے پاکستان میں اپنے خاندان میں ستارہ بیگم کی مختلف کرامات بتانا شروع کردیں کہ میرا فلاں کام ہو گیا فلاں بیماری ختم ہو گئی اب یہاں پر آکر ایک مہر بنائی گئی کیونکہ آنے والے دور میں جب پاکستان کے حالات ٹھیک ہوئے تھے ہماری حکومت ہونی تھی تو اُس وقت جن لوگوں نے مختلف وزارتوں پر عہدوں پر کام کرنا تھا ان کے لیٹر ابھی سے جاری کرنے تھے جن پر بہت بڑے بزرگ جن کی حاضری ستارہ بیگم میں ہوتی تھی کا نام لکھا جاتا اور مہر لگا دی جاتی اب ستارہ گاؤ تکیے لگا کر بیٹھ جاتی سامنے مختلف عود عنبر جدوار کے بخورات جلائے جاتے میں اپنے خاندان بہن بھائیوں دوستوں کو ستارہ کے کرشمے کرامات بتا کر لاتا اِس طرح پندرہ بیس بندوں کا ایک گروپ سا بن گیا جو ہر رات دیر تک بلکہ صبح تک محفل جمتی جس میں چرس کے سگریٹ پھونکے جاتے جن کے بارے میں ستارہ کہتی تھی یہ فقیری نشہ ہے جو جنت سے فقیروں کے لے اتارا گیا ہے
لہذا چرس بھنگ بوٹی پینے کی اجازت ہے ہم لوگ بھی چرس کے بھرئے سگریٹ خوب جی بھر کر پھونکتے ایک دن تو حد ہی ہو گئی جب ستارہ کو میں نے دیکھا وہ شراب پی رہی ہے تو میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا یہ شراب تو اسلام میں منع ہے تو وہ بولی آج کوئی خاص کام کرنا ہے جس کے لیے کالی دیوی کی حاضری کرنی ہے اس لیے کالی دیوی شراب کو پسند کر تی ہے لہذا آج کے بعد اگر میں شراب میں غرق نظر آؤں تو سمجھ لینا آج کوئی خاص کام کرنا ہے میں اندھا مرید تھا اِس کو بھی مرشد کی حکمت سمجھ کر قبول کر لیا ستارہ کا ایک اور انداز یہ تھا اچانک وہ ستارہ بن جاتی تو میرے کزن کو خاوند پکارتی اور جب انگڑائی لے کر حاضری ہو جاتی تو کزن اپنے خاوند کو بیٹا کہہ کر پکارتی کہ اِس وقت میں ستارہ نہیں بلکہ فلاں عظیم بزرگ ہون جن کے تم بیٹے ہو جب ستارہ پر حاضری ہو تی تو وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بھرائی آواز میں بولتی ہم فلاں بزرگ حاضر ہیں لہذا ہم سب ادب و احترام کے بت بن جاتے ستارہ بیگم کے ہاتھ پاؤں چومنے جھک جاتے بعض دیوانے تو سجدے کرتے کہ یہ فلاں بزرگ ہیں
ایک سال اِسی ڈرامہ بازی میں گزر گیا پھر اچانک ایک دن ستارہ بیگم پر حاضری جاری تھی کہ مجھے مخاطب کر کہ بولی بزرگ بن کر کہ ستارہ کی شادی اِس کے خاوند سے ختم کر کے اِس کے خاوند کے چھوٹے بھائی سے کر دی جائے کیونکہ بڑے کزن کی تربیت ہو گئی ہے اب چھوٹے بھائی کی تربیت کرنا ہے لہذا ستارہ کی بڑے سے طلاق کروا کر چھوٹے بھائی سے شادی کر ا دو اور یہ کام تم کرو گے یہ تمہاری ڈیوٹی ہے میں یہ سن کر پتھر کا ہو گیا کہ کیا بڑے بھائی سے طلاق لے کر اب چھوٹے بھائی سے شادی لیکن چند لمحے سوچنے کے بعد میرا دماغ پھر شل ہو گیا کہ میں فقیری دریوشی کے راز نہیں جانتا ستارہ بیگم نے نہایت چالاکی پھرتی سے ہم سب کو اپنے جال میں پھنسا یا ہوا تھا ہم مرشد کی اندھی تقلید کے مسافر بن چکے تھے حیرت مجھے اُس وقت ہوئی جب خاوند نے کہا یہ بزرگوں کا حکم ہے مجھے طلاق دینے میں بلکل بھی اعتراض نہیں اور چھوٹا بھائی جس پر ستارہ بیگم کی اب نظر تھی ایک دو دن تو چپ رہا کیونکہ اُس کی پہلے سے بیگم اور دو بچے موجود تھے لیکن جب اُسے کہا گیا کہ اگرتم نے شادی نہ کی تو تمہارے بیوی بچے مر جائیں گے اگر تم ارب پتی بننا چاہتے ہو تو فوری طور پر ستارہ بیگم سے شادی کے لیے ہاں کردو لہذا اِس بیچارے نے ہاں کر دی اب ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑے بھائی سے طلاق کرائی پھر چھوٹے بھائی سے نکاح کر ا دیا اب دونوں بھائی پہلا خاوند اور موجودہ خاوند غلاموں کی طرح ستارہ عرف رابعہ بیگم کے سامنے سر جھکائے اگلے حکم کا انتظار کر تے کبھی کبھی میں حیرت سے دونوں بھائیوں کو دیکھتا کہ یہ کیا ہے ایک سے جی بھر گیا تو طلاق لے کر چھوٹے سے شادی کر لی
چند دن تو چھوٹے کی بیگم نے شور مچایا پھر ڈر کر خاموش ہوگئی آستانے پر ستارہ بیگم نئے لوگوں کو متاثر کر نے پھنسانے کے لیے مختلف بزرگوں کے نام کی نیاز میں خوش رابعہ مزے دار مہنگے کھانوں کا اہتمام کرواتی ہم پندرہ بیس جو حلقہ خاص تھے اپنی کمائی اِس دعوتوں پر لٹاتے جب پیسے کم ہوتے گھر کے زیوارت بیچ دیتے ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور ستارہ بیگم کی خوشنودی کے لیے اپنی جائیدادیں بیچ کر اِن دعوتوں پر بڑھ چڑھ کر خرچہ کر تے گرمی کے موسم میں کوہ مری اور صحت افزا پہاڑی مقامات پر ہمار لشکر جاتا جس کی لیڈر ستارہ بیگم ہوتی وہاں پر ہوٹل یا گھر کرائے پر لے کر وہاں آستانہ آباد ہو جاتا ہماری کمائی برباد ہو رہی تھی ستارہ بیگم مختلف قسم کی شعبدہ بازیاں جانتی تھی جن کے ذریعے نئے گاہکوں کو پھنسا لیتی ہم سہانے خوابوں میں غرق کہ جب پاکستان اقتدار کے کوٹھے پر ہمارا فیصلہ ہو گا ہم پاکستان کے فیصلے کریں گے میں کیونکہ قریبی لوگوں میں شامل تھا اِس لیے ستارہ کی عیاشیوں کو تنقیدی نظروں سے اگر دیکھتا تو وہ پھر باتوں کے جال میں پھنسا لیتی میری بیوی مجھے بہت سمجھانے کی کو شش کر تی لیکن بیگم بھی ایک حد تک سمجھاتی کیونکہ وہ بھی ڈرتی تھی
اگر میں ستارہ بیگم کے خلاف بولی تو وہ ہماری زندگی عذاب بنا کر برباد کر دے گی سارے خاندان کی عورتیں رابعہ بیگم سے ڈرتی تھیں کہ کہیں ہمارے خلاف ہو کر ہمارے خاوند اور جائداد پر قبضہ نہ کر لے ستارہ اکثر مجھے کہتی میری استاد کو دوبئی میں مہنگے زیوارت سچے پتھروں کے زیورات بھیجوں میں بھیجتا تھا چند مہینوں بعد ستارہ بیگم نے نیا مطالبہ یا حکم جاری کیا اب وہ میرے خاندان کے ایک اور جوان سے شادی کرے گی دوسرے سے طلاق لے گی یہاں پر ہمارا گروپ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا کہ دوسال سے ہم برباد ہو گئے باتیں خواب کہانیاں اور یہ شراب چرس کے نشے میں دھت شادیوں پر شادی کر رہی ہے اب کچھ لوگ تو اب بھی اُس کے حق میں تھے جبکہ کچھ زیاد ہ تر عورتیں اُس کے خلاف ہو گئی تھیں ایک دفعہ نشے میں دھت اُس نے مجھے بھی دعوت گناہ دی تو میں بھاگ آیا آکر ساری بات اپنی بیگم کو بتائی بہت دنوں تک پریشان رہنے کے بعد آج ہمت کر کے پروفیسر صاحب آپ سے مدد لینے آیا ہوں کہ یہ عورت فراڈ ہے یااِس میں کوئی حاضری ہوتی ہے کیا جن بزرگوں کا وہ نام لیتی ہے وہ اُس میں آتے ہیں محلے دار ڈرا سہما میرے پاس بیٹھا اُس کی بہت ساری کرامات جو شعبدہ بازیاں تھیں بتارہا تھا میری زندگی میں حاضری کے بہت سارے کردار آچکے تھے لیکن یہ مختلف تھا اِس قدر بولڈ نڈر فراڈن دل چسپ کردار کی مالکہ تھی میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ اِس حاضری والی ستارہ بیگم سے مل کر اِس کے ڈرامے کو سب کے سامنے بے نقاب کیا جائے (جاری ہے)