
سیلاب زدہ چترال اربابِ اقتدار کی توجہ کا متمنی و متقاضی ہے ۔ تلخ و شیریں۔ نثار احمد
سیلاب زدہ چترال اربابِ اقتدار کی توجہ کا متمنی و متقاضی ہے ۔ تلخ و شیریں۔ نثار احمد
فلک بوس پہاڑوں کے بیچوں بیچ گھرا ہوا ضلع چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک دور افتادہ اور پس ماندہ علاقہ ہے۔ چترال کا زیادہ تر حصہ دو ہزار تیئس 2023 میں بھی بعض ان ضروریات ِ زندگی سے محروم ہے جو ملک کے دیگر حصوں کو آج سے پچاس سال قبل ساٹھ ستر کی دہائی میں عطا ہوئی ہیں ۔ فی الحال یہاں ان محرومیوں کا ذکر مقصود ہے اور نہ ہی ان کی تفصیل کا ابھی موقع ہے ۔ سردست ارباب اقتدار کی توجہ حالیہ سیلاب اور اس کے رونما ہونے والے اثرات کی طرف دلانا مقصود ہے ۔
پہاڑی علاقہ ہونے کے ناتے چترال میں زرعی زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں زیادہ تر آبادیاں اونچے پہاڑوں کے پیٹ میں بنی ہوئی ہیں ۔ مصیبت یہ ہے کہ چترال میں جہاں ایک طرف قابلِ کاشت زرعی اراضی کی قلت ہے وہاں دوسری طرف بچی کھچی محدود قابلِ کاشت اراضی کو سیلاب برد ہونے کی وجہ سے معدومیت کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ قیمتی زرعی اراضی کے سیلاب برد ہونے کا یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے جاری و ساری ہے۔ ان سیلابی ریلوں کی وجہ سے ریشن کا نقشہ تقریباً مکمل تبدیل ہو چکا ہے جب کہ ایون ابھی تباہ کن تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ شاید آنے والے چند سالوں میں ایون بھی اپنی اصلی تصویر کھو دے گا ۔ اسی طرح چترال کے دیگر مختلف حصے مثلاً بمبوریت بریپ وغیرہ وغیرہ بھی ماضی میں سیلاب کی وجہ سے سخت متاثر رہے ہیں ۔
اس اہم معاملے کو گلوبل وارمنگ یا انتقامِ قدرت کے کھاتے میں ڈال کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش رہنا مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی اس سے تباہی کا راستہ رک سکتا ہے۔ آئے دن سیلاب کی وجہ سے جو نقصانات ہو رہے ہیں ان نقصانات میں کچھ فطرت کا حصہ ہے تو کچھ کردار ہمارا اپنا اور کچھ ہمارے ہی جیسے بعض ناعاقبت اندیش “لوگوں” کا بھی ہے۔ ان “لوگوں” کا غیر زمہ درانہ کردار اگر نہ ہوتا تو شاید اتنی تباہی نہ ہوتی جتنی آج نظر آ رہی ہے۔
ٹھیک ہے کہ گلوبل وارمنگ جیسے عالمی مسئلے کا حل ہمارے پاس نہیں ہے اور یہ کہ گلیشیرز کو پھٹنے سے ہم بھی نہیں روک سکتے۔ لیکن کیا ہم گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کوئی تدبیر بھی نہیں کر سکتے ؟ کیا قیمتی اراضی کو سیلاب برد ہونے سے بچانے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی بھی نہیں کر سکتے ؟ کیا ہم اپنے جنگلات کو بے دریغ کٹائی سے نہیں بچا سکتے جنگلات سے خالی پہاڑوں پر برسنے والی تیز بارش کو سیلابی شکل بننے میں زرا بھی دیر نہیں لگتی۔
کیا ہم ایسے لوگوں کو بے نقاب بھی نہیں کر سکتے جن کے کرپشن اور غیر زمہ درانہ طرزِ عمل کی وجہ سے ایسے مواقع پر نقصانات کا دائرہ سکڑنے کی بجائے پھیلتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب ریشن تباہ ہو رہا تھا تو دریا کے اطراف میں حفاظتی پشتے بنانے ، اور ریشن والوں کے اراضی کو کٹاؤ سے بچانے کی زمہ داری کسی کو سونپی بھی گئی تھی ؟ اگر گئی تھی تو کیا اس ” زمہ دار” نے اپنی زمہ داری نبھائی۔
ایون کے سامنے سے گزرنے والا دریائے چترال دن بدن ایون کو نگلے جا رہا ہے ۔ اس دریا کی سطح راتوں رات یونہی بلاوجہ خود بخود تو بلند نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ ایون کے سامنے دریائے چترال کی سطح جن لوگوں کی وجہ سے ، اور جس غیر زمہ دارانہ کام کی وجہ سے بلند ہوئی ۔ کیا ان لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ متاثر ہونے والے لوگوں کی زمینوں کا معاوضہ ان سے لیا جا سکتا ہے؟ پھر یہ کہ جس دریائے چترال کی چوڑائی بعض جگہوں میں محض پچاس، سو اور ڈیڑھ میٹر رہتی ہے اس کی چوڑائی ایون میں اگر دو تین کلو میٹر بنتی ہے تو کیا اس کے اسباب و عوامل کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے ۔
مستوج پل کی ایک سائٹ پر شگاف پڑنے سے نہ صرف پل فی الوقت آمد و رفت کے قابل نہیں رہا ہے بلکہ ایک قیمتی جوان کی جان بھی نگل چکا ہے تو کیا قیامت کی صبح تک سالوں پہلے مستوج پل جیسے بڑے منصوبے کو درست طریقے سے انجام نہ دینے والے کسی زمہ دار کو نامزد کیا جا سکتا ہے ؟ کٹہرے میں لانا دور کی بات ہے ۔
بہرحال حالیہ سیلابی ریلوں نے پورے چترال میں تباہی مچائی ہے ۔ کہیں پل دریا برد ہوئے ہیں تو کہیں لوگ صاف پانی کے ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں ۔ کہیں دریائے چترال اس پاس کے مکانات کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے تو کہیں لوگوں کی قابلِ کاشت اراضی اس کی لپیٹ میں آ رہی ہیں ۔ باقی کام بعد میں ہوتے رہیں گے بشرطیکہ متعلقہ لوگوں کو کرنے کی توفیق ملے فی الوقت مندرجہ زیل چیزوں کو فوکس کرنے کی ضرورت ہے ۔
پینے کے صاف پانی کی ایمرجنسی بنیادوں پر بحالی ۔
ندی، نالوں اور نہروں کی بحالی تاکہ فصلوں کو پانی کی فراہمی متاثر نہ ہو
پلوں کی تعمیر
ہنگامی بنیادوں پر رابطہ سڑکوں کی بحالی ۔
جو بے گھر ہوئے ہیں انہیں خیموں کی فراہمی ۔