
نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے محکمہ خزانہ حمایت اللہ خان کی سربراہی میں این ایف سی اور این ایچ پی بارے میں مشاورتی اجلاس،
نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے محکمہ خزانہ حمایت اللہ خان کی سربراہی میں این ایف سی اور این ایچ پی بارے میں مشاورتی اجلاس،
پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) نگران وزیراعلی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے محکمہ خزانہ حمایت اللہ خان کی سربراہی میں نیشنل فنانس کمیشن، بجلی کے خالص منافع اور وفاق کیساتھ ُجڑے دیگر مالی اُمور پر مشاورتی اجلاس محکمہ خزانہ خیبرپختونخوا کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ممبر این ایف سی مُشرف رسول، جاوید اقبال سینئر سٹریٹیجک ایڈوائزر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری زبیر اصغر قریشی، سیکرٹری فنانس ایاز خان، سیکرٹری لا ء شگفتہ نوید، سیکرٹری پاور اینڈ انرجی ذوالفقار شاہ، سپیشل سیکرٹری عابداللہ کا کا خیل، ایڈیشنل سیکرٹری ریگولیشن فیاض عالم و دیگر متعلقہ اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے حصے کے این ایف سی فنڈز کی خیبرپختونخوا کو مُنتقلی کیلئے لائحہ عمل بارے میں سیر حاصل بحث ہوئی۔ اس موقع پر سیکرٹری فنانس ایاز خان نے اجلاس کو قبائلی اضلاع میں مختلف مدوں میں خرچ کئے جانیوالے اخراجات پر بریفنگ دی۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نگران مشیر خزانہ حمایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت صوبوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے این ایف سی کا شئیر ملے گا جبکہ پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کے انضمام کے بعد ضم شدہ قبائلی اضلاع کا شئیر صوبہ خیبر پختونخوا کو ملنا چاہئے۔
ساتواں این ایف سی ایوارڈ اب آئین سے متصادم ہے کیونکہ اس کے تحت خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ نہیں جبکہ انضام کے بعد یہ اضلاع صوبہ خیبر پختونخوا کا آئینی حصہ بن چکے ہیں لیکن ان کے حصے کا این ایف سی فنڈ صوبے کو نہیں مل رہا۔ اس بارے میں نگران وزیراعلٰی خیبرپختونخوا محمد اعظم خان نے وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر خزانہ کو خط کے ذریعے مطلع بھی کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے مالی سال کے پہلے نو ماہ میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے 5155 ارب روپے کے محاصل کی ریکوری کی تھی جس میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق پختونخوا کا شئیر 471.3 ارب روپے بنتا ہے جبکہ اب تک صوبے کو457.7 ارب روپے موصول ہوئے ہیں جبکہ 13 ارب روپے کے بقایاجات اب بھی واجب الادا ہیں۔ اسی طرح پچھلے چار سالوں میں فیڈرل ٹیکس اسائنمنٹ کی مد میں 18.6 ارب روپے واجب الادا ہے جس سے وفاق کے ذمے ٹوٹل واجب الادا رقم 32.2 ارب روپے بنتی ہیں۔
سیکرٹری خزانہ ایاز خان نے اجلاس کو موجودہ مالی حالات بارے میں بتایا کہ سابقہ قبائلی اضلاع کیلئے کرنٹ اور ڈویلپمنٹ کی مد میں 107 روپے بجٹ رکھے گئے تھے جس میں صرف 60 ارب روپے صوبے کو وصول ہوئے ہیں جبکہ 47 ارب روپے تاحال واجب الادا ہیں۔ مجبورا قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگانا پڑا اور دس ارب روپے کرنٹ بجٹ میں خرچ کرنے پڑے۔ ٹی ڈی پیز کی مد میں سترہ ارب روپے بجٹ میں مختص کئے گئے لیکن وفاق کی جانب سے کوئی ادائیگی نہیں ہوئی۔ اسی طرح ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈ کیلے مُختص 25 ارب روپے میں 19.85 روپے کی ادائیگی کی گئی ہے جس میں پانچ ارب سے زائد کی ادائیگی واجب الادا ہے۔ مشیر خزانہ حمایت اللہ خان نے اجلاس کو بتایا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے وقت ترقی و خوشحالی کیلئے فنڈنگ کے جو وعدے کئے گئے تھے وہ ابھی تک ایفا نہ ہوسکے۔ انضمام سے لیکر اب تک ادائیگیوں اور واجب الادا رقوم میں خاصہ خلا پایا جاتا ہے۔ مالی سال 2019-20 سے لیکر مالی سال 2022-23 تک قبائلی اضلاع کے کرنٹ اور ترقیاتی بجٹ کی مد میں 144.4 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ جبکہ تیز تر ترقیاتی پروگرام کے تحت سالانہ سو ارب روپے کی مد میں پچھلے چار سالوں میں 400 ارب میں سے اب تک صوبے کو صرف 75.5 ارب کی ادائیگی کی گئی ہے تاہم 450 ارب اب بھی واجب الادا ہیں۔ اسی طرح مشیر خزانہ نے اجلاس میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 161 تحت بجلی خالص منافع کی صوبوں کو ادائیگی وفاق کی ذمہ داری ہے۔ بجلی خالص منافع کی مد میں پچھلے مالی سال میں صرف 4.9 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے جبکہ 57 ارب روپے اب بھی وفاق کے ذمے واجب الادا ہیں۔