
ڈبلیو ایچ ایچ نے پاکستان کے لئے گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 پیش کر دیا، پاکستان 99 ویں نمبر پر
ڈبلیو ایچ ایچ نے پاکستان کے لئے گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 پیش کر دیا، پاکستان 99 ویں نمبر پر
اسلام آباد(چترال ٹایمز رپورٹ ) پاکستان سال 2022 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں121 ممالک میں 99 ویں نمبر پرموجود رہا. 26.1 کے اسکور کے ساتھ پاکستان میں بھوک کی صورتحال بڑی حد تک تشویش ناک ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ منگل کے روز اسلام آباد میں پیش کی گئی جو کی ایک نظرثانی شدہ سالانہ رپورٹ ہے جسے مشترکہ طور پر Welthungerhilfe اور Concern Worldwide ہر سال شائع کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح میں بھوک کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے سمجھ اور آگہی پیدا کرنا ہے۔
دنیا سے بھوک کے خاتمے کی عالمی کوششوں کو یوکرین میں جاری جنگ نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے. حالیہ جاری ہونے والے گلوبل ہنگر انڈیکس کے ایڈیشن سے پتہ چلتا ہے کہ مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کورونا وائرس جیسے مسائل کی وجہ سے سال ٢٠٢١ میں 828 ملین لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہوئے۔
تازہ رپورٹ میں 129 ممالک میں غذائیت کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس حساب سے 46 ممالک 2030 تک بھوک کی نچلی سطح تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے. رپورٹ کے مطابق صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا ایک بار پھر بھوک کی شرح میں سر فہرست ہیں۔ جنوبی ایشیا دنیا میں سب سے زیادہ بھوک کی شرح کے ساتھ ساتھ بچوں میں غذایت کی کمی اور نوزائیدہ بچوں کے اموات میں بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں گلوبل ہنگر انڈیکس کو لانچ کرنے کے لئے Welthungerhilfe، Concern Worldwide اور Alliance 2015 کے شراکت دار ACTED، CESVI اور Helvetas نے ایک تقریب کا انقعاد کیا جس میں فوڈ اینڈ نیوٹریشن سیکیورٹی کے ماہرین نے خطاب کیا۔
اس موقعے پرWelthungerhilfe کی کنٹری ڈائریکٹر عائشہ جمشید نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور گلوبل ہنگر انڈیکس کے مقصد سے آگاہ کیا۔ انھوں نے غیر محفوظ خوراک کے شکار کمیونٹیز کی مدد کرنے، سول سوسائٹی، حکومت اور نجی شعبے کے ساتھ تعاون میں لچک پیدا کرنے کے حوالے سے ڈبلیو ایچ ایچ کے کام کا بھی ذکر کیا۔ ڈاکٹر عمر بنگش، فوڈ اینڈ نیوٹریشن سیکیورٹی ایڈوائزر ڈبلیو ایچ ایچ نے بھوک کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ ٹھوس سفارشات پیش کیں۔
اس تقریب میں 2022 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں تین اہم پالیسی سفارشات کا احاطہ کیا گیا،جس میں پہلے نمبر پر جامع طرز حکمرانی اور احتساب دوسرے نمبر پرمقامی حالات کے مطابق شہریوں کی شرکت و نگرانی اور آخری انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل میں اضافہ کرنے کی ضرورت شامل ہے.
اس موقعے پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نذیر احمد، چیف آف نیوٹریشن نے جامع طرز حکمرانی اور احتساب کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ملک میں خوراک کے نظام کی تبدیلی کے حوالے سے حکومت پاکستان کی طرف سے کئے گئے وعدوں کا ایک جائزہ بھی پیش کیا۔
شفاعت علی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (LGCDD) پنجاب نے شہریوں کی شرکت، اقدامات اور نگرانی کے عمل کو یقینی بنانے کے ساتھ خوراک کے نظام کی تبدیلی میں مقامی تناظر کو مد نظر رکھنے پر زور دیا۔
ان ریمارکس کے بعد ایک پینل ڈسکشن اہتمام کیا گیا جس میں شہریوں کو ان کے حقوق، خوراک اور غذائیت کی حفاظت کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت اور طریقوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ طرز حکمرانی کے تمام سطحوں پر اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا گیا کہ وہ مقامی آوازوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ کمیونٹیز، سول سوسائٹی، چھوٹے پروڈیوسر، کسان، اور مقامی گروہوں کو اپنے مقامی علم اور تجربات سے یہ سمجھنا ہوگا کہ غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی کو کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے. مقامی سول سوسائٹی کے نمائندوں نور ملک (لاسونا)، غلام مصطفیٰ (ایف ڈی او)، شاہد علی (ایف آر ڈی پی) کے ساتھ زاہد قریشی، ڈائریکٹر لوکل گورننس اسکول (ایل جی ایس)، خیبر پختونخواہ نے بطور پینلسٹ حصہ لیا۔ سرفراز لال دین، کنٹری ڈائریکٹر ایکٹڈ نے پاکستان میں الائنس 2015 کے اراکین کے کام کے حوالے سے شرکاء کو آگاہ کیا۔
اس موقع پر اپنے ریمارکس میں، محترمہ نادیہ رحمان، ممبر (فوڈ سیکیورٹی اینڈ کلائمیٹ چینج) پلاننگ کمیشن آف پاکستان، ڈاکٹر محمد نفیس زکریا، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر COMSATS پاکستان اور محترمہ ہیلین پاسٹ، ڈپٹی ہیڈ آف ڈیولپمنٹ کوآپریشن جرمن مشن پاکستان نے بھوک کے خلاف کام اور سیاسی سفارشات کو سراہا۔ تقریب کا اختتام الائنس 2015 کی جانب سے ڈبلیو ایچ ایچ کے شکریہ کے کلمات کے ساتھ ہوا۔